فیروز اللغات کا تنقیدی جائزہ (آخری قسط)
شمس کمال انجم
رمی جمار
کنکریاں پھینکنا (حاجی منا میں پہونچ کر ایک مقام پر کنکریاں مارتے ہیں اسی کو رمی جمار کہتے ہیں )
تعلیق: حاجی حضرات منی میں کنکریاں صرف ایک مقام پر نہیں بلکہ تین مقامات پر پھینکتے ہیں اوراس عمل کو رمی جمرات کہاجاتا ہے۔
غلاف کعبہ
وہ مخملی غلاف جسے ہر سال حج کے موقع پر کعبہ کی مرکزی عمارت پر چڑھایا جاتا ہے۔
تعلیق: کعبہ کی ایک ہی عمارت ہے تو اسے مرکزی عمارت کہنا بے سودہے۔
فرض عین اور فرض کفایہ کی تعریف اور مثالیں بھی کافی دلچسپ ہیں : لکھتے ہیں
فرض عین :خاص فرض، ضروری فرض، نہایت ضروری کام یا فریضہ
فرض کفایہ : وہ فرض جو چند آدمیوں کے کرنے سے سب کے سر سے اتر جائے جیسے نماز جنازہ، سلام کا جواب
تعلیق: اولا تو فرض عین کی تعریف غلط ہے دوسرے فرض کفایہ کی مثالوں کی طرح اس کی مثال نہیں دی۔ تیسرے یہ کہ سلام کا جواب دینا فرض کفایہ نہیں بلکہ واجب ہے ا س کا تارک آثم ہوگا۔
متشابہات اور حروف مقطعات کی تعریف ملاحظہ کریں :
متشابہات: متشابہ کی جمع، قرآن شریف کی وہ آیتیں ہیں جن کے معنی سوائے خدائے تعالی کے کوئی نہیں جانتا، جن کے ایک سے زائد معنی ہوسکتے ہیں
مقطعات: کپڑے کے ٹکڑے ، کترنیں ، وہ حروف جوقرآن شریف کی بعض سورتوں کے شروع میں آتے ہیں جیسے الم ، یسین، حم
تعلیق:متشابہ آیات کا مفہوم بتایا کہ اس سے مراد قرآن شریف کی وہ آیتیں جن کے معنی سوائے خدائے تعالی کے کوئی نہیں جانتا اور حروف مقطعات کے بارے میں سکوت اختیار کرلیا جب کہ باتفاق علماء حروف مقطعات کا معنی صرف اللہ رب العالمین کو معلوم ہے۔
مقام ابراہیم
بیت اللہ میں اس جگہ کا نام جہاں حضرت ابراہیم نے نماز ادا کی تھی۔
تعلیق: مقام ابراہیم بیت اللہ میں اس جگہ کانام نہیں جہاں حضرت ابراہیم نے نماز ادا کی تھی ۔ مقام ابراہیم کا ذکر سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 125 {واتخذوا من مقام ابراہیم مصلی} میں آیا ہے ۔یہاں مقام ابراہیم سے مراد وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہوکر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خانۂ کعبہ کی تعمیر کی تھی۔ (ایسر التفاسیر1؍111)
مقام محمود
پسندیدہ درجہ، خوبیوں کا سب سے اعلی درجہ، اس مقام کا نام جہاں شب معراج آنحضرت صلعم پہونچے تھے۔
تعلیق: مقام محموداس مقام کا نام نہیں جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شب معراج پہونچے تھے بلکہ اس سے مراد مفسرین کرام کے بقول شفاعت عظمی جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت کے دن عطا ہوگی او رآپ اپنی امت کی شفاعت کریں گے۔ اس کا ذکرقرآن کریم کی آیت کریمہ {عسی ان یبعثک ربک مقاما محمودا} میں آیا ہوا ہے۔ اور مفسرین نے اس سے مراد وہی معنی لیا ہے جو ابھی مذکور ہوا۔ (دیکھیے ایسر التفاسیر3؍217)
مقام مصلی
کعبہ شریف میں وہ جگہ جہاں حضرت ابراہیم نے نماز پڑھی
تعلیق : مقام مصلی سے مراد وہ جگہ نہیں جہاں حضرت ابراہیم نے نماز پڑھی تھی بلکہ اس مراد یہ ہے کہ اللہ رب العالمین مقام ابراہیم کو جائے نماز بنانے کا حکم دیتا ہے۔ {واتخذوا من مقام ابراہیم مصلی }
من وسلوی
وہ کھانا جو کہ حضرت موسی کے لشکر بنی اسرائیل پر نازل ہواجب کہ وہ بھوک سے پریشان تھے، شام کے ایک پرخار میدان میں نازل ہوا۔ درختوں پر میٹھی رطوبت جم جاتی وہ اسے اکٹھا کرلیتے اور بے شمار بٹیریں جنگل میں آجاتیں انہیں وہ مار کر بھون لیتے۔
تعلیق: مفسرین کے بقول من شہد کی طرح میٹھے ایک لیس دار مادے کو کہتے ہیں ۔ جب کہ سلوی کے بارے میں علمائے لغت کا خیال ہے کہ یہ جمع ہے اور اس کی واحد سلواہ ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ اس کی واحد نہیں ۔سلوی ایک ایسے صحرائی پرندے کانام ہے جس کا گوشت لذیذ ہوتاہے او راس کا شکار آسان ہوتا ہے۔جنوبی ہوائیں ان پرندوں کو ہر شام بنی اسرائیل کے پاس لے آتی تھیں ۔ انہیں عربی میں سمانی یا حباری کہا جاتا ہے۔ (ایسر التفاسیر851)
نصر من اللہ وفتح قریب کا دلچسپ ترجمہ ملاحظہ کریں :’’خداوند تعالی کی مدد شامل حال ہو تو فتح نزدیک ہے‘‘
تعلیق: ترجمہ یوں نہیں ہے۔ پوری آیت یہ ہے {واخری تحبونہا نصر من اللہ وفتح قریب} اس کاترجمہ یوں ہوگا کہ (وہ) تمہیں ایک دوسری (نعمت) بھی دے گا اور وہ اللہ کی مدد اور جلد فتح یابی ہے۔
یتیم
جس کا باپ مرگیا ہو، بن ماں باپ کا، یتیم الطرفین :جس کے ماں باپ دونوں مرچکے ہوں ۔
تعلیق: یتیم کی تعریف صحیح کی کہ جس کا باپ مرگیا ہو۔ اس کے بعد بن ماں باپ کا کہہ کر اپنی ہی بات کی تردید کرلی۔۔ساتھ ہی یتیم الطرفین کی ترکیب بھی گھڑ لی جو کافی دلچسپ ہے۔
اضافت
ایک کلمے کا دوسرے کلمے سے لگاؤ جو فارسی اور عربی الفاظ میں مضاف کے نیچے زیر لگأنے اور اردو میں مضاف الیہ کے آگے کا کی کے لگانے سے ظاہر کیا جاتا ہے، جیسے غلامِ زید یا زید کا غلام
تعلیق: عربی میں مضاف پر صرف زیر نہیں آتا بلکہ اپنے عامل کے حساب سے اس پر تینوں حرکتیں آسکتی ہیں ۔
بعض الفاظ پر بلا ضرورت تشدید لگانے کی کوشش کی گئی ہے۔
جیسے نجّاشی کی جیم کو مشدد کیا گیا ہے۔اسی طرح من وعن میں من کے نون کو مشدد کیاہے منّ وعن ۔ میں نے کئی اردو والوں کو اسی طرح بولتے ہوئے سنا ہے۔ جب کہ اس کے اندر پوشیدہ من او رعن کی باریکی سے صرف عربی زبان کے ماہرین ہی محظوظ ہوسکتے ہیں ۔
صیہونی اور صیہونیت کوبتقدیم الہاء علی الیاء یعنی صیہونی اور صیہونیت لکھا گیا ہے نہ کہ صہیونی اور صہیونیت۔
عجوز کے بعد عجوزہ کی بھی ترکیب گھڑی گئی ہے عجوز کے مونث کے لیے اور اس کی جمع ہے عجائز جس سے شاید عربی والے بھی نہ واقف ہوں ۔
بے شمار اصطلاحات وتراکیب کا لفظی یا لغوی معنی ذکر کرنے کے بجائے صرف مفہوم یا مطلب بتادیتے پر اکتفا کیا گیا ہے۔جیسے معوذتان، (معوذتین )قرآن مجید کی آخری دو سورتیں یعنی سورۃ الفلق اور سورۃ الناس۔ عروس البلاد(سب سے زیادہ خوب صورت شہر)شمس العلماء (انگریزی عہد کا ایک خطاب)شمس الثقلین( انسانوں اور جنوں کا سورج ، مراد پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم)شیخ الاسلام (سب سے بڑے پیشوائے دین، مفتی اعظم)شیخ الرئیس(بو علی سینا کا لقب)حرمین شریفین (مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ، دونوں کو حرمین شریفین کہتے ہیں )حسنین (امام حسن اور حسین) جب کہ لغت کی کتاب ہونے کے ناطے پہلے لفظی معنی بتانا چاہیے تھا پھر ان کے مقصود ومراد۔
واللہ اعلم کا ترجمہ (خدا زیادہ جانتاہے مجھے علم نہیں ) لکھنے کے بعد کہتے ہیں واللہ اعلم میں واو عطف کا ہے۔
استغفر اللہ اورمعاذ اللہ کا ترجمہ (پناہ چاہتا ہوں میں خدا سے)دیکھ کر منہ سے استغفر اللہ نکل جاتا ہے۔ممکن ہے یہ سہو کتابت بھی ہو۔
{ما ینطق عن الہوی، نصر من اللہ وفتح قریب،کل من علیہا فان، مازاغ البصر وما طغی،اجر غیر ممنون}جیسی کئی آتیوں کے ترجمے غلط درج کیے گئے ہیں ۔
کچھ دلچسپ معانی بغیر تعلیق کے ملاحظہ کریں :
رویت ہلال (پہلے دن کے چاند کا نظر آنا)عرش کا معنی ہے (آٹھوا ں آسمان)اربعین کا مطلب(مختلف قسم کی چار حدیثیں )اثنان حالت رفع میں (دو کا عدد ، دوسرا)اثنین یعنی حالت نصبی وجری میں اس کا معنی ہے(دو)ثلاثی (تین حرفوں سے مرکب، تین گنا)عید (مسلمانوں کے جشن کا روز، خوشی کا تہوار، نہایت خوشی)
تذکیر وتانیث کا عجیب وغریب طریقہ بھی دیکھیے:
کن فکاں (ہوجا پس وہ ہوگئی(مجازا) دنیا) کن فیکون (ہوجا پس وہ ہوگیا(مجازا) مخلوق، کائنات)
تعلیق: فکاں اصل میں فکانَ فعل ماضی ہے۔ اس کا ترجمہ مونث سے کیا ہے جب فیکون مضارع کا ترجمہ مذکرسے کیا ہے ہوجا پس وہ ہوگیا۔
ایک مشہور عربی ترکیب ’’احسنت ‘‘ کا لغوی معنی ’مرحبا ، آفرین، شاباش ، واہ واہ‘ لکھنے کے بعد اس کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے کہتے ہیں (عربی میں احسنتَ تھا جس کے معنی’تونے بہت اچھا کیا ہیں ‘ ، فارسی والوں نے ت ساکن کرکے شاباش وغیرہ کے معنی میں استعمال کیا ہے)۔
عزیز القدرکے بارے میں لکھتے ہیں :’ایک القاب جسے بڑے چھوٹے کے لیے استعمال کرتے ہیں ‘ غالبا یہ سبقت قلم ہو۔
{کل من علیہا فان}{مازاغ البصر وما طغی}{ما ینطق عن الہوی}{نصر من اللہ وفتح قریب}جیسی آیتوں کا ذکر آتا ہے تو اشارہ کرتے ہیں کہ یہ قرآنی آیتیں ہیں ۔ مگر دوسرے مقامات پر{اجر غیر ممنون}{احسن تقویم} {رجما بالغیب} {صم بکم}{عشرۃ کاملہ}{خیط الابیض}{خیط الأسود}{عروۃ الوثقی}{عذاب الحریق}جیسی آیتوں کے ذکر کے وقت یہ اشارہ بھی نہیں کرتے کہ سب قرآن کریم کی آیتوں کے ٹکڑے ہیں ۔اس کے علاوہ خیط الابیض ،خیط الاسود ، عذاب الحریق ، عروۃ الوثقی جیسی آیتوں کے موصوف سے اردو والے اکثر الف لام کو حذف کرکے استعمال کرتے ہیں مگر قرآنی آیات کے ساتھ اس طرح کا برتاؤ درست نہیں ۔
لولاک کے بارے میں لکھتے ہیں کہ مشہور حدیث قدسی لولاک لما خلقت الافلاک کی طرف اشارہ ہے،( یعنی اگر تیری (رسول اکرم) کی ذات نہ ہوتی تو میں آسمانوں کو پیدا نہ کرتا) لیکن فبہاکا صرف معنی (بہت خوب، بہتر ، مراد حاصل) بیان کرتے ہیں جب کہ یہ بھی حدیث شریف فبہا ونعمت کا ٹکڑا ہے اور وہیں اردو میں وارد ہواہے۔
ان سطروں سے یہ بات واضح ہوتی ہے صاحب فیروز اللغات نے اسلامی اور عربی اصطلاحات کے صحیح معانی اور مفاہیم کے بیان کا اہتمام نہیں کیا ہے۔ اکثر اصطلاحات وتراکیب کو غلط ضبط کیا گیا ہے وہیں کوئی اصول اور ضابطہ یا کوئی معیار قائم کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ کسی کا لفظی معنی بتایا تو کسی کا مفہوم، کسی کی تشریح کردی تو کسی اصطلاح میں اپنے حساب سے کوئی اور معنی پہنادیا۔ کسی آیت کے ٹکڑے کی طرف اشارہ کیا کہ قرآنی آیت ہے تو بہت ساری آتیوں کو یوں ہی چھوڑ دیا۔اوپر دی گئی مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ ان عربی اور اسلامی اصطلاحات پر کام کرنے والے کے لیے عربی زبان کی نزاکت کا علم ہونا اور اسلامیات سے صحیح واقفیت ہونا بہت ضروری ہے ورنہ وہ یوں ہی غلطیوں کا ارتکاب کرے گا۔
فیروز اللغات ایک جامع اور مشہور ومتداول اردو لغت ہے، ا س میں اس طرح کی غلطیوں کا پایا جانا حیرت انگیز ہے۔ اس سے آج بھی بے شمار طلبہ اور اسکالر مستفید ہورہے ہیں اس لیے ضرورت ہے کہ اگر اگلی اشاعتوں میں ان غلطیوں کا تدارک کرلیا جائے تاکہ اس کا فائدہ بدستور جاری وساری رہے گا۔
تبصرے بند ہیں۔