آدمی مختار ہوکر کس قدر مجبور ہے!

حفیظ نعمانی

ترقی پسند شاعروں میں نیاز حیدر اپنے زمانہ میں بہت بڑا نام تھا وہ لکھنؤ کے رہنے والے نہیں تھے لکھنؤ کو کیا سمجھتے تھے اس کا اندازہ ایک مصرعہ سے کیا جاسکتا ہے۔ جو انہوں نے ایک نظم شروع کرتے ہوئے کہا تھا۔

؎  میں آج اس مرکز تمدن سے تجھ کو آواز دے رہا ہوں

اور یہ تو ہزاروں کی زبان نے کہا اور لکھا ہوا پڑھا ہے کہ نوابوں کا شہر لکھنؤ لیکن اس مرکز تمدن اور نوابوں کے شہر کو سیاسی لیڈروں اور نیتائوں نے لفنگوں کا شہر بنا دیا ہے۔

انگریزوں کے جانے کے بعد جب اپنے لوگوں کی حکومت اسمبلی میں 1952 ء نظر آئی تو اس وقت نوجوان بڑے شوق سے گیلری کے پاس گیلری میں جاکر بیٹھتے تھے۔ یہ پاس ایم ایل اے کی سفارش پر بہت آسانی سے مل جاتے تھے۔ حکومت اور حزب مخالف کی نوک جھونک جو صرف نام کے لئے ہوتی تھی۔ وہی اچھی لگتی تھی۔ یہ بات شاید 1957 ء کی ہے کہ پرجا سوشلسٹ پارٹی کی 44  سیٹیں آئی تھیں ۔ بابو ترلوکی سنگھ پارٹی کے لیڈر تھے۔ انہوں نے کوئی ترمیم پیش کی جسے حکومت نے ردّ کردیا۔ بابو ترلوکی سنگھ نے کہا کہ ہم اس وقت صرف 44  ہیں لیکن اگلے الیکشن میں جب 144  جیت کر آئیں گے تو حکومت کے اوپر دفعہ 144  نافذ کردیں گے اور حکومت کو ہماری ترمیم قبول کرنا پڑے گی۔ اس وقت بابوجی کا یہ جملہ اتنا اچھا لگا تھا کہ برسوں اس کا حوالہ دیا اور ہمیں اب تک یاد ہے۔

یہ جملہ مرکز تمدن کی ترجمانی بھی کررہا تھا اور نوابوں کے شہر کی بھی۔ وقت گذرتا گیا اور معیار بلند ہونے کے بجائے روز بروز گرتا گیا اور نوبت یہ آگئی کہ اجلاس کی ابتدا میں پڑھا جانے والا خطبہ جو شروع میں اتنی خاموشی اور سکون کے ساتھ سنا جاتا تھا کہ سانس لینے کی آواز بھی سن لی جاتی تھی۔ وہ رفتہ رفتہ اس مقام پر آگیا کہ شاید 20  برس یا اس سے بھی زیادہ عرصہ کے بعد اس سال پورا پڑھا گیا ہے۔ ورنہ گورنر آتے تھے اور خطبہ کا پہلا جملہ اور آخری جملہ پڑھ کر چلے جاتے تھے اور مان لیا جاتا تھا کہ خطبہ پڑھ دیا گیا۔

کانگریس کے زمانہ میں جب مخالف پارٹی یا پارٹیوں نے یہ غنڈہ گردی کی تو پھر ایسی عام ہوئی کہ صرف شور اور ہنگامہ نہیں آخری درجہ کی بدتمیزی ہونے لگی اور یہ خطرہ محسوس ہونے لگا کہ کہیں گورنر بھی زخمی نہ ہوجائیں ؟ آج کے ہر اخبار میں اس خبر کو ابھارا گیا ہے کہ سابق وزیر اعلیٰ بابو اکھلیش یادو بیٹھے بیٹھے مسکراتے رہے۔ وہی اکھلیش یادو جو اسی گورنر کو تین برس سے احترام کے ساتھ لاتے تھے اور سوامی پرساد موریہ کی غنڈہ گردی سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے اس لئے کہ مہامہم گورنر صاحب جو خطبہ پڑھتے تھے وہ سماج وادی پارٹی کا تیار کیا ہوا ہوتا تھا اور وہ جانتے ہیں کہ اب وہی گورنر جو خطبہ پڑھیں گے وہ یوگی حکومت کا تیار کیا ہوا ہوگا۔

بجٹ سیشن جسے گورنر خطاب کرتے ہیں وہ مشترکہ اجلاس ہوتا ہے۔ اس لئے کائونسل کے ممبر ہوتے ہوئے اکھلیش بابو وہاں موجود تھے۔ ان کا تو فرض تھا کہ وہ اپنی پارٹی کے لوگوں سے کہہ دیتے کہ ان کی طرف سے ہلکی سی بھی کوئی حرکت نہ ہو۔ مایاوتی کے 30  کے قریب جو ایم ایل اے اور ایم ایل سی موجود تھے وہ جو چاہتے کرتے۔ یہی گورنر ہیں جن سے تین بار اکھلیش نے اپنا قصیدہ پڑھوایا اور جب وہ اپوزیشن لیڈر یا سابق وزیر اعلیٰ ہیں تب بھی چند دن پہلے وہ ملنے کے لئے گئے تھے اور ان سے اچھے ماحول میں بات چیت کی تھی۔

بی ایس پی کے ممبر جو گذشتہ پانچ برس میں جیسی جیسی غنڈہ گردی کرتے رہے وہ ملائم سنگھ کے ممبروں کا وہ جواب تھا جو انہوں نے 2007 ء سے 2012 ء تک ان کے ساتھ کیا اور اب اگر کرتے ہیں تو اس لئے کہ ان کو یقین ہوگیا ہے کہ اب وہ واپس نہیں آئیں گے۔ لیکن اکھلیش بابو کو تو یہ سوچ کر ہر قدم اٹھانا ہے کہ جب بی جے پی کے فریب کی چادر ایسے ہی تار تار ہوجائے گی جیسے تین برس میں مرکز میں ہوگئی تو ان کو ہی واپس آنا ہے اور اس وقت بی جے پی کی طرف سے اگر شور ہو تو اتنی بات کہنے کی گنجائش تو رکھنا چاہئے کہ ہم جب مخالف کرسیوں پر بیٹھے تھے تو ہم نے ایک سنجیدہ حزب مخالف کا کردار ادا کیا تھا۔

گورنر کے خطبہ کے موقع پر مخالف ممبروں کی غنڈہ گردی اُترپردیش سے ملک کے ہر صوبہ میں وباء کی طرح پھیل گئی ہے۔ کشمیر جیسے چھوٹے اور ٹھنڈے صوبہ میں بھی بار بار یہ منظر دیکھنے میں آتا ہے کہ گورنر کو اپنی عزت بچانا مشکل ہوجاتی ہے۔ ہر صوبہ کو نہ جانے کیا شوق ہے کہ وہ اجلاس کے لئے ٹی وی کے دروازے کھول دیتے ہیں ۔ اسی لئے اُترپردیش کے گورنر کو بار بار کہنا پڑا کہ پورا صوبہ دیکھ رہا ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ ہم جن کا کسی پارٹی سے کوئی تعلق نہیں شرمندگی محسوس کررہے تھے کہ یہ ہے وہ مرکز تمدن جہاں ریاست کے سب سے بڑے عہدیدار کو کاغذ کے گولوں سے ایسے مارا جارہا ہے جیسے شرعی عدالت کے حکم سے شادی شدہ زانی کو سنگسار کیا جاتا ہے۔

یہ نہ جانے کیا بات ہے کہ مرکزی حکومت اور صدر جمہوریہ اس غنڈہ گردی سے بچی ہوئی ہیں ۔ لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کب تک خیریت رہے گی؟ اور جس دن شیطان نے انگلی دکھادی اسی دن گندے انڈے اور ٹماٹر صدر کی خدمت میں بھی برسنے لگیں گے۔

دُکھ اس بات کا ہے کہ پہلی پارلیمنٹ کے ممبروں سے پنڈت نہرو کو کہنا پڑا تھا کہ جب ہاؤس میں آیا کریں تو رات کے کپڑے بدل کر دوسرے پہن کر آیا کریں ۔ کتنے سادہ اور شریف تھے وہ لوگ جنہوں نے آزادی حاصل کی تھی اور جو اُن کے جوتوں کے طفیل میں آزاد ہونے والے ملک کے وزیر بنے ہوئے ہیں وہ 100  روپئے میٹر کے کھدر کا کرتہ پہنتے ہیں یہ وہ کپڑا ہے جو واقعی کھدر ہے مگر ڈھاکہ کی اس ململ کے تھان جیسا ہے جو انگوٹھی میں سے نکل جاتا تھا اور اسپیکر صاحبہ فرماتی ہیں کہ ہر ممبر کو ہر وقت ہوائی جہاز ملنا چاہئے انہیں آنے جانے کی جلدی ہوتی ہے اور اب پارلیمنٹ کے ممبروں کی ہوس کا یہ عالم ہے کہ جو ہزاروں روپئے پارلیمنٹ سے ملتا ہے وہ بھی ان کو پورا نہیں پڑتا اور وہ آمدنی کے لئے دوسرے وہ کام کرتے ہیں جنہیں بے شرم لوگ کرتے ہیں ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔