امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد: شخصی عظمت اور عصری معنویت

شاہ اجمل فاروق ندوی

امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد رحمۃ اللہ علیہ (1958-1888) کا نام آتے ہی ذہن و دماغ میں کسی کوہِ گراں کا خیال آتا ہے۔ علم و فضل، مذہبیات و سیاسیات اور حرکت و تخلیقیت کا کوہِ گراں۔ اُن کی شخصیت برصغیر کی تاریخ کا ایسا روشن باب ہے، جسے اسلامیات، سیاسیات، مذہبیات، صحافت، تعلیم ، ادب، خطابت اور جدوجہد آزادی جیسے اہم حوالوں سے آج تک یاد کیا جاتا ہے اور شاید ہمیشہ یاد کیا جاتا رہے گا۔ ان کی ذات ایک ہمہ جہت شخصیت اور ایک ہشت پہل نگینے کی حیثیت رکھتی تھی۔ وہ ایک عالم مفکر، مفسر قرآن، قائد صحافی، ماہر تعلیم ، مدبر سیاست دان، نثر نگار، خطیب، نظریہ ساز اور آزاد ہندستان کے معماروں میں سے ایک تھے۔

مولانا ابوالکلام آزاد 11 نومبر 1888 کو مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام محی الدین احمد تھا۔ علمی دنیا میں انھوں نے ابوالکلام آزاد کے نام سے شہرت پائی۔ ان کے والد مولانا خیر الدین بھی ایک عالم دین تھے۔ انھوں نے عرب سے آکر ہندستان میں سکونت اختیار کرلی تھی۔ مولانا آزاد نے ابتدائی تعلیم گھر پر اور پھر مختلف تعلیم گاہوں میں حاصل کی۔ عربی، فارسی، اردو اور انگریزی زبانوں پر عبور حاصل کیا۔ اعلیٰ علم دین حاصل کیا۔ سماجیات کا گہرا مطالعہ کیا۔ دنیا اور ملک میں ہونے والی  تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا۔ آگے چل کر وہ ایک متبحر عالم دین اور  سیاسی و سماجی مفکر کی حیثیت سے سامنے آئے ۔ 22 فروری 1958 کو دہلی میں وفات پائی۔

مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت بڑی تہ دار تھی ۔ ہم اُن کی شخصیت کی جس تہ تک بھی رسائی حاصل کرتے ہیں، وہ ہمیں متاثر کیے بغیر نہیں چھوڑتے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ان کی شخصیت مجموعۂ اضداد تھی۔ ان کی شخصیت میں ایسے متعدد گوشے بہ یک وقت موجود تھے، جن کا ایک ساتھ ہونا عام حالات میں ناممکن یا انتہائی مشکل تصور کیا جاتا ہے۔ وہ ہمیں ایک طرف ترجمان القرآن جیسی عظیم تفسیر تحریر کرتے نظر آتے ہیں، تو دوسری طرف غبار خاطر جیسی خالص ادبی کتاب میں حسن و جمال، عشق و محبت، چائے کی اقسام اور فنون لطیفہ پر گفتگو کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک طرف جامع مسجد دہلی اور کلکتہ کی عید گاہ میں مسلمانوں کے سامنے مذہبی خطاب کرتے دکھائی دیتے ہیں، تو دوسری طرف شملہ کا نفرنس، کانگریس کمیٹی کے اجلاس اور ہندستانی پارلیمنٹ میں حساس سیاسی موضوعات پر تقریریں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ ایک طرف شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی کے معتقد کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں تو دوسری طرف شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی کے فیض یافتہ کی شکل میں نظر آتے ہیں۔ وہ ایک طرف حزب اللہ کا خاکہ پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں تو دوسری طرف وفاقی ہندستان کا نقشہ بناتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

مولانا ابو الکلام آزاد کے مذکور بالا تمام شخصی رنگوں کے ساتھ جو رنگ سب سے غالب نظر آتا ہے، وہ علوم اسلامی کے ایک ایسے غواص کا رنگ ہے، جس کی نگاہ میں اسلامی علوم کا پورا ذخیرہ بھی ہے اور زمانے کی ضروریات کا شدید احساس بھی۔ یعنی وہ ایک دور اندیش اور بے دار مغز متبحر عالم دین تھے۔ یہ رنگ ان کی زندگی کے باقی تمام رنگوں پر حاوی اور غالب ہے۔ وہ ایوان میں ہوں یا قید خانے میں، مسجد میں ہوں یا کسی ادبی محفل میں، دوستوں کے ساتھ ہوں یا اپنے بڑوں کے ساتھ، علمائے دین کے ساتھ ہوں یا گاندھی جی، پنڈت نہرو اور سردار پٹیل کے ساتھ، غرض یہ کہ ہر وقت اور ہر جگہ وہ سب سے پہلے ایک عالم دین کی شکل میں نظر آتے ہیں۔

مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی تمام تر سیاسی، سماجی اور صحافتی مصروفیات کے ساتھ علوم اسلامی ایک رمز شناس کی حیثیت سے بڑے علمی سنگ میل طے کیے۔ انھوں نے اسلامی کتب خانے کو ایسی کئی دستاویزات دیں، جو ان کی وفات کے تقریبا ستر سال بعد بھی ہر اسلامی طالب علم کے لیے بیش قیمت ہدیے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں نام ان کی عظیم تفسیر ترجمان القرآن کا ہے۔ اس تفسیر میں دوسری متعدد انفرادیتوں کے ساتھ ساتھ یہ انفرادیت شاید سب سے زیادہ قابل ذکر ہے کہ کئی موضوعات پر مولانا ابوالا کام آزاد کی تحقیقات پر آج تک کوئی اضافہ نہیں کیا جا سکا۔ اسلامیات کے ایک طالب علم کو اصحاب کہف ، ذوالقرنین ، نظریہ قومیت کے اسلامی سیاق اور تفسیر سورہ فاتحہ پر کوئی علمی کام کرنا ہو تو وہ ترجمان القرآن سے آنکھ بند کر کے نہیں گزر سکتا۔ ترجمان القرآن کے علاوہ قرآن کا قانون عروج وزوال، مسئلہ خلافت، اسلام کا نظریہ جنگ، تذکرہ، انسانیت موت کے دروازے پر، البیرونی اور جغرافیہ عالم، غبار خاطر، خطبات آزاد، مضامین آزاد، تصریحات آزاد اور حواشی آزاد بھی ایسی کتابیں ہیں، جن سے کلی یا جزوی اختلاف تو کیا جا سکتا ہے، لیکن ان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

مولانا ابوالکلام آزاد برطانوی استعمار کے خلاف صف اول کے رہنما تھے۔ وہ متعدد مرتبہ کانگریس پارٹی کے صدر منتخب ہوئے، خصوصاً 1940 میں، جب وہ سب سے کم عمر صدر منتخب ہوئے ۔ یہ اس دور کی کانگریس تھی، جس میں بابائے قوم موہن داس کرم چند گاندھی، پنڈت جواہر لال نہرو، سردار ولبھ بھائی پیل ، ڈاکٹر راجندر پرساد، سروجنی نائیڈو، سبھاش چندر بوس، خان عبد الغفار خان اور جے بی کر پالانی جیسے بڑے لوگ سر گرم تھے۔ ایسے دور میں ایک کم عمر اور خالص عالم دین کا صدر کانگریس کے عہدے پر فائز ہونا بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ India Wins Freedom کے صفحات اور مولانا آزاد کے معاصرین کی تحریریں بتاتی ہیں کہ مولانا آزاد صدر برائے صدر نہیں بلکہ نہایت سر گرم اور ہر لحاظ سے موثر صدر تھے۔

مولانا ابوالکلام آزاد ہندو مسلم اتحاد کے پر زور داعی تھے۔ وہ مابعد استعمار ہندستان کے لیے جو مناسب نقشہ تصور کرتے تھے، وہ جغرافیائی اور سماجی دونوں لحاظ سے غیر منقسم ہندستان کا نقشہ تھا، لہذا وہ قیام پاکستان کے سخت مخالف تھے۔ جذباتیت کی آندھی میں اپنے اس نظریے کی وجہ سے انھیں اپنے ہم مذہبوں کی طرف سے سخت ترین اذیتیں بھی اٹھانی پڑیں لیکن وہ دباؤ میں آنے والے یا نظریے سے صلح کرنے والوں میں نہیں تھے ۔ اسی لیے انھوں نے آزاد ہندستانی ریاستوں کے لیے ایک وفاقی ہندستان کا نقشہ پیش کیا تھا۔ افسوس! وہ مثالی خاکہ دو طرفہ جذباتیت اور دو طرفہ فرقہ واریت کی نذر ہو گیا، جس کے نتیجے میں برصغیر کو تقسیم ہند کے خونیں سانحے سے دوچار ہونا پڑا۔

مولانا ابوالکلام آزاد کی سوانح کا مطالعہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ ذوق صحافت ان کی فطرت میں داخل تھا۔ نو جوانی سے کڑیل جوانی تک انھوں نے متعدد رسائل میں اہم خدمات انجام دیں۔ اُن کا یہ ذوق صحافت اپنی معراج کو اس وقت پہنچا جب انھوں نے الہلال اور البلاغ جاری کیا۔ ان جرائد نے اردو صحافت کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔ برطانوی سامراج کے خلاف آواز بلند کی۔ مسلمانوں کو اپنا علمی و تہذیبی ورثہ سنبھالنے کی دعوت دی۔ برادران وطن کو ہندستانیت کا درس دیا۔ ایک نئے منہج صحافت کو جنم دیا۔ ایک نیا اسلوب انشا پیش کیا۔ عرش ملسیانی نے صحیح لکھا ہے کہ "مولانا آزاد نے الہلال میں مسلمانوں سے ایک نئی زبان میں خطاب کیا۔ صرف ان کے خیالات اور نقطہ نظر ہی میں جدت نہ تھی، بلکہ ان کی تحریر کا رنگ بھی نیا تھا۔ ان کا اسلوب بیان جان دار اور پر زور تھا، گو فارسی آمیز ہونے کی وجہ سے وہ قدرے مشکل بھی تھا۔” اپنی بے باک صحافت کی وجہ سے انہیں متعدد با رقید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑیں۔ لیکن وہ اس سچے مسلک صحافت کے علم بردار تھے، جسے فیض احمد فیض نے اس طرح بیان کیا ہے:

ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے

جو دل پر گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے

آزادی کے بعد مولانا ابوالکلام آزاد کو ہندستان کا پہلا وزیر تعلیم مقرر کیا گیا۔ انہوں نے جدید ہندستان کی تعلیمی بنیادوں کو مضبوط کرنے میں سب سے بنیادی کردار ادا کیا۔ ان کی کوششوں سے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (UGC)، سہ ماہی تعلیمی منصوبے اور بہت سے ثقافتی ادارے جیسے ساہتیہ اکیڈمی، سنگیت ناٹک اکیڈمی وجود میں آئے۔ ان کی تعلیمی خدمات کے اعتراف میں بھارت سرکار نے ان کے یوم پیدائش کو ہر سال یوم تعلیم کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔

مولانا ابوالکلام آزاد کی فکر اور آراء آج کے دور میں نہایت مربوط اور موزوں محسوس ہوتی ہیں۔ ان کی اجتہادی فکر، عقلیت پسندی، قومی وحدت اور رواداری کا پیغام، تعلیمی نظریات اور صحافتی رویہ ہمارے لیے نمونہ عمل ہے۔ ان کی فکری میراث ہمیں ایک ایسا متوازن اور ترقی یافتہ معاشرہ تشکیل دینے کا راستہ دکھاتی ہے جس کی بنیاد علم، اتحاد، انصاف ، دور اندیشی اور انسان دوستی پر ہو۔ یہی وجہ ہے کہ تمام غیر جانب دار محققین و مؤرخین کا عقیدہ ہے کہ مولانا آزاد کی فکر ماضی سے زیادہ حال کے لیے اہمیت کی حامل ہے۔ اُن کے متعلق لکھنے والوں نے خوب لکھا ہے۔ اُن کی زندگی ہی میں متعدد اہل علم مختلف نوعیتوں کے علمی کام انجام دے چکے تھے۔ پھر ان کی وفات کے بعد تو تحقیقات و تصانیف کا ایک سیلاب امنڈ آیا ۔ محمد مجیب، شورش کاشمیری، عبدالرزاق ملیح آبادی، جاوید اقبال، عبد القوی دسنوی، غلام یزدانی، مسعود حسین خان، سید عبدالرؤف، عبدالمغنی، گوپی چند نارنگ، عرش ملسیانی ، جگناتھ آزاد، مالک رام، قاضی عبد الودود، ظ انصاری، معین شاکر ، سید مسیح الحسن عتیق صدیقی علی جواد زیدی، ابو سلمان شاہجہاں پوری، ملک زادہ منظور احمد اور ان کے علاوہ دیگر اہل علم نے مختلف جہتوں سے ابوالکلام آزاد کے افکار و نظریات اور شخصیت و خدمات کو موضوع بنایا۔ اس کے باوجود کئی گوشے اب تک تشنہ محسوس ہوتے ہیں۔ ان میں سے معاصر ہندستان میں ابوالکلام آزاد کی عصری معنویت کا پہلو سب سے ممتاز ہے۔

سب جانتے ہیں کہ 1947 کے بعد برصغیر جس راہ پر لگا اور ہندستان میں جو کچھ بڑی تبدیلیاں واقع ہوئیں، وہ سب مولانا ابوالکلام آزاد کے لیے غیر متوقع نہیں تھیں ۔ India Wins Freedom میں انھوں نے ملک وملت کے متعلق جن اندیشوں کا اظہار کیا تھا، وہ سب کھلی حقیقت کی طرح ہمارے سامنے آچکے اور آرہے ہیں۔ وہ اپنی ایمانی فراست سے فرقہ واریت کا بھیانک سیلاب آتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ ملک وملت کو غربت، بھک مری، جہالت اور بے سمتی جیسے خطر ناک فتنوں میں مبتلا دیکھ رہے تھے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ اُن کی نظر صرف اندیشوں یا خطروں پر تھی، بلکہ وہ امکانات پر بھی نظر رکھتے تھے ۔ مسائل کے حل بھی جانتے تھے۔ اس لیے آج اس بات کی شدید ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ آج کے ہندستان میں ابوالکلام آزاد کی عصری معنویت کا بھر پور جائزہ لیا جائے۔ اس جائزے سے ہمارے مسائل حل بھی ہو سکیں گے اور ابوالکلام آزاد کی علمی و فکری جہات کی پوشیدہ جہتیں بھی ہمارے سامنے آسکیں گی۔

اسی لیے انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز نے فیصلہ کیا کہ مولانا ابوالکلام آزاد کا مطالعہ اس طرح کیا جائے کہ عصری معنویت کا پہلو غالب رہے، تاکہ دیکھا جاسکے کہ آج کے حالات میں ابوالکلام آزاد کی معنویت کیا ہے؟ اور کس نوعیت کی ہے؟ 19، 20 اگست 2025 کو انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز کے زیر اہتمام شعبہ اسلامک اسٹڈیز مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی کے اشتراک سے دو روزہ آن لائن کانفرنس منعقد کی جارہی ہے۔ امید ہے کہ کانفرنس اپنے مقاصد میں کام یاب ہوگی اور علمی دنیا مولانا ابوالکلام آزاد کے کچھ نئے پہلوؤں سے واقف ہوسکے گی۔

تبصرے بند ہیں۔