اتر پردیش میں الیکشن کے مرحلے جیسے جیسے اختتام پذیر ہورہے ہیں مودی، شاہ کی جھنجلاہٹ اور شکست خوردگی کا احساس ویسے ویسے بڑھتا جارہا ہے۔ دونوں جہل مرکب کا رول ادا کر رہے ہیں ۔ مودی نے اتر پردیش کے باسیوں کو پھسلانے اور بہلانے کیلئے بنارس کے انتخابی جلسے میں کہا تھا کہ وہ پیدا گجرات میں ہوئے ہیں مگر اتر پردیش کے لے پالک بیٹے ہیں اس پر سب سے پہلے پرینکا گاندھی نے جواب الجواب دیاکہ اتر پردیش میں لڑکوں کی کمی نہیں ہے کہ اتر پردیش والے انھیں لے پالک لینے کی کوشش کریں ۔ اعظم خان نے کہاکہ مودی جی کو کسی نے گود نہیں لیا بلکہ وہ زبردستی اتر پردیش کی گود میں بیٹھ گئے ہیں ۔ ظاہر ہے اس طرح کے جواب الجواب یا ترکی بہ ترکی جواب سے مودی کی جھنجلاہٹ میں اضافہ ہوا ہوگا۔ دوسری طرف ان کی یہ بات ان کیلئے مہنگی بھی پڑی۔
ریاست اتر پردیش کمیشن برائے تحفظ حقوق طفلان (Utter Pradesh State Commission for Protection of Child Rights) نے مودی جی کو سات دنوں کے اندر دستاویز پیش کرنے کا نوٹس بھیجا ہے۔ نوٹس میں کہا گیا ہے کہ اگر وہ تحریری شہادت پیش کرنے سے قاصر ہوں گے تو انھیں ان بے شمار بچے بچیوں سے معافی کا طلب گار ہونا پڑے گا جو لے پالک ہونے کیلئے انتظار میں ہیں ۔ کمیشن کی تقرری سماج وادی پارٹی کی حکومت کی طرف سے ہوئی ہے۔ اس سے پوری امید ہے کہ کمیشن انھیں آسانی سے نہیں بخشے گا۔ غازی آباد کے یوگیندر پال یوگی اور ان کی بیوی اتار کلی نے غازی آباد کے ڈپٹی رجسٹرار کے آفس میں مودی کو گود لینے کی درخواست دی ہے مگر ڈپٹی رجسٹرار نے کہاکہ بچے کے گارجین کو گود دیتے وقت منظوری کیلئے دستخط کرنے کی ضرورت پڑے گی۔ اتر پردیش کا یہ لے پالک بیٹے نے بارہ بنکی میں فروری 2016ء میں کہا تھا کہ وہ ملک کے وزیر اعظم بننے کے بعد اتر پردیش کے 1,350 گاؤں میں صرف دو سال میں بجلی فراہم کردیں گے۔
ناہید لاری خان نے جو بچوں کے تحفظ کمیشن کی ممبر ہے 17 فروری کو مودی جی کو نوٹس بھیجا ہے کہ ان کو اتر پردیش میں کس نے اور کب گود لیا ہے؟ وہ بتائیں ۔ لاری نے امید ظاہر کی ہے کہ وزیر اعظم نے سفید جھوٹ سے اگر کام نہیں لیا ہے تو وہ ضرور ان کے نوٹس کا جواب دیں گے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے نوٹس دے کر اپنا وقت کیوں رائیگاں کیا تو اس پر انھوں نے جواب دیا کہ مودی جیسے شخص نے کم سن اور معصوم بچوں کے تقدس کا جو گود لئے جاتے ہیں ، مذاق اڑایا ہے۔ اس لئے انھیں ایسی کارروائی کرنے کی ضرورت پیش آئی۔
نریندر مودی اکثر و بیشتر اپنی تقریروں میں عجوبہ بات کہنے یا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کی وجہ سے سے وہ بار بار اپنے ہی جال میں پھنستے نظر آتے ہیں ، پھر بھی وہ باز نہیں آتے۔ 2016ء میں انھوں نے ایک انتخابی جلسہ میں وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ کامیاب ہوتے ہیں تو ہر ایک کے بینک کھاتہ میں 15 لاکھ روپئے جمع کرا دیں گے۔
امیت شاہ سے جو مودی جی کے حاشیہ بردار اور بی جے پی کے قومی صدر ہیں جب پوچھا گیا کہ 15 لاکھ روپئے تو کسی کے کھاتے میں جمع نہیں ہوئے تو جواب میں امیت شاہ نے کہاکہ یہ پرانی باتیں ہیں ، نہ پوچھئے تو بہتر ہے۔
اب یہ دونوں نئی نئی باتیں جو فرقہ پرستی کے شعلوں کو بھڑکاتی ہیں وہ کہہ رہے ہیں تاکہ پولرائزیشن ہوجائے اور بی جے پی کو سارے ہندو ووٹر ووٹ دے دیں ۔ مودی جی نے فتح پور میں کہاکہ جب ہر گاؤں میں قبرستان ہے تو ہر گاؤں میں شمشان گھاٹ بھی ہونا چاہئے۔ جب رمضان میں بجلی سپلائی کی جاتی ہے تو دیوالی میں بھی بجلی سپلائی ہونی چاہئے۔
یوگی ادتیہ ناتھ نے جو بی جے پی کے ایم پی ہیں شعلہ بیان مقرر ہیں کہاکہ جب درگاہوں میں بجلی کی روشنی ہوتی ہے تو مندروں میں بھی ہونی چاہئے۔ شاہ آخر کب کسی سے پیچھے رہنے والے تھے، انھوں نے کہاکہ قصاب کو ہٹائے بغیر اتر پردیش کی ترقی نہیں ہوسکتی ہے۔ قصاب کی تشریح کرتے ہوئے کہاکہ KA سے کانگریس، SA سے سماج وادی اور B سے بہوجن ۔اس طرح کی تک بندی اور جملہ بازی نریندر مودی نے شروع کی تھی۔ اسکیم (SCAM)کا مطلب سمجھایا تھا کہ S سے سماج وادی، C سے کانگریس، A سے اکھلیش اور M سے مایاوتی۔ مودی جی نے بی ایس پی کی وضاحت اس طرح کی ہے ۔ Bبہن جی، S سے سمپتی P سے پارٹی۔ اس طرح کی اوٹ پٹانگ اور بے سرو پا باتیں شاہ اور مودی نے جب شروع کی ہیں تو ان کے نیچے کے لوگ اور بھی باؤلے ہوگئے ہیں ۔ سب کے سب لایعنی اور بے معنی چیزوں کے پیچھے پڑگئے ہیں اور اتر پردیش کو فرقہ پرستی کی آگ میں دھکیل کر الیکشن جیتنے کا سنہرا خواب دیکھ رہے ہیں ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہر مرحلہ میں بی جے پی کا گراف گرتا ہوا نظر آرہا ہے۔ کسی مرحلہ میں بہوجن سماج پارٹی آگے ہے تو کسی مرحلہ میں سماج وادی اور کانگریس کا پلڑا بھاری ہے۔ بی جے پی تیسرے نمبر پر دکھائی دے رہی ہے، جس کی وجہ سے بی جے پی کے پاؤں تلے زمین سرکتی دکھائی دے رہی ہے۔ ان کے لیڈروں بشمول مودی، شاہ کی آتش مزاجی اور جھنجلاہٹ میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، جس کی وجہ سے اوٹ پٹانگ بک رہے ہیں ۔ ایسا لگتا ہے ؎
الجھاؤ ہے زمین سے جھگڑا ہے آسمان سے

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔