حیدرآباد میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا چھبیسویں اجلاس

عبدالرشید طلحہ نعمانیؔ

"حیدرآباد دکن” اپنی تہذیبی روایات،گوناگوں خصوصیات اور ثقافتی امتیازات کی بناء پر نہ صرف برصغیر؛بلکہ دنیابھر میں اپنی نمایاں شناخت اور منفرد پہچان رکھتاہے۔

اردو ادب کی نشوونما کے حوالے سے اولین حیثیت رکھنے والے اس خطۂ ارض میں جہاں مختلف تحریکوں کو پھلنے پھولنےاور محدود سے لامحدود ہونے کا موقع ملا وہیں ملی تشخص،شعائر اسلام کے تحفظ اور شریعت مطہرہ کی صیانت کے لیے تازہ اور گرم خون بھی وافر مقدار میں یہیں سے مہیا ہوا، یہاں کے بیدارمغز،علم دوست اور علماء پرور مسلمانوں اور حکمرانوں نےملک و ملت کی تعمیر و ترقی کےتئیں پورےجوش وخروش کے ساتھ ؛جس دینی غیرت اور ایمانی حمیت کا مظاہر کیا اس کی نظیر پیش کرنےسے تاریخ ہند عاجز و قاصر ہے۔

دکن کی تاریخی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ بزرگان دین کا مسکن ومدفن، محققین و  مصلحین کا منبع و مرکز اور  علم وفضل کا ہر دور میں گہوارہ  ومرجع رہاہے؛اسی لیےموقع بہ موقع مختلف ادیبوں اور شاعروں نے اس سرزمین  کے گن گائے ہیں ، پوری دل چسپی کے ساتھ یہاں کی روایات کا ذکر کیاہے اور  حالی مرحوم نےتو اس کی مقناطیسی کشش اور جاذبیت و دل کشی  کا اس طرح اظہار کیاہے  ؎

یہ مقولہ ہند میں مدت سے ہے ضرب المثل

جو کہ جا پہچا دکن میں بس وہیں کا ہو رہا

جانشین فصیح الملک حضرت داغ دہلوی جو میر محبوب علی خان آصف سادس کے استاد تھے، حیدرآباد دکن آکر یہیں کے ہو رہے پھر یہاں کی آب و ہوا،ماحول و معاشرہ،پھل پھول اور دیگر امتیازی خصوصیات پر سینکڑوں اشعار لکھے،ایک مقام پرفرماتے ہیں ؎

نر گسِ باغ کو بھی ہم نے نہ دیکھا بیمار

حیدرآباد کی کیا آب و ہوا اچھی ہے

حیدرآباد رہے تابہ قیامت قائم

یہی اب داغ مسلمانوں کی اِک بستی ہے

1910عیسوی میں شاعر مشرق علامہ اقبال حیدرآباد دکن آئے،اور یہاں کی سرسبز و شاداب، زرخیزو مردم ساز سرزمین سےمتاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے،نتیجۃً اس سفر کی یاد گار میں دو معرکتہ الآراء طویل نظمیں لکھیں ، ایک نظم سے چند منتخب اشعار ملاحظہ فرمائیں ! ؎

خطہ جنت فضا جس کی ہے دامن گیردل

عظمتِ دیرینہ ہندوستان کی یادگار

جس نے اسم اعظم محبوب کی تاثیر سے

وسعت عالم میں پایا صورتِ گردوں وقار

شاعر انقلاب جوش ملیح آبادیـــــ جن کی شاعری حیدرآباد دکن کے علمی ماحول میں پروان چڑھی اور جوان ہوئیـــــ نےجب سقوطِ حیدرآباد کے بعد اس سرزمین پر دوبارہ قدم رکھا تو اس خطۂ ارضی سے اپنے بےپناہ تعلق،اہلِ دکن کے ساتھ اپنی گہری وابستگی، والئ ریاست سے شکوہ شکایت، باشندگان دکن سے اپنی بےاندازہ محبت اور حیدرآباد کے ذرہ ذرہ سے جذباتی لگاؤکو ایک نظم میں اس طرح بیان کیا:   ؎

حیدرآباد! اے فگارِ گل بداماں السلام

السلام اے قصۂ ماضی کے عنواں السلام

تو نے کی تھی روشنی میری اندھیری رات میں

مہر و ماہ خوابیدہ ہیں اب بھی ترے ذرات میں

میرے قصرِ زندگی پر اے دیارِ محترم

تو نے ہی کھولا تھا ذوقِ علم کا زریں علم

آمدم برسر مطلب:

اسی مردم ساز اور زرخیز سرزمین پر اسلامیان ہند کی واحد نمائندہ تنظیم، مسلمانوں کے دلوں آواز،مختلف مسالک  کا حسین وجمیل امتزاج” آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ” کا 26واں اجلاس عام9/10/11فبروری کو نہایت تزک واحتشام کے ساتھ منعقد ہونے جارہاہے۔

حالات حاضرہ کو سامنے رکھتے ہوئےموضوع کی حساسیت کے پیش نظر ہرزبان اسی کے ذکر سے تر ، ہرنظر اسی جانب مرکوز، دل و دماغ اسی  فکر میں غلطاں کہ اس بار حیدرآباد میں منعقد ہونے والا یہ اجلاس مسلمانوں کے لیے  کیا پیغام  لائے گا ؟طلاق ثلاثہ سے متعلق کیا حکمت عملی اختیار کی جائے گی ؟بابری مسجد کے حوالے سے کیا لائحہ عمل بنایا جائے گا ؟ وغیرہ وغیرہ

پرسنل لا بورڈ کے ذرائع نے بتایاکہ اس سہ روزہ پروگرام میں  پہلے دن بورڈ کی مجلس عاملہ کا اجلاس منعقد ہوگا اور بقیہ دو دن تک اجلاس عام رہے گا؛ جس میں طلاق ثلاثہ بل پرغور وخوض کیا جائے گا۔ بورڈ کے اس اجلاس میں مثالی نکاح نامہ میں جوڑے جانے والے نئے کالم پر غور و خوض کیا جائے گا جس کے تحت مرد کو یہ وعدہ کرنا ہوگا کہ وہ، بیک وقت تین طلاق نہیں دے گا، مثالی نکاح نامہ میں اس نئے کالم کے اضافہ سے طلاق ثلاثہ کی روک تھام میں مدد ملے گی۔ مسلم پرسنل لا بورڈ‘ اس بل کو جس میں طلاق ثلاثہ کو جرم قرار دیا گیا ہے، مسلم پرسنل لا ء میں مداخلت تصور کرتا ہے۔ بورڈ، اصلاح معاشرہ میں پیش رفت کا بھی جائزہ لے گا،ملک بھر میں اصلاح معاشرہ کیلئے مہم چلائی جارہی ہے؛جس کا اہم مقصد سماجی برائیوں جیسے جہیز کی لعنت اور طلاق ثلاثہ کے خلاف عوام میں شعور بیدار کرنا ہے۔ اجلاس میں بورڈ‘ ملک کی مختلف عدالتوں میں مسلم پرسنل لاء سے مربوط معرض التواء درخواستوں کا بھی جائزہ لےگا اور اس بات کی کوشش کی جائے گی کہ کس طرح شریعت کا تحفظ کیاجائے۔

علاوہ ازیں سوشیل میڈیا پلیٹ فارم کے موثر استعمال پر بھی غور ہوگا۔ بورڈ کے سہ روزہ اجلاس میں 600 کے قریب ممتاز مسلم شخصیتیں شرکت کریں گی ؛ جن میں مذہبی اسکالرس، مسلم تنظیموں کے سربرہان، سیاست داں ، وکلاء، ماہرین تعلیم اور مختلف شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے مسلم دانشور شامل ہیں ۔ بورڈ کی 51رکنی مجلس عاملہ میں 5 خاتون ارکان بھی شامل ہیں ۔ مجلس عاملہ کا اجلاس9فروری ( جمعہ ) کی شام منعقد ہوگا۔ سکریٹری جنرل مولانا سید ولی رحمانی بورڈ کی سرگرمیوں اور گذشہ سال منعقدہ بورڈ کی مجلس عاملہ کے اجلاس کی روئیداد پیش کریں گے۔ بورڈ کے اجلاس عام میں جو دوسرے دن منعقد ہوگا، بورڈ کے ارکان اور مدعوین شرکت کریں گے۔ بورڈ کے تاسیسی ارکان کی تعداد 102 ہے جبکہ جنرل ارکان149 ہیں ان میں 30، خاتون ارکان بھی شامل ہیں ۔ اجلاس میں بعد مشورہ سالانہ بجٹ منظور کیا جائے گا۔ بورڈ کی تمام ذیلی کمیٹیوں جیسے بابری مسجد، اصلاح معاشرہ اور شعبہ خواتین کے صدور، اپنی رپورٹ پیش کریں گے۔ دکن کالج آف میڈیکل سائنسس کنچن باغ میں منعقدشدنی مسلم پرسنل لا بورڈ کے اجلاس کی تیاریاں تقریباً مکمل ہوچکی ہیں ، کالج کی تعمیر جدید انڈور اسٹیڈیم میں جہاں بورڈ کا اجلاس منعقد ہوگا ‘ بڑے پیمانے پر انتظامات کئے گئے ہیں ۔ تین روزہ اجلاس کا اختتام ‘ دارالسلام میں منعقد شدنی جلسہ عام سے ہوگا۔ یہ جلسہ عام11فروری کو دارالسلام میں مقرر ہے۔

اس موقع پر مناسب ہوگا کہ یہاں بورڈ کے قیام کا پس منظر اور اس کے اہداف و مقاصد پر بھی مختصر روشنی ڈالی جائے۔

بورڈ کے قیام کا پس منظر:

ہندوستان میں صدیوں مسلمانوں کی حکومت رہی؛اسی لیےزندگی کے بہت سے شعبوں میں اسلامی قانون نافذالعمل رہا ؛لیکن بدقسمتی سے جب انگریز اس ملک پر مسلط ہوئے تو ایک منظم سازش کے تحت  آہستہ آہستہ قانون اسلامی کے مختلف شعبوں کو ختم کیاجاتارہا، سب سے پہلے 1866ء میں حکومت برطانیہ نے فوجداری قانون کو ختم کیا، پھر قانون شہادت اور قانون معاہدات منسوخ کئے، بالآخر نوبت بہ ایں جا رسید کہ  ’’معاشرتی قوانین‘‘ مثلاً نکاح وطلاق، خلع و میراث وغیرہ میں ترمیم و تنسیخ کی بات ہونے لگی، مسئلہ پر غور وخوض  کے لئے حکومت برطانیہ نے ’’رائل کمیشن ‘‘ مقررکیا جس کی تقریباًچارنشستیں ہوئیں ؛ لیکن ہر بار وہ اسی نتیجہ پر پہنچا کہ ان قوانین کا مذہب سے گہرا تعلق ہے، اس لئے ان قوانین میں کوئی تبدیلی براہ راست مذہبی امور میں مداخلت اور مذہبی آزادی کو مجروح کرنے کے مترادف ہے، چناں چہ انگریز ایسا کوئی قدم اٹھانے سے بازرہے اور انہوں نے طے کیا کہ ان مسائل میں مسلمان ’’قانون شریعت‘‘ پر اورہندو’’دھرم شاستر‘‘ پر عمل کریں گے۔

اسی اثناء میں ایک واقعہ پیش آیا کہ عدالت میں ایک مسلمان لڑکی نے اپنے والد کے ترکہ میں میراث کے لئے مقدمہ دائر کیا، ظاہر ہے کہ شریعت اسلامی کے نقطۂ نظر سے بیٹی لازمی طورپر اپنے باپ کے متروکہ میں وارث ہوتی ہے، بھائی نے اس مقدمے میں جواب دیا کہ چوں کہ میں نسلی طورپر فلاں ہندوقوم سے تعلق رکھتا ہوں اور ہندوؤں کے یہاں لڑکیوں کو باپ کے ترکے میں حصہ نہیں ملتا، یہی رواج ہمارے خاندان میں چلا آرہا ہے اس لئے مجھ پر قانون شریعت کا نفاذ نہیں ہونا چاہئے، چناں چہ عدالت نے رواج کو اصل مانتے ہوئے بھائی کے حق میں فیصلہ دیا اور لڑکی کو اپنے باپ کے ترکہ سے محروم رکھا جو قطعاً اسلامی مزاج  کے خلاف تھا۔

ظاہر ہے اسلامی نقطہ نظر سے یہ عورتوں کے ساتھ نہایت ظلم کی بات ہے کہ محض عورت ہونے کی بنا پر اسے میراث سے محروم کردیا جائے، یہ وہ وقت تھا کہ تمام علماء چیخ پڑے اور پورے ہندوستان میں آواز اٹھائی گئی،ہمارے اکابر علماء نے بڑی زبردست جدوجہد کے بعد شریعت اپلی کیشن ایکٹ پاس کرایا، اور ہمارے اکابر مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالمحاسن سجادؒ، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ، اور حضرت مولانا کفایت اللہ صاحب صدرجمعیۃ العلماء ہند اوردیگر علماء ومشائخ کی مسلسل اور متحدہ کوششوں سے 1937ء میں شریعت اپلیکیشن ایکٹ‘‘ بنا، اس قانون کے مطابق یہ فیصلہ کیاگیا کہ’’نکاح، طلاق، خلع، ظہار، مباراۃ، فسخ نکاح، حق پرورش، ولایت، حق میراث، وصیت، ہبہ اور شفعہ‘‘ سے متعلق معاملات میں اگر دونوں فریق مسلمان ہوں تو شریعت محمدیﷺ کے مطابق عمل درآمد ہوگا، خواہ ان کا عرف اور رواج کچھ بھی ہو اور قانون شریعت کو عرف ورواج پر بالادستی ہوگی۔

دستور کے نفاذ کے کچھ ہی سالوں بعد سے یکساں سول کوڈ کی آواز اٹھنے لگی اور ایسے گمراہ فکرلوگوں کو اس مقصد کے لئے استعمال کیا جانے لگا جن کو نہ اپنی قوم میں کوئی اعتماد حاصل ہے اور نہ قانون شریعت سے وہ صحیح طورپر آگاہ ہیں بالآخر 1972ء میں متبنی بل پیش ہوا جس کا مقصد بلا تفریق مذہب ملک کی تمام قوموں کے لئے متبنی کو اپنی اولاد کا درجہ دینا قرارپایا اور ان کو لے پالک لینے والے مردوعورت کے ترکہ میں وارث قراردیا گیا۔ ظاہر ہے کہ یہ قانون نہ صرف اسلام کے خلاف ہے بلکہ عقل وخرد کے بھی خلاف ہے کیوں کہ والدین اور اولاد کا رشتہ ایسا نہیں کہ صرف زبان سے وجود میں آجاتا ہو یہ ایک فطری رشتہ ہے اور ایک فطری محبت جو والدین اور اولاد میں ہوا کرتی ہے اس مصنوعی رشتے کی وجہ سے پیدا نہیں ہوسکتی۔

چناں چہ پورے ہندوستان میں مسلمانوں کے تمام ہی مکاتب فکر نے اس قانون کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی، ان حالات کے نتیجے میں حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب ؒ نے داراالعلوم دیوبند میں اجلاس بلایا، حضرت امیر شریعت مولانا سید شاہ منت اللہ صاحب رحمانی ؒ نے بڑے خطرے اور اس کی نزاکتوں کو محسوس فرمایا اور اس وقت کے اکابر علماء دیوبند اور دانشوراور قانون داں بھی اکٹھاہوئے، انہوں نے بعض اہم فیصلے کئے، انہی میں سے ایک اہم فیصلہ ممبئی میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے کنوشن کے انعقاد کا تھا جسے وہاں کے علماء، دانشوروں ، مسلم سماجی کارکنوں اورمختلف جماعتوں کے ذمہ داروں نے حسن وخوبی کے ساتھ27۔ 28 دسمبر1972ء میں مہاراشٹرکالج میں منعقد کیا، اس کنونشن کے نتیجے میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا قیام عمل میں آیا۔

اس اجلاس میں بہ اتفاق رائے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے قیام کا فیصلہ کیا گیا اور 17اپریل 1973ء کو حیدرآبادمیں منعقدہ اجلا س میں بورڈ کی تشکیل عمل میں لائی گئی۔ بورڈ کے قیام کے سلسلہ میں حیدرآباد سے سالارملت سلطان صلاح الدین اویسی ؒ، مولاناحمید الدین عاقل حسامی ؒ، مولانا سلیمان سکندر ؒ اور مولانا عبد العزیز ؒ کے نام نمایاں تھے جنہیں بورڈ کے اولین تاسیسی ارکان کی حیثیت حاصل ہے۔ پرسنل لا بورڈ کے قیام کو حقیقت میں بدلنےکےلیے باشندگان حیدرآباد نے پہل کی 7 اور 8 اپریل1973 کو بورڈ کے قیام کا پہلا اجلاس عام یہاں منعقد ہوا۔ بورڈ نے اپنے قیام کے بعد سے ہی اپنی موثر نمائندگی اور جہد مسلسل کے ذریعہ ملک میں شریعت کی حفاظت کے لئے کوئی کسرنہیں چھوڑی۔ حیدرآباد نے جہاں بورڈ کے قیام، اس کے تنظیمی و مالیاتی ڈھانچے کے استحکام میں گرانقدر خدمات فراہم کی ہیں وہیں اس نے قومی سطح پر مسلمانوں کی نمائندگی کے لئے قیادتیں بھی فراہم کیں ۔ حیدرآبادنے 2002 میں بورڈ کے اجلاس عام کی میزبانی کی۔ یہ اجلاس 23جون 2002ء کو منعقد  ہوا؛جس میں موجودہ صدر حضرت مولانا سید رابع حسنی ندوی کا بحیثیت صدر انتخاب عمل میں آیاتھا۔ 2011 میں حیدرآباد نے پرسنل لا بورڈ کی عاملہ کے اجلاس کی میزبانی کی یہ اجلاس بھی تاریخ ساز ثابت ہوا، اس اجلاس میں بابری مسجد کے مقدمہ کی پیروی کے لئے بورڈ کو گرانقدر رقم بھی حوالے کی گئی۔

بورڈ کے اغراض و مقاصد:

ہندوستان میں مسلم عائلی قوانین کے تحفظ اور شریعت ایکٹ کے نفاذ کو قائم اور باقی رکھنے کے لیے مؤثر تدابیر اختیار کرنا۔

بالواسطہ،بلا واسطہ یا متوازی قانون سازی؛جس سے قانون شریعت میں مداخلت ہوتی ہو، علاوہ ازیں کہ وہ قوانین پارلیمنٹ یا ریاستی مجلس قانون ساز میں وضع کیے جا چکے ہوں یا آئندہ وضع کیے جانے والے ہوں یا اس طرح کے عدالتی فیصلے جومسلم عائلی قوانین میں مداخلت کا ذریعہ بنتے ہوں ،انھیں ختم کرنے یا مسلمانوں کو ان سے مستثنیٰ قرار دینے کی جدوجہد کرنا۔

مسلمانوں کو عائلی و معاشرتی زندگی کے بارے میں شرعی احکام و آداب، حقوق و فرائض اور اختیارات و حدود سے واقف کرانا اور اس سلسلے میں ضروری لٹریچر کی اشاعت کرنانیزشریعت اسلامی کے عائلی قوانین کی اشاعت اور مسلمانوں پر ان کے نفاذ کے لیے ہمہ گیر خاکہ تیار کرنا۔

مسلم پرسنل لا کے تحفظ کی تحریک کے لیے بہ وقت ضرورت مجلس عمل بنانا، جس کے ذریعے بورڈ کے فیصلے درآمد کرنے کی خاطر پورے ملک میں منظم جدوجہد کی جا سکے۔

علما اور ماہرین قانون پر مشتمل ایک مستقل کمیٹی کے ذریعے مرکزی یا ریاستی حکومتوں یا دوسرے سرکاری و نیم سرکاری اداروں کے ذریعے نافذ کردہ قوانین اور گشتی احکام یا ریاستی اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں پیش کیے جانے والے مسودات قانون کا اس نقطہ نظر سے جائزہ لیتے رہنا کہ ان کا مسلم پرسنل لا پر کیا اثر پڑتا ہے۔

مسلمانوں کے تمام فقہی مسلکوں اور فرقوں کے مابین خیر سگالی، اخوت اور باہمی اشتراک و تعاون کے جذبات کی نشو نما کرنا اور مسلم عائلی قوانین کی بقا و تحفظ کے مشترکہ مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے ان کے درمیان رابطے اور اتحاد و اتفاق کو پروان چڑھانا۔

نئے مسائل کے پیش نظر مسلمانوں کے مختلف فقہی مسالک کے تحقیقی مطالعے کا اہتمام کرنا اور شریعت اسلامی کے اصولوں پر قائم رہتے ہوئے کتاب و سنت کی اساس پر ماہرین شریعت اور فقہ اسلامی کی رہنمائی میں پیش آمدہ مسائل کا مناسب حل تلاش کرنا۔

بورڈ کے مذکورہ بالا اغراض و مقاصد کے حصول کے لیے وفود کو ترتیب دینا، مطالعاتی شرائط (study terms) تشکیل دینا، سیمینار، سمپوزیم، خطابات، اجتماعات، دوروں اور کانفرنسوں کا انتظام کرنا۔ نیز ضروری لٹریچر کی اشاعت اور بہ وقت ضرورت اخبارات و رسائل اور خبرناموں وغیرہ کا اجرا اور اغراض و مقاصد کے لیے دیگر ضروری امور انجام دینا۔ (ویکیپیڈیا)

تبصرے بند ہیں۔