مسلمان، مودی اور کانگریس
ذاکر حسین
مکرمی! سننے میں آرہا ہیکہ آج کل وزیراعظم نریندر مودی کو ہچکی بہت آرہی ہے اور کیوں نہ آئے عوام آج کل و زیر اعظم موصوف کو دن بھر حتی کہ خوابوں میں بھی یاد کر رہے ہیں ۔ہمارا ماننا ہیکہ آزاد ہندوستان کے نریندر مودی پہلے ایسے وزیر اعظم ہونگے جنہیں عوام اتنی شدت اور بیتابی سے ہاد کرتے ہیں ؟
وزیر اعظم کوعوام کے ذریعے یاد کرنے کا فائدہ کسی کو ہو نہ ہو لیکن کانگریس کو اس کا زبردست فائدہ ملتا نظر آرہا ہے ۔اب نریندرمودی کی مسلسل ستائش سے تنگ آکر عوام بالخصوص مسلمان دن رات کانگریس کی مدح سرائی میں مصروف ہیں اور وزیر اعظم نریندر مودی پانی پی پی کر اپنی ہچکی کا مرض دور کرنے کی نا کام کوشش میں مصروف ہیں ۔خاکسار کا ان سے ایک سوال جو آج کل کانگریس کے مدح سراء بنے پھرتے ہیں کہ کیا کانگریس سچ مچ مسلمانوں کے تئیں وفادار ہے ،یا پھر کرسیوں اور چند سکوں کے لالچ میں اپنا ضمیر فروخت کر پوری قوم کا بیوقوف بنانے کا آپ نے ٹھیکہ لے رکھا ہے ۔کانگریس اور نام نہاد سیکولر جماعتوں کے تعلق سے چند تلخ حقائق پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس پر غور کریں اور پھر سوچیں کہ کہیں ہمیں آزادی کے بعد سے مسلسل بیوقوف تو نہیں بنایا جا رہاہے؟
2008 میں جامعہ نگر کے بٹلہ ہائوس میں دہلی پولس دو مسلم طلباء کو دہشت گرد بتا کر انکائونٹر کرتی ہے اور جب ملک کے مسلمان اور حقوق علمبردار کی تنظیموں کی جانب سے اس پولس تصادم کی حکومت سے جو ڈیشیل انکوائری کا مطالبہ ہوتا ہے تو کانگریس کی حکومت یہ کہہ کر بٹلہ ہائوس سانحہ کی جوڈیشیل انکوائری کا یہ عذر پیش کرکے انکار کر تی ہے کہ انکوائری سے پولس کا مورل ڈائون ہوگا ۔کتنے افسوس کی بات ہیکہ کانگریس کو مٹھی بھر پولس کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے اس لئے اس نے ملک کے 20 کروڑ مسلمانوں کے جذبات کو پس ِ پشت ڈال دیا۔
آئین ہند کے مطالعے سے پتہ چلتا ہیکہ ملک میں مروجہ کرمنل پروسیجر کوڈ (مجموعہ ضابطہ ء فوجداری )کی دفعہ 176 کے تحت کسی بھی طرح کے پولس تصادم کی جانچ مجسٹریٹ سے کروانا لازمی ہے ۔لیکن کانگریس کا اس سانحہ کی منصفانہ جانچ سے راہِ فرار اختیار کرنا جمہوری نظام کے ساتھ نا انصافی کرنے جیسا ہے ۔ راجیو گاندھی نے 1986ء میں بابری مسجد کا تالا کھلواکر ملک میں ہندتوا نظریات کی اشاعت کا کام کرنے والوں کی راہیں مزید ہموار کیں ۔کہا جاتا ہیکہ کانگریس میں ہندتوا کے تئیں نرم رویے کی ابتدا دگ وجے سنگھ ، ارون نہرو، وسنت ساٹھے اور بوٹا سنگھ سے ہوئی ۔
یہ بھی حقیقت ہیکہ مسلمانوں کو اب اپنی سیاسی قیادت کی تلاش ہے اور مسلم قائدین کے درمیان انتشار و افتراق کی فضا قائم ہونے سے ملک کے مسلمان شش وپنج میں مبتلا ہیں اور اب بس یہی دعا کی جا سکتی ہے کہ مسلم سیاسی لیڈران متحد ہوکر ایک پلیٹ فارم پر آئیں اور مسلمانوں اور مظلوموں کے حقوق کیلئے جدوجہد کی راہوں میں سرگرداں ہوں ۔

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔