غزل
میری بخت کا یہ قصور تھا جو ستم بھی مجھ پہ سوا ہوا
وہ کہ جس کی ساری خوشی تھا میں وہی شخص مجھ سے خفا ہوا
جسے میں بھی کھل کے نہ کہہ سکا جسے آپ بھی نہ سمجھ سکے
وہی ایک حرف سوال تھا میرے آنسوؤں میں چھپا ہوا
کوئی شہر غم ہوکہ دشت ہو میں کہیں رہا میں کہیں گیا
جہاں دیکھا میںنے ترانشاں وہیں میرا سجدہ ادا ہوا
غم ودرد کا وہ جو غار تھا وہ جو فرقتوں کا دیار تھا
کبھی لوٹ آؤ تو دیکھنا میں ابھی وہیں ہوں دبا ہوا
یہی فکر تھی یہی درد تھا کہ دیار دل کا جوفرد تھا
وہی شخص غم مجھے دے گیا کہ میں جس کے غم کی دوا ہوا

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔