آئی پی ایل اور قماربازی

عبدالرشیدطلحہ نعمانی

اسلام ،کوئی جامد اور خشک مذہب نہیں ؛ بلکہ ایک مکمل دستور حیات اور ضابطۂ زندگی ہے ؛جس نے زندگی کے ہرشعبے میں انسانیت کی کامل رہبری اور بھرپور رہنمائی کی ہے ،یہی وجہ ہے کہ شریعت مطہرہ میں پاکیزہ اور بامقصد کھیل کود کونہ صرف جائز قرار دیا گیا؛ بل کہ ایسی ورزشوں کی ترغیب بھی دی گئی جو جسم کو تروتازہ اور توانا رکھتی ہوں ۔

افراط و تفریط کے اس دور میں اگر ایک طرف مغربی تہذیب نے پوری زندگی کو کھیل کود بنا دیا ہے تو دوسری طرف بعض غلو پسندطبیعتوں نے اپنے طرز عمل سے اس تصوّر کو فروغ دیا ہے کہ اسلام صرف عبادات اور خوف و خشیت کا نام ہے جس میں کھیل، تفریح ، خوشد لی اور زندہ دلی کا کوئی گزر نہیں ۔

دور حاضر میں کھیل کود معاشرے کا ایک اہم جزء بن چکاہے ، جسے اب صرف کھیل کود نہیں بلکہ  ایک مستقل فن کی حیثیت حاصل ہے،آج ہمارے ماحول میں قسم قسم کے کھیل رائج ہیں جسے لوگ سیر و تفریح اور دلچسپی کا ذریعہ تصور کرتے ہیں حالانکہ آج کھیل صرف برائے نام کھیل ہیں ،حقیقت میں وہ ایک وسیع کاروبار ہے جسے حلت وحرمت ،سود ورشوت ،قمار وجوےکےامتیاز کے بغیربےدریغ کھیلاجارہاہے، آج بہت سے لوگوں کا مشغلہ ہی کھیل اور کھلاڑی ہیں ؛حتی کہ مسلمان جوانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ اپنی ہر ذمہ داری بھول کر کھیل اور کھلاڑیوں میں دلچسپی لے رہا ہے اوریہ وبا صرف اورصرف مردوں تک نہیں ؛بلکہ حوا کی بیٹیوں تک عام ہوچکی ہے۔

کھیلوں کااصولی طور پر حکم جاننے کے لیے حضرت مفتی محمد شفیع صاحب  کا یہ فتویٰ ہم سب کے لئے چشم کشا ہے:

(الف) وہ کھیل جس سے دینی یا دنیوی معتد بہا فائدہ مقصود نہ ہو وہ ناجائز ہے اور وہی حدیث کا مصداق ہے۔

(ب) جس کھیل سے کوئی دینی یا دنیوی فائدہ معتد بہا مقصود ہو، وہ جائز ہے۔ بشرطیکہ اس میں کوئی امر خلافِ شرع ملا ہوا نہ ہو اور من جملہ امور خلاف شرع تشبہ بالکفار(کفار کی نقالی) بھی ہے۔

لہٰذا معلوم ہوا کہ گیند کا کھیل، خواہ کرکٹ وغیرہ ہو، یا دوسرے دیسی کھیل، فی نفسہ جائز ہیں ، کیوں کہ ان سے تفریح طبع او رورزش وتقویت ہوتی ہے ، جو دنیوی اہم فائدہ بھی ہے اور دینی فوائد کے لیے سبب بھی ، لیکن شرط یہی ہے کہ یہ کھیل اس طرح پر ہوں کہ ان میں کوئی امر خلاف شرع اور تشبہ بالکفار نہ ہو، نہ ہی لباس کے طرز میں انگریزیت ہو اور نہ گھٹنے کھلے ہوں ، نہ اپنے نہ دوسروں کے او رنہ اس طرح اشتغال ہو کہ ضروریاتِ اسلام نماز وغیرہ میں خلل آئے، اگر کوئی شخص ان شرائط کے ساتھ کرکٹ، ٹینس وغیرہ کھیل سکتا ہے، تو اس کے لیے جائز ہے، ورنہ نہیں ، آج کل چوں کہ عموماً یہ شرائط موجودہ کھیل میں نہیں ہیں ، اس لیے ناجائز کہا جاتا ہے ( امداد المفتیین جدید1002,1001)

آئی پی ایل میچ :

کرکٹ ہمارے ملک کا مقبول ترین کھیل ہے اس کھیل میں وقت اور مال کا بےجااسراف ہوتا ہے؛جس کے اخراجات بھی بے انتہا ہیں ۔ اس کھیل کی مختلف صورتیں ہیں ؛جن میں ٹیسٹ میچ، ون ڈے میچ اورٹوئینٹی/20 شامل ہے۔

انڈین پریمیئر لیگ (IPL)، (بی سی سی آئی)بورڈ آف کنٹرول فار کرکٹ ان انڈیا کی طرف سے ایک ٹوئنٹی/20 ٹورنامنٹ ہے، اس مقابلے کا پہلا سیزن2008میں 18 اپریل تا 1 جون منعقدہوا،تب سے لے کر آج تک پابندی کے ساتھ منعقدہوتاچلاآرہاہے۔

کرکٹ کے عام میچ ہی جوے اور سٹے کو فروغ دینے کے لئے کیا کم تھے کہ اس آئی پی ایل نے  بڑے پیمانے پر قماربازی کی سطح میں کئی گنا اضافہ کردیا ،ہردن مختلف ذرائع ابلاغ کے ذریعہ  یہ خبریں پڑھنے اور سننےکو ملتی رہتی ہیں کہ سٹے بازی کے جرم میں فلاں کو گرفتار کیاگیا ،فلاں پر جرمانہ عائدکیاگیا ،فلاں مقام پر دھاوا بولاگیا ۔وغیرہ

نہایت افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ مسلمانوں کی کثیر تعداد بھی اسی کبیرہ گناہ کی مرتکب  اور اس ناجائز عمل کی شوقین نظر آرہی ہے ؛اس لئے ذیل میں جوے کی حرمت وقباحت کو کتاب وسنت کی روشنی میں واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات

جوئے کی حرمت قرآن وحدیث کی روشنی میں :

اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اے ایمان والو! شراب، جوا، بتوں کے تھان اور جوئے کے تیر یہ سب ناپاک شیطانی کام ہیں ،لہذا ان سے بچو، تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔ شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان دشمنی اور بغض کے بیج ڈال دے اور تمہیں اللہ کی یاد اور نماز سے روک دے۔ اب بتاؤ کہ کیا تم (ان چیزوں سے) باز آجاؤ گے؟(سورۂ المائدہ ۹۰۔۹۱)

ان آیات میں چار چیزیں قطعی طور پر حرام کی گئی ہیں ۔ ۱)شراب۔ ۲) قمار بازی یعنی جوا۔ ۳)بتوں کے تھان یعنی وہ مقامات جو اللہ کے سوا کسی دوسرے کی عبادت کرنے یا اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر قربانی اور نذر ونیاز چڑھانے کے لئے مخصوص کئے گئے ہیں ۔ ۴) پانسے (جوئے کے تیر)۔

غرضیکہ اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے جوئے کو شراب کے برابر قرار دیا تاکہ جوئے کی حرمت میں کوئی شک وشبہ باقی نہ رہے۔

اسی طرح نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے اپنے دوست سے کہا: آؤ! جوا کھیلیں تو وہ صدقہ کرے۔‘‘ (صحیح بخاری)

حضرت بریدہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: ’’ جس نے نرد شیر (جوئے کا ایک کھیل) کھیلا تو گویا اس نے اپنا ہاتھ خنزیر کے گوشت اور خون میں ڈبو دیا۔(صحیح مسلم)

جوئے کی خرابی کے لئے یہی بات کافی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اسے ناپاک شیطانی کام قرار دیا ہے۔

جوا اس مذموم خواہش اور لالچ کا نام ہے کہ بغیر محنت کیے دوسرے کا مال ہتھیا لیا جائے،جوئے کے تمام شرکاءاپنی مرضی و اختیار سے اس میں حصہ لیتے ہیں ؛ لیکن اس میں حصہ لینے والا کوئی بھی شخص اپنا مال ہارنے کی خواہش و ارادے سے حصہ نہیں لیتا ؛بل کہ ہر شخص کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ جیت جائےاوردوسرے کا مال ہتھیالے۔ یونہی کھیل ہی کھیل میں جو لوگ اپنا مال ہار جاتے ہیں وہ دل سے اسے قبول نہیں کرتے اور جیتنے والے کے خلاف ان کے دل میں شدید نفرت و عدوات پیدا ہو جاتی ہے؛ اسی لیے جو ا کھیلنے والا آخرمیں اکثر لڑائی جھگڑے اور دنگا فساد پر اتر آتے ہیں ،قتل و غارت  تک کی نوبت پہنچ جاتی ہے، جوا کھلانے کے منتظم اکثر و بیشتر بد دیانتی اور ہیرا پھیری سے کام لیتے ہیں اور اکثر صرف وہی جیتتے ہیں اور جوا کھیلنے والے سب ہارجاتے ہیں ؛ جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے درمیان رنجش اور دشمنی پیدا ہو جاتی ہے۔جوئے باز،مال و متاع کی محبت اور ہوس میں مبتلا ہوتا ہے اور اس کامزاج، حرص، لالچ، نکمے پن اور بے کار رہنے کا بن جاتا ہےمزیدبرآں ایسے شخص کا دل ذکر الہی اور نماز کی طرف مائل نہیں ہوتا،اس کے دل میں اﷲ کی یاد کے بجائے مال ہارنے کا پچھتاوا اور آئندہ دوسروں کا مال جیتنے کی آرزو کا بسیرا ہوتا ہے۔

ان کے علاوہ کچھ نقصانات تو ایسے ہیں کہ جن کاموازنہ مال و دولت سے کیا ہی نہیں جا سکتا جیسے پاک نسلوں کی تباہی، سستی، بے راہ روی، ثقافت و تمدن کی پسماندگی، احساسات کی موت، گھروں کی تباہی، آرزوؤں کی بربادی اور صاحبانِ فکر افراد کی دماغی صلاحیتوں کا فقدان، یہ وہ نقصانات ہیں جن کی تلافی روپے پیسے سے کسی صورت ممکن ہی نہیں ۔

 اللہ تعالیٰ ساری انسانیت کو عقلِ سلیم اور ہدایت عطا فرمائے اورقماربازی کی آفتِ بد سے نجات عطا فرمائے۔آمین

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔