نظام سرمایہ داری کو درپیش چیلنج (آخری قسط)

 سرمایہ داری کو درپیش چیلنج

اس صورت حال میں جو سرمایہ داری کے تسلط کو چیلنج کرنے کی اہلیت اور صلاحیت رکھتا ہے۔ اس چیلنج کی سنجیدگی کا شعور اہل مغرب کو پہلے بھی تھا لیکن اب تک ان کی حکمت عملی میں اسلام کو صرف دہشت گرد، بنیاد پرست، ماضی کے گرویدہ کہہ کر کام چل رہا تھا مگر مغرب کے بعض گروہوں کو نئے نئے پہلوؤں کی تلاش رہتی ہے۔ گالیاں چاہے کتنی ہی طرفہ طبیعت کی حامل ہوں ، کثرت استعمال سے اپنی شناخت کھونے لگتی ہیں ۔ اس لئے اب ایک نیا لقب تجویز کیا جارہا ہے کہ اسلامی تحریکات کا دائیں بازو سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ وہ بدنام زمانہ اور ناکام بائیں بازو کی صدائے باز گشت ہیں جو سوشلزم کی شکل میں ٹوٹ چکا تھا مگر اب زیادہ خطرناک صورت میں جلوہ گر ہونے والا ہے۔ (ملاحظہ کیجئے ’واشنگٹن پوسٹُ کی تحریریں )

اسلام سے اصل عناد بعض مفاد پرست گروہوں اور افراد کو اسی لئے ہے کہ وہ ضعیفوں اور کمزوروں کا حامی ہے لیکن اسلام معروف معنوں میں بائیں بازو کی تحریک نہیں ہے۔ وہ ایک ایسا جامع نقطہ نظر کا حامل ہے جو پوری زندگی کو ایک ہی وحدت کے مختلف اٹوٹ اجزا پر مشتمل سمجھتا ہے۔ اس کے نزدیک انسانی زندگی کی ہر بیماری اور اس کی ہر دشواری کا علاج در اصل ایک جامع پروگرام کے ذریعہ ممکن ہے، جس کی روح میں اخلاق اور خدا پرستی سموئی ہوئی ہے۔ وہ جو نسخہ شفا دیتا ہے اس میں آئیڈیالزم اور عملیت کا حسین امتزاج ہے۔ وہ صرف تصورات اور قدروں پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ قانون اور جبر سے بھی ان کا نفاذ کرتا ہے۔ وہ آزادی کو انسانی زندگی کا جوہر سمجھتا ہے، لیکن ان پر حدود بھی عاید کرتا ہے۔ مسابقت کو وہ محض دنیاوی جدوجہد کیلئے مفید نہیں سمجھتا بلکہ خالص دینی جدوجہد میں اس کی ہمت افزائی کرتا ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ جذبۂ مسابقت کو باہمی تعاون اور باہمی خیر خواہی کے ذریعہ اعتدال بھی عطا کرتا ہے۔

 اسلام غریبوں ، مظلوموں اور مزدوروں کی حمایت اور دست گیری کو صرف معاشی اور تنظیمی مسئلہ نہیں سمجھتا بلکہ وہ واضح کرتا ہے کہ ان کا حصول صرف ایک ایسے معاشرے میں ممکن ہے جو شفقت، مروت، باہمی خیر خواہی، جیسی اخلاقی قدروں پر تعمیر کیا گیا ہو۔ جہاں لوگ انسان اور انسان کے درمیان نہ ان کے سماجی مراتب کی بنیاد پر فرق کرتے ہوں اور نہ ان کے رنگ و نسل اور عقیدے کی بنیاد پر بلکہ سارے انسانوں کو بھائی بھائی سمجھتے ہوں ؛ چنانچہ ان اقدار کی نشو و نما اور فروغ کیلئے وہ صرف وعظ و نصیحت سے کام نہیں لیتا بلکہ ایسے اداروں کا قیام کرتا ہے، ایسے قوانین کا نفاذ کرتا ہے جو ان قدروں کی نشو و نما میں ممد و معاون ہوں ۔ یہ اقدام سماجی بھی ہوتے ہیں ، سیاسی بھی اور معاشی بھی۔ یہ سب مل کر ایسی فضا تیار کرتے ہیں جس میں ترجیحات بدل جاتی ہیں اور نفع و نقصان کے پیمانے بھی۔

وہ غریبوں اور مظلوموں کی دست گیری کو ایمان کا لازمی تقاضا قرار دیتا ہے۔ وسائل و ذرائع کو خدا کی طرف سے امانت بتاتا ہے اور یہ بھی واضح کرتا ہے کہ اس کے تصرف کی نگرانی خود پروردگار عالم کرتا ہے۔

 وہ حرام و حلال کے ایسے ضابطے عطا کرتا ہے جس سے سماجی اور معاشی زندگی کے کلیدی پہلوؤں پر ایسی حدود عائد کی جاتی ہیں جن سے عمومی انسانی خیر مستفاد ہو۔ ظلم کے سوتے بند ہوں اور حقوق و فرائض کی پاسداری ہو۔

 وہ کسب مال کے تمام ذرائع کو صحیح نہیں سمجھتا بلکہ صرف ان ذرائع کی ہمت افزائی کرتا ہے، جس سے انسان کی ضروریات بھی پوری ہوں اور ساتھ ہی اس کی اخلاقی زندگی میں نکھار بھی پیدا ہو۔ اسی غرض سے اس نے خیانت، دھوکا، قمار، ذخیرہ اندوزی، فحش اور جنسیات کی تجارت اور مسکرات کی خریدو فروخت کو حرام قرار دیا ہے، مگر اس نے ترکیز دولت اور نا انصافی کے سب سے موثر عامل سود کو حرام قرار دے کر کسب مال کے ذرائع کے حدود اور چینل مقرر کر دیئے ہیں ۔

 اس طرح اس نے زکوٰۃ کا نظم نافذ کرکے وہ کم حصہ متعین کر دیا ہے جو غرباء اور مساکین کو پہنچنا چاہئے اور جس کی عدم تعمیل آخرت میں موجب سزا ہوگی۔ اس طرح یہ ایک ہمہ جہتی پروگرام ہے جو اسلام غرباء اور کمزور طبقات کی بہتری کیلئے اختیار کرتا ہے۔ اسلام نے اس سے آگے بڑھ کر معاشی ترقی کو ہمہ جہتی اور اخلاقی و تہذیبی ترقی کا جزو لاینفک قرار دیا ہے۔

 وہ سرمایہ دارانہ معاشیات کے برعکس معاشی ترقی کا کلیدی محرک سرمایہ کاری کی جگہ انسان کو قرار دیتا ہے۔ وہ فرد اور سماج کی تعلیمی استعداد، اس کی صحت، اس کا رہن سہن، اس کی بنیادی ضروریات کی فراہمی، ان سب کو نفس سرمایہ کاری کے مقابلہ میں اولیت دیتا ہے۔

 بنا بریں اس کا نظریۂ ترقی (Development Theory) جدید معاشی نظریات کے برعکس ان تمام کوششوں کو جس سے بھوکے کھانا کھاسکیں اور ننگے تن ڈھانپ سکیں ۔ مریض اور بیمار کو ضروری علاج فراہم ہوسکے۔ جاہلوں کو ضروری حد تک تعلیم دی جاسکے اور معاشی ظلم و استحصال کا ازالہ ہوسکے۔ آمدنیوں اور دولت کی غیر معمولی تفریق کم کی جاسکے، معاشی اور سماجی ترقی کے ابتدائی قدم قرار دیتا ہے۔

 وہ جدید معاشیات کی اس تھیوری کو رد کرتا ہے جس کو نظریۂ تقطیر (Percolation) کہتے ہیں ، جس کا سادہ سا بیان یہ ہے کہ اگر اغنیاء سرمایہ کاری کے ذریعے قومی پیداوار بڑھانے کے اقدام کریں گے تو اس کے فوائد (اجرت اور سامانِ ضرورت کی فراہمی کی شکل میں ) عام انسانوں کو بہر حال پہنچیں گے۔ اس لئے وہ درمیانی مدت میں اگر آدھا پیٹ کھاتے ہیں اور جھگی جھونپڑیوں میں خستہ حالی کی زندگی گزارتے ہیں تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اس میں پورے ملک کا فائدہ ہے جو بالآخر ان کو پہنچے گا۔ یہ نظریہ بیسویں صدی کے نصف آخر میں ماہرین معاشیات نے بھی رد کردیا تھا، مگر آزاد معیشت کے سیلاب کے تحت یہ نظریہ اب انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے۔ ’آئی ایم ایف‘ اور ’ورلڈ بینک‘ اور ان کے حواریین نے ایسے متعدد نظریات کو نئی زندگی بخشی ہے جو تحقیق اور تجربے کی روشنی میں ردّی کی ٹوکری میں ڈال دیئے گئے تھے۔ مثال کے طور پر یہی نظریہ اور مالتھس کا نظریہ آبادی۔ موخر الذکر کا سب سے اہم کارنامہ یہ ہے کہ اس نے افریقہ اور ایشیا کے غریب ممالک کے افلاس اور فاقہ کشی کا تمام تر جرم انہی پر ڈال دیا ہے جو اپنی آبادی پر کنٹرول نہیں کرتے۔ اس طرح دنیا کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ کرنے والے سرمایہ دار ممالک غربت اور افلاس کی ذمہ داری سے دامن جھاڑ کر الگ ہوجاتے ہیں ۔

اسلام اس نقطہ نظر سے معاشی جدوجہد و کی ترجیحات میں دور رس تبدیلیاں لاتا ہے۔ ا س کے نزدیک سرمایہ کاری کے معیار انتخاب میں عامۃ الناس کی بھلائی بھی اتنا ہی وزن رکھتی ہے جتنا کہ ایک سرمایہ کار کا ذاتی منافع۔ وہ ضروریات کی فراہمی کی ہمت افزائی کرتا ہے اور صنعت کار کے اندر ایسا قوی داعیہ پیدا کرتا ہے کہ وہ اس میدان میں سرمایہ کاری کو اوّلین ترجیح دے۔ اس طرح غریبوں کیلئے سامان ضرورت یعنی مکانات، اسکول اور اسپتال کی فراہمی سرمایہ کاری کی ترجیحات میں شامل ہوجاتی ہیں ۔

 وہ آزاد بازار کو معاشی نظام کا اہم عنصر سمجھتا ہے، مگر وہ اس کے مضر اور مہلک اثرات، ضرر رساں نتائج اور عواقب کا سد باب کرنے کیلئے وسیع الجوانب اقدام کرتا ہے،ذخیرہ اندوزی کو حرام قرار دیتا ہے۔ مسابقت کی جگہ تعاون کی ہمت افزائی کرتا ہے۔ اخلاق اور عام انسانی منفعت کو نقصان پہنچانے والے اشیاء کی پیدائش پر روک لگاتا ہے اور اس کی خامیوں کا ازالہ کرنے کیلئے وہ ایک وسیع نظام زکوٰۃ نافذ کرتا ہے، جس سے مفلسوں اور غریبوں کو قوتِ خرید فراہم ہوسکے۔ اس کے بعد وہ بے سہارا لوگوں کو بیت المال کی ذمے داری قرار دیتا ہے۔

 وہ سیاسی ہیئت کی ایسی تشکیل کرنا چاہتے ہیں جس سے کمزوروں اور پسماندگان کی داد رسی میں قانونی یا سماجی حجابات نہ حائل ہوں ۔ نظام عدل و انصاف ایسا ہو جس کے فیوض سے کم زور بالخصوص مستفید ہوں ۔ امیر کو چرواہا قرار دیتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کو یتیم کا کفیل قرار دیا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ اعلان کیا تھا کہ مظلوموں کی داد رسی ان کا فرض منصبی ہے، وہ سیاسی نظام میں شورائیت (بمعنی جمہوریت) کو اساس قرار دیتا ہے۔ نسل و رنگ، زبان اور عقیدہ اور جنس کی بنیاد پر تفریق نہیں روا رکھتا۔

 لیکن اس کی اس اسکیم کا سب سے اہم اور کلیدی عنصر حقیقی خدا پرستی ہے، جو محض روحانی اور مذہبی زندگی کے مخصوص دائروں سے باہر پوری اجتماعی زندگی کو خدا وند کریم کی اطاعت میں دے کر حیات انسانی کے تمام امور کو اس کے احکام عدل و احسان کے تابع کرتا ہے۔ اس طرح اسلام کے نزدیک غرباء و فقراء، مزدور اور مظلوم کی حالت میں سدھار، ضمیمہ نہیں بلکہ اصل حقیقت کے عناصر کی ترکیبی بن جاتے ہیں ۔ اسلام کے نزدیک عدل و انصاف قوانین کے ذریعے نہیں بلکہ نفس انسانی کے تزکیہ کے ذریعے حاصل ہوتے ہیں ۔

سلام ہر ظلم کیلئے چیلنج ہے، چاہے وہ خدا وند کریم کے حق پر دست درازی ہو یا انسان کے حقوق پر۔ وہ جب بھی قائم ہوگا، ظلم کے انسداد و انصاف کے قیام اس کے پروگرام کے لازمی عنصر ہوں گے۔ اس لئے کہ اِنَّ اللّٰہَ یَأْ مُرُ بِالْعَدْلِ وَاْلِاحْسَانِ وَ اِیْتَایِٔ ذِی الْقُرْبٰی وَ یَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَائِ وَالْمُنْکَرِ۔ظاہر ہے کہ اسلام ہر ظالم وجابر، ہر خائن، ہر چیرہ دست کیلئے چیلنج ہے۔

تحریر: ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی … ترتیب: عبدالعزیز

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔