علامہ اقبال اور تصوف

صالحہ صدیقی

اقبال ایک درویش مسلک گھرانے کے چشم و چراغ تھے اور خود کہتے تھے: ’’میرا فطری اور آبائی رحجان تصوف کی طرف ہے۔‘‘ علامہ اقبال کی ابتدائی زندگی مذہبی ماحول میں بسر ہوئی اپنے گھر اور اساتذہ سے انھیں جو تعلیم و تربیت حاصل ہوئی تھی اس کے باعث وہ وحدت الوجود ی تصوف کے ماننے والوں میں شامل ہو گئے تھے، حسن نظامی سے دوستی و قربت نے ان کی اس سوچ کو مزید تقویت بخشی۔ لیکن اقبال کی سوچ میں تبدیلی اس وقت آئی جب وہ جر من میں تصوف کے فلسفہ پر اپنا تحقیقی مقالہ لکھ رہے تھے۔ اس دوران انھیں فلسفہ ٔ  تصوف، مولانا روم کے نظریات، ابن عربی کے فلسفہ اور دیگرصوفیاء اکرام کی تحریروں کا بغور تفصیلی مطالعہ کرنے کا موقع ملا۔ اس کے بعد انھوں نے اپنا ایک نیا تصور پیش کیا کہ وحدت الوجود کا جو اصل ذات کا تصور ہے وہ نامکمل ہے۔ یہ تصور کہ اپنی ذات کی نفی کی جائے اور ایک اصل ذات سے پیوستگی کی جائے درست نہیں۔ بلکہ اصل بات یہ ہے کہ انسان کا اپنی ذات کو تسلیم کرنا اور اس کی شناخت کرنا ہے۔

اقبال نے یہ تصور پیش کیا کہ نفی ذات کے بعد اثبات ذات کا مرحلہ ہے یہ اثبات ذات اپنی شناخت کو تسلیم کرنا ہے اور یہی فلسفۂ خودی ہے۔ اقبال نے بہت غور وفکر کے بعد یہ نتیجہ نکالا کہ اتنے وسیع تصوف کے ذخیرے اور سجادہ نشینوں کے باوجود مسلمانوں کے زوال کی وجہ وحدت، وجودیت کی موجودہ شکل ایک تقدیر پرستی، مردہ پرستی اور جمود کو جنم دیتی ہے جو گدی نشینوں کے لئے تو ٹھیک ہے لیکن ایک متحرک اور ارتقاء پذیرمعاشرے کے لئے صحیح نہیں۔ اقبال کا کہنا تھا کہ تصوف کی ایک نئی سوچ کو سامنے لانے کی ضرورت ہے جس میں اپنے وجود کوایک الگ وجود کے طور پر تسلیم کرنا اور عظمت انسان کو تسلیم کرنا مقصود ہو۔ اللہ نے ہر انسان کو مختار بنایا ہے اسے فیصلے کی آزادی دی ہے اس لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے فیصلوں کی ذمہ داری خود لے اور تقدیر پرستی کے بجائے اپنی دنیا آپ پیدا کریں، کیونکہ وحدت الوجود اور نفی ذات کا نظریہ ایک رہبانیت کو جنم دیتا ہے لیکن ایک زندہ قوم کو نہیں۔ اقبال نے علم اور معرفت میں معرفت کے مطلق بالا دستی کا انکار کیا اور یہ تصور پیش کیا کہ علم کے دوسرے پہلوؤں کو سمجھنا، جاننا اور عمل کرنا ہی معرفت ہے یہ کوئی خفیہ یا باطنی علم نہیں بلکہ علم کو غیر روایتی طور سے جاننے اور سیکھنے کا عمل ہے۔ اس سے ظاہری علم کو کمتر ثابت کرنا ہر گز مقصد نہیں ہے۔ اقبال کی اس پوری فکر کو سجادہ نشینوں نے بہت شدت سے نشانہ بنایا اور اس کے خلاف پورا محاذ کھول دیا۔ حتیٰ کہ اقبال کے عزیز دوست حسن نظامی اور ان کے مریدوں نے ان کے خلاف مضامین کا ایک سلسلہ شروع کردیا اور وحدت والوجود ی کو اصل تصوف ثابت کیا۔ انھوں نے اس بات سے انکار کیا کہ رومی وحدت الوجودی سے مختلف کوئی سوچ رکھتے تھے۔ بہرحال اقبال نے ہمیشہ خودی اور عمل کی تعلیم دی۔ ماہر اقبالیات ڈاکٹر شبیر احمد نحوی کے مطابق ’’علامہ اقبال کے یہاں کہیں وحدت الوجود کا انتہائی نظریہ نہیں ملتا ان کے کلام میں اگر کہیں کہیں وحدت الوجود ی رنگ نظر آتا ہے تو اس میں ایک اعتدال ہے اور یہ توحید خاص یا وحدت شہودی کے منافی نہیں بلکہ موافق ہے۔ ‘‘اس اقتباس کی روشنی میں اقبال کی نظم ’’جگنو ‘‘ کی یاد آتی ہے جو فنی فکری اور تصوف تینوں سطح پر قابل دید ہے، یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں :

حسن ازل کی پیداہر چیز میں جھلک ہے

انساں میں وہ سخن ہے، غنچہ میں وہ چٹک ہے

کثرت میں ہوگیا ہے وحدت کا راز مخفی

جگنو میں جو چمک ہے وہ پھول میں مہک ہے

یہ اختلاف پھر کیوں ہنگاموں کا محل ہو

ہر شئے میں جب کہ پنہاں خامشی ٔ ازل ہو

 اقبال کی شاعری میں ’’تصوف ‘‘انتہائی اہم عنصر ہے ان کی شاعری میں جو رمزیت اور ماورائی کیف ہے اس میں تصوف کا خاص دخل ہے۔ جنوں، وجود، خرد، عشق کے الفاظ اقبال کے یہاں جب مطالعہ کے وقت پیش آتے ہیں تو ان کی کیفیت الگ ہی محسوس ہوتی ہے۔ یہ بھی قابل غور ہے کہ اقبال نے یہ منفرد احساس حسن تصوف سے ہی پیدا کیا، اگر چہ پوری طرح تصوف نہ صحیح تو کم از کم اس کی اصطلاحات یا اسلوب کی سطح پر تصوف کی گرمی کو ضرور محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ’’شکوہ ‘‘علامہ اقبال کی شاہکار نظم ہے جس میں تصوف کی جرأت مندانہ اندازکی گونج سنائی دیتی ہے۔ جس میں اقبال یہاں تک کہہ ڈالتے ہے کہ ’’ بات کہنے کی نہیں تو بھی توہرجائی ہے۔ ‘‘

اقبال کے کلام میں تصوف کے خلاف جو کچھ ملتا ہے اس کا لب و لباب یہ ہے کہ اقبال نے تصوف پر جا بجا طنز کیا ہے، لیکن اس طنز کی نوعیت تردید ی کی نہیں بلکہ محبوبانہ تنبیہ کی ہے، اور یہ تنبیہہ صرف تصوف تک محدود نہیں بلکہ دیگر اشیاء کے متعلق بھی دیکھی جاسکتی ہیں، مثال کے طور پر ’’ساقی نامہ ‘‘ کایہ شعر ملاحظہ فرمائیں

تمدن، تصوف، شریعت، کلام

بتان عجم کے پجاری تمام

اقبال کی نظم ’’ساقی نامہ ‘‘میں ابتدأ تا اخر تک تصور تصوف کا بیان ملتا ہے۔ اس نظم میں اسلوب، بیان، الفاظ، گہرائی وگیرائی میں تصوف اور ان کے فلسفہ کو پیش کیا گیا ہے۔ اشعار ملاحظہ فرمائیں :

کسے خبر کہ سفینے ڈبو گئی کتنے

فقیہ و صوفی و شاعر کی ناخوش اندیشی

٭

قلندر جز دو حرف لاالہ کچھ بھی نہیں

فقیہ شہر قاروں ہے لغت ہائے حجازی کا

٭

سکھادیئے ہیں اسے شیوہ ہائے حجازی کا

فقیہ شہر کو صوفی نے کر دیا ہے خراب

ان اشعار کا بغور مطالعہ کرنے سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں تنبیہات محبوبانہ انداز میں کی گئی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی سامنے آتی ہے کہ اقبال خانقاہی تصوف کی تردید کرتے ہے لیکن میدان تصوف کے قائل نظر آتے ہے، ان کو ترک جہاد کی تعلیم دینے والا صوفی پسند نہیں، بلکہ وہ حرکت و عمل کی دعوت دیتے ہے اس طرح اسے ہم ’’موڈرن تصوف ‘‘ کا نام دے سکتے ہے۔ اقبال کی تصوف سے محبت کا اندازہ ان کے اس شعر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ :

کہاں سے تونے اے اقبال سیکھی ہے یہ درویشی

کہ چرچا بادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کا

ہمارے بیشتر علماء اکرام تصوف کو صرف ظاہری الفاظ میں دیکھتے ہیں، جس کے سبب کئی بار وہ ا س تحریر کے مزاج سے یا اس کے باطنی یا معنوی اعتبار سے انصاف نہیں کر پاتے مثال کے طور پر اقبال کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں جسے بعض حضرات تصوف سے نہیں جوڑتے :

تو ابھی رہ گزر میں ہے قید مقام سے گزر

مصر و حجاز سے گذر پارس و شام سے گزر

تیرا امام ہے حضور تیری نماز بے سرور

ایسی نماز سے گزر ایسے امام سے گزر

اس شعر میں ’’قید مقام ‘‘ سے گزرنے میں جو حدت اور تیزی ہے وہ آشنائے تصوف ہی صحیح معنوں میں محسوس کر سکتا ہے۔ مگر افسوس کہ بعض علماء تو اقبال کے ظاہر تصوف کے نظریات کو بھی محسوس نہیں کر پائے ، اشعار ملاحظہ فرمائیں :

علاج آتش رومی کے سوز میں ہے تیرا

تری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں

اسی کے فیض سے میری نگاہ ہے روشن

اسی کے فیض سے میرے سبو میں ہے جیحوں

علم کی تحقیر اور عشق کی تفصیل صوفیاء اکرام کا خاص نظریہ رہاہے۔ اقبال کے کلام میں یہ دونوں بدرجۂ اتم موجود ہے اشعار ملاحظہ فرمائیں :

عشق سراپا حضورؐ

علم سراپا حجاب

علم ہے پیدا سوال

عشق ہے پنہاں جواب

علم ہے ابن الکتاب

عشق ہے ام الکتاب

’ابن الکتاب اور ام الکتاب میں جو تندی اور تقدیس ہے یہ صرف اہل نظر ہی محسوس کر سکتے ہیں۔ اس طرح کے بے شمار اشعار کلام اقبال میں جا بجا بکھرے پڑے ہیں۔ مثال کے طور پر اقبال کی نظم’’جبریل اور ابلیس ‘ ‘ کے اشعار ملاحظہ فرمائیں جس میں اقبال بحیثیت کردار ابلیس کی زبانی اپنے افکار و نظریات کو اس طرح ادا کرتے ہیں کہ :

خضر بھی بے دست وپا، الیاس بھی بے دست پا

میرے طوفاں یم بہ یم دریا بہ دریا جو بہ جو

یا یہ انداز بھی ابلیس کا دیکھیے کہ :

گر کبھی خلوت میسر ہو تو پوچھ اللہ سے

قصہ آدم کو رنگیں کر گیا کس کا لہو

میں کھٹکتا ہوں دل یزداں میں کانٹے کی طرح

تو فقط اللہ ھو، اللہ ھو، اللہ ھو

بہر حال مختصریہ کہ اقبال کا مطالعہ بہت وسیع تھا، انھوں نے مشرق و مغرب کے مختلف علوم و فنون کا مطالعہ کیا تھا۔ انھوں نے اپنے فکر و فلسفہ کوملک و قوم کی بھلائی اور ان کی اصلاح میں صرف کردیا۔ خصو صا مسلمانوں کے فلاح و بہبود کے لیے وہ ہمیشہ فکر مند رہتے۔ مسلسل غور و فکر اور وسیع مطالعہ کے بعد انھوں نے فلسفہ خودی اور عشق کا روشن نظریہ پیش کیا۔ اقبال قرآن مجید کی ابدی حقیقت پر پختہ ایمان رکھتے تھے۔ ۱۹۰۵ء کے بعد اقبال جب اسلامی تعلیمات، اسلامی تاریخ، اور قرآن و حدیث کا مطالعہ شدت سے کرنے لگے تو وہ وقت بھی آیا جب ان کا نظریہ، یا عقیدہ، یا فلسفہ یا قانون یا کوئی اصول وضوابط یا اصول حیات جو قرآن مجید کی تعلیمات سے ذرہ برابر بھی مختلف ہوتا، تووہ اسے نہایت جرأت کے ساتھ مسترد کردیتے تھے۔ انھوں نے فلسفہ اور تصوف کے ان تمام مسائل اور نظریات کوجو حریم اسلام میں بعض عقبی دروازوں سے داخل ہو گئے تھے ساقط الاعتبار قراردیا۔

اقبال نے خانقاہی مزاج و تصوف کو ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنایا تو دوسری طرف اس تصوف کے قائل بھی رہے جس میں حرکت و عمل، حرارت، جد وجہد، اور قوت پوشیدہ ہو۔ جس سے قوم میں خودی اور تقویٰ پیدا ہو۔ بہر حال  تصوف اور اقبال دونوں ہی ایک وسیع موضوع ہیں جنھیں چند صفحات میں سمیٹنا یا ان پر تفصیلی گفتگو کرنا ممکن نہیں۔ لیکن یہ ایک ادنیٰ سی کوشش ہے ان دونوں موضوعات کو سمجھنے کی جو یہاں پیش کی گئی۔ میں اپنی باتوں کو اقبال کے ان چند مصرعوں کے ساتھ ختم کرنا چاہونگی کہ :

اک فقر سکھاتا ہے صیاد کو نخ چیری

اک فقر سے کھلتے ہیں اسرار جہاں گیری

اک فقر سے قوموں میں مسکینی و دلگیری

اک فقر سے مٹی میں خاصیت اکسیری

اک فقر ہے شبیری اس فقر میں ہے میری

میراث مسلمانی، سرمایہ ٔ   شبیری  

تبصرے بند ہیں۔