خود کو کہتا ہے جو سب کا پاسباں خاموش ہے

احمد علی برقیؔ اعظمی

خود کو کہتا ہے جو سب کا پاسباں خاموش ہے
سن کے مظلوموں کی وہ آہ و فغاں خاموش ہے

ظلم و جورِ ناروا پر یہ جہاں خاموش ہے
’’کیوں زمیں خاموش ہے اور آسماں خاموش ہے‘‘

گونگے بہروں کی طرح وہ پاسباں خاموش ہے
سن کے بھی جو داستانِ خونچکاں خاموش ہے

قتل و غارت کررہا ہے شر پسندوں کا ہجوم
خود کو کہتا ہے جو میرِ کارواں خاموش ہے

گُنگ رہبر کی زباں ہے رہزنوں کے سامنے
تھا جہاں پر بولنا اس کو، وہاں خاموش ہے

ہے یہ میری شامتِ اعمال یا کچھ اور ہے
میں سمجھتا تھا جسے آرامِ جاں خاموش ہے

آگ پانی میں لگا سکتا ہے جو تقریر سے
شہرۂ آفاق وہ شعلہ بیاں خاموش ہے

غنچہ و گُل صحنِ گلشن میں ہیں مُرجھائے ہوئے
پھر بھی برقیؔ اس چمن کا باغباں خاموش ہے

تبصرے بند ہیں۔