منصور احمد ملک – ایک روشن مسکراتا چہرہ
عبدالعزیز
صدیوں سے یہی ہوتا رہا ہے۔ روزانہ لاکھوں افراد آتے ہیں، دنیا میں وقت گزارتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ ان کے آنے سے دنیا میں کوئی تبدیلی آتی ہے نہ ہی ان کے جانے سے ان کے عزیزوں اور رشتہ داروں کے سوا کسی کی آنکھ میں آنسو آتا ہے لیکن بعض لوگ بہت خوش نصیب واقع ہوتے ہیں۔ وہ دنیا میں آتے ہیں، وہ اپنی زندگی کا احساس دلاتے ہیں۔ وہ جتنا عرصہ جیتے ہیں دنیا کو ساتھ لے کر جیتے ہیں۔ دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو سیکڑوں دلوں کو غمزدہ کر جاتے ہیں۔ ایسے ہی خوش نصیب لوگوں میں سے منصور احمد ملک تھے۔ 1935ء میں صوبہ بہار کے ضلع گیا کے ایک گاؤں پجراواں جو گیا سے تقریباً 40/45 کیلو میٹر دور واقع ہے، پیدا ہوئے۔ ان کے والد محترم عبدالحمید گیا میں ضلع بورڈ میں کلرک تھے۔ بچے کو گیا میں ہی بلالیا۔ جب وہ دس کلاس تک پہنچا، پاس ہوا تو اسے کلکتہ اپنے ایک رشتہ دار کی سرپرستی میں بھیج دیا۔ جواں سال منصور ملک اب جواں فکر ہوگئے تھے۔ کلکتہ کے ایک کالج سے بی اے اور کلکتہ یونیورسٹی سے ایم اے (اردو) کرنے کے بعد ملازمت کی تلاش کرنے لگے۔ مٹیا برج کے ایک مسلم ہائی اسکول میں ملازمت مل گئی۔ غالباً اسی اسکول میں رہ کر بی ایڈ کا امتحان دیا۔ پاس ہوگئے۔ اب بڑی ملازمت کی تلاش ہوئی۔
منصور احمد ملک کو پہلی بار 1965ء میں عبدالرؤف انصاری (کونسلر) کے آفس میں دو چار دوستوں کے ساتھ دیکھا۔ انصاری صاحب سی ایم او ہائی اسکول کی مجلس عاملہ کے صدر تھے۔ اسی اسکول سے اسکول فائنل کرکے میرا داخلہ سینٹ زیویئرس کالج کے پری یونیورسٹی سائنس میں ہوا تھا۔ ہم چند دوست انصاری صاحب کو ایک پروگرام میں مدعو کرنے کیلئے حاضر ہوئے تھے۔ اپنے سے بڑے لوگوں کو دیکھ کر ہم سب نے خاموشی اختیار کی۔ انصاری صاحب کو جب نئے وارد ہونے والوں سے مخاطب ہوئے تو ان میں سے ایک شخص نے منصور احمد ملک کا تعارف کراتے ہوئے کہاکہ ان کا نام محمد منصور احمد ملک ہے۔ یہ بھی آپ کے اسکول میں جو جگہ ہیڈ ماسٹر کی خالی ہوئی ہے اس کے امیدواروں میں سے ہیں۔ بات بہت پرانی ہے، اس لئے یہ یاد نہیں کہ انصاری صاحب نے کیا جواب دیا یا کیا کہا مگر مجھے یاد ہے کہ منصور احمد ملک کو میں غور سے دیکھنے لگا کیونکہ کل جس اسکول کو میں چھوڑ کر آیا تھا سوچنے لگا کہ شاید یہی ہیڈ ماسٹر ہوجائیں۔ محمد ولی الزماں صاحب ہیڈ ماسٹر تھے اور ان سے پہلے مشہور ترقی پسند شاعر پرویز شاہدی ہیڈ ماسٹر کے عہدہ پر فائز تھے۔ اسسٹنٹ ہیڈ ماسٹر مشہور شاعر اور ناقد مظہر امام تھے۔ میرا داخلہ 1958ء میں درجہ چہارم میں ہوا تھا۔ ایک ہی دو سال بعد پرویز شاہدی صاحب کو کلکتہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں لیکچرر شپ کی نوکری مل گئی، وہ چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد چند ہی مہینے بعد مظہر امام صاحب کو آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت مل گئی، وہ بھی چلے گئے۔ ولی الزماں صاحب سب سے سینئر بھی تھے اور قابل بھی تھے۔ ان کی قابلیت کی وجہ سے انھیں ہیڈ ماسٹر بنا دیا گیا۔
ولی الزماں صاحب کے ہیڈ ماسٹر ہونے کے بعد اسکول کی حالت پہلے سے زیادہ سدھر گئی۔ ٹیچر ولی الزماں کے خوف سے ٹیچر روم میں کلاس کے وقت بیٹھنے کی ہمت نہیں کرتے تھے۔ کلاس اگر خالی نظر آتا تو ہیڈ ماسٹر صاحب ٹیچر کی کھوج میں ٹیچر روم کا گشت لگاتے۔ کوئی اگر بیٹھا مل جاتا تو اس کی شامت آجاتی۔ ہم لوگوں کو درجہ نہم اور درجہ دہم پڑھاتے تھے۔ انگریزی پڑھانے کا ان کا انداز بہت نرالا تھا۔ بڑی محنت سے پڑھاتے تھے اور ایک ایک لفظ اور ایک ایک جملہ کو اچھی طرح سے سمجھاتے تھے مگر طالبعلموں پر سختی سے پیش آتے تھے اور معلّمین بھی ان سے خائف رہتے تھے۔ ٹیچروں میں سے کچھ لوگوں نے ولی الزماں صاحب کو اسکول بدر کرنے کی ٹھان لی۔ مجھے یاد آتا ہے کہ استاد محترم اعزاز افضل صاحب باغی ٹیچروں کی رہنمائی کرنے لگے اور ہم طالب علموں کو بھی اکسانے لگے۔ ہم لوگ جب سینٹ اَپ کرنے والے تھے اسی وقت اسکول کے سکریٹری سالک لکھنوی کے پاس استاد محترم نے بھیجا۔ ہم جیسے چند طالب علموں پر جب سالک لکھنوی صاحب کی نظر پڑی تو بے ساختہ کہاکہ تم لوگ آئے نہیں ہو، لائے گئے ہو۔ کس نے تم لوگوں کو بھیجا؟ ہم میں سے کسی نے منہ نہیں کھولا کہ فلاں ٹیچر نے بھیجا ہے۔ مجھے یاد آتا ہے کہ شاید میں نے ہی کہاکہ ولی الزماں صاحب ہم طالب علموں سے سختی سے نمٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض دفعہ ناشائستہ الفاظ بھی منہ سے نکال دیتے ہیں۔ سالک لکھنوی صاحب شاعر اور ادیب تھے۔ اس پر کئی منٹوں تک مسلمان لیڈروں کی غلط عادتوں پر لیکچر دیئے۔ ہم لوگ سنتے رہے اور پھر سلام کرکے رخصت ہوئے۔ چند مہینوں کے بعد علم ہوا کہ منصور احمد ملک صاحب کی ہیڈ ماسٹر کیلئے تقرری ہوگئی۔ یہ سن کر خوشی اور غم دونوں ہوا۔ خوشی ہوئی کہ ہمارے اسکول کو ایک نیا ہیڈ ماسٹر ملا۔ غم ہو اکہ ولی الزماں جیسے قابل ٹیچر اور ہیڈ ماسٹر کو ان کی چند غلطیوں کی وجہ سے نکال باہر کر دیا گیا۔ سوچنے لگا ایسے رعب اور دبدبہ کا شاید ہیڈ ماسٹر اب اسکول کو نصیب نہ ہو۔ منصور احمد ملک صاحب ولی الزماں صاحب سے مختلف تھے۔ نرم دل، نرم گفتگو، غصہ بھی ہوں تو دل ہی دل میں، زبان سے کوئی گرم الفاظ نکالنے کی زحمت نہیں فرماتے۔ حسن اتفاق سے اسی اسکول میں معروف شاعر قیصر شمیم کی جگہ عارضی طور پر میں چند سالوں کیلئے ٹیچر ہوگیا۔ منصور احمد ملک صاحب ولی الزماں صاحب کے بالکل برعکس تھے۔ اسکول میں نہ طالب علموں کے اندر ڈر اور خوف کا ماحول دکھائی دیا اورنہ ٹیچر حضرات پہلے کی طرح اپنی ڈیوٹی کے پابند نظر آئے۔ ماحول دوستانہ اور برادرانہ ہوگیا۔ منصور احمد ملک صاحب طالب علموں اور ٹیچروں کو سمجھانے کے قائل تھے۔ ڈانٹ پھٹکار سے کام لینے کے بالکل قائل نہ تھے۔
میں اس وقت بھی اس حقیقت کا قائل تھا اور آج بھی اس بات کو درست اور صحیح تسلیم کرتا ہوں کہ اخلاق مند انسان کی سب سے زیادہ حسین شکل یہ ہے کہ وہ شجاعت اور نرم خوئی کا ایک دل آویز پیکر ہو۔ علامہ اقبالؒ نے اس حقیقت کو ایک شعر میں کتنی خوبصورتی سے ڈھالا ہے ؎
دلبری بے قاہری جادوگری است … دلبری با قاہری پیغمبری است
(قاہری کے ساتھ دلبری جادوگری ہے جبکہ قاہری کے ساتھ دلبری پیغمبرانہ صفت ہے)۔
جلال اور جمال ہو تو انتظامی صلاحیت بے اثر نہیں ہوتی مگر ایک صفت ہو، دوسری صفت نہ ہو تو انتظامی صلاحیت سے انسان محروم ہوجاتا ہے۔ عام طور پر جمال اور نرم خوئی کو شرافت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
انسان کی یہ اسپرٹ کہ وہ بدی یا بدنظمی کسی حال میں برداشت نہ کرے اور اسے خوبصورتی سے دفع کرنے کیلئے ہر طرح سے کوشاں رہے اور ہر قسم کی قربانی دینے کیلئے تیار ہوجائے، انسانی شرافت کی سب سے اعلیٰ اسپرٹ ہے اور عملی زندگی کی کامیابی کا راز بھی اس اسپرٹ ہی میں مضمر ہے مگر حالات زمانہ سے سمجھوتہ نظم و ضبط کو کمزور کرتا ہے پھر یہ کمزوری منتقل ہوتی رہتی ہے۔ لوگ اسی کا نام مصلحت اور حکمت رکھ دیتے ہیں جس سے ادارے کمزوری کے شکار ہوجاتے ہیں۔
منصور احمد ملک اپنی خاندانی شرافت اور شائستگی کی وجہ سے ٹیچروں یا طالب علموں کو ہلکی سی تنبیہ ضرور کر دیتے تھے مگر اس تنبیہ سے کوئی سنبھلنے یا سدھرنے کا نام نہیں لیتا۔ اس پر ملک صاحب چیں بہ جبیں بھی ہوتے اور بعض افراد سے تو نالاں رہتے۔ جن کو سمجھ میں آجاتا منصور صاحب ان کے غلط رویہ اور چلن کو پسند نہیں کرتے۔ ایسے لوگ گروپ بھی بنا لیتے مگر کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو منصور صاحب کے کاموں کو سراہتے اور ان کی ہمت اور حوصلہ بھی بڑھاتے۔ ان میں محمد یعقوب صاحب اور محبوب صاحب کے نام مجھے یاد ہے۔ ایک دو اور تھے مگر ان کا نام یاد نہیں ہے۔ منصور احمد ملک صاحب 33 سال تک اس ادارے کی خدمت کرتے رہے اور نیک نامی کے ساتھ ریٹائرمنٹ کی منزل تک پہنچے اور ٹیچروں اور طالب علموں نے انھیں 1998ء میں الوداع کہا۔ الوداعی تقریب میں خوش قسمتی سے میں بھی شامل تھا۔ بعض طالب علموں اور معلّموں کو بیحد افسوس رہا کہ اسکول ان کی سرپرستی سے محروم ہوگیا۔
ملت ایجوکیشنل ٹرسٹ: کلکتہ میں ایک تعلیمی ادارہ ’’ملت ایجوکیشنل ٹرسٹ‘‘ کے نام سے قائم کیا گیا تو لوگوں کی نظر منصور احمد ملک پر پڑی۔ انھیں اس ادارے کا صدر منتخب کیا۔ ریٹائرمنٹ سے تین سال پہلے انھوں نے خوشی سے اس عہدہ کو قبول کرلیا۔ مجھ ناچیز پر جنرل سکریٹری کی ذمہ داری ڈالی گئی۔ حاجی منصور احمد صاحب کوجو میرے گہرے دوستوں میں سے تھے، نائب صدر کا عہدہ سونپا گیا۔ سابق وائس چانسلر سید حامد صاحب اور ڈاکٹر مقبول احمد کا نام سرپرستوں میں شامل کیا گیا۔ چند سالوں میں کلکتہ سے تقریباً 17/18 کیلو میٹر دور واقع سبھاش گرام کے قریب دو تین قسطوں میں 29 بیگھہ زمین قیمتاً لینے میں یہ ادارہ کامیاب ہوا۔ منصور احمد ملک صاحب اس ادارے کے کاموں میں دل و جان سے منہمک رہے۔ ہم لوگوں کے ساتھ ہر کام میں شامل ہوتے۔ یہاں تک کہ دو بار اس کیلئے مرحوم نے دہلی کا سفر کیا۔ دہلی میں ان کے داماد اور بھانجے تحسین احمد نے بھی ہم لوگوں کا بہت تعاون کیا جن کی کوششوں سے اس ادارہ کو بہت جلد FCR مل گیا جو کسی ادارہ کو مشکل سے ملتا ہے۔ اسی دوران کلکتہ کے ایک صحافی سے منصور احمد ملک صاحب کی ملاقات ہوگئی۔ انھوں نے انھیں ورغلایا کہ آپ کہاں اور کن لوگوں کے ساتھ پھنس گئے ہیں۔ منصور صاحب نے نہایت بیباکی سے انھیں ٹکا سا جواب دیا کہ ’’میں ان لوگوں کو آپ سے زیادہ جانتا ہوں اور اب اور بھی ساتھ رہتے رہتے خوب واقف ہوگیا ہوں۔ براہ کرم مجھے تعلیم و تلقین کرنے کی زحمت فرمائیں‘‘۔ ان کا منہ چھوٹا ہوگیا اور شرمندگی اٹھانی پڑی۔
کلکتہ کے ایک عالم دین نے بھی ان کو اسی قسم کی نصیحت کی تھی۔ مرحوم منصور احمد صاحب ان کے دوستوں کے ساتھ کلکتہ سے باہر ایک پکنک پر گئے تھے۔ عالم دین کو منصور صاحب نے خوب کھری کھری سنائی کہ ’’مولانا! آپ حضرات کو کرنا دھرنا کچھ نہیں۔ جو لوگ کچھ کرتے ہیں ان کی راہ میں بلا وجہ روڑے کیوں اٹکاتے ہیں؟ اگر حوصلہ نہ دے سکیں تو حوصلہ شکنی اور گلہ شکوہ سے کام نہ لیں‘‘۔ عالم دین کو غیروں کو سامنے شرمندہ ہونا پڑا۔
ادارے میں اِکا دُکا ایسے لوگ غلطی سے شامل ہوگئے تھے کہ ان کی بیجا شکایتوں کی وجہ سے مولانا آزاد ایجوکیشنل فاؤنڈیشن تعاون کرنے سے پیچھے ہٹ گیا اور جب محمد سلیم ایم پی کی کوششوں سے مدد کرنا چاہا تو اس کے ضوابط میں ایسی تبدیلی آگئی تھی کہ ادارہ جلد پورا نہیں کرسکتا تھا۔ اس کیلئے ایک منظور شدہ پرائمری اسکول کا ہونا ضروری تھا۔ ہم لوگوں کے منصوبہ میں بہت ہی معیاری قسم کا انگلش میڈیم اسکول قائم کرنا تھا مگر ضرورت کے تحت پرائمری اسکول کی عمارت دو سال کی کوششوں سے تعمیر کی گئی۔ اسکول بھی قائم ہوگیا لیکن گاؤں سے دور ہونے کی وجہ سے بچے آسانی سے آتے نہیں تھے۔ دو ٹیچر اور ایک دربان کا خرچ برداشت کرنا ادارہ کیلئے اس لئے مشکل ہوگیا کہ بچوں کی کمی کی وجہ سے لوگ پیسے خرچ کرنا نہیں چاہتے تھے۔ ہمارے اندر جو لوگ تھے ان کا بھی حوصلہ پست ہوگیا تھا۔
منصور احمد ملک صاحب بیماری کی وجہ سے کمزور ہوگئے تھے مگر ان کا حوصلہ ٹوٹا نہیں۔ جب ادارہ کی طرف سے مسجد کی عمارت کا سنگ بنیاد مشہور اور ممتاز عالم دین مولانا محمد یوسف اصلاحی کے دست مبارک سے ڈالنے کی تقریب طے ہوئی تو اپنی کمزوری اور بیماری کے باوجود تقریب میں شرکت کیلئے تیار ہوگئے۔ دو سال بعد انھوں نے مسجد کے افتتاحی پروگرام میں بھی شرکت کی۔ کام میں اپنی بیماری اور کمزوری کو آڑے آنے نہیں دیتے تھے۔ حوصلہ بہت تھا۔ مرد مرداں تھے۔ ان کی بیٹی انگبیں اپنے والد محترم کی بہت پیاری، لاڈلی مگر ان کے کردار سے بیحد متاثر، موت کے تیسرے یا چوتھے دن اس نے راقم کو بتایا کہ ’’پاپا پے در پے قے ہونے کی وجہ سے بیحد لاغر ہوگئے تھے۔ آنکھیں بند ہوجاتیں۔ اس وقت ان کے ایک بھتیجے نے انگبیں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دریافت کیا: چچا یہ کون ہے‘‘؟ ’’پاپا نے آنکھیں کھول کر تیز آواز سے کہاکہ ’’میری بیٹی انگبیں منصور ہے‘‘۔ پاپا کی بیٹی درد بھری آواز سے اپنے والد محترم کی آواز کو دہرایا اور اس کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ ’’ہم لوگ رات کے اوقات میں پوچھتے کہ ’’پاپا کوئی تکلیف ہے‘‘؟ کہتے’’ نہیں‘‘۔ بیٹی میں ٹھیک ہوں جب تم سب ہو تو کیا تکلیف باپ ایسا کہ اپنی بیٹی کو آخری وقت میں بھی غمزدہ ہونے نہیں دیا۔ بیٹی یہ سمجھ کر کہ پاپا ٹھیک ہیں کمرہ سے باہر آگئی لیکن کمرہ سے آواز آئی ’’دیکھو نا باجی! چچا بیہوش ہوگئے۔ ایک ہچکی سی آئی اور آنکھیں بند ہوگئیں‘‘۔ بیٹا شاداب دوڑے دوڑے آیا۔ اسے احساس ہوگیا کہ پاپا اب نہیں رہے۔ رونے لگا۔ پیاری بہن انگبیں نے اپنے بھائی کو دلاسا دیتے ہوئے کہاکہ ڈاکٹر بلاؤ۔ ڈاکٹر آیا۔ اس نے بھی وہی کچھ کہا جیسے بھائی بہن کو احساس ہوگیا تھا۔ اس طرح ایک ہمدرد اور پیارا باپ اپنے بیٹے بیٹی کو بغیر تکلیف دیئے10جولائی 2016کی صبح 11بجے اس دنیا سے ہمیشہ کیلئے رخصت ہوگیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون!
منصور احمد صاحب کئی خوبیوں کے مالک تھے۔ ان میں سے ایک بڑی خوبی تھی کہ ایماندار محنتی آدمی تھے۔ حج کے بعد مومنانہ صفات کے حامل ہوگئے تھے۔ چہرہ پر داڑھی آگئی تھی۔ عبادت و ریاضت کی وجہ سے چہرہ نورانی ہوگیا تھا۔ اسکول کے زمانہ ہی سے مجلسی زندگی سے بڑی دلچسپی رکھتے تھے۔ ہر اس ادارہ سے جس سے ملت کی فلاح و بہبود وابستہ ہو خواہ چھوٹا ہو یا بڑا سب کی تقریبوں میں پابندی سے شریک ہوتے تھے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس صفت میں کوئی بھی دوسرا ٹیچر یا معلم ان کا ہمسر نہیں تھا۔ کلکتہ کے ٹیچر اور پروفیسر ملی اور سماجی کاموں سے عام طور پر دور رہتے ہیں مگر منصور صاحب زندگی کے آخری دنوں تک ملی، تعلیمی اور سماجی کاموں سے لگے رہے۔ گزشتہ ایک دوسال سے بستر مرگ سے ہی دوسروں کی خبر لیتے رہتے۔ سماجی اور ملی سرگرمیوں میں باخبر رہنے کی کوشش کرتے۔
میری آخری ملاقات مرحوم سے اس وقت ہوئی جب ان کے ہاتھوں میں ہندو پاک کا مشہور رسالہ ’’نقوش‘‘ کا ’’شخصیت نمبر‘‘ تھا میری طرف رسالہ کو بڑھاتے ہوئے کہاکہ میں مولانا ابوالکلام آزادؒ کی شخصیت کا مطالعہ کر رہا تھا۔ کیا غضب کا آدمی تھا۔ میں مولانا نعیم صدیقیؒ کے قلم سے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی شخصیت پر مضمون دیکھ کر خوش ہوگیا۔ غالباًمیں پڑھ چکا تھا۔ دو چار سطریں پڑھا ہوگا کہ منصور صاحب نے ادارہ کا حال چال پوچھنا شروع کیا۔ میں نے انھیں تفصیل سے بتایا۔ وہ بیحد خوش ہوئے کہ ہم لوگ ابھی بھی حوصلہ ہارے نہیں ہیں۔ نہ تھکے ہیں اور نہ ہمت ہاری ہے۔ یہ سن کر دعاؤں سے نوازنے لگے۔ کہا میری دعائیں آپ لوگوں کے ساتھ ہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد اٹھ کر ان سے رخصت ہوا۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ یہ میری آخری ملاقات ہوگی۔ مرنے والے میں خوبیاں اس قدر تھیں کہ قلم رکنے کا نام نہیں لیتا۔ اس وقت اتنے پر اکتفا کرتا ہوں اس دعا کے ساتھ ؎
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے … سبزۂ نور ستہ اس گھر کی نگہبانی کرے!
تبصرے بند ہیں۔