آخر کب؟

احساس نایاب

سمجھ میں نہیں آرہاکہ آج ہم اپنے جذباتوں کو لفظوں میں کیسے پروئیں؟ اپنے درد کو اپنوں تک کیسے پہنچائیں؟ جہاں ایک طرف ملک بھر میں مسلمان بگڑتے ہوئے حالات سے جوجھ رہے ہیں تووہیں دوسری طرف اپنے بزرگوں کی زبان پہ ابھی بھی صبر کی تلقین ہے ۔ آخر یہ صبر کب جاکر اپنا اعتکاف توڑیگا؟ آخر کب ہمیں حسن سلوک کے ساتھ کچھ اور کرنے کی سوجھے گی؟ آخر کب ہم حکمت اور مصلحت کی چہار دیواری سے باہر آئینگے؟ آخر کب ہمیں اپنے معصوم بھائی بہنوں کی درد بھری چیخ وپکار، ان کی بے بس سسکیاں سنائی دیں گی؟ آخر کب ہمیں بےگناہ نوجوانوں کا جابجا بکھرا خون نظر آئیگا؟ آخر کب ہم میں ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کا جذبہ جاگے گا ؟ آخر کب ہم اپنی حقیقی طاقت سے روبرو ہوں گے؟ آخر کب ہمیں جہاد کا فرض یاد آئے گا؟ آخر کب ؟کوئی تو بتائیں آخر کب؟

آج جدھر دیکھو ظلم و جبر کا بول بالا ہے، ہمارے قاتلوں کی پیٹھ تھپتھپاکر ان کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے تاکہ وہ ہمیں سرعام ذلیل و رسوا کریں، جس کے بدلے ان خبیثوں کو اعزازسے نوازاجارہاہے اور یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی آخر کب تک ہم اپنے حسن سلوک کی دہائی دیتے رہیںگے ؟ کب تک اپنے خون کے بدلے کسی کے گند کی صفائی کرتے رہیں گے؟ اب تو جی چاہتا ہے اس دنیا سے ہی کوچ کرجائیں کیونکہ یہاں پہ اب باپ کی لاشوں پہ بلکتے بچوں کو دیکھ کر برداشت نہیں ہوتا ، آہ وزاری کرتی بیواؤں کو تل تل مرتے دیکھا نہیں جاتا، بزرگوں کی بےحرمتی پہ خاموش رہا نہیں جاتا ، اس ظالم دنیا میں بزدل بن کے آخر کب تک جینا ہوگا اور خون کے آنسو کب تک پینا ہوگا ؟ اب تو یہاں ہر سانس بوجھ لگتی ہے ،اپنی ہی زندگی کسی سے مانگی بھیک لگتی ہے !

یا رحیم و رحمٰن اپنے بندوں پہ رحم کر! امت مسلمہ جس طرح اپنی کمزوریوں، ناکامیوں کو صبر کی چادر میں ڈھانپ کر ہر ظلم کے آگے اپنے گھٹنے ٹیک رہی ہے، انہیں صلاح الدین ایوبی اور محمد بن قاسم کی دلیری و شجاعت سے مالا مال کردے آمین ۔

ناجانے آج کیوں امت مسلمہ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھول چکی ہے کہ لوگ جب ظالم کو ظلم کرتے ہوئے دیکھیں اور اسکے ہاتھ نہ پکڑیں تو قریب ہے کہ اللہ سب کو اپنے عذاب میں پکڑیگا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بھی فرمان ہے کہ ظلم سہنا اتنا ہی گناہ ہے جتنا ظلم کرنا۔ جب تک ہم بزدل اور لاچار بنکر بےسدھ رہیں گے، ہم پہ ظالم وار کرتا ہی رہیگا کیونکہ جب ایک جاندار جسم بےجان نظر آتا ہے تو اسکے جسم کو حقیر سی چونٹی بھی نوچ کھاتی ہے۔

افسوس! آج ہماری حالت اسی بےجان جسم کے مانند ہے، ہم جی تو رہے ہیں لیکن اپنے ضمیر، اپنی غیرت ،اپنی ہمت اورطاقت کو مار کر، آج ہم میں اور مردہ جسم میں کوئی فرق نہیں رہا ،تبھی ہم ہر دن تشدد کا شکار بن رہے ہیں، جس دن ہم اپنی طاقت سے روبرو ہوجائینگے، جس دن ہم دشمن کو آگے سے للکارینگے ، جس دن ہم دشمن کو اسکی اوقات دکھائینگے،انشاءاللہ اُس دن ہر دشمن کا منہ کالا ہوگا اور اسلام کا پھر سے بول بالا ہوگا ،لیکن یہ اُسی وقت ہوگا جب ہم میں موت کا خوف ختم ہوکر جان کے بدلے جان کا سبق یاد آئیگا ،اور ہم اپنی حقیقی طاقت کو پہچان کر زندگی کے اصل مقصد کو جانیں گے ، کیونکہ ہم تو جنگجو شیروں کے وارث ہیں ، دشمن کی صفوں کو تنہا خاک کرنے والی زندہ قوم کے سپاہی ہیں، اور آج اگر کوئی چھچھوندر آکر ہمیں آنکھ دکھائے، ہماری جان و مال اور آبرو پہ ڈاکہ ڈالے، ہمارے دین کا مذاق بنائے اور ہمارے آقا دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرے تو ہم کیسے تماشبین بنکر، اپنی مظلومیت کا رونا رو کر، حکمت و مصلحت اور حسن سلوک کا رآگ الاپتے ہوئے مجبوریوں کی دہائیاں دے سکتے ہیں ؟

ہماری ایسی عقل اور ہمارے وجود پہ لعنت ہے جو ہم خود کو عاشقان رسول تو کہتے ہیں لیکن ہماری ہی موجودگی میں کسی خنزیر مردود کے حوصلے اتنے بلند ہوگئے کہ وہ آقا کی شان میں کھلے عام گستاخی کررہا ہے اور ہماری شمشیروں کو زنگ لگ چکا ہے، ہم اپنی بزدلی کو چھپانے کی خاطر حسن سلوک کی آڑ میں مندروں اور ٹرین کے ڈبوں کی گندگی صاف کرتے ہوئے اتحاد کا مظاہرہ کرتے پھررہے ہیں، جبکہ آج ضروری ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کا حوصلہ بڑھائیں، دین کی خاطر جان دینے اور لینے کا جذبہ جگائیں، نہ کہ نامِ اتحاد پہ ہوگا عید ملن اور افطار پارٹیاں، مندروں کی صفائی اور غیر مذاہب کے تہواروں میں شرکت کرنا سکھائیں ، کیونکہ یہ خچر منہ پہ ہماری واہ واہی کرکے بیٹھے بٹھائے ہم سے اپنی گندگی صاف کروا رہے ہیں اور بدلے میں ہمیں ہی گائے کے نام پر کیڑے مکوڑوں کی طرح کچل رہے ہیں، ہمارے بزرگوں کی داڑھی ٹوپی نوچ کر دنیا کے آگے عورتوں سے تھپڑ کھلوارہے ہیں،ہماری لاشوں کو جانوروں کی طرح راستوں پہ بےدردی سے گھسیٹ رہے ہیں، ہماری مسجدوں اور مدرسوں پہ دہشت گردی کے الزامات لگاکر ہمیں ہراساں کررہے ہیں ، اور ہم ہربار آنکھوں دیکھی مکھی نگلتے ہوئے خود کی جھوٹی واہ واہی پہ خوش ہوتے جارہے ہیں، اگر  اتنی ہی خدمت خلق کی چاہت ہے تو ایک دفعہ مسلم علاقوں کا جائزہ لیں، وہاں پہ سالوں سے جمی گندگی اور غلاظت صاف کروائیں ، اردو اسکول اور مدرسوں کی طرف توجہ دیں اور وہاں پہ انسانوں کے رہنے کا ماحول بنائیں کیونکہ وہ بھی انسان ہیں، ہمارا حال تو ایسا ہوچکا ہے کہ اپنے گھر میں بدحالی ہے اور ہمیں دنیا کی پڑی ہے، اور ہماری اس حالت پہ کسی نے بہت عمدہ بات کہی ہے ۔

کہ جب تک ہم غلامی کی سوچ سے آزاد نہیں ہونگے، تب تک ہماری صلاحتیں بےقدر ہوتی رہیں گی۔

یعنی جب تک ہم اپنی طاقت کا مظاہرہ نہیں کریں گے، تب تک ہمارے حسن سلوک کو محض ہماری بزدلی،چاپلوسی ، مفاد یا ڈر کا نام دیا جائیگا ، کیونکہ طاقتور انسان کا  ہر کام حسن سلوک لگتا ہے اور کمزور انسان کا نیک کام بھی غلامی کہلاتا ہے،اور غلاموں کے حسن سلوک کا کوئی مول نہیں ہوتا۔ اس لئے سب سے پہلے اپنے درد، خوف اور سوچ کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرنا ہوگا اور خود کو اتنا مضبوط اور طاقتور بنانا ہوگا کہ ہمارا ہر عمل مثال بن جائے، کیونکہ ہمارے صحابہ رضی اللہ عنہم نے اخلاق اور تلوار دونوں کا استعمال کیا تھا ، حق کی خاطر کئی بار تلواریں بھی اٹھائی ہیں،لیکن افسوس! آج ہم حکمت کے نام پہ اس حقیقت کو فراموش کرچکے ہیں ، جبکہ مظاہرہ کرنا ہی ہے تو دونوں کا مظاہرہ کرنا ضروری  ہےتاکہ ہمارے نوجوانوں کا حوصلہ بڑھے ، ورنہ اللہ نہ کرے جس طرح انگریزوں کے دور میں ہندوستانی انکے گھروں کی صفائی کیا کرتے تھے اسی طرح آج ہمارے نوجوان غیر مذاہب کے مقامات پہ صرف صفائی ہی کرتے رہ جائیں گے۔اگر صرف حسنِ اخلاق سے ہی سب کچھ ہوتا تو اُس دور میں اتنی جنگیں نہیں لڑی جاتی، نہ ہی کربلا کا واقعہ پیش آتا ۔

اس لئے حکمت کے ساتھ جوش ضروری ہے، حسن اخلاق کے ساتھ ظالم کے خلاف جنگ بھی ضروری ہے، ویسے قوم کو اپنے علماء اکابرین سے بہت ساری امیدیں جڑی ہیں کیونکہ ہمارے لئے ہمارے اکابرکا مقام بہت بلند ہے اسلئے ہم ان کی اس قدر بےقدری برداشت نہیں کرسکتے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔