تصوف

  لفظ ’’تصوف‘‘صفاسے ،ماخوذہے جوکہ میل کی ضد ہے اور اس کا معنی صفائی ستھرائی کرنے کے ہیں ۔اصطلاح میں :

  1۔تصوف صوف سے نکلاہے جس کے معنی ’’اون‘‘کے ہیں ،یعنی اہل تصوف وہ لوگ ہوتے ہیں جواون پہنتے ہیں یعنی سادہ لباس۔

 2۔صوفی ’’صف‘‘سے نکلاہے یعنی وہ لوگ جوہمیشہ عبادت کے دوران  صف اول میں ہوتے ہیں ۔

 3۔صوفیا کی نسبت اصحاف صفہ سے ہے ۔

  اہل تصوف کی تین اقسام ہیں :

 1۔’’صوفی‘‘ بمعنی ولی یامرشدجواپنے وجود سے فانی ہو کر حق کے ساتھ باقی ہو گیا۔

 2۔’’متصوف‘‘:جو،مجاہدے کے ذریعے صوفی کے مقام کو حاصل کرنے کی کوشش کرے یاوراپنے آپ کو صافیاء کے طریقے پر گامزن رکھے،اسے مرید یاسالک بھی کہتے ہیں ۔

 3۔’’مستصوف‘‘:جودنیاوی مال و متاع یاجاہ و منصب کی خاطر صوفیاء کی نقل کرتے ہیں انہیں ہم جاہل پیر بھی کہتے ہیں ۔

  سورہ آل عمران کی آیت نمبر164 لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُوْلاً مِّنْ أَنْفَسِہِمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْہِمِ وَ یُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ اِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ{3:164}ترجمہ:درحقیات ایمان والوں پر تو اﷲتعالی نے بہت بڑااحسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود انہیں میں سے ایک ایسا پیغمبراٹھایاجواﷲتعالی کی آیات انہیں سناتاہے،ان کی زندگیوں کو سنوارتاہے اوران کوکتاب اور دانائی کی تعلیم دیتاہے حالانکہ اس سے پہلے یہی لوگ صریح گمراہی میں پرے ہوئے تھے‘‘،کے مطابق مومنین پرپہلے کلام الہی کی تلاوت کی گئی،پھران کاتزکیہ نفس کیاگیااوراس کے بعد انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دی گئی ۔سورۃ توبہ آیت119 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ{9:119}ترجمہ:’’اے لوگوجوایمان لائے ہواﷲتعالی سے ڈرواور سچے لوگوں کاساتھ دو‘‘،میں ایمان والوں کو اﷲتعالی سے ڈرنے کے بعد سچے لوگوں کے ساتھ صحبت اختیارکرنے کی ہدایت دی گئی ہے تاکہ ایمان کی استقامت رہے۔

 ہرآیت کا ایک ظاہری مطلب ہوتاہے اور ایک باطنی مطلب اورہرعلم سیکھنے کی ایک مخصوص جگہ متعین ہوتی ہے۔امام بزاز ؒ،طبرانیؒ اور مشکوۃ شریف میں یہ روایت موجود ہے کہ ظاہری علم کے لیے علماء کے پاس جانا پڑتاہے اورباطنی علم کے حصول کے لیے اولیائے کاملین کی صحبت اختیارکرنی ہوگی۔حضرت علیؓ سے حضرت حسن بصریؒروایت کرتے ہیں کہ علوم دوطرح کے ہوتے ہیں ،پہلاجوعلم نافع ہوتاہے اورانسان کے دل میں ہوتاہے دوسراعلم زبان پرہوتاہے جواﷲتعالی کی طرف انسان پر حجت ہوتاہے،جس نے اس پر عمل کیااسے نجات مل گئی۔حضرت ذوالنورین مصریؒ فرماتے ہیں صوفی جب بات کرے تو حقائق پر مبنی ہواوراگرخاموش رہے توحق کے ساتھ ہوجائے ۔حضرت ابوالحسن نوریؒفرماتے ہیں ’’صوفی وہ ہے جس کی روح پاک اور صاف ہو‘‘۔حضرت جنید بغدادی ؒ فرماتے ہیں تصوف کی بنیا دآٹھ خصلتوں پرہے:

1۔سخاوت کاغلبہ:جوحضرت ابراہیم  علیہ السلام کے فیض سے ملتاہے۔

2۔رضاکاغلبہ:جو حضرت اسحاق علیہ السلام کے فیض سے ملتاہے۔

 3۔صبرکاغلبہ: جو حضرت یعقوب علیہ السلام کے فیض سے ملتاہے۔

  4۔اشارہ کاغلبہ:جوحضرت زکریا علیہ السلام کے فیض سے ملتاہے۔

 5۔مسافری:جو حضرت یحیی علیہ السلام کے فیض سے ملتی ہے۔

 6۔اونی  یاسادہ لبا س:جوحضرت موسی علیہ السلام کے فیض سے ملتاہے۔

 7۔سیروسیاحت:جو حضرت عیسی علیہ السلام سے ملتاہے۔

  8۔فقر:جو محسن انسانیت ﷺکے فیض سے میسرآتی ہے۔

 تصوف اوررہبانیت میں فرق یہ ہے کہ راہبانیت میں انسان دنیاکو مستقل طورپرچھوڑ کر پہاڑوں یاجنگلوں میں جاکرالگ تھلگ عبادت میں مصروف ہوجاتاہے ۔تصوف دنیا چھوڑنے کی اجازت نہیں دیتابلکہ دنیاکے سارے معاملات کوطے کرنے کے ساتھ ساتھ اﷲتعالی اور اس کے رسولﷺ کے حقوق بھی پورے کرنے کی تاکید کرتاہے۔ملاعلی قاریؒاپنی کتاب ’میرقاہ المفاتیح‘‘میں حضرت امام مالک کاقول نقل فرماتے ہیں کہ ’’جس نے شریعت کاعلم سیکھ لیااورتصوف کاعلم نہیں سیکھااس نے فسق وفجورکیایعنی ابھی بھی وہ گناہوں میں مبتلا ہے اورجس نے تصوف کاعلم سیکھ لیالیکن شریعت کاعلم حاصل نہیں کیاتووہ قیدمیں ڈال دینے کے لائق ہے اور جس شخص نے یہ دونوں علم حاصل کرلیے اس نے اپنے رب کو پالیا‘‘۔ابوطالب مکی ؒفرماتے ہیں یہ دونوں ہی علوم اپنی اپنی حیثیت رکھتے ہیں ،ان دونوں میں سے کسی ایک کو بھی ترک نہیں کیاجاسکتا۔جس طرح دل اپنے جسم سے الگ نہیں ہوسکتااسی طرح علم تصوف یاعلم طریقت بھی شریعت سے الگ نہیں ہوسکتے۔

 جیسا کہ حدیث جبریل علیہ السلام میں ایمان،اسلام ،احسان اور قیامت کی نشانیوں کے متعلق تفصیلاََبیان کیاگیا۔اسی حدیث کی شرح سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ایمان اور اسلام کے بعد مومن کو’’احسان‘‘کی کیفیت سے روشناس کرایا گیاہے۔حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپﷺسے احسان کے بارے میں پوچھا توآپﷺنے جواباََاورتعلیماََ ارشادفرمایاکہ احسان اس کیفیت کانام ہے کہ تم اﷲتعالی کی عبادت کروکہ گویارب کودیکھ رہے ہو اوراگر یہ کیفیت حاصل نہیں توکم ازکم ہرحال میں یہ تصورکرلوکہ تمہارارب تمہیں دیکھ رہاہے ،اسی شعورکانام تصوف ہے۔اسی طرح دوسری روایت میں اس شعورکوبیدارکرتے ہوئے آپﷺنے ارشادفرمایاکہ تم میں سے ہرشخص ہلاک ہے سوائے علماء کے،تم میں سے ہرعالم ہلاک ہے سوائے عاملین کے،اور تم میں سے ہرعامل ہلاک ہے سوائے مخلصین کے ،اورتم میں سے ہرمخلص ہلاک ہے سوائے متقین کے یعنی اخلاص یا احسان کی کیفیت حاصل کرنے کے باوجود وہ اﷲتعالی سے ڈرتے رہتے ہیں ۔

 صوفیائے کرام کے لیے دس مقامات ہیں :

 1۔توبہ

  2۔انابت:یعنی ہربات میں اﷲتعالی کی طرف متوجہ ہونا۔

3۔زہد:یعنی دنیاکی فانی چیزوں سے دل اٹھ جائے۔

 4۔ریاضت:یعنی ہمہ وقت یادالہی میں مشغول رہنا۔

5۔ورع:یعنی شریعت جس کام کی اجازت دے اسے ہی کرے باقی چھوڑ دے،مطلب انتہائی پرہیزگاری۔

 6۔قناعت۔

 7۔توکل۔

 8۔تسلیم۔

9۔صبر:یعنی اﷲتعالی کی طرف سے جوکچھ وقوع پزیر ہواس پر ثابت قدم رہنا۔

  10۔رضااطمنان قلب کے ساتھ جوکچھ ہوااس پر راضی رہنا۔

 تصوف کے انہیں مقامات اورلوزامات کے پیش نظراولیائے کرام نے مختلف سلاسل کے ذریعے عوام وخواص کے ظاہروباطن کواﷲتعالی کے نور سے منورکیاہے اوریہ سلسلہ تاقیامت جاری و ساری رہے گاکیونکہ آپﷺ نے ارشادفرمایا کہ میرے بعدکوئی نبی نہیں لیکن میرے خلفاء یانائبین قیامت تک آتے رہیں گے جن کی اطاعت تم پرلازم ہے۔تصوف کی اصطلاح میں بنیادی طورپر ہردورمیں چارسلاسل(اربع نہار)رائج رہے ہیں :

  1۔سلسلہ عالیہ نقشبندیہ:یہ سلسلہ حضرت ابوبکرصدیق سے جاکر ملتاہے،

  2۔سلسلہ عالیہ قادریہ:

 3۔سلسلہ عالیہ سہروردیہ

 4۔سلسلہ عالیہ چشتیہ

بقیہ تینوں سلسلے حضرت علی کرم اﷲوجہ سے جا کر ملتے ہیں ۔

   یہ بات واضح رہے کہ حقوق اﷲ اورحقوق العبادکوبدرجہ اتم اداکرنے کے لیے امام غزالی ؒنے علم تصوف کولازم قراردیاہے۔اسی لیے ہرشخص پرلازم ہے کہ اس پرفتن دورمیں معاشی ،معاشرتی،مذہبی اورعائلی زندگی گزارنے کے ساتھ ساتھ اپنی روحانی زندگی پرتوجہ کے لیے اولیائے کاملین کی صحبت کولازمی اختیارکرے۔

تبصرے بند ہیں۔