فلسطین اور عرب حکمراں: اسے  دوستی کا نام دیں گے یا دغا کا؟

پروفیسر ایاز احمد اصلاحی

فلسطین کے تعلق سے  اپریل  2025 کی تازہ خبروں میں ایک خبر کینیڈا سے تعلق رکھتی ہے تو دوسری کا تعلق متحدہ عرب امارات یعنی یو اے ای سے ہے۔

 ان دو مختلف اور باہم متضاد خبروں پر تبصرہ و تجزیہ کے بعد میں آپ سے ضرور یہ پوچھنا چاہوں گا : کیا آپ یقین کر سکتے ہیں؟

 پہلی خبر

 کینیڈا نے جو کہ امریکہ کا ایک اتحادی ہے، اسرائیل کے ہاتھوں ہورہی غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کی وجہ سے اسرائیل کے خلاف اسلحہ کی پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

 دوسری خبر

ایک عرب ریاست (  متحدہ عرب امارات یعنی یو اے ای  ) نے کھلے عام اور بعض دیگر عرب ریاستیں خفیہ طور سے

  غزہ میں آباد تمام فلسطینی شہریوں کے قتل عام اور جبری انخلا  کی شکل میں ان کی مکمل نسلی کشی اور نسلی صفایا کے امریکی – اسرائیلی شیطانی منصوبہ کی  حمایت کی ہے۔

 کینیڈا کا ردعمل

غزہ اور مغربی کنارے کے فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کے ہاتھوں جاری فلسطینیوں کی نسل کشی اس وقت  عالمی غصہ اور تشویش کی علامت بن چکی ہے۔ اس کے خلاف عالمی رائے عامہ کو جگانے کے لیے مسلسل احتجاج کرنے والوں کے لیے کینیڈا کے وزیر اعظم کارنے کا ردعمل اس وقت ایک توانا آواز بن کر سامنے آیا جب مظاہرین نے ان سے چیختے ہوئے پوچھا: "مسٹر کارنے، فلسطین میں نسل کشی ہو رہی ہے۔”  (یعنی وہ پوچھنا چاہ رہے تھے کہ کیا آپ اس نشل کشی سے اگاہ ہیں؟)

 پھر کینڈیائی وزیر اعظم مسٹر کارنے نے انہیں جواب دیتے ہوئے کہا: "شکریہ… (ہاں ہاں) میں جانتا ہوں (یہ غزہ میں فلسطینیوں کا نسلی صفایا ہو رہا ہے)۔ اسی وجہ سے ہم نے (اسرائیل کے خلاف) ہتھیاروں کی پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے”۔

عرب حکومت کا رد عمل

اب ملاحظہ فرمائیں فلسطینی غزہ کی مکمل تباہی اور وہاں کے سارے فلسطینیوں کے نسلی صفائے کے سوال کے تعلق سے ایک عرب خاندان، آل نہیان کی حکومت کے ایک سربراہ کا رد عمل۔ ایک ایسا رد عمل جس سے فلسطینی مسلمانوں پر ہولناک اسرائیی مظالم پر تشویش میں مبتلا غیر مسلم دنیا بھی مایوس حیرت اور مایوسی میں گرفتار ہے ۔

ٹرمپ منصوبہ میں اپنوں کا بھی منشا؟

 غزہ میں اہل فلسطین کے مکمل خاتمہ یعنی انھیں وہاں سے پوری طرح نیست و نابود کرنے، یعنی ان کی مکمل نسل کشی کے صہیونی منصوبے کا حالیہ نام  "ٹرمپ منصوبہ” ہے۔اس خطرناک شیطانی منصوبہ کے بارے میں، جسے اہل فلسطین کےںساتھ مکمل یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، دنیا کے تمام غیرت مند مسلمانوں اور عالمی برادری نے پہلے ہی رد کردیا ہے، کے بارے میں ایک عرب ریاست، متحدہ عرب امارات نے کینڈا کے بالکل برخلاف موقف اپنایا ہے۔ اس عرب حکومت کے کھلے چھپے بیانیوں سے صاف پتہ چلتا ہے کہ دبئی بھی امریکہ کی ٹرمپ حکومت کی طرح غزہ میں فلسطینیوں کےخلاف اسرائیلی نسل کشی کا حامی اور ہمنوا ہے۔یاد رہے  2020 میں بھی ٹرمپ کا مشرق وسطی امن منصوبہ یا "صدی کا معاہدہ”(Deal of the Century) در اصل فلسطینیوں کی ایسی ہی نسل کشی پر مبنی تھا جس پر اس وقت اسرائیل غرب اردن سے غزہ تک عمل ییرا ہےاور اس وقت بھی مشرق وسطی کے یہ عرب حکمراں پس پردہ اس کی حامی تھے جو اس وقت فلسطین مخالف "ٹرمپ پلان” کے حامینظر آرہے ہیں۔ خصوصا یو اے ای کی موجودہ فلسطین دشمن حکومت کا اسے پورا سپورٹ حاصل تھا۔ خود اکتوبر 2020 میں امارات اور بحرین کے توسط سے لایا گیا نسم نھاد "ابراہیمی سمجھوتہ” ( Abraham Accords) بھی کچھ اسی قسم کے پس منظر کا حامل تھا۔

سفارتی ذرائع سے کچھ دنوں پہلے یہ بات سامنے آئی ہے کہ متحدہ عرب امارات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نسلی تطہیر اور غزہ میں فلسطینیوں کی زبردستی نقل مکانی کے منصوبے کی حمایت کرتا ہے، اپنے اس صہیونیت نواز برتاؤ سے انھیں یہ امید ہے کہ ایک طرف وہ یہ سب کرکے امریکہ کے معتبر دوستوں کی فہرست میں شامل رہیں گے تو دوسری طرف اس سے فلسطینی مزاحمتی تحریک کا بھی مکمل خاتمہ ہوجائے گا جس کے دور رس اثرات ان کے ظالمانہ اقتدار کے لیے بھی کبھی خطرہ بن سکتے ہیں۔۔تو کیا سچ میں فلسطین اور فلسطینیوں کے خاتمے کے ایجنڈے پر مبنی ٹرمپ- زایونسٹ منصوبہ بعض عرب  حکمرانوں کے منشا کا بھی ترجمان ہے؟  اس سوال کے ایک بڑے حصے کا جواب غزہ پر حالیہ اسرائیلی حملے کے دوران ہمیں مل چکاہے اور باقی حصے کا جواب بھی  بہت جلد مل جائے گا۔

 فلسطینیوں کی نسل کشی کا حامی اماراتی سفیر

فلسطینیوں کی نسلی تطہیر یا ان کی نسل کشی کے صہیونی – امریکی منصوبے کو پورا کرنے کے لیے متحدہ عرب امارات اتنا آگے نکل چکا ہے کہ اس کا تصور بھی اذیت ناک ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ امریکا میں اس عرب ریاست کے طاقتور اسرائیل نواز سفیر، یوسف العتیبہ، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ اور امریکی قانون سازوں کے وسیلے سے عرب ممالک پر دباؤ ڈالنے کے لیے کھلے عام لابیئنگ کر رہے ہیں۔ اس صہیونی  سازش کا مقصد ہے کہ وہ ٹرمپ انتظامیہ کو اس بات کے لیے آمادہ کریں کہ وہ عرب حکومتوں کے توسط سے اس منصوبے کو آگے بڑھائے یہاں تک کہ عرب ریاستیں فلسطین کی حمایت چھوڑ کر فلسطینیوں کی نسلی تطہیر اور فلسطینیوں کو مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے زبردستی بے دخل کرنے کے منصوبے کو قبول کر لیں۔ ( ذرائع کے مطابق ایک امریکی  اہلکار اور  ایک مصری منتظم نے اس معاملے کی اطلاع دی ہے۔ ) عطیبہ کا یہ بیان اس سے پہلے امریکہ میں  ریکارڈ میں آ چکا ہے کہ "انہیں اس سال کے شروع میں ٹرمپ کے  فلسطینیوں کو غزہ سے باہر زبردستی بھیجنے اور انھیں یہاں سے جبرا بے دخل  کرنے کے منصوبے کا کوئی "متبادل” نظر نہیں آیا۔

ایک آسان سا سوال؟

 اب میرا ایک آسان سا سوال یہ ہے کہ اس وقت انسانیت کے قتل کا سب سے بڑا مجرم کون ہے، اسرائیل یا متحدہ عرب امارات؟ وہ جو فلسطینیوں کی نسل کشی اور قتل عام کا ارتکاب کر رہا ہے، یا پھر وہ جو امریکہ و اسرائیل کے ساتھ سازشیں کرکے یہ مھم چلا رہا ہے کہ عرب دنیا فلسطینیوں کی موجودہ نسل کشی اور غزہ و غرب اردن سے ان کے جبری انخلا کے ظالمانہ منصوبے کو بخوشی قبول کرلے۔ ظاہر ہے دوسرے مجرم کا یہ جرم درحقیقت  انسانیت اور مظلوم فلسطینیوں کے خلاف صہیونی مجرموں اور غاصبوں کے مظالم سے بھی زیادہ مھلک ہے، کیونکہ منافقت اور خیانت ہمیشہ دشمن کے حملے سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے یا اسے یوں کہیں کہ دوستی کے پردے میں دغا کھلے دشمںوں کی دشمنی سے کہیں زیادہ گہرے زخم لگاتی ہے۔

کیا ایسے بہت سارے ثبوتوں کے بعد بھی ہمیں اس بات کا مزید ثبوت چاہیے کہ موجودہ عرب حکومتیں،خصوصا سعودی عربیہ اور عرب امارات، اپنی حکومتی مصلحتوں کے لیے صہیونی قوتوں سے در پردہ فلسطین اور بیت المقدس کا سودا کر چکی ہیں؟  ظاہر ہے جو لوگ بھی فلسطینی کاز سے واقف ہیں وہ ان حرکتوں کو فلسطین دوستی تو کبھی نہیں مان سکتے۔ بلکہ ان  عرب حکمرانوں کی حالیہ برسوں کی مجموعی کارستانیوں کو  وسیع تناظر میں دیکھا جائے اور ان کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو اہل فلسطین ہی نہیں بلکہ شاید اہل اسلام کے معاملات میں بھی ان کے اخلاص پر بھروسہ کرنا مشکل ہوجائے۔

یہ عرب فلسطین کی حمایت سے کیوں گریزاں ہیں؟

یہ عرب ریاستیں آخر  فلسطینی کاز کی حمایت سے اس قدر کیوں گھبراتی ہیں اور ان کے حکمراں مظلوم فلسطینیوں کی حمایت سے کیوں کتراتے ہیں؟ جارجیو کیفیرو نے 20 مئی 2024 کو نیوز پورٹل آر ایس میں شائع ہونے والے اپنے ایک تجزیے  "عرب رہنما غزہ میں فلسطینیوں کی مدد کیوں نہیں کر رہے ہیں؟” میں اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی ہے اور ان کے خوف کی اصل بنیادوں پر  سے پردہ اٹھایا ہے۔

اس نے یہ تجزیہ ایک ایسے وقت میں لکھا ہے جب اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کے قتل عام میں درندگی کی ہر حد پار کرچکا ہے۔ پچاس ہزار سے زائد فلسطینی اسرائیلی بمباری سے شہید اور اس سے کئی گنا زخمی ہوچکے ہیں، اس وقت پورا غزہ کھنڈرات میں بدل چکا ہے۔ یہ اسی غزہ کے حوالے سے عرب حکمرانوں کے رویے پر سوال کھڑا کیا گیا جس کی اکثریت اس وقت بے گھر اور بے در ہوکر پناہ گاہوں کی تلاش میں بے یار و مددگار بھٹک رہی ہے اور جہاں ایک تازہ رپورٹ کے مطابق کم سے کم 20 لاکھ فلسطینیوں کے پاس خوراک اور أمدنی کا کوئی زریعہ نہیں ہے اور وہ بھوکوں مر رہے ہیں۔ اس نے لکھا ہے کہ اس وقت جب کہ اہل فلسطین عرب اسلامی دنیا کی توجہ کے سخت محتاج ہیں عرب کی مطلق العنان حکومتیں فلسطینیوں کی حمایت میں آگے آنے کی بجائے اپنے ملکوں میں فلسطین حامی عوامی مظاہروں اور اس کی حمایت میں اٹھنے والی آوازوں کو پوری شدت سے کچلنے  میں لگی ہیں۔ سعودی عربیہ، مصر اور عرب امارات جیسی چند عرب ریاستوں کی طرف سے اپنے ملکوں میں فلسطین کے حامیوں کی گرفتاری اور اس مسئلے پر کسی طرح بھی لب کشائی کرنے پر پابندی اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ ان فلسطین حامی عناصر پر عرب حکومتوں کی پولس اور انتظامیہ کو سخت نظر رکھنے کی ہدایت یے اور وقتا فوقتا پولس اور خفیہ کارندوں کی طرف سے ایسے فلسطین حامیوں پر چڑھائی (کریک ڈاؤن) بھی ان ملکوں میں أج کل معمول کی بات بن گئی ہے۔

عرب حکمراں اور فلسطین مخالف نفسیات کی بنیاد

فلسطین کے تعلق سے عربوں کے اس اسرائیل نواز رویے کے پیچھے کارفرما اصل نفسیات اور اس کی وجوہات کے تعلق سے کولمبیا یونیورسٹی کی پروفیسر،” مرینا کیلکولی، کا یہ ماننا صحیح ہے کہ "زیادہ تر عرب ریاستیں عام طور پر عوامی مظاہروں سے الرجک ہوتی ہیں” وہ کولمبیا یونیورسٹی کے شعبہ مشرق وسطیٰ، جنوبی ایشیائی اور افریقی مطالعات میں ریسرچ فیلو ہیں، آر ایس  کے ساتھ ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا۔ فلسطین کے ساتھ عربوں کے اس ناقابل فہم رویہ کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ "انہیں خدشہ ہے کہ عوامی حلقوں کو منھ کھولنے اور فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کرنے کی اجازت دینے سے دوسرے شعبوں میں بھی حکومت اور ان کی پالیسیوں کے خلاف مظاہروں کی حوصلہ افزائی ہو سکتی ہے”۔

فلسطین کے تعلق سے عربوں کے اس اسرائیل نواز رویے کے پیچھے کارفرما اصل نفسیات اور اس کی اصل وجوہات کے تعلق سے جارج ٹاؤن،امریکہ ‘شعبہ امور خارجہ’ سے ملحق  "الولید سنٹر برائے مسلم-عیسائی مفاہمت” کے ڈائرکٹر نادر ہاشمی ان بے حس عرب ریاستوں کے اندر موجود اس خوف کو اس خطرے سے جوڑتے ہیں  ہیں جو انھیں اپنے کرتوتوں کی وجہ سے ہر موثرتحریکیت،اجتماعات اور عوامی مظاہروں میں دکھائی دینے لگتاہے۔

یہ کیوں ڈرتے ہیں فلسطینیوں کی حمایت سے؟

امارات اور سعودی عربیہ جیسی عرب حکومتوں کی نفسیات میں امریکہ و اسرائیل کے ساتھ ان کے تہ بتہ تعلقات کے علاوہ اس ڈر کے پیچھے جس عنصر کا سب سے بڑا دخل ہے وہ انصاف، عزت نفس، اور آزادی کی کسی بھی ایسی تحریک سے ان کی گھبراہٹ ہے جو عموما انقلابی جدوجھد اور گہرے عوامی اثرات کی حامل ہوتی ہے اور جو ہمیشہ ظلم و ناانصافی کے خلاف جدوجھد پر یقین رکھتی ہے۔ ظاہر ہے ازادی فلسطین کی طویل تحریک کے بنیادی عناصر ترکیبی میں یہ محرکات غالب ہیں۔ اور اسی خوف کی بنا پر یہ عرب حکمراں سیاسی اسٹیبلیٹی کے نام  پر فلسطینی کاز سے اپنی ہر بے وفائی و بے اعتنائی کو صحیح سمجھتے ہیں۔

نادر ہاشمی نے عرب تاناشاہوں کے دل ودماغ کو برسوں سے کنٹرول کرنے والی اس نفسیات کے تانے بانے کو بڑی خوبصورتی سے یہ کہتے ہوئے  سمجھایا ہے۔”  فلسطین کا سوال دراصل نا انصافی کا سوال ہے اور پھر یہیں سے ناانصافی کے اس سوال کو عرب عوام تلاش انصاف کی ایک بین الاقوامی علامت کے طور سے تعبیر کرتے ہیں جس میں عرب دنیا کی ان مطلق العنان و آمرانہ حکومتوں پر تنقید بھی شامل ہے جو تاریخی طور سے  غیر منصفانہ ہیں۔”

اس تعلق سے اخر میں یہاں ایک اور اہم پہلو کی نشاندہی مناسب لگتی ہے۔ اس وقت جیسا کہ ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ نمایاں عرب ملکوں کے حکمراں آزادی فلسطین کے کاز سے نہ صرف گریزاں ہیں بلکہ وہ دشمںان فلسطین کے ہم نوا بھی ہوتے جارہے ہیں اور اپنے عوام کو یہ سمجھانے میں بھی لگے ہیں کہ موجودہ حالات میں  اسرائیل (بلکہ عظیم تر اسرائیل ) کے لیے فلسطین کو قربان کردینا اس سرزمین کو جبری انخلا یا قتل عام کی شکل میں فلسطینیوں سے خالی ہوتے دیکھنا نہ صرف  وقت اور مصلحت کا تقاضا ہے بلکہ اس کو قبول کر لینے میں ہی خود ان کی اپنی ریاستوں کا تحفظ بھی مضمر ہے۔ میرے نزدیک ان کے اندر جاگزیں اپنی بادشاہتوں کے خاتمے کا یہ خوف اور یہ ڈرتی ڈراتی نفسیات جو حالیہ دنوں میں فلسطین ہی نہیں پورے عالم اسلام کے لیے سب سے خطرناک اور تباہ کن دشمن ثابت ہورہی ہے یہ بھی ان غافل عرب حکمرانوں کی اپنی سوچ یا ان کے اپنے سیاسی فکر و فلسفہ کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ حواس باختہ کرنے والی یہ نفسیات بھی اس خواب آور زہریلے انجکشن کی پیداوار ہے جو دشمن ان کے وجود میں طاقت بخش انجکشن کے نام پر برسوں سے لگاتا آرہا ہے۔ اس کے نتیجے میں ان میں اتنی صلاحیت اور ذہنی قوت ہی نہیں بچی ہے ہے کہ وہ یہ سوچ سکیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ عالم اسلام کے تحفظ و بقا اور اس کی وحدت و سالمیت کو نگلنے والے اس فرضی خطرے کا یہ پورا خمیر بھی ان کی اپنی تحقیق و تفتیش کی دریافت نہیں ہے بلکہ یہ بھی ان امریکی و اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں کا ہی کارنامہ ہے جو آج فلسطینیوں کی مکمل نسل کشی اور فلسطین کے خاتمہ کی اپنی خطرناک مہم کو عرب – اسرائیل تعلقات کی استواری اور مشرق وسطی میں دیرپا امن کی بحالی کا لازمی تقاضا بنا کر پیش کر رہی ہیں۔ یہ ان خفیہ صہیونی ہاتھوں کا کمال ہے جو ایک طرف امت مسلمہ کو  اپنے بغض و عناد اور  دیرینہ نفرت و انتقام کی آگ سے جھلسا رہے ییں تو دوسری طرف ان عرب حکومتوں کی فصیلوں کی رکھوالی کا ایسا مضبوط ٹھیکہ لے رکھا ہے کہ ان کے سمجھائے اور سجھائے ہوئے فرضی خطرات کو ہی یہ عرب شاہ اور شہزادے اپنی حکومتوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ مانتے ہیں اور انھیں کی فراہم کی ہوئی فہرست کی مدد سے وہ  اپنے دوست اور دشمن طے کرتے ہیں۔ اس نفسیات نے انھیں اپنے اور عالم اسلام کے وسیع مفادات کے بارے میں آزادانہ غور و فکر کرنے کے لائق ہی نہیں چھوڑا ہے۔ صہیونی ایجنٹوں کے ساتھ برسوں کے خفیہ تعلقات کی وجہ سے دشمںان انسانیت، دشمںان فلسطین اور القدس کے غاصبوں پر ان کا اعتماد اتنا پختہ کردیا گیا ہے کہ  القدس پر اسرائیلی قبضے اور غزہ کے لاکھوں فلسطینیوں کی نسل کشی اور نسلی صفایا میں بھی انھیں اپنے اور عرب دنیا کے لیے خیر ہی نظر اتا ہے۔ ایک برملا حقیقت پر مبنی اس تجزیے کا خلاصہ یا فلسطین کے لیے سب سے بڑا خطرہ بنی حکام عرب کی اس خوف زدہ نفسیات  کے علاج کا حتمی نسخہ یہی ہے کہ ہم یہ بنا کسی تردد کے مان لیں کہ القدس اور آزادی فلسطین کی جدجھد اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی اور نہ ہی اسے دشمنوں کی سازشوں سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے جب تک کہ عرب دنیا کو عرب تاناشاہی کے گلیارے میں ڈیرہ ڈالنے والی اس وبا سے نجات نہیں مل جاتی۔ گوکہ آزادی فلسطین یا اسی طرح بعض ملکوں کے بعض مسلم مخالف غیر قانونی قانون سازی کا سلسلہ  ایک بہت بڑے اور تباہ کن خطرے کی نشان دہی کرتا ہے اور اس چیلنج کا مقابلہ ہم سے ایک ٹھوس اور طویل منصوبہ بندی اور ذہنی تیاری کا تقاضا کرتا ہے۔ تاہم اس وبا کو مزید پھیلنے اور اس کے مہلک اثرات سے فلسطینی کاز کو مزید متاثر نہ ہونے دینے کے لیے ایک فوری موثر تدبیر کی بھی حاجت ہے۔ میرے نزدیک سادہ لفظوں میں یہ ممکنہ تدبیر یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین سے امارات و سعودی عربیہ اور ان کی اتباع کرنے والی بعض دوسری عرب ریاستوں کو  مسئلہ فلسطین اور غزہ کے تحفظ کے مسئلے سے بالکل الگ کردیا جائے اور اس سے متعلق کسی بھی فیصلہ کن معاہدہ یا مفاہمت کی کوششوں میں ان کی  کسی بھی نوعیت کی شرکت کو ناقابل قبول ٹھرا دیا جائے۔اس کی وجہ یہ کہ  فلسطین و اہل فلسطین کے لیے ان اسرائیل نواز عرب ریاستوں کا مشکوک اور خود غرض طرز عمل فوائد سے زیادہ نقصانات کا حامل ہے۔ اس رائے کی معقولیت اور معنویت دونوں ان تمام لوگوں پر دن کی روشنی کی طرح واضح ہے جو گذشتہ چند سالوں کے دوران  مصر سے عرب امارات (یو اے ای) تک فلسطین کے تعلق سے ان عرب حکمرانوں کے مختلف فیصلوں اور بیانیوں سے واقف ہیں۔ یہ وہ فیصلے اور بیانیے ہیں جن میں ایک آزاد فلسطین کی بازیابی سے زیادہ اسرائیل کے ساتھ سیاسی و سفارتی و تجارتی تعلقات کی استواری کی چاہت اور فلسطینیوں کے خلاف اس کے ظالمانہ و غاصبانہ اقدامات پر اسے رعایت دینے کی حیرت انگیز وکالت کو ایک عام آدمی بھی محسوس کرسکتا ہے۔ فلسطین سے عربوں کی برادرانہ دوستی اور مسئلہ فلسطین سے ان کا والہانہ تعلق یہ باتیں اب بس ماضی کی داستان معلوم ہوتی ہیں۔ اس وقت یہ دوستی ہے یا دغا، یہ محبت ہے یا عداوت اگر آپ کو القدس عزیز ہے تو اس کا فیصلہ میں آپ پر چھوڑتا ہوں اور مجھے یقین ہے یہ فیصلہ شاید ہی اس سے مختلف ہو کہ انصاف کی اس لڑائی میں فلسطینیوں کے لیے عربوں کی دوستی صہیونیوں کی دشمنی سے زیادہ مہلک ثابت ہو رہی ہے۔

دشمن سے ایسے کون بھلا جیت پائے گا

جو دوستی کے بھیس میں چھپ کر دغا کرے

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


جواب دیں