اللہ رے سناٹا آواز نہیں آتی
حفیظ نعمانی
پوری ذمہ داری سے کہا جاسکتا ہے کہ ملک کے جو حالات آج ہیں ایسے بدتر حالات کبھی اور کسی کی حکومت میں نہیں رہے۔ اور جتنی خاموشی اور دہشت آج نظر آرہی ہے ایسے کبھی نہیں تھی۔ سب سے پہلے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے یہ بیڑہ اُٹھایا تھا کہ وہ ہر مہینے دو مہینے کے بعد گائوں سے مردوں اور عورتوں کو نکال لاتے تھے اور یہ سرکار نکمی ہے، یہ سرکار بدامنی ہے۔ سڑی گلی سرکار کو ایک دھکا اور دو اور جتنے نعرے تھے وہ لگاتے ہوئے شہر کا چکر لگاکر واپس قیصر باغ آجاتے تھے۔
پھر جب سی پی آئی سمٹ کر ایک لیڈر اتل کمار انجان تک رہ گئی تو یہ کام سی پی ایم نے اپنے ذمہ لے لیا اور پریشان عوام کو یہ اطمینان رہا کہ کوئی نہ کوئی تو کہہ رہا ہے۔ ہوسکتا ہے کوئی اثر ہو۔ 1998 ء میں اٹل جی کی حکومت بننے کے بعد کوئی ایک ریلی کانگریس نے نہیں نکالی۔ اٹل جی چھ سال حکومت کرگئے اور 2004 ء میں وہ مسلمانوں کو آواز دیتے دیتے چلے گئے جن کے لئے انہوں نے نہ 1992 ء میں کچھ کیا اور نہ 2002 ء میں ۔ اگر وہ ذراسی ہمت کرکے ان دونوں موقعوں پر وہ کردیتے جو اُن کے دل میں تھا اور وہ آر ایس ایس کا خوف دل سے نکال دیتے تو آج ہر مسلمان اٹل جی کے ساتھ ہوتا۔ اٹل جی نے مسلمان کو اس وقت یاد نہیں رکھا جب مسلمان کو سہارے کی ضرورت تھی۔ اور اس وقت آواز دی جب انہیں مسلمان کی ضرورت پڑی۔ 1998 ء میں اٹل جی نے ہمیں بلایا تھا۔ یہ وہ وقت تھا کہ جیہ جے للتا کی حمایت کا خط لینے کے لئے جارج فرنانڈیز چنئی گئے ہوئے تھے۔ ہمارے ساتھ ابن حق اور ظہیر مصطفی تھے۔ ہم نے اٹل جی سے آدھے گھنٹے تک بات کی اور عرض کیا کہ حکومت کے لئے مسلمانوں کو ساتھ لینا ضروری ہے۔ بیشک ہم نے آپ کو ووٹ نہیں دیئے لیکن آپ اپنی تقریر میں فرما دیجئے کہ آپ مسلمانوں کے لئے کیا کیا کریں گے؟ اب یہ ان کی اور مسلمانوں کی قسمت ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کو آواز دی مگر 2004 ء میں اس وقت تک 2002 ء کی دہشت سے ہی مسلمان اپنے کو باہر نہیں نکال سکا تھا۔ پھر بھی وہ مسلمان جن کا پیشہ اور روزگار ہی بکنا ہے وہ اٹل جی کے ساتھ آئے بھرپور رقمیں لیں ووٹ ایک نہ دلاسکے۔
کانگریس نے منموہن سنگھ کی قیادت میں حکومت بنائی تو ہر بات کے خلاف احتجاج ہونے لگا گڈکری جب نئے نئے بی جے پی کے صدر بن کر ناگ پور سے آئے تھے شدید ترین گرمی میں چلچلاتی دھوپ میں انہیں اتار دیا اور وہ تھوڑی دیر تو برداشت کرتے رہے پھر گرمی سے بے ہوش ہوکر گرپڑے۔ اس کے بعدبی جے پی کا مکھوٹا لگائے سنگھ پریوار والوں نے پورے دس سال ملک میں ایک دن بھی ایسا نہیں گذرنے دیا جس میں کہیں حکومت کے خلاف تلوے نہ لگے ہوں ۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ کی حکومت میں ہزاروں احتجاج ہوئے ہر صوبہ میں ہوئے ہر شہر میں ہوئے اور ہر بات پر ہوئے۔ بارش زیادہ ہوگئی تو کانگریس کی غلطی اور بارش کم ہوئی تب کانگریس کی غلطی اگر کسی چیز کی قیمت بڑھی تو جیسے قیامت آگئی پیٹرول ڈیزل رسوئی گیس وہ ہیں جن کی قیمت انٹرنیشنل مارکیٹ سے کنٹرول ہوتی ہیں ۔ مگر ہندوستان میں ہر اضافہ کا ذمہ دار کانگریس گروپ ہے۔ ایک ایک وزیر کے خلاف وہ ہنگامہ کہ آسمان سر پر۔ غرض کہ ہر وقت شور اور ہر سڑک پر شور اور حکومت ناکارہ ہے۔ آخر میں وزیراعظم تک کو بھرشٹاچار میں لپیٹ دیا۔
آج ان دس برسوں کے مقابلہ میں حالات اتنے بدتر ہیں کہ پوری حکومت کو رسیوں میں باندھ کر کرسیوں سے اتارا جائے اور بدترین جیلوں میں بند کیا جائے۔ لیکن پورا ملک دیکھ رہا ہے کہ پنجاب سے کنیا کماری تک سب سانس روکے بیٹھے ہیں اور 50 روپئے کلو کھیرے کھارہے ہیں ، 100 روپئے کلو ٹماٹر اور 80 روپئے کلو بھنڈی۔ وزیر اعظم نے انتہائی چالاکی سے دیہاات کی غریب عورتوں کو بے وقوف بنایا کہ تم بھی گیس جلائو۔ اور جب گائوں گائوں گھر گھر گیس آگئی تو ایک ماہر کھلاڑی کی طرح اعلان کردیا کہ گیس کمپنیوں کو اجازت دے دی ہے کہ وہ ہر مہینے دام بڑھائیں اور بڑھاتے بڑھاتے وہاں لے آئیں جہاں سبسڈی ختم ہوتی ہے۔ اب گائوں گائوں بہوئیں ضد کریں گی کہ وہ گیس پر پکائیں گی اور گھر کا مکھیا یا تو ہر مہینے ایک بیل بیچے گا یا چاندی کی موٹی پائل اور جھاجھن اور جب گھر میں کچھ نہیں بچے گا تو پھر روٹی کنڈے، جھنبے، توری اور گیلی لکڑی پر کھانا پکے گا۔
فروری میں وزیر اعظم نے کہا تھا کہ سرکار بنتے ہی اترپردیش کے کسانوں کا قرض معاف کردیا جائے گا۔ اب اگست بھی آدھا ہونے والا ہے سب لکھنؤ کی طرف منھ کئے بیٹھے ہیں ۔ کوئی نہیں ہے جو لاکھ دو لاکھ کسانوں کو لائے کہ چلو تقاضہ کریں ۔
فرق یہ ہے کہ کانگریس اور سماج وادی پارٹی کے زمانہ میں جتنے ہنگامے ہوتے تھے وہ مکھوٹا بی جے پی کا ہوتا تھا آدمی سب آر ایس ایس کے ہوتے تھے۔ آر ایس ایس کا اندر جو بھی کام ہو باہر کسی اور کو حکومت نہ کرنے دینا ہے۔ انہیں یہ تربیت دی گئی ہے کہ اگر کوئی بات کہنا ہے تو وہ پورے ملک میں ایک ہی وقت میں ہر زبان پر ہوگی۔ یہ باتیں نہ جانے کتنے لوگوں کو یاد ہوں گی کہ سنجے گاندھی نے سستی کار بنانے کا کارخانہ لگایا ماروتی سوزوکی کی شرکت کی۔ ابھی کام آدھا بھی نہیں ہوا تھا کہ پارلیمنٹ میں ان مراعات پر جو سنجے کو دی گئیں ہنگامہ ہوگیا۔ اندرا گاندھی نے کہا کہ اگر ملک کا کوئی نوجوان ایک سستی کار اپنے ملک کے غریبوں کے لئے بنانا چاہے تو کیا حکومت اس کی مدد نہ کرے؟ آر ایس ایس اس کو لے اُڑا اور پورے ملک میں کار کانام ماروتی نہیں ماں روتی چلا دیا۔ نہ جانے کس نے اُڑا دیا کہ سنجے نے ماں کے تھپڑ مار دیا پھر پورے ملک میں ایک ہی دن اور ایک ہی وقت میں ہر زبان پر تھا کہ تھپڑ مار دیا۔
جنتا پارٹی کی حکومت بنی 1978 ء میں اتنا گنا بودیا کہ شوگرمل چیخ پڑے اور بند ہوگئے۔ ہزاروں کسان چودھری چرن سنگھ کے پاس آئے کہ ایک مہینہ مل اور چلوادو۔ انہوں نے ٹوپی اتارکر اشارہ کیا کہ میرے سر پر اور گنا بو دو بی جے پی ان سے ناراض تھی۔ ہر صوبہ ہر شہر ہر قصبہ ہر گائوں میں ہر کسی کی زبان پر تھا کہ چودھری نے کہہ دیا کہ میرے سر پر اور بو دو۔ اور جب راج نرائن اندراگاندھی کو رائے بریلی میں ہراکر آئے تو کہا گیا بجلی نہیں آرہی ہے وہ گھوم کر کھڑے ہوگئے اور کہا وہاں پلک لگادو۔ یہ سب آر ایس ایس کی ٹریننگ ہے اور اس کی حکومت ہے پھلجھڑیاں کون چھوڑے۔ جسے اپوزیشن کہا جارہا ہے وہ اپنی اپنی چپو والی کشتیوں میں بیٹھی ہیں ۔ اپنے زندہ ہونے کی آواز دے دیتی ہیں اور ان میں سے ہر دن ہر کشتی سے اندھیرے میں ایک اُتر جاتا ہے اور جے مودی کا نعرہ لگاکر ان کے جہاز میں بیٹھ جاتا ہے۔ کروڑوں فاقے کررہے ہیں کروڑوں بے روزگار ہیں اور نہ جانے کتنے مررہے ہیں لیکن خونی انقلاب کے لئے بھی اور انتظار کرنا پڑے گا۔ یہ اس وقت ہوگا جب سب ایک ہو جائیں ۔

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔