حفاظتی ٹیکے اور دشواریاں

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

بچے کلیوں کی طرح کومل ہوتے ہیں ۔ وہ ہوا میں تیرتے وائرس اور بیکٹریا کا مقابلہ نہیں کرپاتے۔ اس لئے انہیں انفیکشن کا خطرہ زیادہ رہتا ہے۔ پہلے دنیا بھر میں ڈائریا، نمونیا، چیچک، خسرہ، ملیریا، ہیپ ٹائٹس بی، ڈپ تھیریا (گل گھوٹو، کالی کھانسی) سے بچے مرجاتے تھے۔ ٹیٹنس اور پولیو سے بھی بچوں کے اپاہج ہونے یا مرنے کا امکان رہتا ہے۔ ویکسین کے وجود میں آنے کی بات کریں تو دوسو سال قبل 1796 میں یونائیٹڈ کنگڈم کے ایڈورڈ جینیر نے چیچک سے حفاظت کیلئے ویکسین تیار کی تھی۔ ان دنوں چیچک ایسی بیماری تھی جو مہاماری کی شکل اختیار کرلیتی تھی۔ سو سال قبل 1885 میں ڈاکٹر لوئس پاسٹر نے ریبیژ سے بچائو کا کامیاب تجربہ کیا۔ آوارہ کتوں کے کاٹنے سے بچے اور بڑے ریبیژ سے متاثر ، یہاں تک کہ کئی  اس بیماری کی وجہ سے موت  کا  نوالہ بن جاتے تھے۔

بیسویں صدی کے وسط میں جونس سالک اور البرٹ سابن نے باقاعدگی سے حفاظتی ٹیکوں کی شروعات کی۔ انہوں نے انیٹی  ویٹڈ اور لائیو پولیو ویکسین ایجاد کرلی تھی۔ ان کی تیار کردہ دوا سے دنیا بھر میں لاتعداد بچے پولیو سے محفوظ ہوئے۔ پولیو کی بیماری کی وجہ سے کتنے ہی لوگوں کی زندگی وہیل چیئر اور بیساکھی پر منحصر ہوجاتی تھی۔ اس ویکسین کے آنے سے اس میں کمی آئی۔ ایمونائزیشن جدید طب کی ایک کامیاب کہانی ہے۔ اس کی وجہ سے چیچک جیسی بیماری کا 1977 میں دنیا سے خاتمہ ہو گیا۔ ویکسین کی مانگ بڑھنے سے ترقی پذیر ممالک میں ڈرامائی طریقہ سے ویکسین کے ریٹ بڑھنے لگے۔ 1974 میں عالمی ادارہ صحت(WHO) اور یونیسیف کے قیام کے بعد ٹیکہ کاری میں انقلابی تبدیلی آئی۔ عالمی ادارہ صحت نے ایکسپینڈیڈ پروگرام آن ایمونائزیشن (EPI) بنایا۔ اس کے مطابق یہ ہدف مقرر کیاگیاکہ دنیا بھر کے تمام بچوں کو بچپن میں ہونے والی چھ بیماریوں سے حفاظت کیلئے مفت ٹیکے فراہم کئے جائیں ۔ اس کام میں یونیسیف نے عالمی ادارہ صحت کے ساتھ مل کر کام کیا۔ ای پی آئی کے تحت ڈپ تھیریا  ، کالی کھانسی، گل گھوٹو، پولیو، ڈائریا، خسرہ اور ٹیٹنس کے ٹیکے دیئے جاتے تھے۔

بھارت میں عالمی ادارہ صحت اور یونیسیف ای پی آئی کے تحت بچوں کو ٹیکے دینے کا کام کرتا تھا۔ بچوں کو اسکولوں میں اسمال پوکس، ٹی بی، ڈپ تھیریا، پولیو، ڈائریا خسرہ اور ٹیٹنس سے بچانے کے ٹیکے د ینے کاانتظام کیا جاتا تھا۔ لیکن یہ کام مستقل طورپر نہیں ہوپاتا تھا یا پھر جو بچے اس دن اسکول میں نہیں ہوتے وہ اس سے محروم رہ جاتے تھے۔ ان تک ٹیکے پہنچانے کا کوئی باضابطہ انتظام نہیں تھا۔ اس لئے بچوں کی  شرح اموات ہمارے یہاں بہت زیادہ تھی۔ لاکھوں بچے اپنی پہلی اور کتنے ہی بچے پانچویں سالگرہ نہیں دیکھ پاتے تھے۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے بھارت سرکار  کی  وزارت صحت نے  1985 میں یونیورسل ایمونائزیشن پروگرام (یوآئی پی) شروع کیا۔ سرکار نے پرائمری ہیلتھ سینٹر، سب سینٹر، ضلع اسپتال، آنگن واڑی مراکز کو اس پروگرام کے ساتھ جوڑا۔ آشا ورکر، آنگن واڑی کارکنان اور صحت سے جڑے رضاکاروں کی مدد سے ہمارے دیش میں ایمونائزیشن پروگرام کامیابی کی طرف بڑھا۔  ان کی محنت کے نتیجہ میں ہی عالمی ادارہ صحت نے بھارت کو فروری2014 میں پولیو فری ملک ہونے کے خطاب سے نوازا۔

وزارت صحت میں یوآئی پی کے ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر ایم کے اگروال نے بتایاکہ اس وقت  گیارہ بیماریوں سے لڑنے کے ٹیکے ہمارے دیش میں موجود ہیں ۔ ان میں ڈی پی ٹی، بی سی جی، پولیو، ٹیٹنس، ہیپ ٹائٹس بی، پینٹاویلین اور خسرہ روبیلا (ایم آر) خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ دیش نے ایمونائزیشن میں اتنی ترقی کی ہے کہ وائرس اور بیکٹریا سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے ہم اپنے بچوں کو محفوظ رکھ سکتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ مشن اندر دھنش کے تحت ان بچوں تک بھی پہنچنے کا منصوبہ بنایاگیا جو ٹیکہ کاری کیمپوں تک نہیں آپاتے۔ مثلاً اینٹ کے بھٹوں یا تعمیراتی سائٹوں پر کام کرنے والی خواتین کے بچے، کارخانوں ، فیکٹریوں یادہاڑی پر کام کرنے والی عوروتوں کے بچے وغیرہ۔ اس خصوصی مہم کا مقصد سو فیصد بچوں تک ٹیکے پہنچانا ہے کیوں کہ ایک بھی بچہ اگر چھوٹ جاتا ہے تو وائرس، بیکٹریا سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا پوری طرح خاتمہ نہیں ہوپاتا۔

ڈاکٹرپردیپ ہل دھر ڈپٹی کمشنر (آئی ایم ایم) وزارت صحت نے بتایاکہ لوگ سوال کرتے ہیں کہ بچوں کو ٹیکے کیوں لگوائے جائیں ؟ جبکہ کئی ٹیکے ایسے ہیں جن کے لگنے سے انہیں بخار آجاتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ بچے اتنے کمزور اور چھوٹے ہوتے ہیں کہ انہیں کوئی کھانے کی دوا نہیں دی جاسکتی اور نہ ہی چھ ماہ تک انہیں کچھ پلایا جاسکتا ہے صرف ماں کے دودھ کے۔ایسی صورت میں انہیں وائرل یا بیکٹریل انفیکشن سے کیسے بچایا جائے؟ ان کا ماننا ہے کہ بچوں کوصرف ٹیکوں کے ذریعہ ہی محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ ٹیکے ہر طرح سے محفوظ ہوتے ہیں انہیں خاص درجہ حرارت پر رکھا جاتا ہے ۔ٹیکوں کو کئی مراحل کے حفاظتی دور سے گزرنے کے بعد  وقت مقررہ کے اندر ہی استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ اس معاملے میں سرکار کسی بھی طرح کی لاپروائی برداشت نہیں کرتی۔ اگر کسی انہونی کی خبر آتی ہے تو اس  پر سنجیدگی سے  کاروائی کی جاتی ہے اور اس سے نپٹنے کا ایک طے شدہ طریقہ کار ہے جس میں کولڈ چین سے لیکر ٹیکہ لگائے جانے والے بچے تک جتنے لوگ ملوث ہوتے ہیں ان سب کے کام کا  اور حالات کاجائزہ لے کر  تب کسی نتیجہ پر پہنچا جاتا ہے ۔  انہوں نے بتایاکہ ہر سال ہمارے ملک میں 2.6 کروڑ بچے پیدا ہوتے ہیں ۔ ان میں سے 13 فیصد نمونیا اور 10 فیصد ڈائریا سے موت کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ دنیا بھر میں خسرہ روبیلا سے ہونے والی اموات میں 39 فیصد موتیں صرف  بھارت میں ہوئی ہیں ۔ جو تقریبا 30سے 35ہزار ہیں ۔ سرکار نے خسرہ روبیلا سے بچوں کو بچانے کیلئے ایم آر ٹیکہ لانچ کیا ہے جو سبھی اسکول جانے والے بچوں کو مرحلہ وار دیا جارہا ہے۔ یہ ٹیکہ 9 ماہ سے 15 برس تک کے تمام  بچوں کو دیا جائے گا۔ جو بچے اسکول نہیں جاتے ان تک بھی ٹیکے پہنچانے کا انتظام کیا جارہاہے۔ ایک بار تمام بچوں کو یہ ٹیکہ دیئے جانے کے بعد MR ٹیکہ کو معمول کی ٹیکہ کاری میں شامل کر دیا جائے گا۔اور دوسرے ٹیکوں کے ساتھ  بچوں کو دیا جا سکے گا ۔

ایمونائزسیشن پروگرام میں آنے والی دشواریوں پر بات کرتے ہوئے مشہور اداکارہ شبانہ اعظمی نے کہا کہ معلومات کی کمی، تعلیم نہ ہونے اور افواہوں کے چلتے ٹیکہ کاری مہم کی رفتار دھیمی رہی ہے۔ ابھی تک 66 فیصد بچوں تک ہی ٹیکے پہنچ سکے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ صحیح معلومات صحیح ذرائع سے  لوگوں تک پہنچانے کی ضرورت ہے ۔نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کی رپورٹ کے مطابق ریاستو ں میں ٹیکہ کاری میں اضافہ ہوا ہے ۔ ان ریاستوں میں دوگنا بچوں کو ٹیکے لگے ہیں ۔2005-06 کے دوران بہار میں صرف 32.8 فیصد بچوں کو ٹیکے لگے تھے لیکن 2015-16 میں یہ آنکڑا61.7 فیصد پہنچ گیا ہے۔ اسی طرح یوپی میں 32فیصد سے بڑھ کر یہ 51 فیصد ہوگیا۔  جبکہ دہلی میں 66.4فیصد بچے ٹیکوں کے دائرے میں ہیں ۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میڈیکل کالج میں پڈیاٹر کس کے پروفیسر تبسم شہاب نے کہاکہ ٹیکوں سے کسی طرح کا خطرہ ہو ہی نہیں سکتا کیوں کہ ٹیکے حفاظتی گائڈ لائن کے مطابق تیار کئے جاتے ہیں ۔ مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ٹیکے لگنے سے بچے نامرد ہوجاتے ہیں یہ سراسرافواہ اور جہالت کی بات ہے۔ غلط فہمیوں کے چلتے ہی ہمیں پولیو کو اپنے ملک سے ختم کرنے میں 2014 تک انتظار کرنا پڑا۔ انہوں نے کہاکہ سبھی بچوں کو ایک ہی ویکسین دی جاتی ہے تویہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ٹھیک رہے اور دوسرا نامرد ہوجائے۔ دراصل کچھ لوگ یہ کام جان بوجھ کر کرتے ہیں تاکہ کمزور طبقات ہمیشہ کمزور ہی رہیں ۔ مولانا آزاد یونیورسٹی کے وائس چانسلر اخترالواسع نے کہاکہ ٹیکہ کاری ہر بچے کا حق ہے یہ اسے بروقت ملنا چاہئے۔ کیوں کہ اس سے بچوں کو مہلک بیماریوں سے نجات مل جاتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ تمام والدین کو اپنے بچوں کو ان کا یہ حق دلانا چاہئے تاکہ صحت مند معاشرہ تیار ہوسکے۔

ٹیکہ کاری ایسا کام ہے جسے سرکار اکیلے نہیں کرسکتی۔ ٹیکے مشترک کوشش سے ہی ہربچے تک پہنچ سکتے ہیں ۔ سماج اور سول سوسائٹی کو عوامی صحت کیلئے حساس ہونا ہوگا۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم خود بھی صحت مند رہیں اوراپنے آس پڑوس کے لوگوں کو صحت مند رکھنے کیلئے ان کی مدد کریں ۔ غلط فہمیوں اور افواہوں کو پھیلنے نہ دیں ۔ اپنے گائوں ، علاقے اور بستی میں بیداری پیدا کریں ۔ ان کاڈر دور کران میں اعتماد پیدا کریں ۔ اس کام میں سرکاری عملے کو بھی مدد کرنی ہوگی۔ کمیونٹی لیڈروں ، مذہبی رہنمائوں ،اسکول، کالج، یونیورسٹی کے اساتذہ، میڈیا اور سماجی تنظیموں کو اس کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے۔تاکہ معمول کی ٹیکہ کاری کی راہ میں آرہی دشواریاں دور ہوں اورسوفیصد بچے ایمونائز۔ تبھی یہ امید کی جاسکتی ہے کہ ہماری آئندہ نسل صحت مند اوربیماریوں سے محفوظ ہوگی۔

تبصرے بند ہیں۔