’سب کا ساتھ سب کا وِکاس‘ ایک جھوٹا نعرہ تھا

محمد وسیم

ہندوستان کی موجودہ حکومت کی سیاسی پارٹی بھارتی جنتا پارٹی کے منتخب وزیرِ اعظم نریندر مودی نے مئی 2014ء میں وزارتِ عظمیٰ کا حلف لیا، انھوں نے ہندوستانی عوام کو یقین دلایا تھا کہ "سب لا ساتھ سب کا وِکاس” ہوگا، وزیرِ اعظم نریندر مودی نے عہدہ سنبھالنے کے بعد پارلیمنٹ کے دروازے پر پہونچ کر مٹی کو چومتے ہوئے یہ پیغام دینے کی کوشش کی تھی کہ وہ ہندوستان کی آئین کے مطابق کام کریں گے، سب کا ساتھ سب کا وکاس کا مطلب یہ تھا کہ ہم سب اکٹھے رہیں گے، ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر ترقی کریں گے، ہندوستان میں رہنے والے اقلیتوں اور دلتوں کا خاص خیال رکھیں گے اور ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی آپسی بھائی چارے اور رواداری کے تحت رہ کر ملک کی تعمیر و ترقی میں حصہ لیں گے، لیکن مودی کی پانچ سالہ کارگزاری سے یہ پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے عوام سے جھوٹا وعدہ کیا تھا، ان کا نعرہ پرفُریب تھا اور ان کی سیاسی پارٹی بھارتی جنتا پارٹی اپنا اعتبار کھو چکی ہے، کوئی مانے یا نہ مانے مگر آج صورتِ حال یہ ہے کہ ان کی حکومت ایک مخصوص راہ پر گامزن ہے جس کو عدمِ برداشت کا راستہ کہا جا سکتا ہے۔

ہندوستان کی سیاسی پارٹی بھارتی جنتا پارٹی کا تمام تر زور ہندوتوا کے فروغ پر ہے، شاید ان کے تھنک ٹینک اس نتیجے پر پہونچے ہیں کہ اس راستے پر چل کر ان کے ووٹوں میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے، مودی حکومت میں گاۓ کو لے کر آۓ دن ہنگامہ ہوتا رہتا ہے، حکومت نے گاۓ کے نام پر ہندوستان میں افراتفری کی سیاست پیدا کر رکھی ہے، گاۓ کے نام پر اب تک کئی مسلمانوں کو قتل کیا جا چکا ہے یہاں تک کہ محض شک کی بنیاد پر لوگوں کو قتل کر دیا ہے، گاۓ کے نام پر دادری کے اخلاق کا بہیمانہ قتل لوگوں کو اب تک یاد ہے، اسی طرح سے دوسری اقلیتوں اور دلتوں کے اوپر سخت مظالم ڈھائے گئے ہیں، اس سلسلے میں میڈیا نے بھی گزشتہ پانچ سالوں میں غیر ذمّہ دارانہ رویے کا ثبوت دیا ہے کہ جس نے حکومت کی ناکامیوں پر مجرمانہ خاموشی اختیار کی۔

ہندوستان کی یونیورسٹیوں کی پُر امن اور آزاد خیال فضا بھی اب قصّہء پارینہ بنتی جا رہی ہے، ایک مخصوص قسم کا فرقہ جو تشدد  اور نفرت پر یقین رکھتا ہے اس نے یونیورسٹیوں کی تعلیمی فضاء کو برباد کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے، میڈیا نے بھی غیر ضروری ڈبیٹ کے ذریعے لوگوں کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی کوشش میں ہے، ان واقعات سے ایسا ظاہر ہو رہا ہے کہ جیسے ملک دو ذہنوں اور دو حصوں میں تقسیم ہو گیا ہے، بجائے اس کے کہ حکومت  مہنگائی، بے روزگاری، کسانوں کی خود کشی، عورتوں کے ساتھ عصمت دری اور دوسرے مسائل پر قابو پانے میں کامیابی حاصل کرتی وہ ناکام ہو چکی ہے، حکومت نے گزشتہ پانچ سالوں میں عوام کو گمراہ کیا ہے، اسی طرح سے میڈیا نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت پیدا کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔

قارئینِ کرام ! ہندوستان جیسے وسیع و عریض ملک میں جہاں ہر 50 کلومیٹر کے بعد رہن سہن، زبان، طور طریقے، رسوم و رواج اور لباس بدل جاتے ہیں وہاں تنوّع ضروری ہے، در اصل یہ ہندوستان کی پہچان ہے اور اسی تنوّع کی تکریم نے ملک کو جوڑے ہوا ہے، اس لئے  بھارتی جنتا پارٹی اور آر ایس ایس کے سخت عناصر کے حامل افراد جو یہ سوچتے ہیں کہ ان کی طاقت کا راز قومی اَقدار کی بنیادی تبدیلی میں پوشیدہ ہے اُنھیں اپنی سوچ میں ازسرِ نو غور کرنا چاہئے، ہندوستانی تہذیب آپسی بھائی چارے اور رواداری کی تہذیب ہے، اسی تہذیب ساتھ یہاں کے لوگ صدیوں سے رہتے آۓ ہیں، ہندوستانی تہذیب کی بقاء میں ہی عوام کے درمیان آپسی محبّت، ملک کی ترقی، خوشحالی اور استحکام ممکن ہے.

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. Ruwaida کہتے ہیں

    Me musannif ki rai se ittifaq Katti hu

تبصرے بند ہیں۔