اسلام کا نظامِ خاندان -(15مئی: خاندانوں کے عالمی دن کے موقع پر خصوصی تحریر)
انسانی معاشرہ کی ابتدا خاندان کی تشکیل سے ہوتی ہے اور خاندان مرد اور عورت کے باہمی تعلق سے وجود میں آتا ہے۔ اسی بنیادی تعلق کے ذریعے انسانی زندگی کا کارواں آگے بڑھتا ہے۔ بچے ہوتے ہیں، جن کی ، یہ مرد و عورت والدین کی حیثیت سے پرورش کرتے ہیں۔ یہ بچے جوان ہوتے ہیں تو ان سے ازدواجی رشتے وجود میں آتے ہیں۔ اس طرح کنبے اور قبیلے بنتے ہیں اور معاشرہ ارتقائی شکل اختیار کرتا ہے۔
خاندان کی بنیاد
خاندان کی ابتدا ئی صورت مرد و عورت کے مستحکم تعلق سے بنتی ہے اور وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو اس میں وہ تمام عناصر شامل ہوتے ہیں جو مرد عورت سے کسی نہ کسی طرح وابستہ ہوتے ہیں۔ ماہرینِ عمر انیات خاندان کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں: ’’ خاندان میاں بیوی اور اولاد پر مشتمل اس باہمی ربط کو کہتے ہیں جو نسبۃً پائیدار ہو۔‘‘
اسلام کاتصورِ خاندان
اسلام نے خاندان کے ادارے کو باقی رکھا ہے اور اسے مستحکم رکھنے کے لیے قوانین وضع کیے ہیں اور اخلاقی تعلیمات بھی دی ہیں۔ اس نے مرد اور عورت کے جائز اور صحت مند تعلق کے لیے نکاح کو لازم قرار دیا ہے۔ وہ نہ تو رہبانیت کی ہمت افزائی کرتا ہے اور نہ جنسی تسکین کی کھلی چھوٹ دیتا ہے۔ اس کے نزدیک نکاح کے ذریعے ایک مضبوط خاندان و جود میں آتا ہے، جس کے تمام افراد میں ذمہ داری کا احساس پایا جاتا ہے اور وہ اپنے فرائض اور دوسروں کے حقوق کے غفلت نہیں برتتے۔
اسلام خاندان کو ایک سماجی ضرورت ہی نہیں قرار دیتا ہے، بلکہ وہ دینی حیثیت سے بھی اس کا تذکرہ کرتا ہے۔ قرآن میں صراحت موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے جو پیغمبر بھیجے ہیں انہوں نے خاندانی زندگی گزاری ہے اور اس کے تقاضے پورے کیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فر ماتا ہے۔
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلاً مِّنْ قَبْلِکَ وَ جَعَلْنَا لَھُمْ اَزْوَاجًا وَّ ذُرِّیَۃً (الرعد:38)
’’ تم سے پہلے بھی ہم بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور ان کو ہم نے بیوی بچوں والا ہی بنایا تھا۔‘‘
خاندان کے ترکیبی عناصر
خاندان کے عناصر ترکیبی درج ذیل افراد ہیں:
(1) شوہر(2) بیوی(3) اولاد(4) والدین(5) دیگر رشتہ دار۔
اسلام نے ان تمام کے حقوق کے بیان کیے ہیں، ان کی ادائی کی تاکید کی ہے اور ان کی پامالی سے ڈرایا ہے۔
اہلِ خاندان کے حقوق اور فرائض
اسلام میں خاندان سے متعلق تمام افراد کے حقوق بیان کردیے گئے ہیں اور ان کے فرائض کی بھی نشا ن دہی کر دی گئی ہیں۔ حقوق اور فرائض کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ ہر فرد صحیح طریقے سے اپنے فرائض انجام دے تو دوسرے تمام افراد اپنے حقوق سے بہرہ ور ہوں گے اور ان کا کوئی حق پامال نہیں ہوگا۔مثلاً ازدواجی رشتے میں منسلک ہونے کے بعد شوہر کے جو حقوق ہیں وہ بیوی کے فرائض میں داخل ہیں اور بیوی کے جو حقوق ہیں ان کا شمار شوہر کے فرائض میں ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ (البقرۃ:228)
’’عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں۔‘‘
اسی طرح والدین کے جو حقوق ہیں وہ اولاد کے فرائض ہیں اور اولاد کے جو حقوق ہیں وہ والدین کے فرائض میں داخل ہیں۔ذیل میں افرادِ خاندان کے حقوق بیان کیے جاتے ہیں:
شوہر کے حقوق
شوہر کے جوحقوق بیوی پر عائد ہوتے ہیں ان میں سے دو اہم ہیں:
(1) اطاعت:
پہلا حق یہ ہے کہ بیوی شوہر کی اطاعت کرے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہ (النساء:34)
’’ پس جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت و نگرانی میں ان کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں۔‘‘
اس آیت میں ایک لفظ ’قانتات‘ آیاہے۔ اس کی تفسیر میں علماء نے لکھاہے کہ اس میں اللہ کی اطاعت اور شوہر کی اطاعت دونوں مفہوم شامل ہیں۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺسے دریافت کیا گیا: کون سی عورت سب سے بہتر ہے۔ اس کے جواب میں آپؐ نے فرمایا:
’’وہ عورت جس کا شوہر اس کی طرف دیکھے تو خوش ہوجائے، وہ اسے کسی چیز کا حکم دے تو اس پر عمل کرے اور اپنی ذات کے بارے میں یا اس مال کے بارے میں جو اس کی تحویل میں ہو، شوہر کی مرضی کے خلاف کوئی کام نہ کرے۔‘‘ (نسائی:3231)
ام المومنین حضرت ام سلمہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’جس عورت کا انتقال اس حال میں ہوکہ اس کا شوہر اس سے خوش ہو وہ جنت میں جائے گی۔‘‘(ترمذی:1161)
(2) حفظِ غیب
سورۂ نساء کی درج بالا آیت میں نیک عورتوں کا دوسرا وصف یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ ’غیب کی حفاظت‘ کرتی ہیں۔ درحقیقت یہی عورت پر شوہر کا دوسرا حق ہے۔ غیب کی حفاظت کا مطلب اس چیز کی حفاظت ہے جو شوہر کی غیر حاضری میں عورت کے پاس بہ طور امانت ہوتی ہے۔ اس میں نسب کی حفاظت، آبرو کی حفاظت، مال کی حفاظت ،بچوں کی پرورش و پرداخت اور رازوں کی حفاظت سب کچھ شامل ہے۔
بیوی کے حقوق
اسلام نے نظام خاندان میں بیوی کے حقوق کو بھی محفوظ کیا ہے، تاکہ شوہر اپنے اختیارات سے فائدہ اٹھا کر اس پر بے جا ظلم نہ کرسکے اور وہ نظامِ معاشرت میں اپنی فطری صلاحیتوں کو بہتر طریقے سے بروئے کار لاسکے۔ ان حقوق کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتاہے:
(1) معاشی حقوق (2) تمدنی حقوق
(1)معاشی حقوق
اسلام نے مختلف طریقوں سے عورت کی معاشی حیثیت کو مستحکم کیا ہے۔ چنانچہ اس اعتبار سے بیوی کو حاصل ہونے والے تین حقوق اہم ہیں:
(الف) مہر: یہ عورت کا بنیادی حق ہے۔ اس سے اسے کسی صورت میں محروم نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں تک کہ اگر کوئی نکاح بغیر مہر طے کیے ہوئے کرلیا جائے تو بیوی مہر مثل کی مستحق ہوتی ہے۔
(ب) نفقہ: اسی طرح شوہر پر بیوی کا حق ہے کہ اس کے لیے نان و نفقہ فراہم کرے اور اس کی روز مرہ کی ضروریات پوری کرے۔
(ج) وراثت: شوہر کے مال و جائیداد میں بیوی کا حصہ متعین ہے، جس سے اسے کسی صورت میں محروم نہیں کیا جاسکتا۔
(2)تمدنی حقوق
اس سے مراد وہ تمام معاملات ہیں جو زوجین کے مابین پیش آسکتے ہیں۔ ان میں شوہر کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرے۔ قرآن و حدیث میں اس کے واضح احکام موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ عَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِج (النساء:19)
’’ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو۔‘‘
ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’اہل ایمان میں سب سے زیادہ کامل وہ شخص ہے جس کا اخلاق سب سے بہتر ہو اورتم میں سب سے بہتر لوگ وہ ہیں جن کے اخلاق اپنی عورتوں کے ساتھ بہتر ہوں۔ ‘‘ (ترمذی:1162)
ازدواجی معاملات میں عورت کو بہت سے حقوق عطا کیے گئے ہیں۔ وہ شوہر کے انتخاب کا حق رکھتی ہے۔ کسی بالغ لڑکی کا نکاح اس کی مرضی کے خلاف نہیں کیا جاسکتا۔ اگر اس کے بچپن میں اس کا ولی اس کا نکاح کسی کے ساتھ کردے تو بالغ ہونے کے بعد وہ اسے فسخ کرسکتی ہے۔ شوہر کے عیوب یا اس کے ساتھ رہنے پر طبیعت کی ناپسندیدگی کی صورت میں حکمین یا عدالت کے ذریعے فسخ نکاح کا حق دیا گیا۔ طلاق اور بیوگی کی صورت میں اسے نکاح ثانی کا اختیار ہے۔ اسلامی قانون میں اس کی جان، مال اور عزت و آبرو کو مرد کے برابر تسلیم کیا گیا ہے۔
اولاد کے حقوق
اسلام میں والدین کے حقوق کے ساتھ اولاد کے حقوق پر بھی زور دیا گیا ہے۔والدین اگر سماج کی بنیادی اکائی کی حیثیت رکھتے ہیں تو اولاد اس اکائی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ ا س کی اہمیت یوں بھی ہے کہ اولاد ہی پر سماج کے ارتقا کا انحصارہوتا ہے۔ آج کی اولاد ہی کل کے والدین ہوں گے۔ اس لیے اگر ان کے حقوق کی ادائی سے غفلت برتی گئی اور صحیح خطوط پر ان کی پرورش اور تربیت نہیں کی گئی تو مستقبل کے سماج کا ارتقا صحیح بنیادوں پر نہیں ہوسکتا اور اس میں بے اعتدالی اور عدمِ توازن نمایاں ہوگا۔
اولاد والدین کے لیے قدرت کا بہترین تحفہ، ان کا سرمایۂ حیات، آنکھ کی ٹھنڈک اور دکھ درد کا سہارا ہوتی ہے۔ وہ ان کے لیے دنیا میں فخر کا سامان اور آخرت میں سرخ روئی کا ذریعہ ہوتی ہے۔ قرآن و حدیث میں اولاد کو اللہ کی نعمت قرار دیا گیا ہے۔ چوں کہ اولاد سے انسان کی فطرت اور اس کی اپنی شخصیت کا اظہار ہوتا ہے اور اسے ذاتی تسکین حاصل ہوتی ہے اس لیے وہ جبلّی طور پر اس کی خواہش رکھتا ہے۔ (آل عمران: 14) قرآن میں مختلف انبیاء اور خاص طور پر حضرت ابراہیم علیہ السلام (ابراہیم:39، الصافات:100) اور حضرت زکریا علیہ السلام (آل عمران:38، مریم:5) کی اولاد کے لیے دعا مذکور ہے۔ اس کے علاوہ اہل ایمان کی خواہشِ اولاد کو بھی دعائیہ شکل میں بیان کیا گیا ہے (الاحقاف:15، الفرقان:74)۔
اولاد سے انسان کو فطری طور پر محبت ہوتی ہے۔ اسلام اس فطری جذبہ کو قدر و تحسین کی نظر سے دیکھتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ ایک بدّو نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا: آپ لوگ بچوں کا بوسہ لیتے ہیں، ہم تو ایسا نہیں کرتے۔ اس پر نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اگر اللہ نے تمھارے دل سے رحم دلی نکال دی ہو تو میں کیا کرسکتا ہوں‘‘ (بخاری:5998، مسلم:2317) اسی مضمون کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’جو رحم نہیں کرتا اس پر بھی رحم نہیں کیا جاتا۔‘‘ (بخاری:5997، مسلم:2318)
اولاد کے، والدین پر درج ذیل حقوق عائد ہوتے ہیں:
(1) زندگی
اولاد کا اولین حق یہ ہے کہ اسے بوجھ نہ سمجھا جائے اور زندہ رہنے کے حق سے اسے محروم نہ کیا جائے۔ اس دنیا میں ہر متنفس اپنی روزی لے کر آتا ہے۔ اس لیے محض فقر و فاقہ کے ڈر سے انھیں زندہ نہ رہنے دینا شیطانی حرکت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ قَتَلُوْآ اَوْلاَدَہُمْ سَفَہًام بِغَیْْرِ عِلْم (الانعام:140)
’’یقیناًخسارے میں پڑگئے وہ لوگ جنھوں نے اپنی اولاد کو جہالت و نادانی کی بنا پر قتل کیا۔‘‘
وَکَذٰلِکَ زَیَّنَ لِکَثِیْرٍ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ قَتْلَ اَوْلاَدِہِمْ شُرَکَآؤُہُمْ لِیُرْدُوہُمْ وَ لِیَلْبِسُوْا عَلَیْْہِمْ دِیْنَہُمْط (الانعام :137)
’’اور اسی طرح بہت سے مشرکوں کے لیے ان کے شریکوں نے اپنی اولاد کے قتل کو خوش نما بنا دیا ہے، تاکہ ان کو ہلاکت میں مبتلا کریں اور ان پر ان کے دین کو مشتبہ بنادیں۔‘‘
زمانۂ جاہلیت میں لوگ اپنی اولاد کو قتل کردیتے تھے۔ بتوں کے آستانوں پر ان کی قربانی پیش کرتے تھے، خاص طور سے بعض قبیلوں میں لڑکیوں کو زندہ درگور کردینے کی رسم پائی جاتی تھی۔ قرآن نے اس کی مذمت کی اور اس سے روکا:
وَلاَ تَقْتُلُوْآ اَوْلَادَکُمْ خَشْیَۃَ اِمْلاَقٍط نَّحْنُ نَرْزُقُہُمْ وَاِیَّاکُمْط اِنَّ قَتْلَہُمْ کَانَ خِطْاً کَبِیْرًاo (بنی اسرائیل:31)
’’اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو۔ ہم انھیں بھی رزق دیں گے اور تمھیں بھی۔ درحقیقت ان کا قتل ایک بڑی خطا ہے۔‘‘
جنسی تسکین کے معاملے میں اسلام نے اعتدال و توازن کو ملحوظ رکھا ہے۔ اس نے نہ تو جنسی جذبہ کو دبانے اور کچلنے کی ترغیب دی ہے اور نہ کھلی چھوٹ دے دی ہے کہ اس کے لیے جو طریقہ چاہے اختیار کرلیا جائے۔ بہ الفاظ دیگر وہ نہ تو رہبانیت کا قائل ہے اور نہ اباحیت کا، بلکہ اس نے جنسی تسکین کے لیے نکاح کرنے کا حکم دیا ہے۔
(2) پرورش
اولاد کا دوسرا حق یہ ہے کہ اس کی اچھی طرح پرورش کی جائے،پیدا ہوتے ہی اس کا اچھا سا نام رکھا جائے، اس کی عمر کے مطابق خوراک اور لباس کا انتظام کیا جائے، اس کی دیگر تمام ضرورتیں پوری کی جائیں، یہاں تک کہ جب وہ بالغ ہوجائے تو اس کا نکاح کردیا جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَالْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلاَدَہُنَّ حَوْلَیْْنِ کَامِلَیْْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَ وَ عَلَی الْمَوْلُودِ لَہٗ رِزْقُہُنَّ وَ کِسْوَتُہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِط (البقرۃ:233)
’’جو باپ چاہتے ہوں کہ ان کی اولاد پوری مدتِ رضاعت تک دودھ پیے تو مائیں اپنے بچوں کو کامل دو سال دودھ پلائیں۔ اس صورت میں بچے کے باپ کو معروف طریقے سے انھیں کھانا کپڑا دینا ہوگا۔‘‘
حضرت ابو سعیدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’جس کے یہاں کوئی اولاد ہو تو اس کو چاہیے کہ اس کا اچھا سا نام رکھے، اسے ادب سکھائے پھر جب وہ بالغ ہوجائے تو اس کا نکاح کردے۔‘‘ (بیہقی فی شعب الایمان)
زمانۂ جاہلیت میں لڑکیوں کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ وہ اپنے بیش تر حقوق سے محروم رہتی تھیں۔ اس لیے اللہ کے رسول ﷺ نے خاص طور سے ان کی پرورش و پرداخت اور خبرگیری پر اجر عظیم کا وعدہ فرمایا ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا:
’’جو شخص ان بیٹیوں کی وجہ سے کسی آزمائش میں ڈالا گیا اور اس نے ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو وہ اس کے لیے آگ سے آڑ ہوں گی۔‘‘ (بخاری: 1418، مسلم:2629)
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’جس شخص نے دو لڑکیوں کی ان کے بالغ ہونے تک پرورش کی، وہ اور میں قیامت کے روز اس طرح ہوں گے۔ ‘‘یہ کہتے ہوئے آپؐ نے اپنی انگلیوں کو ملایا۔ (مسلم:2631)
حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
’’جس شخص کے یہاں بیٹی پیدا ہو، وہ نہ اسے زندہ درگور کرے، نہ اسے رسوا کرے اور نہ اپنے بیٹوں کو اس پر ترجیح دے، اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا۔‘‘ (ابو داؤد: 5146)
والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کی ضروریات کا بقدر استطاعت خیال رکھیں، ان سے کسی حال میں غفلت نہ برتیں اور انھیں بے یار و مددگار نہ چھوڑیں۔ حضرت عبد اللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’آدمی کی بربادی کے لیے یہ گناہ کافی ہے کہ وہ ان لوگوں کو ضائع کردے جن کے اخراجات کا ذمہ دار ہو۔‘‘ (ابو داؤد:1692)
(3) تربیت
اولاد کا تیسرا حق یہ ہے کہ ان کی اچھی طرح تربیت کی جائے۔ ان کی ظاہری اور جسمانی نشو و نما پر دھیان دینے کے ساتھ ان کے اخلاقی و
روحانی ارتقا پر بھی توجہ دی جائے، انھیں دین کے راستے پر چلایا جائے اور غلط راہوں پر جا پڑنے سے روکا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ ٰ امَنُوْا قُوْآ اَنْفُسَکُمْ وَ اَہْلِیْکُمْ نَارًا (التحریم:6)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے۔‘‘
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’مرد اپنے گھر والوں کا ’راعی‘ (نگراں )ہے اور ا س سے اس کی نگرانی میں رہنے والوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔‘‘ (بخاری: 7138، مسلم:1829)
اس حدیث میں ’راعی‘ کا لفظ آیا ہے، جس کے معنیٰ چرواہا کے آتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح ایک چرواہا اپنے ریوڑ کی بکریوں کی حفاظت اور دیکھ بھال کرتا ہے، ان کی تمام ضروریات پوری کرتا ہے او رانھیں کوئی تکلیف نہیں ہونے دیتا ،اسی طرح گھر کے سربراہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے زیر کفالت تمام افراد کی دیکھ بھال رکھے۔
ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’کوئی باپ اپنی اولاد کو حسنِ ادب سے بڑھ کر اچھا عطیہ نہیں دیتا۔‘‘ (ترمذی:1952)
والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں میں اعلیٰ اوصاف اور بلند انسانی اخلاق پیدا کریں۔
اسلام میں تربیت کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ یہ اخلاقی تربیت، فنّی اور تکنیکی تربیت، دینی تربیت سب کو محیط ہے۔ والدین کو اپنے بچوں کی ہمہ جہت تربیت کی فکر کرنی چاہیے۔
والدین کے حقوق
انسان کا اپنے رشتہ داروں میں سب سے قریبی تعلق والدین سے ہوتا ہے۔ وہ نہ صرف اس دنیا میں اس کے وجود کا ذریعہ بنتے ہیں، بلکہ پیدائش کے بعد اسے پال پوس کر بڑا کرتے اور مکروہاتِ ز مانہ سے بچاتے ہوئے زندگی کی دوڑ دھوپ میں شامل ہونے کے قابل بناتے ہیں۔ اسی لیے قرآن کریم میں والدین کا تذکرہ رشتہ داروں سے قبل کیا گیا ہے اور ان کی خصوصی اہمیت کی وجہ سے ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم علیٰحدہ سے دیا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَاعْبُدُواْ اللّہَ وَلاَ تُشْرِکُواْ بِہِ شَیْْئاً وَبِالْوَالِدَیْْنِ إِحْسَاناً وَبِذِیْ الْقُرْبَی۔۔۔۔ (النساء: 36)
’’اور تم سب اللہ کی بندگی کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو، قرابت داروں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ۔۔۔۔‘‘
قرآن کا بیان ہے کہ بنی اسرائیل سے جب مکمل اطاعت کا عہد لیا گیا تھا تو انھیں بھی والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی گئی تھی:
وَإِذْ أَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْ إِسْرَاءِیْلَ لاَ تَعْبُدُونَ إِلاَّ اللّہَ وَبِالْوَالِدَیْْنِ إِحْسَاناً وَّذِیْ الْقُرْبَی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ۔ (البقرۃ: 83)
’’یاد کرو، اسرائیل کی اولاد سے ہم نے پختہ عہدلیا تھا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا، ماں باپ کے ساتھ ، رشتہ داروں کے ساتھ، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ نیک سلوک کرنا۔۔۔۔ ‘‘
درج بالا دونوں آیتوں میں سب سے پہلے اللہ واحد کی عبادت کرنے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانے کا حکم دیا گیا ہے۔ پھر والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اس کے بعد دوسرے رشتہ داروں اور سماج کے دیگر افراد کے ساتھ حسن سلوک کرنے کو کہا گیا ہے۔
سورۂ بنی اسرائیل میں یہی بات زیادہ زوردار انداز میں کہی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَقَضٰی رَبُّکَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْْنِ إِحْسَاناً۔(بنی اسرائیل:23)
’’تیرے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو مگر صرف اس کی، اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ ‘‘
قرآن کریم میں دیگرمقامات پر بھی والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔ سورۂ لقمان میں ہے:
وَوَصَّیْْنَا الْاِنسَانَ بِوَالِدَیْْہِ حَمَلَتْہُ أُمُّہُ وَہْناً عَلَی وَہْنٍ وَفِصَالُہُ فِیْ عَامَیْْنِ أَنِ اشْکُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْْکَ إِلَیَّ الْمَصِیْرُ۔ (لقمان: 14)
’’اور یہ حقیقت ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہچاننے کی خود تاکید کی ہے۔ اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھاکر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے۔ (اسی لیے ہم نے اس کو نصیحت کی کہ) میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجالا۔ میری ہی طرف تجھے پلٹنا ہے۔‘‘
اسی مضمون کی ایک آیت سورۂالاحقاف میں بھی آئی ہے(آیت نمبر15)
ان آیات میں والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا گیا ہے، جس میں ماں باپ دونوں شامل ہیں، اگرچہ ماں کی تکلیفوں اور مشقتوں کا تذکرہ تفصیل سے کیا گیا ہے۔ وہ دورانِ حمل بھی مشقت جھیلتی ہے، وضع حمل کے دوران بھی شدید اذیت سے دوچار ہوتی ہے اور پھر پیدائش کے بعد عرصہ تک دودھ پلاتی ہے۔ اسی لیے بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ماں کا درجہ باپ کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہے۔
ایک صحابی نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا: میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپؐ نے جواب دیا: تمھاری ماں۔ یہ سوال انھوں نے تین بار دہرایا۔ آپؐ نے ہربار یہی جواب دیا۔ یہی سوال انھوں نے چوتھی بار کیا تو آپؐ نے فرمایا، تمھارا باپ۔( بخاری: 5971، مسلم :2548)
والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا یہ حکم عام ہے۔ لیکن جب وہ بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائیں تو ان کے حقوق ادا کرنے، ان کی دیکھ بھال کرنے اور ان کے ساتھ اچھی طرح پیش آنے کا خصوصی حکم دیا گیا ہے۔ احادیث میں بوڑھے والدین کی خدمت کا درجہ جہاد فی سبیل اللہ سے بڑھ کر قرار دیا گیا ہے۔
ایک شخص نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ میں اللہ تعالیٰ سے اجر کی طلب میں آپ کے ہاتھ پر ہجرت اور جہاد کی بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: کیا تمھارے والدین میں سے کوئی ز ندہ ہے؟ اس نے جواب دیا: ہاں دونوں زندہ ہیں؟ آپؐ نے اس شخص سے پھر سوال کیا: کیا تم اللہ سے اجر کے طالب ہو؟ اس نے جواب دیا: ہاں۔ آپؐ نے فرمایا: تب اپنے والدین کے پاس واپس جاؤ اوران کی اچھی طرح خدمت کرو۔ ( مسلم:2549)
جس شخص کو اپنے بوڑھے والدین کی خدمت کی توفیق ملی ہو اسے جنت کی بشارت دی گئی ہے اور جس شخص نے انھیں بڑھاپے میں پایا ہو، پھر بھی ان کی خدمت نہ کی ہو، اسے جہنم کی وعید سنائی گئی ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک مجلس میں ارشاد فرمایا: اس شخص کی ناک غبار آلود ہوئی، یعنی وہ ناکام و نامراد ہوا۔ حاضرین نے دریافت کیا: کون؟ اے اللہ کے رسول ﷺ ۔ آپؐ نے جواب دیا:جس نے اپنے ماں باپ یا ان میں سے کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پایا، پھر بھی جنت میں داخل نہ ہوسکا۔(مسلم:2551)
بوڑھے والدین کے ساتھ جس طرح کا رویّہ مطلوب ہے اور ان کے ساتھ جس طرح پیش آنا چاہیے، اس کی بڑی موثر تفصیل قرآن کریم میں ایک جگہ ان الفاظ میں کی گئی ہے:
إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِندَکَ الْکِبَرَ أَحَدُہُمَا أَوْ کِلاَہُمَا فَلاَ تَقُل لَّہُمَا أُفٍّ وَلاَ تَنْہَرْہُمَا وَقُل لَّہُمَا قَوْلاً کَرِیْماً.وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْراً۔ (بنی اسرائیل:23۔24)
’’اگر تمھارے پاس ان میں سے کوئی ایک، یادونوں، بوڑھے ہوکر رہیں تو انھیں اف تک نہ کہو، نہ انھیں جھڑک کر جواب دو، بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو اور نرمی اور رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو اور دعا کیا کرو کہ ’’پروردگار، ان پر رحم فرما جس طرح انھوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا‘‘
حقوقِ والدین کے سلسلہ میں قرآن و حدیث میں جو تعلیمات مذکور ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ والدین کا ہر حکم بجالایا جائے اور کسی معاملہ میں ان کی مرضی کے خلاف کام نہ کیا جائے، خواہ ان کا حکم طبیعت پر کتنا ہی گراں ہو اور ان کی مرضی کا کام کرنے میں کتنا ہی نقصان دکھائی دیتا ہو۔
ایک موقع پر حضرت ابوالدرداءؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے نو باتوں کا حکم دیا ہے۔ ان میں سے ایک بات یہ ہے:اپنے ماں باپ کا کہنا مانو، یہاں تک کہ اگر وہ تمھیں حکم دیں کہ تم اپنی دنیا سے نکل جاؤ تو ان کا کہنا مانتے ہوئے نکل جاؤ۔ (ابن ماجہ:4034)
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ ایک موقع پر رسول اللہ ﷺ نے چند ایسے اشخاص کا تذکرہ کیا جن کی طرف سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنی نگاہ پھیرلے گا اور وہ جنت میں داخلہ سے محروم ہوں گے۔ ان میں سے ایک وہ شخص ہے جو اپنے والدین کا نافرمان ہو۔(نسائی: 2562)
ایک مرتبہ آپؐ نے صحابہ کرام کی ایک مجلس میں ان سے فرمایا: کیا میں تمھیں ’اکبر الکبائر‘ (سب سے بڑے گناہوں) کے بارے میں نہ بتاؤں؟ پھر آپؐ نے جو چیزیں گنائیں ان میں سے ایک ’والدین کی نافرمانی‘ تھی۔( بخاری: 2654، مسلم:87)
والدین کا کہنا نہ ماننے کی صرف اسی صورت میں اجازت ہے جب وہ کسی ایسے کام کا حکم دیں جو دینی وشرعی اعتبار سے ناجائز ہو۔ ان کی وہ بات تو نہیں مانی جائے گی، لیکن دیگر معاملات میں ان کے ساتھ حسب سابق خوش گوار تعلق رکھنا اوراچھا برتاؤ کرنا لازمی ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَإِن جَاہَدٰکَ عَلی أَن تُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَا وَصَاحِبْہُمَا فِیْ الدُّنْیَا مَعْرُوفاً۔(لقمان:15)
’’لیکن اگر وہ تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ میرے ساتھ تو کسی ایسے کو شریک کرے جسے تو نہیں جانتا تو ان کی بات ہرگز نہ مان اور دنیا میں ان کے ساتھ نیک برتاؤ کرتا رہ۔‘‘
اولاد اگر والدین کی مرضی کے کام کرے گی اور ان کا کہنا مانے گی تو وہ خوش رہیں گے اور اگر وہ ان کی مخالفت کرے گی اوراس کے کام
ان کی مرضی کے خلاف ہوں گے تو انہیں تکلیف اور رنج ہوگا۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ والدین کے خوش رہنے سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتا ہے اوران کی ناراضی اللہ تعالیٰ کے غضب کا باعث بنتی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:والدین کی رضا مندی میں اللہ تعالیٰ کی رضااور والدین کی ناراضی میں اللہ تعالیٰ کی ناراضی ہے۔(منذری، الترغیب والترہیب:2؍946)
اسلام میں ہجرت اور جہاد دو ایسے اعمال ہیں جن کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ لیکن والدین کے حقوق کی ادائی سے بے پروا ہوکر اوران کو ناراض کرکے ان کی انجام دہی کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ ایک شخص نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: میں آپؐ سے ہجرت پر بیعت کرتا ہوں۔ جب آپؐ کو معلوم ہوا کہ اس کے والدین زندہ ہیں اور انھیں اس کی جدائی گوارا نہیں ہے، وہ آہ و بکا کررہے ہیں توآپؐ نے فرمایا:ان کے پاس واپس جاؤ اور جس طرح تم نے انھیں رلایا ہے، اسی طرح انھیں ہنساؤ۔(بخاری، الادب المفرد:31)
والدین کے حقوق کی ادائی اوران کے ساتھ حسنِ سلوک کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ان کی مالی ضروریات پوری کی جائیں اور انھیں محتاجی کی حالت میں نہ چھوڑ دیا جائے۔ عہد نبوی میں لوگوں نے دریافت کیا کہ وہ کیا خرچ کریں اور کس حد تک خرچ کریں؟ اس کے جواب میں مقدار متعین کرنے کے بجائے مدّاتِ صرف کا تذکرہ کردیا گیا اور ان میں سرِ فہرست والدین کو رکھا گیا:
یَسْءَلُونَکَ مَاذَا یُنفِقُونَ قُلْ مَا أَنفَقْتُم مِّنْ خَیْْرٍ فَلِلْوَالِدَیْْنِ وَالأَقْرَبِیْنَ وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ وَمَا تَفْعَلُواْ مِنْ خَیْْرٍ فَإِنَّ اللّہَ بِہِ عَلِیْمٌ۔ (البقرۃ: 215)
’’لوگ پوچھتے ہیں : ہم کیا خرچ کریں؟ جواب دو کہ جو مال بھی تم خرچ کرو اپنے والدین پر، رشتے داروں پر، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو اور جو بھلائی بھی تم کرو گے، اللہ اس سے باخبر ہوگا۔‘‘
عموماً آدمی بیوی بچوں کی کفالت میں مصروف رہتا ہے۔ اس کے ذہن میں یہ بات آسکتی ہے کہ والدین پر خرچ کرنے سے اس کا مال کم او رہاتھ تنگ ہوجائے گا، اس لیے والدین کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی کفالت کرنے والے کی روزی میں کشادگی کی خوش خبری دی گئی ہے۔
حضرت انس بن مالکؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:جو شخص چاہتا ہوکہ اس کی عمر میں اضافہ ہو اور اس کا رزق بڑھا دیا جائے اسے چاہیے کہ اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرے اور اپنے رشتہ داروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے۔( بخاری:2067)
حضرت جابر بن عبداللہؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے باپ کی شکایت کی: اے اللہ کے رسول، میرے پاس کچھ مال ہے، لیکن میرے بچے بھی ہیں، میرا باپ میرا مال خرچ کرنا چاہتا ہے۔ میں کیا کروں؟ آپؐ نے فرمایا:تو اور تیرا مال سب تیرے باپ کا ہے۔ ( ابن ماجہ: 2291)
ایک دوسری حدیث ام المومنین حضرت عائشہؓ سے مروی ہے۔ ان سے کسی نے دریافت کیا: میری کفالت میں ایک بچہ ہے، کیا میرے لیے اس کے مال میں سے کھانا جائز ہے؟ انھوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ نے فرمایا ہے:آدمی کا سب سے پاکیزہ کھانا وہ ہے جو وہ اپنی کمائی میں سے کھائے اور اس کی اولاد بھی اس کی کمائی میں سے ہے( ابو داؤد:3528،نسائی:4449، ابن ماجہ:2290)
والدین کے معاملہ میں صرف یہی کافی نہیں ہے کہ ان کی معاشی ضروریات کی تکمیل کردی جائے اور ان کے مادی تقاضے پورے کردیے جائیں۔ یوں بھی عمررسیدہ افراد کی مالی اور مادی ضروریات بہت محدود ہوجاتی ہیں۔ ان کی تو بس یہ خو اہش ہوتی ہے کہ کوئی ان کے پاس کچھ وقت گزارے، ان سے باتیں کرے اوران کی باتیں سنے، ان سے ہمدردی، اپنائیت اور محبت کااظہار کرے،ان کی تکلیفوں کا ازالہ کرے اور انھیں آرام پہنچائے۔ اسلام کی مجموعی تعلیمات سے اس پہلو پر بھی روشنی پڑتی ہے۔

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔