یوں ہی رہنے لگی ہے وحشت سی

یوں ہی رہنے لگی ہے وحشت سی

کوئی آفت نہیں محبت سی

دل پہ گزرے نہ کچھ قیامت سی
اُن کو سوجھی ہے پھر شرارت سی

آج برسوں کے بعد سمجھا ہوں
درمیاں کیا تھی وہ رفاقت سی

رفتہ رفتہ نہ جانے کب اے دوست
پڑ گئی مجھ کو تیری عادت سی

اس کو مجھ سے تھی کیوں جھجک اتنی
اُس کے لب پر تھی کیا شکایت سی

ہو گئی فرط عشق میں راغب
اک غزل اور خوب صورت سی

تبصرے بند ہیں۔