دلتوں سے نفرت نہ کرو اُن کو علم سکھاؤ

حفیظ نعمانی

بہوجن سماج پارٹی میں طرہ کہ اور مایاوتی کی غلامی میں ہائوس کے اندر نیلی ٹوپی پہن کر پانچ برس تک غنڈہ گردی کرنے والے موریہ نے جب مایاوتی کو چھوڑا تھا تو الزام لگایا تھا کہ ٹکٹ دینے کے لئے وہ مجھ سے بھی پیسے مانگ رہی تھیں ۔ جس کے جواب میں مایاوتی نے کہا تھا کہ صرف اپنے لئے نہیں بیٹے اور بیٹی کے لئے بھی ٹکٹ مانگ رہے تھے اور انہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ میں انہیں نکالنے والی ہوں اس لئے وہ بھاگ گئے۔ انہوں نے جب پارٹی چھوڑی تو سماج وادی پارٹی کو اُمید تھی کہ وہ اُن کے ساتھ آجائیں گے۔ لیکن 70  سال سے دلت کی صرف ایک حسرت ہے کہ اسے ہندو مانا جائے۔ اور اپر کلاس سب کچھ  دینے پر تیار ہے انہیں ہندو بنانے پر تیار نہیں ۔ یہی جذبہ تھا جو انہیں کانگریس سے توڑکر لایا اور یہی حسرت ہے جو انہیں بی جے پی میں لائی ہے۔

ہندوؤں میں ایک تو ہندو سماج ہے اور ایک ہندو سرکار ہے۔ سرکار کی ضرورت تو جب ضرورت پڑے ایک ووٹ کی ہے۔ لیکن سماج کا مسئلہ زندگی بھر اور سکون کا ہے۔ نریندر مودی اور امت شاہ نے یہ دیکھ لیا کہ وہ شمالی ہند میں صرف اونچی ذات کے آر ایس ایس معرکہ ہندوؤں کے بل پر حکومت نہیں کرسکتے۔ انہیں یا تو مسلمان کی حمایت ملے یا دلتوں کی۔ مسلمان کا لینا ایسی ٹیڑھی کھیر ہے کہ انہیں لے لیا تو وہ ہمیں پیچھے کھڑا کردیں گے۔ اس لئے سارا زور دلتوں پر لگا دیا۔ اور یہ سوچ کر لگایا کہ یہ ووٹ بھی دیتے رہیں گے اور امت شاہ اور مودی کی مالا بھی جپتے رہیں گے۔ جب ووٹ لینے کی ضرورت تھی تو گیارہ مقدموں میں پھنسے ایک موریہ کو اُترپردیش بی جے پی کا صدر بنا دیا۔ سوامی پرساد موریہ سیاست میں ہی نہیں وزن میں بھی صدر سے بڑا موریہ تھا اس نے سوچا کہ اب بی جے پی وزیر اعلیٰ بھی موریہ کو بنائے گی تو اپنی طاقت اور اپنی حمایت کا ہلکاسا نمونہ دکھاکر بی جے پی میں چلے گئے جہاں کوئی یہ نہیں دیکھ رہا تھا کہ کون جب کہاں تھا تو کس دیوی دیوتا اور بی جے پی بڑے بڑے لیڈر کو گالیاں دیا کرتا تھا۔

الیکشن ختم ہوئے تو سوامی پرساد موریہ کو بھی وزیر بنا دیا گیا کیونکہ وہ پانچ برس حزب مخالف کے لیڈر رہے تھے۔ موریہ نے یہ دیکھا کہ ہر لیڈر تین طلاق کی بات کررہا ہے تو ان کی رگ بھی پھڑکی۔ اور انہوں نے وہ کہہ دیا جو ایک موریہ ہی کہہ سکتا ہے جس کی پرورش اور جس کا لڑکپن اور جوانی وہاں گذری ہو جہاں ہندو کیا مسلمان بھی جانا پسند بھی نہیں کرتے۔ جس خاندان کا جو پیشہ ہوتا ہے اور جس کی برادری میں جو ہوتا ہے وہ اس کی رگ رگ میں بس جاتا ہے۔ موریہ نے بچپن سے لے کر جوانی تک مردوں کے ہوس پوری کرنے کے معاملات نہ جانے کتنے دیکھے اور سنے ہوں گے۔ انہوں نے اپنے ناپاک منھ سے وہی اُگل دیا جو اپنے سماج میں دیکھا تھا۔

جاہل آدمی کا ایک جواب تو یہ ہے کہ ’’جواب جاہلاں باشد خموش‘‘ کہ جاہلوں کا جواب خاموشی ہے۔ دوسرا یہ ہے جاہل کی جہالت پر اس کی اصلاح کردی جائے۔ سوامی پرساد موریہ کو اور کم عقل ہندوئوں اور جاہل مسلمانوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ مسلمان کو چار شادی تک کرنے کا قانون انسانوں نے نہیں بنایا ہے۔ مدینہ کے قریب جب مکہ کے کافروں نے مدینہ کے مسلمانوں پر احد نام کے پہاڑ پر آکر حملہ کیا تو وہ جنگ بڑھ گئی اور اس میں 72  مسلمان شہید ہوگئے۔ جب حالات نارمل ہوئے تو ان عورتوں کا مسئلہ سامنے آیا جن کے شوہر شہید ہوگئے تھے۔ تب پاک پروردگار نے قرآن کی آیت نازل کی کہ ان بیوہ عورتوں اور یتیم بچوں کا مسئلہ اس طرح حل کرلیا جائے کہ جو صاحب حیثیت مسلمان ہیں وہ ان سے نکاح کرلیں اور بچوں کو یتیمی کا احساس نہ ہونے دیں ۔ اس کے لئے حالات ہوں تو دو تین بلکہ چار تک ایک وقت میں بیویاں رکھ لیں ۔ لیکن اس کا خیال رہے کہ سب کے ساتھ ایک سا سلوک کیا جائے اور بچوں کی پرورش اور تعلیم میں ان کی رہنمائی کی جائے۔ یہ مسلمان بادشاہ یا کسی وزیر اعظم یا صدر جمہوریہ کا نہیں اس اللہ تعالیٰ کا قانون ہے اور اس کی کتاب قرآن پاک میں موجود ہے اگر اسلامی حکومت میں کوئی اتنی ذلیل بات کہتا تو اس کی گردن مار دی جاتی۔ سوامی ہندی جانتے ہیں ۔ ان کا فرض ہے کہ وہ ہندی ترجمہ والا قرآن شریف پڑھ لیں ۔ اسلام کے جتنے قانون ہیں وہ نکاح ہو طلاق ہو زندگی ہو موت ہو ایک شادی ہو یا دو شادی ہوں ہر ایک قرآن میں موجود ہے مسلمانوں کا دستور اور قانون سب اسی میں ہیں ۔

اسلام نے تو ہوس کے دروازے بند کرنے کے لئے ایک کے بعد چار تک اجازت دی ہے۔ جن دھرموں نے پابندی لگائی ہے ان کا انجام یہ ہے کہ ہم نے خود ان ہندوئوں کو مسلمان ہوتے ہوئے بھی دیکھا ہے جو چوری چوری مسجد کے امام کے پاس آکر مسلمان ہوجاتے ہیں اور بعد میں عدالت میں جاکر دوسری شادی کسی داشتہ سے کرلیتے ہیں ۔ اور یہ جگہ جگہ ہورہا ہے۔ یا انگریزوں نے جو فوجیوں کی ہوس پوری کرنے کے لئے جو جسم فروشی کے بازار ہر بڑے اور چھوٹے شہروں میں لگادیئے تھے۔ آزادی کے بعد کلکتہ، ممبئی، بنگلور، دہلی اور چنئی میں آج بھی سرکاری لائسنس سے چل رہے ہیں جس میں جس مذہب جس ملک جس برادری جس ذات اور جس طبقہ کی جیسی صورت کی لڑکی چاہو مل جاتی ہے۔ شرط یہ ہے کہ جیب میں پیسے ہوں ۔

سوامی پرساد موریہ زبان کھولتے وقت اپنی حیثیت نہ بھولیں ۔ انہیں مودی جی نے ان کی قابلیت کی بناء پر وزیر نہیں بنایا ہے بلکہ وہ جو مشہور مقولہ ہے کہ بھوک میں کواڑ بھی پاپڑ معلوم ہوتے ہیں ۔ وہ کواڑ ہیں لیکن ضرورت نے ان کو پاپڑ بنا دیا ہے۔ امت شاہ اور ان سے پہلے راہل، دلتوں کے گھروں میں ان کا پکا کھانا کھانے کی بہت نوٹنکی کرچکے ہیں یہ سب نوٹنکی ہے۔ اگر اپنا بھائی سمجھتے ہیں تو ایسے کھائیں جیسے پورے عالم اسلام کا رواج ہے کہ ایک بڑے طشت میں پلائو اس کے اوپر مرغے اور دس آدمی اس طشت سے کھاتے ہیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ بھائی چارہ ہے۔ ایک موریہ نہیں سارے دلت بی جے پی میں جاکر دیکھ لیں وہ دلت ہی رہیں گے یہ نہیں ہوسکتا کہ کوئی شرما یا پانڈے یا راجپوت اپنی لڑکی ان کے لڑکے سے بیاہ دے یا اپنے لڑکے کے لئے ان کی لڑکی لے لے؟ اپنی ساری عمر کا مشاہدہ ہے کہ اونچی ذات کے ہندو کے لئے دلت صرف ووٹ دینے کی مشین ہیں ووٹ کے بعد وہ پھر دلت ہیں جو پنڈت اور ٹھاکر کے گلاس کو چھو بھی نہیں سکتے اور ان کی لڑکیاں گائوں سے باہر نکل کر ہی سائیکل پر بیٹھتی ہیں ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔