لمحات آگہی

محمد شاہد خان

غالبا فروری 2017 کا مہینہ تھا دوحہ قطر میں ایک بڑا عالمی مشاعرہ ہورہا تھا پورا اسٹیج بقعۂ نور بنا ہوا تھا الوک کمار سریواستو پہلی بار نظامت کے فرائض انجام دے رہے تھے اور بڑی اچھی نظامت کررہے تھے، یکے بعد دیگرے مختلف شعراء کرام اپنا کلام سناکر رخصت ہورہے تھے کہ اچانک ناظم مشاعرہ نے ایک خاتون شاعرہ کو آواز دی، کھچاکھچ بھرے ہال میں ایک نسوانی آواز ابھری، وہ آواز سماعتوں سے گزر کر روح میں اترتی ہوئی محسوس ہوئی، وہ تحت اللفظ میں پڑھ رہی تھیں ان کی آواز میں بڑا وقار اورلہجہ میں بڑا اعتماد تھا۔ وہ نسوانی احساسات وجذبات کو بڑے سلیقہ سے پیش کررہی تھیں مجھے پہلی بار انھیں سننے کا موقع نصیب ہورہا تھا، اچانک انھوں نے اپنی وہ غزل چھیڑی جو کہ ایک طرح سے ان کا وزیٹنگ کارڈ بن چکی ہے وہ مشہور زمانہ غزل یہ تھی

دھیان میں آ کر بیٹھ گئے ھو، تم بھی ناں
مجھے مسلسل دیکھ رہے ہو، تم بھی ناں
دے جاتے ہو مجھ کو کتنے رنگ نئے
جیسے پہلی بار ملے ھو، تم بھی ناں
ہر منظر میں اب ہم دونوں ہوتے ہیں
مجھ میں ایسے آن بسے ھو، تم بھی ناں
عشق نے یوں دونوں کو ہم آمیز کیا
اب تو تم بھی کہہ دیتے ہو، تم بھی ناں
خود بھی کہو اب کیسے سنور سکتی ہوں میں
آئینے میں تم ہوتے ہو، تم بھی ناں
میری بند آنکھیں بھی تم پڑھ لیتے ہو
مجھ کو اتنا جان چکے ہو، تم بھی ناں
کرجاتے ہو کوئی شرارت چپکے سے
چلو ہٹو تم بہت برے ہو، تم بھی ناں
مانگ رہے ہو رخصت مجھ سے اور خود ہی
ہاتھ میں ہاتھ لئے بیٹھے ہو، تم بھی ناں

شہر کراچی پاکستان سے تعلق رکھنے والی یہ شاعرہ ڈاکٹر عنبریں حسیب عنبر تھیں ان کی شاعری کا لب و لہجہ اور نیا آہنگ ہر کسی کو اپنی گرفت میں لے رہا تھا۔

مجھے بہت ساری خواتین شعراء کو سننے اور پڑھنے کا اتفاق پہلے بھی ہوچکا ہے لیکن اس پہلو سے میں پروین شاکر کے علاوہ کسی اور کا اب تک قائل نہ ہوسکا تھا بیسویں صدی کی نصف آخیر میں ابھرنے والی شاعرات میں شاید پروین شاکر ہی ایک ایسی آواز تھی کہ جس نے نسائی احساسات وجذبات کی بھرپور ترجمانی کی ہے اور دنیائے شعروادب سے اپنا لوہا منوایا ہے، اس حوالہ سے ان کے پائے کی کوئی دوسری شاعرہ اب تک میری نظر سے نہیں گزری ہے کیونکہ پروین شاکر سے قبل اس طرح کے احساسات وجذبات کا اظہارشاید معیوب تھا اسلئے اکثر شاعرات میں جرأت اظہار ناپید تھی بلکہ وہ اکثر کسی قلمی نام کا سہارا لیا کرتی تھیں تاکہ ان کی اصل شخصیت کی شناخت نہ ہوسکے لیکن پروین شاکر نے اسکے خلاف صدائے احتجاج بلند کی اور دبستان ادب میں خواتین شعراء کو ان کا جائز مقام دلانے کی بھرپور سعی کی، ہوسکتا ہے کہ بعض تنگ نظر ناقدین نے اسے کوئی اور بھی نام دیا ہو لیکن انھوں نے دنیا کو باور کرادیا کہ خواتین بھی انسان ہیں اور ان کے سینے میں بھی ایک دھڑکتا ہوا دل ہے، ان کے پاس بھی رومانی احساسات ہیں ان کا حسن وجمال بھی کرۂ ارض کی کشش ثقل سے کسی طرح کم نہیں۔

برسبیل تذکرہ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

کمال ضبط کو خود بھی تو آزماؤں گی
میں اپنے ہاتھ سے اسکی دلہن سجاؤں گی
سپرد کرکے اسے چاندنی کے ہاتھوں میں
میں اپنے گھر کے اندھیروں میں لوٹ آؤں گی
وہ کیا گیا کہ رفاقت کے سارے لطف گئے
میں کس سے روٹھ سکوں گی کسے مناؤں گی
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ان انگلیوں کا لمس تھا اور میری زلف تھی
گیسو بکھر رہے تھے تو قسمت سنور گئی
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ جب آئے گا تو پھر اسکی رفاقت کیلئے
موسم گل مرے آنگن میں ٹھہر جائے گا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا
روح تک آگئی تاثیر مسیحائی کی
اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹتا ہے
جاگ اٹھتی ہیں عجب خواہشیں انگڑائی کی
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اس سے اک بار تو روٹھوں میں اسی کی مانند
اور وہ میری طرح مجھکو منانے آئے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اچھی آنکھیں جو ملی ہیں اسکو
کچھ تو لازم ہوا وحشت کرنا
کون چاہے گا تمہیں میری طرح
اب کسی سے نہ محبت کرنا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تو مرا کچھ نہیں لگتا ہے مگر جان حیات
جانے کیوں تیرے لئے دل کو دھڑکتا دیکھوں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

پروین شاکر نے نسوانی احساسات وجذبات کو لفظوں کی خوشبو عطاکرکے اسے چمنستان ادب کا خوبصورت گوشہ بنادیا۔  میں ادب کو تانیثی اور غیر تانیثی خانوں میں نہیں بانٹنا چاہتا اور نہ ہی اس بحث میں پڑنا چاہتا ہوں کیونکہ ادب تو ادب ہے۔  لیکن اکیسویں صدی میں جب بھی غزل کے نئے لب ولہجہ کا تذکرہ ہوگا اور نسوانی احساسات وجذبات کی ترجمانی کی بات ہوگی تو بجاطور عنبریں حسیب عنبر کا نام جبین ادب پر زمرد کی طرح چمکتا ہوا دکھائی دے گا کیونکہ ان کے اشعار میں تہذیبی قدریں ہیں، نسائی محاورات کا بے تکلف استعمال ہے، زبان کا رچاؤ ہے، بلند خیالی ہے اور سب سے اہم بات نسائی احساسات وجذبات کی بھرپور ترجمانی ہے، مثال کے طور پر ان کے ان اشعار ملاحظہ کیجئے:

جز ترے کچھ بھی نہیں اور مقدر میرا
تو ہی ساحل ہے مرا، تو ہی سمندر میرا

تو نہیں ہے تو ادھوری سی ہے دنیا ساری
کوئی منظر مجھے لگتا نہیں منظر میرا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دفعتا اٹھ گئی ہیں نگاہیں مری
آج بیٹھے رہو روبرو دیر تک
تم نے کس کیفیت میں مخاطب کیا
کیف دیتا رہا لفظ تو دیر تک
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
قدر یوسف کی زمانے کو بتائی میں نے
تم تو بیچ آئے اسے مصر کے بازاروں میں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میں ہوں تم ہو اک دنیا ہے، توبہ ہے سارا عالم دیکھ رہا ہے، توبہ ہے سب سے بچ کر تم نے ایک نظر دیکھا  اور یہاں جو دل دھڑکا ہے، توبہ ہے ، تم نے پکارا نام کسی کا محفل میں میں نے اپنا نام سنا ہے، توبہ ہے۔

شاعری ان کی رگوں میں خون بن کر دوڑتی ہے کیونکہ ان کی پرورش ایک ادبی ماحول میں ہوئی ہے ان کے والد محترم پروفیسر سحر انصاری صاحب ایک نامور شاعروادیب ہیں ان کی والدہ محترمہ خود اردو ادب کا اعلی ذوق رکھتی ہیں انھوں نے اردو ادب میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی ہے، ڈاکٹر عنبریں نے محض چھ سال کی عمر ہی سے شعر گوئی کی ابتدا کردی تھی، وہ ایک اچھی شاعرہ اور ادیبہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک تنقید نگار بھی ہیں، ڈیڑھ سال قبل انھوں نے "اردو میں ترقی پسند تنقید” ‘کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے، سہ ماہی ادبی کتابی سلسلہ ‘اسالیب ‘کی مدیرہ ہیں اور ایک معروف ناظم مشاعرہ اور مشہور ٹی وی اینکر بھی ہیں وہ پاکستان کے مختلف ٹیلی ویژن چینلز پر مختلف قسم کے پروگرامز کی میزبانی کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔

لیکن شعروادب کے علاوہ بھی ان کی شخصیت کے کئی اور پہلو ہیں جو قابل رشک ہیں۔

وہ کاروان اردو قطر کے 12 جنوری 2018 کے پروگرام ‘جشن راحت اندوری وعالمی مشاعرے’ میں ہماری مہمان تھیں اسوقت ہمیں ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ایک شام ان کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کا موقع بھی نصیب ہوا اسوقت ہمیں احساس ہوا کہ وہ ایک انتہائی شریف، وضعدار اور حوصلہ مند خاتون ہیں، ان کی ادبی ترقی کے سفر میں ان کے مجازی خدا کا بڑا اہم کردار ہے، وہ انھیں دیس بدیس تنہا سفر کرنے کی اجازت اسلئے عطاکرتے ہیں کہ عنبر ان کے پیچھے چھپ کر زندگی نہ گزاریں بلکہ اپنے آپ کو ثابت کریں اور ان کے اندر کی عورت پورے اعتماد کے ساتھ باہر آئے اور ان کی شخصیت حجابوں اور رکاوٹوں میں چھپ کر کہیں گم نہ ہوجائے ان کی شہرت اور دنیا بھر کی ادبی مصروفیات کو دیکھتے ہوئے میرا یہ خیال تھا کہ وہ گھریلو خاتون بالکل نہیں ہوں گی .
کیونکہ اتنی ڈھیر ساری مصروفیات کے ساتھ گھریلو ذمہ داریوں کو نبھاناکوئی آسان کام نہیں ہے لیکن میری حیرت کی اسوقت کوئی انتہا نہ رہی جب یہ عرفان حاصل ہوا کہ وہ ایک گھریلو خاتون کی طرح پوری گھریلو ذمہ داریاں بھی اٹھاتی ہیں، گھر میں رسوئی کا کام سنبھالتی ہیں، ماں کا فرض نبھاتی ہیں، بچوں کی تعلیم و تربیت پر بھی پورا دھیان دیتی ہیں، ایک وفا شعار بیوی کا کردار بھی ادا کرتی ہیں غرض کہ سارے رشتہ ناطے بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دیتی ہیں، میں اپنے منھ میاں مٹھو بن رہا تھا اور اس وہم میں مبتلا تھا کہ شاید میں بہت محنت کش انسان ہوں، لیکن ڈاکٹر عنبریں صاحبہ کے سامنے میرا یہ بھرم ٹوٹ گیا اور یہ احساس ہوا کہ اصل محنت تو یہ کررہی ہیں، میری محنت تو ان کی محنت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ‘وفوق کل ذی علم علیم ‘۔

بچوں کی تعلیم وتربیت کے مسائل کو لےکر میری کچھ الجھنیں تھیں، جب ان مسائل پر میں نے ڈاکٹر صاحبہ سے گفتگو کی تو محسوس ہوا کہ اس موضوع کی بھی وہ ایکسپرٹ ہیں انھوں نے ہمیں بہت ساری قیمتی باتیں بتائیں، انھوں نے کہا کہ ہمیں بچوں کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھنا چاہئے، تعلیمی حوصلہ افزائی کیلئے کچھ تشجیعی انعامات بھی دینا چاہئے، انھوں نے مزید بتایا کہ مائیں بچوں کے ساتھ زیادہ بے تکلف ہوتی ہیں اسلئے بچے ان کی باتوں کو اکثر سنجیدگی سے نہیں لیتے اسلئے ماؤں کو چاہئے کہ باپ کے نام کا سہارا لے کر بہت ساری ڈانٹ ڈپٹ اور تادیبی کاروائی خود کردیا کریں اور والد کو چاہئے کہ بچوں کے ہر مسئلہ میں براہ راست نہ پڑیں تاکہ ان کا وقار محفوظ رہے اوربوقت ضرورت جب وہ کوئی بات کہیں تو بچے ان کی بات کا اثر لیں، انھوں نے یہ بھی بتایا کہ آپ کبھی بچوں میں موازنہ نہ کریں اور جس بچے میں جو Talent دیکھیں اسے بڑھاوا Promoteدیں۔

وہ بتانے لگیں کہ میں اپنے بچوں کیلئے اپنے موبائل فون، فیس بک میں کبھی پاسورڈ نہیں ڈالتی، وہ کبھی بھی میرے موبائل کو استعمال کرسکتے ہیں اسی وجہ سے میں بھی ان کے موبائل فون، فیس بک کسی بھی وقت چیک کرسکتی ہوں۔

ڈاکٹر عنبریں حسیب عنبر لوح وقلم کی سفیر ہیں، علم وادب کی پیغامبر ہیں اور اس راہ کی مسافر ہیں جس کی کوئی منزل نہیں وہ کہتی ہیں کہ جو کام کرو دل سے کرو بلا وجہ ورق سیاہ مت کرو، اگر کسی کام کو انجام دینے میں جذبہ دل اور خون جگر شامل نہ ہو تو بلا وجہ اس کام کو کرکے اس پر ظلم مت ڈھاؤ، آپ کا جو بھی تخلیقی عمل ہو وہ اپنا ہو کسی کی کاپی نہ ہو کیونکہ اصل اصل ہوتی ہے اور نقل نقل، بلا وجہ شاعر یا مصنف بننے کی ہوڑ میں مت بھاگو، کیونکہ اس سے آپ کا کچھ بھی بھلا نہیں ہو سکتا اور نہ ادب کا۔
ایک ایسے دور میں کہ جب کہ کتابوں کی اہمیت کم ہوتی دکھائی دے رہی ہے قارئین کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ڈاکٹر عنبریں صاحبہ کے ذاتی کتب خانہ میں تقریبا” ڈیڑھ دو لاکھ کتابوں کا خزانہ موجود ہے جو ان کے والد اور عنبریں کی زندگی بھر کا سرمایہ ہے.
ان کی شخصیت کے ہنوز بہت سارے پہلو ہیں جو پردۂ اخفا میں ہیں اور جن سے پردہ اٹھنا ابھی باقی ہے کہ بقول عنبر

چمکتی دھوپ میں کچھ دیر مجھ سے مل کر تم
مرے مزاج کی گہرائیاں نہ سمجھو گے

لہذا یہاں اس مختصر سے مضمون میں ان کا احاطہ کر پانا مشکل ہے اسلئے اگر یہ کہا جائے کہ ان کی شخصیت جمالیات کا عطر مجموعہ ہے تو بالکل بے جا نہ ہوگا، امید ہے کہ ان کی شخصیت کے عطر مُرَکّز سے باغ ادب ہمیشہ معطر ہوتا رہے گا۔

1 تبصرہ
  1. حسیب کہتے ہیں

    صورت تری تصویر کمالات بنا کر
    دانستہ مصور نے قلم توڑ دیا ہے

تبصرے بند ہیں۔