ہند پاک دوستی کے راستے کو آسان کریں

مشرّف عالم ذوقی

ہمارے معاشرے کے لوگوں کی سوچ منفی بنا دی گیی ہے۔ پاکستان کے عوام نے عمران خان میں امید ظاہر کی ہے، تو ہم بھی پاکستانی عوام کے ساتھ اس نیی تبدیلی کا استقبال کرتے ہیں۔ ۔اس بار سب سے اچھی بات یہ ہوئی کہ عوام نے دہشت پسند تنظیموں کو کنارے لگا دیا۔ ہم بھی چاہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان جو تلخی آ گیی ہے، سب سے پہلے ہم اس ماحول کو خوشنما بنائیں۔ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری باجپییی نے کہا تھا کہ دوست سے زیادہ حق پڑوسی کا ہوتا ہے۔ تجارتی رشتے اب بھی قاییم کیے جا سکتے ہیں۔ ماضی کو گلے لگاہے رکھنے سے کبھی مسائل کا حل نہیں نکلے گا۔ ۔پاکستان کے بارے میں میری یہ پہلی پوسٹ ہے۔ ۔اگر آپ نے غور کیا ہو تو یہ بھی دیکھئے کہ ہندوستان سے کسی بھی جینوئن تخلیق کار نے کبھی پاکستان کے خلاف کویی بیہودہ بات نہیں لکھی جبکہ مجھے کیی پوسٹ ایسے نظر اہے جہاں ہندوستان کو نشانہ بنایا گیا۔ ۔جو ہمارے اپنے مسائل ہیں، وہ ہم ٹھیک کر لینگے۔

ہندوستان میں شاندار جمہوریت کی روایت رہی ہے اور آگے بھی رہیگی۔ ۔کسی بھی طرح کے ماحول میں ہمارے ہندو بھایی ہمیں سہارا دینے کے لئے ہمیشہ موجود ہوتے ہیں۔ ۔سکھ رمضان کے موقع پر نماز کی ادایگی کے لئے گردوارے میں جگہ دیتے ہیں۔ ابھی ہریانہ میں کچھ جاٹوں نے مل کر مسجد کی تعمیر کی۔ ایسے واقعات بھی ہزاروں ہیں۔ لیکن ہم اچھی سوچ کی جگہ منفی رویوں کو ہی سامنے رکھتے ہیں۔ بہت حد تک آج بھی سیاست سے سماج تک دونوں ملکوں کا کردار ایک جیسا رہا ہے۔ ۔ کرپشن ہو، دھاندھلی ہو یا سیاست میں تبدیلی کی آواز، ہم ایک جیسا کردار ادا کرتے ہیں۔ کیوں ؟ کیونکہ ہماری زمین ایک رہی ہے۔ ہم منصف بھی ہیں، قاتل بھی، ہمدرد بھی، بکاؤ بھی، با ضمیر بھی۔ ڈاکو بھی رحم دل بھی۔

یہ دنیا کی کسی بھی سیاست میں ایک بڑی تبدیلی کی طرف اشارہ ہے۔ ہمارے یہاں ساؤتھ سے ایم جی آر اور این ٹی آر وزیر ا علیٰ رہ چکے ہیں۔ یہ دونوں فلموں کے مشہور اداکار تھے۔ امیتابھ، راجیش کھنہ، دھرمیندر، ہیما ما لنی، جیا پردہ، ونود کھنہ سیاست میں تو اہے لیکن ناکام ہی ثابت ہوئے۔۔ساؤتھ سے ہی کمل ہاسن اور رجنی کانت جیسے عظیم اداکاروں نے سیاست میں قدم رکھ کر بدلتے موسموں کی پیشن گویی کر دی ہے۔ کمل ہاسن کی نیی فلم کا موضوع بھی سیاست ہے۔ رجنی کانت نے کالا میں پہلی بار دلتوں کی طرف سے طاقتور صدا بلند کی اور جے بھیم کے نعرے لگاہے۔ خاموشی سے ہی انقلاب آتا ہے۔ ابھینو سنہا نے اپنی نیی فلم ملک میں کچھ بہتر سوالوں کو اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ اب پاکستان میں ملک کی باگ ڈور ایک کریکٹر کو ملی ہے۔ کریکٹر کامیابی اور ناکامی دونوں کے بارے میں جانتا ہے۔ اسکے یہاں مخصوص سپورٹ مین شپ ہوتی ہے، جو اسے زیادہ جذباتی ہونے سے روکتی ہے۔ ۔ہم اس نیی تاریخ کا استقبال کریں اور دونوں ملکوں کے عظیم رشتے کو خوشگوار بنانے میں اپنا تعاون دیں۔

ابھی دونوں ملکوں کی زمین بارودی ہے۔ عمران کے لئے بھی ہزار الجھنیں ہیں۔ ۔کیا روس، چین، امریکہ کو ساتھ لے کر چلنا آسان ہے ؟ پہلا مسلہ تو یہیں سے شروع ہوگا۔ عمران خان نے روس کا نام نہیں لیا۔ اب روس مضبوط اور تخریبی طاقتوں میں سے ایک ہے۔ ۔کیا افغانستان کا دل جیتنا آسان ہوگا؟

ان چیلنجیز کو پورا کرنے کے لئے ہمیں بغیر جذباتی ہوئے عمران خان کو وقت دینا ہوگا۔ ۔۔اب وہ پاور میں ہیں تو انتقامی کاروایی سے جس قدر گریز کریں گے، اس کا فائدہ انہیں ملے گا۔ فوج، علماء کے ساتھ توازن بنانا ضروری لیکن اہم فیصلوں کے لئے عمران کو اپنی بصیرت کا ثبوت دینا ہوگا۔

دونوں ملک کے عوام منفی فکر سے باہر نکلیں۔ ایک دوسرے لئے صرف محبت تقسیم کریں۔ ۔بہتر راستہ اس محبت سے بھی پیدا ہوگا۔ ہم اگر بضد ہو جاییں کہ ہند و پاک کا مسلہ کبھی حل  ہونے والا نہیں ہے تو یہ ہماری بھول ہے۔ برلن کی دیوار گر سکتی ہے تو یہ مسلہ  بھی حل  ہو سکتا ہے بشرطیکہ دونوں ملکوں کے سر برہان سنجیدگی سے اسکا حل  تلاش کرنا چاہیں۔ ابھی حال  میں کم جونگ ان شمالی کوریا کے پہلے رہنما ہیں جو سنہ 1953 کی کورین جنگ کے اختتام کے بعد سرحد پار کر کے جنوبی کوریا میں داخل ہوئے۔ جنوبی کوریا کے صدر مون جے اِن نے اس تاریخی موقعے پر شمالی کوریا کے رہنما سے گرمجوشی سے مصافحہ کیا۔ جب یہ دونوں مل کر نیے  دور کی شروعات کر سکتے ہیں تو ہم بھی کر سکتے ہیں۔ اگر ہم ماضی کو دہراتے رہے، لگاتار سرجیکل ا سٹرائیک اور بد گمانیوں میں الجھے  رہے تو ظاہر ہے، معاملے کی پیچیدگیاں دور نہیں ہونگیں۔ عمران خان کی آمد کے بعد پاکستان میں ایک نیی سیاست کا آغاز ہو سکتا ہے۔ اگر وہ دوستی کے لئے قدم بڑھاتے ہیں تو ہندوستانی حکومت کو بھی سنجیدگی سے بہتر اور خوشنما ماحول میں نیے مکالموں کی شروعات کرنی ہوگی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔