نیوزی لینڈ کے واقعے سے برصغیر کو کیا سیکھنا چاہیے؟

 صفدر امام قادری

        گذشتہ جمعہ کو آنکھ کھُلتے ہی نیوزی لینڈ جہاں دنیا کا پہلا سورج طلوع ہوتا ہے، وہاں سے ایسی خبر آئی جس پر کسی کو یقین کرنے کا جی نہیں چاہا۔ بھلاکیسی نفرت اور دشمنی ہوگی کہ مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کرتے ہوئے چالیس سے زیادہ افراد کو نہ صرف یہ کہ ہلاک کردیا گیا بلکہ اس کی ویڈیو لائیو بھی دنیا کے سامنے پیش کرنے سے بدمعاشوں نے دریغ نہ کیا۔ ہند و پاک اور خلیج کے ممالک جہاں مسلمانوں کی اکثریت آباد ہے اور جہاں جمعہ کی نماز کی ادائیگی نیوی لینڈ کے بعد ہونی تھی؛ وہاں کے عام لوگوں کی جان ہلکان تھی اور ہر جگہ اس نفرت اور جرائم پیشگی کے خلاف ایک ماحول قائم ہونا لازمی تھا۔ مشرق سے مغرب کی نفرت اور اسلام سے عیسائیوں اور یہودیوں کی نفرتیں اور مخالفتیں بھی زیرِ بحث ہونا شروع ہوگئیں۔ غرض پوری دنیا میں یہ واقعہ زیرِ بحث تھا اور ہندستانی سیاست کے سرخیلوں کو چھوڑ کر ہر طرف سے مذمّت کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

        اسی دوران حادثے کے پیچھے پیچھے نیوزی لینڈ کی خاتون وزیر اعظم کا پہلا بیان آیا۔ سلجھی ہوئی گفتگو، ضروری باتوں پر مدار اور الزام در الزام کی برصغیر کی عادتوں کے برعکس متوقع سوالوں کے جوابات کے ساتھ نپی تُلی گفتگو۔ معلوم ہوا کہ محترمہ کی عمر محض ۳۸؍برس ہے۔ سیاسی فراست اور حکمت عملی سے محترمہ کی جہاں دیدنی سے ایک عالم متاثر ہوا۔ انھوں نے سب سے پہلے وہاں کے مسلمانوں کو اس بات کا یقین دلایا کہ نیوزی لینڈ اُن کا گھر ہے۔ کاش ہندستانی مسلمانوں کو ہندستان کی فرقہ پرست جماعتیں اس بات کا دل سے یقین دلادیں کہ وہ ہندستان کو مسلمانون کا وطن اور گھر سمجھتے ہیں۔ پھر انھوں نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو اس بات کا مزید یقین دلایا کہ وہ نیوزی لینڈ کے تمام مسلمانوں کے محافظ کے طور پر کام کریں گے۔ ہندستان اور پاکستان میں آئے دن مسلمانوں پر مسجد میں نماز کے دوران حملوں کے واقعات سامنے آتے رہے ہیں۔ ذرا پہلے شیعہ سُنّی فسادات کے دوران بھی مذہبی اور مسلکی اختلافات کی وجہ سے نمازیوں کو ہلاک کرنے کے واقعات کئی بار سامنے آچکے ہیں۔ افسوس، ایسے تمام معاملات میں مسلمانوں کے ردعمل پر زور زیادہ دیا مگر سیاسی فراست اور تدبّر پر توجہ زیادہ نہ دی گئی۔ شاید اسی لیے ایسے واقعات کشمیر اور پاکستان میں آج بھی ہوتے رہتے ہیں اور فوج، حکومت اور عوام کے بیچ سے تھوڑی بہت مذمّت کے بعد نفرت کا جواب نفرت سے دینے کے معاملات پر ساری سیاسی بصیرت مندمل ہوجاتی ہے۔

        نیوزی لینڈ کی کم عمر وزیر اعظم سے ہمیں کئی باتیں سیکھنے کی ضرورت ہے۔ پہلا سوال تو یہی ہے کہ نفرت کا جواب نفرت نہیں ہے۔ کشمیر کی حکمتِ عملی ہمارے سامنے ہے۔ تین دہائیوں سے ہندستان کی فوج اور مرکزی حکومت نے اب تک جو کیا ہے، اُس کے نتائج کیا سامنے آئے؟ کیا کوئی بہتری آئی۔ نام نہاد دہشت گردوں کو کیا ہم کمزور کرسکے۔ کیا کشمیریوں کا اعتماد حاصل کرسکے ؟ پاکستان پر الزامات عاید کرنے کے علاوہ ہم نے کیا حاصل کیا؟ عالمی منچ پر بھی کشمیر اور پاکستان کے معاملے میں ہندستانی حکومت دنیا بھر کی انصاف پسند جماعتوں کو ہم خیال نہ بنا سکی۔ پاکستان جیسے ہم سایہ سے دائمی دشمنی اور کشمیریوں کے مفادات کے مخالف ہونے کے علاوہ ہندستان کے ہاتھ میں کیا آیا۔

        نیوزی لینڈ نے لاشوں کی سیاست سے گریز کا راستہ اپنایا اور دنیا کو بھی اس بات کے لیے زیادہ مواقع نہیں دیے کہ اس آگ میں دوسرے گھی ڈال سکیں۔ اس موقعے سے برما کے واقعات یاد کیجیے جب گذشتہ برسوں میں ہندستانی حکومت اور ایک سیاسی جماعت کے افراد کس طرح آگ اُگل رہے تھے۔ برما میں مسلمانوں کے خلاف لڑائی اور قتل و غارت گری تو چل ہی رہی تھی مگر اسی کے ساتھ، اور اس سے بڑھ کر ہندستانی حکومت، وزیرِ اعظم اور وزیر داخلہ ہی برما کی طرف داری میں مسلمانوں سے اپنی نفرت کی فصل اُگا رہے تھے۔ یہاں سیاست اور نفرت کو فوقیت حاصل رہی اور انصاف اور ایمان کو پسِ پشت ڈال دیا گیا تھا۔ ذرا یہ بات سوچیے کہ بنگلہ دیش نے ان خانماں بربادوں کی مدد نہ کی ہوتی تو کیا ہوتا!

        پورے یورپ اور مغربی ممالک میں سیاست کی دو سطحیں ہیں : روایت پسند اور ترقی پسند۔ اکثر باری باری سے اِن کی حکومتیں قائم ہوتی رہتی ہیں۔ داخلی سطح پر بھی ان کے بیچ شدید اختلافات ہیں۔ وہاں بھی درمیانِ میعاد حکومت گر جاتی ہے یا کسی ایک جماعت کو اکثریت نہیں ملنے پر ملی جُلی حکومت قائم کرنی پڑتی ہے۔ موجودہ وزیر اعظم کی سیاسی تربیت اسی ماحول میں ہوئی۔ وہ اگرچہ ترقی پسند جماعت سے تعلق رکھتی ہیں مگر اسی کے ساتھ ملی جلی حکومت چلانے کا انھیں تجربہ ہے۔ سب سے کم عمر میں پارلیامنٹ کی ممبرشپ، وزارت اور پھر وزارت عظمیٰ وغیرہ پر دیکھتے دیکھتے اُن کی ترقی کے پیچھے شخصیت کی صلابت، تدبّر، ترقی پسندانہ ذہن اور فیصلوں میں توازن بنیاد کے پتھّر ہیں۔ آج وہ پوری دنیا میں مقبولیت کے آسمان پر براج مان ہیں اور مسلم دنیا کی تو سب سے محبوب شخصیت بن چکی ہیں۔

        اتنے بڑے حادثے کے بعد وہاں کے مہلوکین کا جس سلیقے سے انھوں نے اعتماد حاصل کیا، وہ حیرت انگیز تھا۔ انھوں نے حکومت اور انتظامیہ کی سطح پر جو کچھ بھی کیا ہوگا، اس سے الگ اپنے مغربی لباس کی تبدیلی اور مسلمانوں جیسے ظاہری انداز کے ساتھ تمام خاندانوں کے متاثرین سے اُن کے گھر جاکر ملیں اور ان کی مصیبت میں پورے ملک کو شریک ثابت کیا۔ ہندستانی سیاست داں بھیس بدلنے اور گھڑیالی آنسو بہانے کے لیے مشہور ہیں مگر آج تک مہلوکین کے ایک ایک خاندان تک وزیر اعظم کا پہنچنا اور اُن کے دُکھ میں پورے مُلک کو ساجھی دار بنانا کسی کو ضروری معلوم نہیں ہوا۔ ہندستان میں لاشی پر سیاسی کھیل تماشے سے بڑا کوئی مشغلہ نہیں۔ ابھی ابھی شہیدوں کے دفنانے اور جلانے کے مسئلے میں دلت اور غیر دلت کی بعض جگہوں سے تفریق سامنے آئی۔ مختلف ریاستوں میں ان کے خاندان کے افراد اور مقامی لوگوں کے علاوہ انھیں جلانے بھی کوئی نہیں آیا۔ بعض شہیدوں کے بیوائوں کے خاصے دردناک بیانات بھی سامنے آئے۔ حکومت ان واقعات سے ایک عوامی نفرت اُگانے کی کوششیں آج تک کر رہی ہے اور اس کے علاوہ اُسے کوئی دوسرا کام اور سیاسی، سماجی اور انسانی فریضہ نہیں۔ کاش نیوزی لینڈ کے واقعے سے ہندستانی حکومتوں کو اپنے ملک کے حادثات کو سلجھانے کا سلیقہ میسر آجاتا۔

        گذشتہ جمعہ سے اس جمعہ کے درمیان ایک ہفتے میں نیوزی لینڈ ہی نہیں پورے مغربی ممالک میں مسلمانوں کے تئیں نقطۂ نظر میں ایک فوری تبدیلی نظر آرہی ہے۔ امریکی حکومتوں نے مساجد کو دائرۂ حفاظت میں لیا اور یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ چند بگڑے ہوئے لوگوں کے خلاف پوری قوم سامنے آرہی ہے اور دنیا کے مسلمان ایسے حملوں کو اپنے اوپر کیے گئے مسی منظّم حرکت کے طور پر نہ لیں۔ نیوزی لینڈ کے عام شہریوں نے اس واقعے کے بعد مسلمانوں کی حفاظت میں جس طرح مختلف سرگرمیاں پیش کیں، یہیں سے وہاں کی وزیرِ اعظم کی ابتدائی کاوشوں کے نتائج ملنا شروع ہورہے ہیں۔ نوجوان اور بہادروں نے رضاکارانہ طور پر یہ پیش کش کی ہے کہ بہ وقتِ نماز وہ نمازیوں اور مساجد کی حفاظت کریں گے۔

        نیوزی لینڈ کی حکومت اور اس کی سلجھی ہوئی وزیر اعظم کی کامیابی یہ ہے کہ انھوں نے اس مسئلے کا عوامی حل نکال لیا اور مسلمانوں پر حملے کے ایک واقعے کے ردعمل کے طور پر ہزاروں طرف داروں اور انسانیت نوازوں کو منظرِ عام پر لادیا۔ اس سے نیوزی لینڈ مزید خوب صورت اور باکردار ترقی پسند ملک کے طور پر اُبھر کر سامنے آیا ہے۔ کبھی خانۂ کعبہ کی حفاظت ابابیل سے خدا نے کرائی تھی۔ اس بار چالیس مسلمانوں کی شہادت سے مغربی دنیا میں مسلمانوں کے لیے انصاف پسند عوام کی تلاش کا ایک سلسلہ شروع ہوا ہے۔ یہیں سے امنِ عالم کی ایک سوکھی ہوئی ندی پھر سے تروتازہ ہوکر شرابِ محبت پیش کرے گی۔ خدا وہ دن جلد لائے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔