عید میلاد النبی پر ایک نظر
حافظ عقیل احمد خان
(نیتواپور، سنت کبیر نگر)
ولادتِ باسعادت رحمۃ للعالمین ( صلی اللہ علیہ وسلم)
ابتداء ً تو امت کے نوجوانوں سے (اس لئے کہ خرافات میں ان کی شرکت زیادہ رہتی ہے) عرض ہے کہ یہ جو عید میلاد النبی ( حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی برتھ ڈے) مختلف طریقے سے مناتے ہیں اس سے پرہیز کریں، یہ سراسر دشمنان دین کی ایجاد ہے۔
اسلام میں تو صرف دو ہی عیدیں ہیں، فقہ کی کتابوں کو دیکھیں، جب ابواب قائم کرتے ہیں تو ” باب العیدین” ہی لکھتے ہیں، دو کے لئے عربی میں تثنیہ استعمال ہوتا ہے تو عید کا تثنیہ” عیدین یا عیدان ہوا، یہ نحوی بحث ہے۔ اب یہ تیسری عید کہاں سے آگئی ؟ اگر اس کی دین میں کوئی حقیقت ہوتی تو "عید ” کو جمع کے صیغے کے ساتھ استعمال کیا جاتا اور "باب العادۃ یا باب الأعياد” قائم کیا جاتا، اس لئے کہ تین عید ہونے کی صورت میں عید کا جمع استعمال کرنا ضروری ہے۔ مگر تمام کتابوں میں ” عیدین” کا استعمال ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ عید تو صرف دو ہی ہیں۔
یہ میلادالنبی کو دراصل سبائی پیروکاروں نے ایجاد کیا ہے، اس لئے کہ وہ ( عبد اللہ بن سبا) دین اسلام کا سخت دشمن تھا، اور موجودہ دور میں اس کے پیروکار فی زمانہ دشمن اسلام ہیں، انھوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر خوشی و جشن منانے کے لئے یہ سارے پروپیگنڈے بڑی عیاری سے ایک مدت تک اپنے مشن پر عمل کرتے ہوئے انجام دیئے ہیں، اس لئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت تو یقیناً ماہ ربیع الاول میں بروز دوشنبہ ہوئی تھی مگر 21/ ربیع الاول کی تاریخ یقینی نہیں ہے، جبکہ وفات یقینی طور پر 21/ ربیع الاول کو ہی ہوئی ہے۔
اب انہوں نے اس وفات کو ولادت کا جامہ پہناکر جشن منانے کے لئے اولاً تو کافی عرصہ تک” میلاد النبی” کا نام دیا، جب قوم اس پر عمل پیرا ہوگئی تو ایک مدت کے بعد منصوبہ بند طریقے سے اس میں عید کا لفظ اضافہ کرکے” عید میلاد النبی” کا ٹائٹل دیا، اور پھر جب قوم نے اس پر بھی غور نہیں کیا تو ان سبائیوں نے اپنے مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے لفظ جشن کا اضافہ کیا جس کو آج امت کے گمراہ لوگ ” جشن عید میلاد النبی” کے نام سے مناتے ہیں، اور برادران ہند کے تہواروں کے مماثل ہلڑ بازی کرتے اور شبیہہ بناتے پھرتے ہیں۔
اس لئے برادران اسلام سے عموماً اور نوجوانوں سے خصوصاً درخواست ہے کہ دشمنان اسلام کی چالوں کو سمجھتے ہوئے ان سے بچ کر اپنے عقیدے کو بھی محفوظ رکھنے کی کوشش کریں، اور دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنادیں۔
خیر حضور رسول مقبول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت (ربیع یعنی موسم بہار) میں ہوئی اسی مناسبت سے اس ماہ کا نام ربیع واقع ہوا، اور چونکہ موسم بہار دو ماہ پر مشتمل ہوتا ہے، اور ایک ماہ 29 یا 30 روز کا، اس لئے اس کو دوحصوں میں منقسم کرکے اول و آخر، یا اول و ثانی لکھتے ہیں اس طرح موسم بہار کے پہلے ماہ کا نام” ربیع الاول” ہوا، اس ماہ میں بروز دوشنبہ، عام روایات کے مطابق 12 ربیع الاول، سن عام الفیل ( ابرہہ والے واقعہ کے سال ) مطابق 20/ اپریل 570 ء کو مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ تاریخ انسانیت میں یہ دن سب سے زیادہ با برکت، سعید اور درخشاں و تابندہ ہے۔
آپؐ کی ولادت کے سلسلے میں یہ بات قطعی اور یقینی ہے کہ ربیع الاول کا مہینہ اور دوشنبہ کا دن تھا اور وقت بعد از صبح صادق و قبل از طلوع آفتا ب۔( مگر بہت سے ماہرین ریاضیات نے 8٬9٬اور10/ ربیع الاول بھی بتایا ہے اور اغلب یہی ہے،البتہ تاریخ وفات تو 21/ ربیع الاول بلا اختلاف ہے )۔
دوشنبہ (پیر) کا دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی مبارک میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوشنبہ کو پیدا ہوئے۔ دوشنبہ کے دن آپؐ کو نبوت سے سرفراز کیا گیا۔ دوشنبہ کو مکے سے مدینے کو ہجرت کے لئے نکلے اور دوشنبہ کو آپؐ مدینے میں (شاید قباء مراد ہے جو مضافات مدینہ میں ہے) تشریف فرما ہوئے۔ دوشنبہ کے دن آپؐ نے دارفانی کو خیر باد کہا اور دوشنبہ کے دن ہی آپؐ نے حجر اسود کو (25 برس کی عمر میں ) بیت اللہ میں نصب فرمایا تھا
نبی آخرالزماں حضرت محمد
مصطفیٰ صلّی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت تاریخ انسان کا سب سے بڑا اہم واقعہ ہے جسے پہلی امتوں کے ہر دور میں بھی سب سے زیادہ شہرت و مقبولیت حاصل رہی۔ فخر موجودات، صاحب لولاک، باعث تخلیق کائنات حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام جہانوں کے لئے رحمت بن کر آئے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود مسعود سے پوری دنیا میں نور حق پھیلا اور کفرو باطل کی تاریکیاں چھٹ گئیں۔
ماہ ربیع الاول کو سب سے بلند و بالا مقام رکھنے والا بندہ خدا، محبوب خدا اور خاتم الانبیاءحضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و آ لہ وسلم) اس دنیا میں تشریف لائے اور آپ نے اپنے نور سے عالم کائنات کو منور کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سارے جہاں کے لئے رحمت بناکر بھیجا، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ”و ماارسلناک الا رحمة للعالمین“، وہ پیغمبر رحمت، دریائے مہربانی اور خوبیوں کی مجسم تصویر تھے۔ وہ پیغمبر جس کو لوگوں نے پتھر مارے، جن کے سر پر مٹی ڈالی اور جن کی شان میں گستاخیاں کیں لیکن آنحضرت (ص) نے ان پر نفرین اور بددعا کے بجائے ان کے لئے دعا کی، لہٰذا ان کا دین بھی رحمت ہے۔
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
آج ہمارے عظیم ملک ( بلکہ غیر منقسم) ہندوستان میں اسلام ان کی اسی شان رحمت کے طفیل پہونچا۔ طائف کے جن اوباشوں اور پتھر بازوں کو جناب رحمت للعالمین نے معاف کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ اگر یہ ایمان نہیں لاتے تو ان شاءاللہ ان کی آئندہ نسلیں ایمان کی دولت سے سرفراز ہوں گی۔ انھیں کی اولاد میں سے”محمد بن قاسم ثقفی” (رح) تھے، جنھیں اکثر لوگ’ محمد بن قاسم’ اور فاتح سندھ کے نام سے جانتے ہیں، انھوں نے اس ملک میں اسلام کو متعارف کرایا، یہ اسی شان رحمت للعالمینی کا ثمرہ ہے۔
"إنك لعليٰ خلق عظيم "
تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اخلاق کے اعتبار سے سب سے اچھاہو“ چنانچہ عظمت اخلاق آخری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا امتیاز ہے، جیسا کہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ” بعثتُ لاُتمّم مکارم الاخلاق” کہ میری بعثت کا مقصد ہی اخلاق کریمانہ و فاضلانہ کی تکمیل ہے۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ سارے انبیاء کرام علیہم السلام ہی اخلاق کی تعلیم دینے کے لیے دنیا میں آ ئے، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی آخری کڑی ہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و کردار اور شمائل و خصائل کو ان چند سطور میں قلم بند نہیں کیا جاسکتا، اس کے لئے صفحات در صفحات کم پڑ جائیں گے۔
انہی اخلاق میں سے ایک خلق ہے ” حیاء ” جس کو تمام اخلاق میں سب سے افضل اور عظیم ترین خلق قرار دیاگیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی میں اس کے دخل کا یہ حال تھا کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک باکرہ اور بے نکاح لڑکی اپنے پردے میں جس قدر حیا کرتی ہے اس سے کہیں زیادہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حیا دار تھے۔
اخلاق حسنہ کے چند اہم پہلو:
بیشک نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اخلاق حسنہ سے بھری پڑی ہے، جسے آج ہمیں اس نازک ترین حالات میں اپنانے کی ضرورت ہے، اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اخلاق کی تعلیم دوسروں کو دیں اور خود بھی اس پر عمل پیرا ہوں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل پر اپنی زندگی کو سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں ؛ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ کو اپنانے کے بعد ہمارے لیے بھی اخلاقیت کی بلند اور دشوار گزار گھاٹی پر چڑھنا آسان ہوجائے گا۔
جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنۡ کَانَ یَرۡجُوا اللّٰہَ وَ الۡیَوۡمَ الۡاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیۡرًا */(سورہ الاحزاب آیت نمبر 21)
ترجمہ: در حقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ تھا، ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔
یعنی پیغمبر کو دیکھو، ان سختیوں میں کیا استقلال رکھتے ہیں۔ حالانکہ سب سے زیادہ اندیشہ اور فکر ان ہی پر ہے۔ مگر مجال ہے پائے استقامت ذرا جنبش کھا جائے۔ جو لوگ اللہ سے ملنے اور آخرت کا ثواب حاصل کرنے کی امید رکھتے ہیں اور کثرت سے خدا کو یاد کرتے ہیں ان کے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات منبع البرکات بہترین نمونہ ہے۔ چاہیے کہ ہر معاملہ، ہر ایک حرکت و سکون اور نشست و برخاست میں ان کے نقش قدم پر چلیں اور ہمت و استقلال وغیرہ میں ان کی چال سیکھیں۔
اصل میں حضور صلی اللہ علیہ کی ذات با برکات سے وفا داری یہی ہے، بلا شبہ اگر امت مسلمہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی روش کو اپنالے، زبانی نہیں بلکہ عملی دعویٰ داری کرے تو آج بھی اس قوم کو اون ثریا پر پہنچنے سے کوئی باز نہیں رکھ سکتا :
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز کیا یہ لوح و قلم تیرے ہیں
تبصرے بند ہیں۔