انسان کی کمزوریاں (چوتھی قسط)

تنگ دلی: بے اعتدالیِ مزاج سے ملتی جلتی ایک اور کمزوری بھی انسان میں ہوتی ہے جسے تنگ دلی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے جسے قرآن مجید میں ’’شُحِّ نفس‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ جس کے متعلق قرآن کہتا ہے کہ فلاح اس شخص کیلئے ہے جو اس سے بچ گیا (وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ) اور جسے قرآن تقویٰ اور احسان کے برعکس ایک غلط میلان قرار دیتا ہے۔ (وَ اُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ وَ اَنْ تُحْسِنُوْا وَ تَتَّقُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْراً)، اس مرض میں جو شخص مبتلا ہو وہ اپنی زندگی کے ماحول میں دوسروں کیلئے کم ہی گنجائش چھوڑنا چاہتا ہے۔ وہ خود جتنا بھی پھیل جائے اپنی جگہ اسے تنگ ہی نظر آتی ہے اور دوسرے جس قدر بھی اس کیلئے سکڑ جائیں اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ بہت پھیلے ہوئے ہیں ۔ اپنے لئے وہ ہر رعایت چاہتا ہے مگر دوسروں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کرسکتا۔ اپنی خوبیاں اس کے نزدیک ایک صفت ہوتی ہیں اور دوسروں کی خوبیاں محض ایک اتفاقی حادثہ ۔ اپنے عیوب اس کی نگاہ میں قابل معافی ہوتے ہیں مگر دوسروں کا کوئی عیب و ہ معاف نہیں کرسکتا۔ اپنی مشکلات کو تو وہ مشکلات سمجھتا ہے مگر دوسروں کی مشکلات اس کی رائے میں محض بہانہ ہوتی ہیں ۔ اپنی کمزوریوں کیلئے جو الاؤنس وہ خود چاہتا ہے، دوسروں کو وہ الاؤنس دینے کیلئے تیار نہیں ہوتا۔ دوسروں کی مجبوریوں کی پرواہ کئے بغیر وہ ان سے انتہائی مطالبات کرتا ہے جو خود اپنی مجبوری کی صورت میں وہ کبھی پورے نہ کرے۔ اپنی پسند اور اپنا ذوق وہ دوسروں پر ٹھونسنے کی کوشش کرتا ہے، مگر دوسروں کی پسند اور ان کے ذوق کا لحاظ کرنا ضروری نہیں سمجھتا۔ یہ چیز ترقی کرتی ہے تو آگے چل کر خوردہ گیری و عیب چینی کی شکل اختیار کرتی ہے۔ دوسروں کی ذرا ذرا سی باتوں پر آدمی گرفت کرنے لگتا ہے اور پھر جوابی عیب چینی پر بلبلا اٹھتا ہے۔

 اسی تنگ دلی کی ایک اور شکل زود رنجی، نک چڑھاپن اور ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنا ہے جو اجتماعی زندگی میں اس شخص کیلئے بھی مصیبت ہے جو اس میں مبتلا ہو اور ان لوگوں کیلئے بھی مصیبت جنھیں ایسے شخص سے واسطہ پڑے۔

 کسی جماعت کے اندر اس بیماری کا گھس آنا حقیقت میں ایک خطرے کی علامت ہے، اجتماعی جدوجہد بہر حال آپس کی الفت اور باہمی تعاون چاہتی ہے جس کے بغیر چار آدمی بھی مل کر کام نہیں کرسکتے مگر یہ تنگ دلی اس کے امکانات کو کم ہی نہیں ، بسا اوقات ختم کردیتی ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ تعلقات تلخی اور باہمی منافرت ہے۔ یہ دلوں کو پھاڑ دینے والی اور ساتھیوں کو آپس میں الجھا دینے والی چیز ہے، اس مرض میں جو لوگ مبتلا ہوں وہ عام معاشرتی زندگی کیلئے بھی موزوں نہیں ہوسکتے، کجا کہ کسی مقصد عظیم کی خدمت کیلئے موزوں قرار پاسکیں ۔ خصوصیت کے ساتھ یہ صفت ان صفات کے بالکل ہی برعکس ہے جو اسلامی نظامِ زندگی کے قیام کی جدوجہد کیلئے مطلوب ہیں ۔ وہ تنگ دلی کے بجائے فراخ دلی، بخل کے بجائے فیاضی، گرفت کے بجائے عفو و درگزر اور سخت گیری کے بجائے مراعات چاہتا ہے، اس کیلئے حلیم اور متحمل لوگ درکار ہیں ۔ اس کا بیڑا وہی لوگ اٹھا سکتے ہیں جو بڑا ظرف رکھتے ہوں ، جن کی سختی اپنے لئے اور نرمی دوسروں کیلئے ہو، جو خود کم سے کم الاؤنس چاہیں اور دوسروں کو زیادہ سے زیادہ الاؤنس دیں ۔ جو اپنے عیوب اور دوسروں کی خوبیوں پر نگاہ رکھیں ۔ جو تکلیف دینے کے بجائے تکلیف سہنے کے خوگر ہوں اور چلتوں کو گرانے کے بجائے گرتوں کو تھامنے کا بل بوتا رکھتے ہوں ۔ جو جماعت ایسے لوگوں پر مشتمل ہوگی وہ نہ صرف خود آپس میں مضبوطی کے ساتھ جڑی رہے گی بلکہ اپنے گرد و پیش کے معاشرے میں بھی بکھرے ہوئے اجزا کو سمیٹتی اور اپنے ساتھ جوڑتی چلی جائے گی۔ اس کے برعکس تنگ دل اور کم ظرف لوگوں کا مجمع خود بھی بکھرے گا اور باہر بھی جس جس سے اس کو سابقہ پیش آئے گا اسے نفرت دلاکر اپنے سے دور بھگا دیگا۔

 (4 ضعفِ ارادہ: انسانوں میں ایک اور کمزوری بہ کثرت پائی جاتی ہے جسے ہم ضعف ارادہ کا نام دے سکتے ہیں ۔

 اس کی حقیقت یہ ہے کہ انسان ایک تحریک کی دعوت سن کر اسے صدق دل سے لبیک کہتا ہے اور اول اول خاصا جوش بھی دکھاتا ہے مگر وقت گزرنے کے ساتھ اس کی دلچسپی کم ہوتی چلی جاتی ہے جہاں تک کہ اسے نہ اس مقصد سے کوئی حقیقی لگاؤ باقی رہتا ہے جس کی خدمت کیلئے وہ آگے بڑھا تھا اور نہ اس جماعت کے ساتھ کوئی عملی وابستگی باقی رہتی ہے جس میں وہ دلی رغبت کے ساتھ شامل ہوا تھا۔ اس کا دماغ بدستور ان دلائل پر مطمئن رہتا ہے جن کی بنا پر اس تحریک کو اس نے برحق مانا تھا۔ اس کی زبان بدستور اس کے برحق ہونے کا اقرار کرتی رہتی ہے، اس کے دل کی شہادت بھی یہی رہتی ہے کہ یہ کام کرنے کا ہے اور ضرور ہونا چاہئے لیکن اس کے جذبات سرد پڑجاتے ہیں اور قوائے عمل کی حرکت سست ہوتی چلی جاتی ہے، اس میں کسی بدنیتی کا ذرہ برابر دخل نہیں ہوتا، مقصد سے انحراف بھی نہیں ہوتا، نظریے کی تبدیلی بھی قطعاً واقع نہیں ہوتی۔ اسی وجہ سے آدمی جماعت کو چھوڑنے کا خیال نہیں کرتا مگر بس وہ ارادے کی کمزوری ہوتی ہے جو ابتدائی جوش ٹھنڈا ہوجانے کے بعد مختلف شکلوں میں اپنے کرشمے دکھانے شروع کر دیتی ہے۔

 ضعف ارادے کا ابتدائی ظہور کام چوری کی صورت میں ہوتا ہے۔ آدمی ذمہ داریاں قبول کرنے سے جی چرانے لگتا ہے۔ مقصد کی راہ میں وقت، محنت اور مال خرچ کرنے سے گریز کرنے لگتا ہے، دنیا کے ہر دوسرے کام کو اس کام پر ترجیح دینے لگتا ہے جسے وہ زندگی کا نصب العین قرار دے کر آیا تھا۔ اس کے اوقات میں ، اس کی محنتوں میں ، اس کے مال میں ، اس کے نام نہاد مقصد حیات کا حصہ کم سے کم ہوتا چلا جاتا ہے اور جس جماعت کو وہ برحق جماعت مان کر اس سے وابستہ ہوا تھا اس کے ساتھ بھی وہ صرف نظم اور ضابطے کا تعلق باقی رکھتا ہے۔ اس کے بھلے اور برے سے کوئی غرض نہیں رکھتا، نہ اس کے معاملے میں کسی قسم کی دلچسپی لیتا ہے۔

  یہ حالت کچھ اس طرح بتدریج طاری ہوتی ہے جیسے جوانی پر بڑھاپا آتا ہے۔ اگر آدمی اپنی اس کیفیت پر نہ خود متنبہ ہو اور نہ کوئی اسے متنبہ کرے تو کسی وقت بھی وہ یہ سوچنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا کہ جس چیز کو میں اپنا مقصد زندگی قرار دے کر جان و مال کی بازی لگانے کیلئے اٹھا تھا، اس کے ساتھ اب یہ کیا معاملہ کرنے لگا ہوں ۔ یوں محض غفلت اور بے خبری کے عالم میں آدمی کی دلچسپی و وابستگی بے جان ہوتی چلی جاتی ہے، حتیٰ کہ کسی روز بے خبری ہی میں اس کی طبعی موت واقع ہوجاتی ہے۔

 جماعتی زندگی میں اگر پہلے آدمی کے اندر اس کیفیت کے ظہور کا نوٹس نہ لیا جائے اور اس کے نشو و نما کو روکنے کی فکر نہ کی جائے تو ایک ضعیف الارادہ پیدا ہورہا ہو، اونگھتے کو ٹھیلتے کا بہانہ مل جاتا ہے۔ اچھے خاصے سرگرم آدمی دوسروں کو کام کرتے نہ دیکھ کر خود بھی کام چھوڑ بیٹھتے ہیں ، اور کوئی اللہ کا بندہ یہ نہیں سوچتا کہ میں کسی اور کے نہیں خود اپنے مقصد حیات کی خدمت کیلئے آیا تھا۔ اگر دوسرے اپنا مقصد چھوڑ چکے ہیں تو میں اپنے مقصد سے کیوں دست بردار ہوجاؤں ۔ ان لوگوں کی مثال اس شخص کی سی ہوتی ہے جو صرف اس لئے جنت کے راستے پر چلنا چھوڑ دے کہ دوسرے ساتھیوں نے چھوڑ دیا ہے۔ گویا جنت اس کی اپنی منزلِ مقصود نہ تھی یا وہ اس شرط کے ساتھ جنت جانا چاہتا تھا کہ دوسرے بھی وہاں جائیں اور شاید دوسروں ہی کے ساتھ وہ جہنم جانے کا ارادہ بھی کرلے اگر انھیں اس طرف جاتے دیکھے، کیونکہ اس کا اپنا مقصد کوئی نہیں ہے۔ جو کچھ دوسروں کا مقصد ہے وہی اس کا بھی ہے، اس ذہنی کیفیت میں مبتلا ہوجانے والے لوگ ہمیشہ کام نہ کرنے والوں کو مثال بناتے ہیں ، کام کرنے والوں میں انھیں کوئی قابل تقلید مثال نہیں ملتی۔

 تاہم بسا غنیمت ہے کہ کوئی شخص بس سیدھے سادے طریقے پر ضعفِ ارادہ کی بنا پر سست پڑجائے اور سست ہی پڑ کر رہ جائے لیکن انسانی فطرت جب ایک دفعہ کمزوری میں مبتلا ہوجاتی ہے تو دوسری کمزوریاں بھی ابھرنے لگتی ہیں ، اور کم ہی لوگ اس پر قادر ہوتے ہیں کہ اپنی ایک کمزوری کی مدد پر دوسری کمزوریوں کو نہ آنے دیں ۔ بالعموم آدمی کو اس میں شرم محسوس ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایک کمزور انسان کی حیثیت سے ظاہر کرے یا اسے برداشت کرلے، چہ جائے کہ لوگ اسے کمزور سمجھیں ، وہ سیدھی طرح اس کا اعتراف نہیں کرتا کہ ضعف ارادہ نے اسے سست کر دیا ہے۔ اس کے بجائے وہ اس پر پردہ ڈالنے کیلئے مختلف طریقے اختیار کرتا ہے، جن میں سے ہر طریقہ دوسرے سے بدتر ہوتا ہے۔

مثلاً وہ کام نہ کرنے کیلئے طرح طرح کے بہانے کرتا ہے اور آئے دن کوئی نہ کوئی عذرِ لنگ پیش کرکے ساتھیوں کو یہ فریب دینے کی کوشش کرتا ہے کہ اس کے کام نہ کرنے کا اصل سبب مقصد سے لگاؤ اور دلچسپی میں کمی نہیں ہے بلکہ واقعی رکاوٹیں اس کی راہ میں حائل ہیں ۔یہ گویا سستی کی مدد پر جھوٹ کو بلاتا ہے اور یہاں سے اس آدمی کا اخلاقی تنرل شروع ہوتا ہے جس نے اول اول صرف ترقی کی بلندیوں پر چڑھنا چھوڑ دیا تھا۔

یہ حیلہ جب پرانا ہوکر بیکار ثابت ہونے لگتا ہے اور آدمی کو خطرہ ہوتا ہے کہ اب اصل کمزوری کا راز فاش ہوا چاہتا ہے تو وہ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ دراصل اپنی کمزوری کی وجہ سے سست نہیں ہوا ہے بلکہ جماعت کی کچھ خرابیوں نے اسے بد دل کردیا ہے۔ گویا آپ خود تو بہت کچھ کرنا چاہتے تھے مگر کیا کریں ، ساتھیوں کے بگاڑ نے دل توڑ کر رکھ دیا۔ اس طرح یہ گرتا ہوا انسان جب ایک قدم نہیں جما سکتا تو اور زیادہ نیچے اتر جاتا ہے اور اپنی کمزوری کو چھپانے کی خواہش اسے یہ مظلمہ اپنی گردن پر لینے کیلئے آمادہ کر دیتی ہے کہ جس کام کو بنانے کے قابل وہ نہ رہا تھا اسے اب بگاڑنے کی کوشش شروع کر دے۔

 ابتدائی مرحلہ میں یہ بد دلی کا معاملہ مجمل رہتا ہے، کچھ پتہ نہیں چلتا کہ حضرت کیوں بد دل ہیں ، خرابیوں کی مبہم شکایتیں دبی زبان سے ظاہر ہوتی ہیں مگر ان کی کوئی تفصیل معلوم نہیں ہوتی۔ ساتھی اگر حکمت سے کام لیں اور اصل مرض کو سمجھ کر اس کا مداوا کرنے کی فکر کریں تو یہ گرتا ہوا شخص مزید گرنے سے رک بھی سکتا ہے اور اوپر اٹھایا بھی جاسکتا ہے، لیکن اکثر نادان دوست کچھ بے جا جوش کی وجہ سے اور کچھ اپنے جذبہ استعجاب کی تسکین کی خاطر کھوج کرید شروع کر دیتے ہیں اور اسے اجمال کی تفصیل بیان کرنے پر مجبور کرتے ہیں ۔ اس کے بعد وہ اپنی بددلی کو حق بجانب ثابت کرنے کیلئے ہر طرف نظر دوڑاتا ہے۔ مختلف افراد کی انفرادی کمزوریاں چن چن کر جمع کرتا ہے، جماعت کے نظام اور اس کے کام میں نقائص ڈھونڈتا ہے اور ایک فہرست بناکر سامنے رکھ دیتا ہے کہ یہ ہیں وہ خرابیاں جنھیں دیکھ کر آخر کار یہ خاکسار بد دل ہوگیا ہے، یعنی اس کا استدلال یہ ہوتا ہے کہ مجھ جیسا مردِ کامل جو سب کمزوریوں سے پاک تھا، ان کمزور ساتھیوں اور ان نقائص سے لبریز جماعت کے ساتھ بھلا کس طرح آگے چل سکتا ہے اور یہ طرز استدلال اختیار کرتے وقت شیطان اسے یہ بھلا دیتا ہے کہ اگر واقعی معاملہ یہ تھا تو سست پڑنے کے بجائے یہ تو اور زیادہ سرگرم ہونے کا متقاضی تھا۔ جس کام کو آپ اپنی ندگی کا نصب العین ٹھہرا کر انجام دینے کیلئے اٹھے تھے اسے اگر دوسرے اپنی خامیوں سے بگاڑ رہے تھے تو آپ اور زیادہ جوش و خروش کے ساتھ اسے بنانے میں لگ جاتے اور اپنی خوبیوں سے دوسروں کی ان خامیوں کا تدارک فرماتے۔ آپ کے گھر میں آگ لگی ہو اور گھر کے دوسرے افراد اسے بجھانے میں کوتاہی برتیں تو آپ بد دل ہوکر بیٹھ جائیں گے یا جلتے ہوئے گھر کو بچانے کیلئے ان کوتاہ دستوں سے بڑھ کر چابک دستی دکھائیں گے۔

اس معاملہ کا سب سے زیادہ افسوس ناک پہلو یہ ہوتا ہے کہ آدمی اپنی غلطی پر پردہ ڈالنے اور اپنے آپ کو حق بجانب ثابت کرنے کی کوشش میں خود اپنے نامہ اعمال کا سارا حساب دوسروں کے نامہ اعمال میں درج کر ڈالتا ہے اور بھول جاتا ہے کہ نامہ ہائے اعمال کا کوئی ریکارڈ ایسا بھی ہے جس میں کسی کی مکاری سے ایک شوشہ بھی نہیں بدل سکتا۔ وہ دوسروں کے نامہ اعمال میں بہت سی کمزوریاں گنواتا ہے جن میں وہ خود مبتلا ہوتا ہے۔ وہ جماعت کے کردار میں بہت سی ان خرابیوں کی نشان دہی کرتا ہے جن کے پیدا کرنے میں اس کا اپنا حصہ دوسروں سے کم نہیں ، کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے۔ وہ ان کاموں پر سراپا شکایت بنا ہوا نظر آتا ہے جو اس کے اپنے کئے ہوئے ہوتے ہیں ، اور جب وہ کہتا ہے کہ یہ کچھ دیکھ کر اس کا دل ٹوٹ گیا ہے تو اس کے معنی صاف یہ ہوتے ہیں کہ ان سب چیزوں سے وہ خود بری الذمہ ہے۔(جاری)

تحریر: مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ … ترتیب: عبدالعزیز

تبصرے بند ہیں۔