بہتر سے بہتر حج انتظامات کے لیے سعودی حکومت اور انڈین حج مشن کوشاں

سہیل انجم

حج کے ایام جوں جوں قریب آرہے ہیں سعودی حکومت کی جانب سے انتظامات میں تیزی آتی جا رہی ہے۔ اس کی کوشش ہے کہ ایک بھی حاجی کو دشواری نہ ہو اور تمام حجاج خوش اسلوبی کے ساتھ ارکان حج ادا کر سکیں۔ اسی کے ساتھ ہندوستانی حجاج کو بہتر سہولیات فراہم کرانے میں ہندوستانی حج مشن بھی کوشاں ہے اور معمولی سی شکایت پر بھی فوری کارروائی کی جاتی ہے۔ اس حوالے سے قونصل جنرل جناب نور الرحمن شیخ اور ڈپٹی قونصل جنرل اور قونصل حج جناب شاہد عالم تعریف و ستائش کے مستحق ہیں۔ ہم نے متعدد حجاج سے حج انتظامات کے بارے میں دریافت کیا تو بیشتر نے انتظامات کی تعریف کی اور کہا کہ ہمیں کسی بھی قسم کی کوئی پریشانی نہیں ہے۔ ہاں جن لوگوں کی فطرت ہی شکایت کرنا ہو ان کو کسی بھی طرح مطمئن نہیں کیا جا سکتا۔

اس تعلق سے پہلے ایک ذاتی واقعہ کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے اس کے بعد دیگر تفصیلات پیش کی جائیں گی۔ شومی قسمت، ہماری اہلیہ کو صحت کا کچھ مسئلہ پیدا ہو گیا۔ ہمارے روم پارٹنر جناب قمر الدین صاحب نے کہا کہ چلو بلڈنگ نمبر 112 میں قائم بڑے اسپتال (Main Hospital) میں دکھا دیتے ہیں۔ وہاں پہنچے تو مریضوں کی کافی بھیڑ تھی۔ ہم بھی ایک لائن میں لگ گئے۔ ڈاکٹر نے دیکھا اور دو دوائیں لکھیں۔ مگر اسٹور سے ایک ہی دوا ملی۔ ہم نے واپس آکر ان کو بتایا تو انھوں نے کہا کہ ایک ہی سے کام چلاؤ، دوسری آئے گی تب لے لینا۔ ہم نے ان سے کہا کہ یہ بہت پریشان ہیں کوئی اور دوا لکھ دیں جو موجود ہو۔ اس پر انھوں نے کچھ ناروا جملے ادا کیے۔ ہم نے نام پوچھا تو انھوں نے بدقت اپنا نام ڈاکٹر شکیل احمد بتایا اور کچھ طنز بھی کر دیا۔ ہم نے اس واقعہ کی اطلاع جناب محمد احمد کو دہلی میں دے دی۔ محمد احمد بیس برسوں سے بلا معاوضہ حجاج کی خدمت کر رہے ہیں۔ ان کے تجربات کے پیش نظر مرکزی اور دہلی حج کمیٹی نے ان کو اپنا حج ٹرینر مقرر کر رکھا ہے۔ انڈین حج مشن میں ان کے اچھے روابط ہیں۔ ہم نے ان سے کہہ دیا کہ اس معاملے کو آگے مت بڑھائیے گا، یہ صرف اطلاع ہے کہ یہاں کیا ہو رہا ہے۔ لیکن انھوں نے اس واقعہ کو قونصل حج جناب شاہد عالم صاحب کو یہ کہتے ہوئے فارورڈ کر دیا کہ یہ ہندوستان کے ایک بڑے صحافی ہیں اور یومیہ حج رپورٹ فائل کر رہے ہیں۔ قونصل حج نے ہمارا نمبر اور پتہ معلوم کیا اور جلد ہی شکایت دور کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ حالانکہ ہم نے کوئی شکایت نہیں کی تھی۔ بہر حال عشا کی نمام کے بعد تین افراد کے ایک وفد نے ہمارے دروازے پر دستک دی۔ انھوں نے پوچھا کہ آپ سہیل انجم ہیں۔ ہم نے اثبات میں جواب دیا۔ انھوں نے بڑی ہی خنداں پیشانی سے گفتگو کی اور ہماری شکایت کا حوالہ دیا۔ وہ میڈیکل کوآرڈینیٹر ڈاکٹر محی صدیقی تھے اور ان کے ساتھ مذکورہ ڈاکٹر شکیل احمد بھی تھے اور ایک تیسرے ڈاکٹر بھی تھے۔ انھوں نے بتایا کہ ڈاکٹر شکیل صاحب ایک اچھے ڈاکٹر ہیں اور ان کی طبی خدمات کا اعتراف عالمی صحت تنظیم WHOنے بھی کیا ہے۔ یہ کمبھ میلے میں ڈاکٹروں کو تربیت بھی دیتے ہیں۔ ڈاکٹر محی صدیقی حیدرآباد سے، ڈاکٹر شکیل احمد جے پور سے اور تیسرے ڈاکٹر جن کا نام ذہن سے نکل گیا اعظم گڑھ سے تعلق رکھتے ہیں۔

بہر حال ان لوگوں نے ہماری اہلیہ کے بارے میں پوچھا اور ان کو جو دوائیں دی جا رہی ہیں وہ دیکھیں اور نیک مشوروں سے نوازا۔ ان لوگوں نے کہا کہ ہم لوگ حاجیوں کی خدمت کے لیے آئے ہیں۔ کہیں بھی کسی بھی قسم کی کوئی شکایت ہو تو فوری کارروائی کی جاتی ہے۔ انھوں نے مذکورہ واقعہ پر شرمندگی کا اظہار کیا اور یقین دہانی کرائی کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔ حالانکہ ہم نادم ہو رہے تھے۔ ہم نے ان لوگوں سے کہا کہ ہم نے کوئی شکایت نہیں کی ہے۔ پھر بھی آپ لوگوں نے زحمت کی اس کے لیے ہم معذرت خواہ ہیں۔ ڈاکٹر شکیل صاحب نے اپنا مقامی فون نمبر دیا اور کہا کہ آپ کو جب بھی کوئی پریشانی ہو آپ رابطہ کر سکتے ہیں۔ ان لوگوں کی موجودگی میں قونصل حج جناب شاہد عالم نے ہم سے فون پر گفتگو کی اور ہر قسم کی سہولت کی یقین دہانی کرائی۔ ہم نے ان سے کہا کہ ہم حج کرنے آئے ہیں کسی کی شکایت کرنے نہیں۔ مذکورہ واقعہ محض ایک اطلاع تھی شکایت نہیں تھی۔ ہم نے ان کا اور تشریف لانے والے عملے کا شکریہ ادا کیا۔ یہ تو ایک مثال تھی ورنہ حقیقت یہ ہے کہ انڈین حج مشن کی جانب سے حجاج کو بہترین سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں اور اگر کوئی شخص متعلقہ دفتر میں کوئی شکایت درج کراتا ہے تو اس کا ازالہ کیا جاتا ہے۔

ادھر مکہ کی سرزمین پر حجاج قافلہ در قافلہ اتر رہے ہیں۔ سعودی حکومت کی ایک رپورٹ کے مطابق اب ہر گھنٹے پر ایک لاکھ سے زائد عازمین مسجد الحرام پہنچ رہے ہیں۔ ان میں سے بیشتر پہلی بار آتے ہیں جو عمرہ کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ باقی وہ لوگ بھی ہیں جو پہلے سے یہاں موجود ہیں اور نمازوں کی ادائیگی اور نفلی طواف کے لیے پہنچ رہے ہیں۔ ایسے میں جبکہ حجاج کی تعداد میں متواتر اضافہ ہو رہا ہے، خانہ کعبہ اور دوسرے مقامات پر صورت حال بدلتی جا رہی ہے۔ اب طواف کے وقت زیادہ تر اوقات میں مطاف بھرا رہتا ہے۔ البتہ رات میں ایک ڈیڑھ بجے سے لے کر ڈھائی تین بجے تک اژدحام کچھ کم ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی کم وقت میں طواف مکمل کرنا چاہے تو اس کے لیے ان اوقات میں جانا بہتر ہوگا۔ لیکن یہ بھی خیال رہے کہ فجر کی نماز سے قبل تقریباً تین ساڑھے تین بجے حرم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔ اس کے بعد آنے والوں کو باہر جگہ ملتی ہے۔

جیسا کہ قارئین کو معلوم ہے طواف کے دوران لوگ عقیدت میں غلاف کعبہ سے جسم کو مس کرتے ہیں، اسے بوسہ دیتے ہیں اور اس کو پکڑ کر چمٹے رہتے ہیں۔ کچھ لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس کا کوئی ٹکڑا حاصل کر لیں۔ کچھ لوگ جانے کیا کیا غلاف پر پھینکتے بھی ہیں۔ غلاف کعبہ کو کسی بھی قسم کے نقصان سے محفوظ رکھنے کے لیے انتظامیہ نے 29 جولائی کو اسے چاروں جانب سے فرش سے تین میٹر اونچا لپیٹ دیا ہے۔ اس کے بعد غلاف کو دو میٹر اونچائی تک سلائی کرکے سفید کپڑے سے ڈھک دیا گیا ہے۔ کنگ عبد العزیز کمپلیکس آف کعبہ کسوہ کے ڈائرکٹر جنرل احمد المنصوری کے مطابق جنرل پریسیڈنسی آف حرمین شریفین کی جانب سے تکنیکی اور دیگر ماہرین کے تعاون سے امسال کے سالانہ ارکان کی تکمیل کی تیاری مکمل کر لی گئی ہے۔ غلاف کعبہ کو اس لیے اوپر اٹھا دیا گیا ہے تاکہ اس کا تقدس برقرار رہے اور اس کی حفاظت بھی ہو سکے۔ انھوں نے کہا کہ کچھ بد عقیدہ لوگ اس کے ٹکڑے کو حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے اسے اتنا اوپر اٹھایا گیا ہے کہ وہاں تک کسی کا ہاتھ نہ پہنچ سکے۔ حج سیزن کے بعد اسے پھر اپنی جگہ پر فٹ کر دیا جائے گا۔

امسال سعودی عرب کے محکمہ موسمیات و ماحولیات کی جنرل اتھارٹی نے حاجیوں کو موسم کی معلومات بہم پہنچانے کے لیے ایک الیکٹرانک حج گائڈ عربی، انگریزی اور اردو میں شائع کی ہے۔ ماحولیات، آب اور زراعت کے وزیر عبد الرحمن بن عبد المحسن الفاضلی کے ہاتھوں منیٰ آبزرویٹری میں میڈیا سینٹر کے افتتاح کے موقع پر یہ گائڈ شائع کی گئی۔ ادھر وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اب تک وبائی امراض کے شکار کسی بھی حاجی کے بارے میں کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے۔ یہاں کی متعلقہ وزارت عالمی صحت تنظیم کے اشتراک سے تمام ضروری اقدامات کر رہی ہے۔

مناسک حج کی ادائیگی کے لیے Manasikana Application کے نام سے ایک جدید ترین ورژن لانچ کیا گیا ہے۔ اس کے ذریعے حجاج کو حج کے دوران بہتر معلومات فراہم کی جائے گی۔ اسے عربی، انگریزی، اردو، فرانسیسی، ترکی، ملایا اور بنگالی سمیت آٹھ زبانوں میں لانچ کیا گیا ہے۔ اس میں مکہ،مدینہ، جدہ اور مقامات مقدسہ کے نقشوں کے علاوہ دیگر فیچرس بھی ہیں جن کے ذریعے حجاج کی دلچسپی کے لیے مخصوص مقامات کی تفصیلات دی جا ئیں گی۔ اس نقشے کو آف لائن ڈاون لوڈ کرنے کے بعد حجاج بغیر انٹرنیٹ کے مقامات مقدسہ اور حرمین شریفین کے بارے میں اطلاعات حاصل کر سکیں گے۔ حج و عمرہ کے وزیر ڈاکٹر محمد صالح بن طاہر بینتین کے مطابق اس ایپ کے ذریعے حجاج مزید آسانی کے ساتھ اپنے ارکان ادا کر سکیں گے۔ اس کے ذریعے اوقات نماز کے ساتھ ساتھ ارکان کی ادائیگی کے دوران پیش آنے والی دشواریوں پر قابو پانے کے طریقے بھی بتائے جائیں گے۔ مکہ کے گورنر پرنس خالد الفیصل نے 8؍ اگست کو حجاج کرام کو بہتر ڈجیٹل خدمات کے لیے ایک ’’انٹلی جنٹ حج پروگرام‘‘ کا افتتاح کیا۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ مکہ اور مدینہ میں ڈیجیٹل خدمات کو اور بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

حج کے موقع پر لاکھوں جانوروں کی قربانی دی جاتی ہے۔ جس طرح انسانوں کی رہائش کے انتظامات کرنے ہوتے ہیں اسی طرح جانوروں کی رہائش کا بھی انتظام کیا جاتا ہے۔ 25 لاکھ بھیڑوں کی درآمد، ان کی رہائش، ان کی صحت اور ان کے کھانے پینے سے متعلق ضروری اقدامات کرنے ہوتے ہیں۔ جانوروں کی صحت کا بطور خاص خیال رکھا جاتا ہے تاکہ وہ بیمار نہ پڑیں اور جن کی قربانی دی جانی ہے وہ تندرست ہوں۔ اب تک تقریباً پندرہ لاکھ جانور منگائے جا چکے ہیں۔ قربانی کے جانوروں کے گوشت کے بہتر مصرف اور مقامات مقدسہ کی صفائی ستھرائی کا بھی انتظام کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں سال بہ سال بہتری لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

یہ کام اسلامک ڈیولپمنٹ بینک گروپ سعودی انتظامیہ کے ساتھ مل کر 1983 سے کر رہا ہے۔ گروپ کے چیئرمین ڈاکٹر بندر حجار کے مطابق اس پروجکٹ کا مقصد حجاج کو قربانی کے جانوروں کے حصول کو آسان بنانا اور صحت، صفائی ستھرائی اور شرعی تقاضوں کے تعلق سے ضروری انتظامات کرنے ہیں۔ اس پروجکٹ کے تحت حاجیوں کی طرف سے قربانی کرنے کے ساتھ اس کے گوشت کو مستحقین تک پہنچایا جاتا ہے۔ قربانی کا گوشت حرم شریف اور مقامات مقدسہ کے قریب غربا و مساکین، سعودیہ میں فلاحی انجمنوں اور دنیا بھر میں مسلم ممالک اور برادریوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر حجار کا کہنا ہے کہ قربانی کا گوشت پچیس سے زائد ملکوں کے مستحقین تک پہنچایا جاتا ہے۔ ان میں اردن، سیریا اور شام جیسے عرب ملکوں کے علاوہ مالی، گھانا، سینیگال، بنگلہ دیش اور آذربائجان جیسے افریقی و ایشیائی ممالک بھی شامل ہیں۔ 48 گھنٹے کے اندر دس لاکھ بھیڑ ذبح کرکے ان کے گوشت کے ٹکڑے بنا کر پیک کر کے فریز کر دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بیس لاکھ حجاج کو اپنی قربانی اپنے سامنے کرانے کا بھی انتظام کیا جاتا ہے۔ قربانی کے کوپنوں کا بھی انتظام کیا جاتا ہے۔

پوری دنیا کو حج سے متعلق معلومات فراہم کرنے کے لیے میڈیا سینٹر قائم کیا گیا ہے۔ اس کا افتتاح ذرائع ابلاغ کے وزیر ڈاکٹر العواد بن صالح اعواد نے کیا۔ اس میں جدید ترین سہولیات مہیا کی گئی ہیں۔ ایک آن لائن پورٹل بھی شروع کیا گیا ہے۔ hajjmedia.bov.sa پر جا کر ضروری معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ اس ویب سائٹ پر صرف سعودی عرب میں رسائی حاصل کی جا سکتی ہے بیرون ملک سے نہیں۔ اس عظیم الشان عالمی اجتماع کی کوریج کے لیے سیٹلائٹ چینلوں، عالمی خبر رساں اداروں اور ذرائع ابلاغ کو مطلوبہ سہولتیں مہیا کرائی جا رہی ہیں۔ آٹھ سو سے زائد ممتاز غیر ملکی صحافی حج کوریج کے لیے وزارت کے مہمان ہوں گے۔ میڈیا سینٹر میں صحافیوں کو کمپیوٹر، اسٹوڈیو اور مواصلاتی نیٹ ورک سمیت تمام سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں۔ میڈیا سینٹر کی جانب سے صحافیوں کو تازہ تصاویر اور خبریں بھی فراہم کی جائیں گی۔ بے شمار سعودی صحافی غیر ملکی صحافیوں کی مدد کے لیے موجود رہیں گے۔ جدہ،مکہ اور دیگر مقامات مقدسہ پر بھی میڈیا مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ ان مراکز سے صحافیوں کو حرمین شریفین کی توسیع سے متعلق بیک گراونڈ انفارمیشن فراہم کی جائے گی اور انفرااسٹرکچر پروجکٹوں کی معلومات بھی دی جائیں گی۔ خطبہ حج کو مختلف زبانوں میں خاص طور پر اردو میں سننے کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔ اس بارے میں مختلف ذرائع سے تشہیر کی جا رہی ہے۔

 گورنر مکہ مکرمہ اور سربراہ مکہ ڈیولپمنٹ اتھارٹی شہزادہ خالد الفیصل نے حج 2018 کے لیے اتھارٹی کے عملی پروگراموں کو منظوری دے دی ہے۔ ضیوف الرحمن یعنی یعنی اللہ کے مہمانوں یعنی حجاج کرام کی خدمت کے لیے 14ہزار اہلکار تعینات کر دیے گئے ہیں۔ ڈائرکٹر جنرل آف سول ڈیفنس سلیمان بن عبد اللہ العومرو کے مطابق اس محکمہ نے 18 ہزار افسران اور اسٹاف تعینات کیا ہے جو عازمین کے استعمال میں آنے والی سڑکوں، گلیوں اور علاقوں میں اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں۔ ان کو تین ہزار گاڑیاں فراہم کی گئی ہیں۔

مشاعر مقدسہ، ٹرین، جمرات کے پل، منیٰ، مزدلفہ اور عرفات میں ٹوائلٹس کے انتظامات، پینے کے پانی کا بند و بست، حج خدمات کے معیار میں بہتری اور حج ڈیٹا کی تیاری حکام کے سامنے سرفہرست ہیں۔ اہلکاروں کو چار سو سے زائد آلات اور مشینیں مہیا کی گئی ہیں۔ ٹرین سے سفر کرنے والے حجاج کی قافلہ بندی آٹھ ذی الحجہ سے ہوگی۔ منی سے حجاج کو ٹرین کے ذریعے عرفات لے جایا جائے گا اور پھر وہاں سے مزدلفہ کے راستے منی واپس لایا جائے گا۔ ایام تشریق کے دوران بیس لاکھ سے زائد حاجی ٹرین سے سفر کریں گے۔ حج کے دوران تیس ہزار طہارت خانے یعنی ٹوائٹس یا حمام حجاج کے استعمال میں رہیں گے۔ مشاعر مقدسہ میں ٹھنڈے پانی کی فراہمی کے لیے 600 سے زائد واٹر کولر نصب کیے جا رہے ہیں۔

 ہم نے چار اگست یعنی 21ذی قعدہ کو میدان عرفات کا دورہ کیا جہاں خیمے نصب کرنے کی تیاری زوروں پر ہے۔ وہاں مستقل حمام تعمیر کیے گئے ہیں۔ البتہ خیمے عارضی ہوتے ہیں۔ منیٰ کے خیمے مستقل ہیں اور مزدلفہ میں کوئی خیمہ نہیں ہوتا۔ وہاں کھلے آسمان کے نیچے شب بسری کرنی ہوتی ہے۔ مزدلفہ کے میدان میں مغرب، عشا اور فجر کی نمازیں ادا کرکے منیٰ کے لیے روانہ ہونا ہوتا ہے۔ البتہ بچوں اور کمزور افراد کو رات میں ہی نکلنے کی اجازت ہے۔ مزدلفہ میں چاروں طرف کنکریاں پھیلا دی گئی ہیں۔ حجاج وہیں سے رمی کرنے کے لیے کنکریاں چنتے ہیں۔

 لمحہ بہ لمحہ حجاج کی بڑھتی تعداد کے پیش نظر اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ طواف، سعی اور نمازوں کے دوران کوئی افرا تفری نہ ہو۔ اس کے لیے نمازوں کے اوقات سے کچھ پہلے سے ہی حرم میں داخل ہونے کے راستے بند کر دیے جاتے ہیں۔ تاخیر سے آنے والے باہر نماز ادا کر سکتے ہیں۔ وہاں بھی بہترین انتظامات ہیں۔ 20 ذی قعدہ سے اس بارے میں زیادہ تیزی آگئی ہے۔ البتہ نماز کے بعد سارے راستے کھل جاتے ہیں۔ باب السلام کی جانب سے حرم میں داخل ہونے پر درمیان میں صفا و مروہ کا مقام آتا ہے جہاں سعی کی جاتی ہے۔ سعی میں بھی اب کافی اژدحام رہنے لگا ہے۔ اسی لیے ان راستوں کو جہاں سے داخل ہونے پر سعی کے مقام کو عبور کرکے مطاف میں جانا ہوتا ہے، بند کر دیا گیا ہے۔ ان راستوں سے صرف باہر آیا جا سکتا ہے۔ البتہ اس کے برابر میں اسمعیل گیٹ اور کنگ عبد العزیز گیٹ اور دوسرے تمام دروازے اور راستے کھلے رہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حج کے ایام میں مسجد میں داخل ہونے پر کوئی پابندی نہیں ہوتی۔ اس کے تمام 210 دروازے اور مسجد نبوی کے 100 دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ مسجد الحرام کے 38 داخلی دروازے خصوصی افراد اور سات صرف خواتین کے لیے مخصوص کیے گئے ہیں۔ مسجد الحرام میں آب زم زم لینے کے لیے ماربل کے 660فوارے لگائے گئے ہیں۔ مسجد نبوی میں ان کی تعداد 60 ہے۔ مسجد الحرام میں پینے کے پانی کے 25 ہزار ڈسپنسر اور مسجد نبوی میں 23 ہزار ڈسپنسر نصب کیے گئے ہیں۔ قوت سماعت سے محروم افراد کے لیے جمعہ کے خطبات کی علامتی زبان میں وضاحت کے انتظامات کیے گئے ہیں۔ خصوصی افراد کے علاوہ معمر عازمین کو مناسک حج کی ادائیگی کے لیے لانے اور لے جانے کی غرض سے اسکوٹیوں کے علاوہ مشینی اور ہاتھ گاڑیاں مہیا کی جا رہی ہیں۔

عزیزیہ میں حجاج کی تعداد جوں جوں بڑھ رہی ہے یہاں کی رونق بھی دوبالا ہو رہی ہے۔ یہاں ایک بڑی مسجد جامع بن محفوظ ہے۔ اس کے اطراف میں جہاں حجاج کی رہائشی عمارتیں ہیں وہیں دکانیں بھی خوب ہیں۔ ان کے علاوہ فٹ پاتھ پر سجنے والی دکانیں بھی بڑھ رہی ہیں۔ بیشتر حجاج انھی سے سستے داموں میں سامان خریدتے ہیں۔ دکاندار سامان فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسٹاک شارٹ ہوتا اور خریداروں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ یہاں رہنے والے متعدد افراد نے بتایا کہ یہ دکانیں اور مارکٹ صرف حج کے سیزن میں کھلتے ہیں۔ یہاں کے لوگ ان تین مہینوں میں اتنا کما لیتے ہیں کہ پورے سال بیٹھ کر کھاتے ہیں۔ حرم شریف کے قریب واقع دکانوں اور مارکیٹ کا بھی یہی حال ہے۔ لیکن یہ بھی معلوم ہوا کہ حج کے سیزن میں ضروری اشیا غیر حج سیزن سے مہنگی فروخت کی جاتی ہیں۔ کسی نے ایک مضمون میں ہندوستان کے تناظر میں بہت پتے کی بات کہی تھی کہ ہندو دکاندار ہولی دیوالی کے موقع پر اپنی اشیا فروخت کرنے کے لیے سیل لگا دیتے ہیں اور ہر سامان پر ڈسکاونٹ دیتے ہیں لیکن مسلمان دکاندار عید اور بقر عید کے موقع پر قیمتوں میں اضافہ کر دیتے ہیں۔ یہی حال حج سیزن کا بھی ہوتا ہے۔ ڈسکاونٹ دینے کے بجائے قیمتیں چڑھا دی جاتی ہیں۔ مکہ میں ہم نے حاجیوں کی ضرورت کی اشیا کے دام معلوم کرنے کی کوشش کی تو پتا چلا کہ مدینہ کے مقابلے میں یہاں قیمتیں زیادہ ہیں۔ (باقی آئندہ)

تبصرے بند ہیں۔