قوت برداشت ہی کامیابی کی شاہ کلید
عبدالرشید طلحہ نعمانیؔ
ہرسال 16/نومبر کو دنیا بھر میں برداشت کا عالمی دن منایاجاتاہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد معاشرے میں برداشت ورواداری کی ضرورت، صبر و تحمل کی اہمیت، دوسروں کے فرائض و حقوق کا احترام اور عدم برداشت کے معاشرے پر رونما ہونیوالے منفی اثرات سے آگاہی فراہم کرنا ہے۔ برداشت کے عالمی دن کے موقع پر انسانی حقوق کی تنظیمیں خصوصا اقلیتوں کے ساتھ غیر مساوی اور امتیازی سلوک کی روک تھام کی اہمیت اجاگر کرتی ہیں۔
عدم برداشت ہی کی وجہ سے معاشرے میں بدنظمی، بےعنوانی، معاشرتی استحصال، لاقانونیت اور ظلم و عداوت جیسے ناسور پنپ رہے ہیں، عدم برداشت ہی کی بناءپر آج کا انسان بے چینی، جلد بازی، حسد، احساس کمتری اور ذہنی دباؤ کا شکار ہوتا جار ہاہے، یہی صبرتحمل کی کمی ہے؛ جس کا خمیازہ ہم آج دہشت گردی کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔
انسانی معاشرہ ایک گل دستے کی طرح ہے جس طرح گل دستے میں مختلف رنگ کے ہمہ نوع پھول، حسن و خوبصورتی کا باعث ہوتے ہیں، بالکل اسی طرح انسانی معاشرہ بھی مختلف الخیال، مختلف المذہب اور مختلف النسل کے افراد سے مل کر ترتیب پاتا ہے اور اس کا یہی تنوع اس کی خوبصورتی کا سبب بنتا ہے۔ چناں چہ میانہ روی، رواداری، تحمل مزاجی، عفو درگزر اور ایک دوسرے کو برداشت کرنےکا جذبہ، یہ وہ خوبیاں ہیں جن کی وجہ سے سماج امن و امان کا گہوارہ بنتا ہےاور اس طرح ایک صالح معاشرہ تشکیل پاتاہے۔
کوئی زمانہ تھاکہ حق گوئی اور بے باکی جواں مردوں کا آئین اور قلندروں کا طریق سمجھی جاتی تھی ؛مگر میری رائے میں فی زماننا جرئت ِگفتار سےزیادہ ہمت ِبرداشت ہی مردان خردمند اور جوانان ہوش مند کا طرہ امتیاز ہے۔
قوت برداشت ان اعلیٰ صفات میں سے ہے ؛جو افراد کیلئے انفرادی طور پر اور اقوام کیلئے اجتماعی طور پر فوزو فلاح، کامیابی وکامرانی، عزت و عظمت اور ترقی وسر بلندی کا ذریعہ ہے۔ تحمل وہ دولت ہے ؛ جس کی وجہ سے انسان کے نفس میں ایسی غیر معمولی طاقت پیدا ہوتی ہے جو کسی بھی حالت میں انسان پر قوت غضب کو غالب نہیں آنے دیتی۔ دین و شریعت میں حق پر ہوتے ہوئے مصائب سہنا، مظالم برداشت کرنا، تکالیف انگیز کرنا تو اخلاق کا اونچا معیار اور انسانیت کی بڑی معراج ہے۔والحق احق ان یتبع ؛مگرخودساختہ مزعومات اور من مانی نظریات پر اصرار کرنا، زبردستی انہیں تسلیم کرنے پر مجبور کرنا، خلاف ورزی پر مشتعل وبرانگیختہ ہونا، پرلے درجہ کی حماقت اور نچلے درجہ کی جہالت ہے۔
یہ ایک ناقابل تردیدحقیقت ہے کہ قومیں اور افراد، جب اقبال مند ہوتے ہیں تو اپنا احتساب خود کرتے ہیں، اپنے خیالات و نظریات کو مستند سمجھ کر، مطمئن نہیں ہوجاتے ؛بل کہ ہر وقت جائزہ لیتے رہتے ہیں کہ کہیں اِن میں کوئی کھوٹ تو نہیں ؟ خلاف عقل و شرع کوئی بات تو نہیں ؟ لیکن افسوس صد افسوس کہ عصر حاضر میں جو جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے، جو خمار ذہن و دماغ پہ چھایا ہوا ہےاور جو سودا سروں میں سمایا ہوا ہے، بے لاگ انداز میں، بغیر کسی ہچکچاہٹ کے، بلاخوف لومۃلائم لکھاجائے تو وہ ہے— حکم رانی کا جنوں — اور—بڑائی جتلانے کا فسوں — وہ بھی قوت برداشت کے بغیر آج ہر کوئی کنویں کے مینڈک کی طرح خود کو حاکم اعلی اور عقل کل سمجھتا ہے، چار لوگ کیا معاون بن گئے خود کو متبوع و مخدوم گمان کرنےلگتاہے۔بعض بعض تو ایسا حاکمانہ؛ بل کہ آمرانہ مزاج رکھتے ہیں کہ تلاش کرنے پر بھی عاجزی، انکساری اورفروتنی؛بل کہ اِن کی ادنی چنگاری بھی ان میں دور دور تک نظر نہیں آتی۔ اس پر طرہ یہ کہ وہ خود بھی اس طلسم سے باہر نہیں آنا چاہتے اور خودی کی خدائی میں اتنے مصروف و مگن اور انا کی خول میں اس طرح مقید و بندہوجاتے ہیں کہ انجام کار اوقات فراموش بن بیٹھتے ہیں۔ ایسے افراد کا جب احتساب کیا جاتاہے، انہیں دیانتاََ کوئی اہم پہلو بتلایا جاتا ہے تو بیدار مغزی کا ثبوت دینے اور خندہ پیشانی کا مظاہرہ کرنے کے بجائےکینےاور حسد کو پالنے، بغض و عناد کو راہ دینے اورزندگی بھر کی دشمنی مول لینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔
انسانی دل کی اہم ترین خواہش یہ ہوتی ہےکہ سننے سے زیادہ سنایاجائے، ماننے سے زیادہ منوایاجائے۔ چنانچہ زیادہ تر لوگ اس نیت سے نہیں سنتے کہ اگلے کی بات کو سمجھیں بلکہ وہ اس لئے سنتے ہیں کہ اُنہیں جواب دینا ہوتا ہے۔ بیشتر لوگ یا تو بول رہے ہوتے ہیں اور یا پھر بولنے کی تیاری کر رہے ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں کاموں کو کرتے ہوئے دوسرے کی بات کو بھر پور توجہ سے سننا اور اُس کو صیح معنوں میں سمجھنا ممکن نہیں رہتا۔ اور یہی صبر و ضبط حضور پر نورﷺ کا اسوہ حسنہ ہے ؛بل کہ ان کی تعلیمات کا پہلا درس ہی قوت برداشت ہے کہ ہم اپنے آئینہ دل کو اس حد تک ستھرا رکھیں کہ زمانے کے دئیے ہوئے صدمات، دکھ اور اذیتیں اسے گرد آلود نہ کرسکیں ؛کیونکہ دل کی صفائی اور روشنی ہی وہ صفائی اور روشنی ہے جس میں ہم روز قیامت اپنے رب کا دیدار کرسکیں گے۔ جہاں تک ہم نے اپنے اکابر کو پڑھا اور دیکھا تو یہی سمجھا کہ ان کو اپنی اصلاح کی بڑی فکر تھی، اگر کوئی ان کو ان کی غلطی بتاتا تو وہ یہ نہیں دیکھتے تھے کہ غلطی بتانے والاکون ہے ؟اس کا انداز کیسا ہے؟ وہ ہمارا مخالف ہے یا موافق؟؛بلکہ اگر غلطی معلوم ہوجاتی تو تسلیم کرلیتے، البتہ دوسروں کو ان کی غلطی بتانے میں حکمت اور حدود کا خیال رکھتے۔
دار العلوم دیوبند کے پہلے شیخ الحدیث اور صدر مدرس حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب نانوتوی ؒجنھیں ان کے علوم کی وسعت اور گہرائی کی وجہ سے شاہ عبد العزیز ثانی کہا جاتا تھا، ان کے تلمیذ ارشد حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒنے بار بار بیان کیا ہے کہ جب کوئی انھیں ان کی کسی غلطی پر تنبیہ کر دیتا تھا تو نہایت شکر گزاری سے بار بار اس کا اعتراف کرتے تھے اور غالبا اسی کا اثر تھا کہ حضرت تھانوی ؒ نے (جو کہ نہایت کثیر التصانیف بزرگ ہیں )اپنے یہاں ایک مستقل سلسلہ ترجیح الراجح کا قائم کر رکھا تھا اور کہیں سے کوئی بھی کسی چیز پر گرفت کرتا تھا تو اسے بغور ملاحظہ فرماتے اور اس کی رائے کو درست پاتے تو بے تکلف اس کا اعتراف کرکے اپنے سابق قول سے رجوع فرمالیتے۔
حضرت سید سلیمان ندویؒ نے بھی رجوع واعتراف کے نام سے ایک مضمون تحریر فرمایا تھا جس میں اپنی متعددرایوں سے برملا رجو ع کیا۔ اہل حق کا ہمیشہ یہی شعار رہا ہے، غلطی کے اعتراف سے آدمی کو بلندی ملتی ہے۔ یادرکھنا چاہئے کہ ہمارا صبر و تحمل، ہماری قوت برداشت اور جبر ذات ہمارے لئے ہمیشہ خیر اور اجر کا سبب بنتی ہے، دانشوروں کا ماننا ہے کہ ہر معاشرے میں انتشار و خلفشار کی بنیادی وجہ قوت برداشت کی کمی ہے اگر انسان اسی بنیادی خامی بلکہ کمزوری کے خلاف نبر د آزما رہے تو یہ دنیا رہنے کیلئے ایک پر سکون جگہ بن سکے گی اور سکون سے بڑھ کر انسان کو اور کس دولت کی ضرورت ہوسکتی ہے؟

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
ابوسعید ابوالخیر سے کسی نے کہا؛ ’’کیا کمال کا انسان ہو گا وہ جو ہوا میں اُڑ سکے۔‘‘
ابوسعید نے جواب دیا؛ ’’یہ کونسی بڑی بات ہے، یہ کام تو مکّھی بھی کر سکتی ہے۔‘‘
’’اور اگر کوئی شخص پانی پر چل سکے اُس کے بارے میں آپ کا کیا فرمانا ہے؟
’’یہ بھی کوئی خاص بات نہیں ہے کیونکہ لکڑی کا ٹکڑا بھی سطحِ آب پر تیر سکتا ہے۔‘‘
ؔؔ’’تو پھر آپ کے خیال میں کمال کیا ہے؟‘‘
’’میری نظر میں کمال یہ ہے کہ لوگوں کے درمیان رہو اور کسی کو تمہاری زبان سے تکلیف نہ پہنچے۔
جھوٹ کبھی نہ کہو، کسی کا تمسخر مت اُڑاؤ، کسی کی ذات سے کوئی ناجائز فائدہ مت اُٹھاؤ، یہ کمال ہیں۔
یہ ضروری نہیں کہ کسی کی ناجائز بات یا عادت کو برداشت کیا جائے، یہ کافی ہے کہ کسی کے بارے میں بن جانے کوئی رائے قائم نہ کریں۔
یہ لازم نہیں ہے کہ ہم ایک دوسرے کو خوش کرنے کی کوشش کریں، یہ کافی ہے کہ ایک دوسرے کو تکلیف نہ پہنچائیں۔
یہ ضروری نہیں کہ ہم دوسروں کی اصلاح کریں، یہ کافی ہے کہ ہماری نگاہ اپنے عیوب پر ہو۔
حتّیٰ کہ یہ بھی ضروری نہیں کہ ہم ایک دوسرے سے محبّت کریں، اتنا کافی ہے کہ ایک دوسرے کے دشمن نہ ہوں۔
دوسروں کے ساتھ امن کے ساتھ جینا کمال ہے۔‘