ادب  جائزہ: 2018

سیمیں کرن

(پاکستان)

ایک ایسا وقت جب یہ شوروغوغا بلند ہوا کہ ادب پھل پھول نہیں رہا، اُردو ادب اپنی موت مر رہا ہے۔ کتاب کلچر کونیٹ کی دُنیا نے  ُبری طرح نگل لیا ہے۔ دنیا جو ایک بالکل نئی کروٹ لے چکی اِن گزشتہ دو دوہائیوں میں، نئے انداز اور رویے ہمارے دروازوں پر دستک دے رہے ہیں بلکہ دستک دے کر ہماری زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ وہاں اِن سوالوں کو اور آج کے ادب کو دیکھنے اور اُس پہ بات کرنے کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔ اس بات پر غور کرنے کی اور اِن مفروضوں کو غلط ثابت کرنے کی کہ کیا واقعی اُردو زبان زوال پذیر ہے۔

کیا اُردو ادب تخلیق نہیں ہو رہا، اَیسا ادب جو بین الاقوامی ادب کا مقابلہ کر سکے۔ کیا کتاب کلچر ہمارے بیچ سے غائب ہو چکا ہے کیا کتاب کی جگہ واقعی نیٹ اور سوشل میڈیا لے چکا ہے؟

اِن سوالوں کا جواب ڈھونڈنا ناگزیر اِس لیے بھی ہو جاتا ہے کہ نئی صدی کے دوسری دہائی اختتام پذیر ہے اور یہ گزشتہ بیس تیس برس ایک مکمل بدلے اورنئے سماج  کے دعویدار ہیں جہاں سیاست ہماری جذباتی دنیا میں بری طرح مدخیل ہو چکی عام شخص کا سیاسی شعور مذید بالغ ہو چکا ہے اور جہاں بہت سے نئے مسائل سے موضوعات بن کر انسانی نوع کے سامنے ایک  ُبرے سوال کی صورت کھڑے ہیں۔

اُردو زبان کا شمار برصغیر کی اہم زبانوں کی ایک خاص لڑی میں ہوتا ہے، ایک ایسی زبان جس کر پڑھنے اور بولنے والے دُنیا کے ہر خطے میں موجود ہیں۔ جو سرزمین پاکستان کی قومی زبان ہے جبکہ یہ ہندوستان میں جنم لینے والی ایک بڑی آبادی میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ ہندوستان سے اُردو ادب میں مسلسل حصہ بھی ڈالا جا رہا ہے۔ لیکن اِس کے باوجود اُردو ادب زوال پذیر ہے کا سلوگن کیوں گردشِ عام ہے؟

اِن حالات میں اس سوال کے معنی خیزی نہ صرف ادب کے لکھاری کے لیے بڑھ جاتی ہے بلکہ قاری بھی اس سوال کوپوچھنے میں حق بجانب ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کے ہر دو کا سماج ایک گھٹن، انتشاراور شدت پسندانہ رویوں کا ثمرکاٹ رہا ہے۔ پاکستان میں غیر مستحکم جمہوری اقدار، اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت جو کہ کبھی مختلف اداروں کے مارشل لاء جیسی صورتحال اِختیار کر لیتی ہے اور ہندوستان میں شدت پسند متشدد ہندو سیاست جو اُردو کو لگاتار ایک اقلیت کی زبان بنا رہی ہے، اُردو کو بنگالی میں دھکیلا جا رہا ہے۔ یہ وہ مسائل، چیلنجز اور سوال ہیں جو اُردو ادیب کو درپیش ہیں اور جن کو جواب ڈھونڈنے میں ہی شاید اس کا حل بھی پنہاں ہے۔

یہ ایک ایسا عہد ہے جہاں پاکستان سقوطِ ڈھاکہ جیسے سانحہ کے بعد مارشل لاء کے جبر اور پھر اپنی سرحدوں سے داخل ہو کر شہر میں مدخیل جنگ سے نبردآزما رہا ہے، سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور ابھی اِتنا تازہ ہے کہ زخموں سے لہو رِستا ہے۔

یہ ہے ہمارے آج کا منظرنامہ جو ادب اور ادیب کے لیے چیلنج کی مانند کھڑا ہے اور سوال پوچھتا ہے کہ کیا آج کا ادیب اِس سے عہدہ برآ ہونے کے لیے تیار ہے؟ اگر ہمارے پاس اِس سوال کا کوئی واضع جواب ہے تو یقینا ہم باقی سوالوں اور مسائل کی جانب مثبت پیش رفت کے قابل ہوں گے۔ یہ سوال اپنی جگہ ہیں مگر کتاب اور ادبی جرائد کا تسلسل، اُس کی اشاعت، اُس کاتذکرہ ناگزیر ہی نہیں ہے بلکہ خوش آئند بھی ہے اور اِس دعوے کی نفی بھی کہ ادب زوال پذیر ہے اور ناپید ہو رہا ہے۔ ۲۰۱۸ء جو کہ آپ ہمیشہ کے لیے مہمان ہوا چاہتا ہے اِس کے حوالے سے گر کتب و جرائد کا جائزہ لیا جائے تو ہمارے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے اور صورتحال یقینا خوش آئند اور اُمید افزا ہے۔ قرۃ العین حیدر کہتی ہیں ’’پتھر وقت کی منجمد صورت ہیں۔ ‘‘ اور گریہی بات کسی اچھی کتاب کے بارے میں کہی جائے تو کچھ ایسا غلط نہیں۔ اِس سال ایسی بہت سے کتابیں آئیں۔ ایسا بہت کام ہوا جو نہ صرف قابلِ ذکر ہے بلکہ اُردو ادب میں ایک گراں قدر اضافہ سمجھا جائے گا۔

سب سے پہلا تذکرہ محترم مستنصر حسین تارڑ کے ناول ’’منطق الطیر، جدید ‘‘کا ہے۔ تارڑ صاحب کے ناول کے کچھ اِختصاصات ہیں جن میں پرندے سرفہرست ہیں۔ فریدالدین عطا رکے یہ پرندے مستنصر حسین تارڑ کی باطنی دنیا میں ہی نہیں پھڑپھڑاتے بلکہ یہ پرندے ان کی ادبی کائنات میں بھی پرواز کرتے ملتے ہیں۔ یہ پرندے ـ’’ خس و خاشاک زمانے میں ‘‘ بھی منسوب ٹھہرتے ہیں۔ یہ تارڑ کے ساتھ ساتھ محوِپرواز رہتے ہیں۔ ایسا ناول لکھنے کی ہمت مستنصر حسین تارڑ جیسا کہنا مشق ادیب ہی کر سکتا تھا۔ جس کے ساتھ مطالعہ کی کثرت ہم رکاب ہے وہ چاہے سفر کی صورت ہو یا کتاب کی۔ تارڑ ہر صورت مطالعہ کے خوگر ہیں اور یہی اُس کی تحریر کو ایک لازوال چاشنی عطا کرتی ہے۔ اُنہوں نے ان گزشتہ دو دہائیوں میں اُردو ادب کو بلا مبالغہ ایسے بڑے ناولز سے نوازا جس کو اہم عالمی ادب کے سامنے فخر سے رکھ سکتے ہیں۔ اِس میں بہاؤ، راکھ، اے غرال شب اور خس و خاشاک زمانے  اور قربت مرگ میں محبت جیسے بڑے ناول شامل ہیں۔

خالد فتح محمد بھی اُن ناموں میں شامل ہیں جنھوں نے اُردو ادب میں معتبر اضافہ کیا ہے۔ اُن کا اسلوب سادہ و دلنشین ہے بغیر کسی اُلجھا وے کے وہ اپنی بات و سوچ قاری تک پہنچا دیتے ہیں۔ ’’شہر مدفون‘‘ اور ’’ خلیج ‘‘کے بعد اُن کا تازہ ناول ’’سانپ سے زیادہ سراب ‘‘سامنے آیا ہے۔

محمد الیاس بھی اُن معتبر ناموں میں شامل ہیں جنھوں نے گزشتہ دو دہائیوں میں اُردو ادب میں گراں قدر اضافہ کیا ہے۔ متعدد افسانوی مجموعے اور ناول اُن کے کریڈٹ پہ ہیں۔ کہر، برف، بارش، پروا اور دھوپ جیسے بڑے ناول وہ اردو اَدب کو دے چکے ہیں اور امسال اُن کا ناول ’’ عقوبت‘‘ نفس اُمید ہے کہ اشاعت ہو کر سامنے آ جائے گا۔ جس میں اُن کے دو ناولٹ شامل ہیں۔

اختر رضا سلیمی بھی ایک اہم ناول نگار کی صورت اُبھر کر سامنے آئے ہیں۔ گزشتہ برس اُن کے پہلے ناول ’’جاگے ہیں خواب میں ‘‘ کا تیسراایڈیشن  شائع ہوا جبکہ دوسرا ناول ’’جندر‘‘ بھی سامنے آیا۔ اس سال اِن کے دو ناولوں کا خوب تذکرہ رہا۔ ہزارہ کے پس منظر میں لکھے گئے یہ دونوں ناولز یقینا ایک گراں قدر اضافہ ہیں۔

سید کاشف رضا کا ناول ’’چاردرویش اور کچھوا‘‘ اِس برس کا ایک اہم اور عمدہ ناول ہے۔ ناول کا بیانیہ آغاز میں دیے ژاں بوردیاغ کے اِس بیان کی بہترین مثال ہے کہ آج کا فن حقیقت میں مکمل طور پر گھس گھسا چکا ہے اور دوسرے باب کے آغاز میں ژاں بوردیاغ کا کہنا ہے کہ اول توپوں کہ فن بنیادی حقیقت کا عکس ہے اور ناول پڑھتے ہوئے یہ گمان ہوتا ہے کہ اِس کا بینایہ حقیقت میں گھس گھسا چکا ہے یا کسی حقیقت کا عکس ہے۔ پاکستان کا سیاست کا ایک باب بے نظیر کی شہادت اور طالبان کی کاشت کاری ایسے موضوعات کی عکس بنیادی مصنف کچھ ایسے کی ہے کہ گویا کوئی قلم سامنے چل رہی ہے جس میں مصنف خود کسی کچھوے کے خول میں جا چھپا ہے۔

سید کاشف رضا ایک عمدہ ناول نگار کی صوت میں سامنے آتے ہیں۔ آمنہ مفتی کا ناول ’’پانی مر رہا ہے‘‘ بھی قابلِ تذکرہ ہے۔ گو زیرمطالعہ نہیں رہا۔ وہ ایک عمدہ لکھاری اور ڈرامہ رائٹر ہے۔ فارس مغل بھی ایک تیز رفتار لکھاری ہیں اور یکے بعد دیگرے اُن کے دو ناول سامنے آئے ہیں۔ ’’ہم جان‘‘ اُن کا پہلا ناول تھا اور اِس برس اُن کا ناول ’’سوسال وفا‘‘ سامنے آیا ہے۔ ’’سوسال وفا‘‘ بلوچستان جو ایک سلگتا ہوا حساس صوبہ ہے اور ایک ایسا مسئلہ جس پر بات کی بہت ضرورت ہے، اسی حساسیت کے پس منظر میں لکھا گیاہے۔ یہ ایک سیاسی اور رومانوی ناول ہے۔ ایک حساس اور سنجیدہ موضوع کو ایک محبت کی کہانی کی صورت میں پیش کیا ہے اور وہ اپنی سوچ کے ابلاغ میں کامیاب رہا ہے۔ فارس کے ہاں رومان کی چاشنی اِس قدر زیادہ ہے کہ وہ بیک وقت اُس کی تحریر کی خوبی بھی بنتی ے اور خامی بھی ٹھہرتی ہے۔ اُس کے پاس وہ تمام لوازم ہیں جو ایک شہ پارہ تخلیق کر سکتے ہیں۔ کردار نگاری، وسیع مطالعہ، عمدہ کردارنگاری و منظرنگاری دل پر براہِ راست دستک دیتے جملے، کہانی کوسلیقے

سے بیان کرنے ک سبھاؤ مگر یہ اُس کی کرداروں اور کہانی کا ٹریٹمنٹ ہے کہ ناول محض ایک رومانوی اور سماجی ناول بن جاتا ہے۔ یہی طریق اُس کے گزشتہ ناول ہمجان میں بھی نظر آتا ہے۔ یہ وقت فارس مغل جیسے اچھے لکھاری کے لیے سنبھل کر لکھنے کا ہے کہ اُردو ادب کو اُس سے بہت سی اُمیدیں وابستہ ہیں۔

محترم مشرف عالم ذوقی افسانے اور ناول کی دنیا کاوہ اہم نام ہے جو اب اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں۔ گزشتہ دودہائیوں میں وہ سلگتے مسائل اور عالمی و سماجی بدلاؤ کو اپنے ناولز کا موضوع بناتے رہے ہیں۔ اِس برس اُن کی ایک ہی تسلسل میں پانچ طویل کہانیاں، ہندوستان کے سیاسی پس منظر اور گھٹن کی بہترین عکاس رہیں جب کہ یہ کہانیاں اب ایک افسانوی مجموعے کی صورت کتابی شکل اختیار کر چکی ہیں۔

 ڈاکٹر ناصر عباس منیر جو ایک معتبر ادبی نقاد ہیں کا افسانوی مجموعہ ’’راکھ سے لکھی گی کتاب ‘‘قابلِ ذکر  اضافہ ہے۔

امین ھایانی کایہ دوسرا افسانوی مجموعہ ’’بے چین شہر کی  ُپرسکون لڑکی‘‘ ہے جو سامنے آیا ہے۔ محترم حمیدشاہد کے رائے فلیپ پر شامل ہے۔ امین ھایانی کے افسانوں کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ ایک دردمند اور حساس لکھاری ہیں اور اصطلاح معاشرہ کے جذبے سے مغلوب ہیں اور یہی اُن کے قلم کی تحریک ہے۔ اِس مجموعے کا ایک قابلِ ذکر افسانہ ’’نفرت سے محبت تک ۲۰۲۵‘‘ ہے۔ ہندوستان و پاکستان کی سیاست، مسئلہ کشمیر اور مابین جنگوں کے پس منظر میں یہ امین ھایانی کا ایک عمدہ افسانہ ہے۔

سید ماجدشاہ کے افسانوی مجموعے ’’ق‘‘ کے بعد’’ر‘‘ ان کا دوسرا مجموعہ ہے۔ جو اُن کے مختصر افسانوں و افسانچوں پہ مشتمل ہے۔

سبین علی نوجون لکھاریوں میں ایک عمدہ اضافہ اور اہم نام ہیں مختلف اور اہم موضوعات پر قلم اٹھاتی ہیں۔ صاحبِ مطالعہ اور عمدہ تنقیدی فکر رکھتی ہیں۔ اُن کا افسانوی مجموعہ ’’گل معلوب‘‘ حال ہی میں منظرعام پر آیا اُمید کی جانی چاہیے کہ یہ ایک اہم اضافہ ثابت ہو گا۔

جواد حسنین بشر جواد جو ابن مسافر کے قلمی نام سے لکھتے ہیں کے یکے بعد دیگرے دو افسانوی مجموعے آئے ہیں۔ پہلا مجموعہ ’’سفرناتمام ‘‘تھا اور اِس برس دوسرا مجموعہ ’’ہاتھ ملاتا دریا اور مقدس بیٹی‘‘ منظرعام پر آیا۔ جواد ایک جرات آمیز افسانہ نگار ہیں اور نئے موضوعات پہ لکھنے کے خوگر روایتی موضوعات کے علاوہ جدید موضوعات و مسائل پر بھی ان کی گہری نظر ہے۔ اُمید ہے کہ وہ آنے والے وقتوں میں اہم افسانہ نگار ثابت ہوگا۔

اگر اِس برس ادبی جرائد کی جانب نگاہ ڈالی جائے اور ایسے دور میں کہ یہ سودا محض دیوانگی کا ہے، اُردو جرائدجن کو نہ اِشتہارات تک رسائی ہے۔ نہ سرکاری سرپرستی حاصل اور نہ ہی مارکیٹ تک یہ پہنچ پاتے ہیں اِن تمام تر مسائل کے باوجود ادبی جرائد علم و ادب کی شمع روشن رکھے ہوئے ہیں۔

ادبی جرائد کی بات آئے تو صفِ اول میں بہت سے جرائد آن بان سے کھڑے ہیں۔ لوح، مکالمہ، اجرا، سویرا، چہار سو، نقاط اور تسطیر یہ رسالے اپنے عمدہ معیار کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

لوح نے بہت جلد خود کو صفِ اول میں شامل کیا ہے۔ لوح کا افسانہ نمبر اِس دہائی کا ہی نہیں آنے والی دہائیوں کا بھی ایک قابل فخر کارنامہ ہے۔ جس کا ذکرآنے والے وقتوں میں ہوتا رہے گا اور  ہرشمارے میں ایک خصوصی گوشے کا اِہتمام ہر شمارے کوخاص نمبر بناتا ہے۔ اِتنا ضخیم اور معیاری رسالہ نکالنایقینا  محترم ممتاز شیخ صاحب کا قابلِ فخرکارنامہ ہے۔

مکالمہ مبین مرزا کی ادارت میں نکلنے والا ایک معتبر جریدہ ہے جو اَب ماہانہ تسلسل کے ساتھ شائع ہو رہا ہے۔

سویرا ایک تہذیبی روایت و تسلسل کا نام ہے اور محترم سلیم الرحمن کا نام ادبی دنیا میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ اس کا ہر شمارہ اپنی جگہ خاص ہے۔

 اِس برس اجرا کا یوسفی نمبر ایک خاصے کی چیز ہے۔ احسن سلیم مرحوم کے بعد اقبال خورشید اور اُن کی ٹیم نے اجرا کو اسی معیار و روایت پہ جاری رکھا ہے جس پہ وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔

اکادمی ادبیات کے دو شمارے اِس برس آئے اور حالیہ شمارا عبداللّٰہ حسین نمبر تھا۔

ستمبر میں ماہانہ ندائے گل لاہور کا سپیشل سالنامہ جس کا خوب تذکرہ ہوا۔ ادبی دنیا میں نوواردوں کا ایسے اہم جرائد و پراجیکٹ پہ کام بہت خوش آئند ہے کہ یہیں سے تازہ لہو کی آبیاری ہو گی۔

سہ ماہی چہارسو ایک اور ادبی روایت کا نام ہے گلزار جاوید کی اِدارت میں تسلسل اور باقاعدگی سے نکلنے والا، اِی جریدہ انڈیا پاکستان دونوں جگہ مقبول ہے اور ہردفعہ گوشۂ اِختصاص اِس کا کارنامہ ہے۔ چہار سُو کو پیپر پر بھی محدود تعداد میں شائع کیا جا رہا ہے۔

ڈاکٹر قاسم یعقوب فیصل آباد سے تعلق رکھتے ہیں۔ کا بسلسلہ ملازمت اسلام آباد میں رہ کر نقاط جیسے عمدہ جریدے کو جاری رکھنا ایک مشکل کام ہے لیکن وہ اسے بخوبی نبھا رہے ہیں۔ نقاط نے بہت جلد اپنے آپ کو معیاری جرائد کی فہرست میں شامل کیا ہے۔

سہ ماہی شعر وسخن خیبرپختون خواہ کی ایک توانا آواز ہے اور باقاعدہ سنجیدگی سے اشاعت پذیر ہونے والے پرچوں میں شامل ہے۔ اِس کا اِس برس نکلنے والا ہزارہ نمبر ایک اہمیت طلب کام تھا جسے جان عالم نے بخوبی سرانجام دیا۔

 ’’انہماک‘‘ کتابی سلسلہ کا ذکرکرنا ناگزیر ہے۔ اِس کاخصوصی نمبر جو سامنے آیا اِس میں پانچ مصنّفین پر خصوصی گوشے شامل تھے۔ جن میں محمود ظفر اقبال ہاشمی اور جمیل احمد عدیل کے گوشے قابلِ ذکر ہیں۔ اہم مضامین و مائیکروفکشن پر خصوصی توجہ لیے یہ شمارہ بھی خاصے کی چیز تھا۔

 سیپ کا ایک شمارہ بھی اِس برس سامنے آیا سیپ ایک عہدکا نام ادب دوست ارشد نعیم کی اِدارت میں اپنا کھویا ہوا وقار پھر بحال کر رہا ہے وہ اِسے تسلسل کے ساتھ لا رہے ہیں اور عمدہ ماہنامہ نکال رہے ہیں۔ سہ ماہی الزبیر کے دو جرائد یکے بعد دیگرے سامنے آئے یہ ایک مخصوص مزاج کا پرچہ ہے۔ ادبِ لطیف بھی ناصر زیدی کی اِدارت میں تسلسل سے آ رہا ہے۔

تخلیق، الحمرا، بیاض بھی لاہورسے نکلنے والے اہم جرائد ہیں اور باقاعدگی سے شائع ہو رہے ہیں۔

 سہ ماہی مطلع، طلوع ادب، آزاد کشمیر کا سلوگن لیے طلوع ہوتا ہے جریدہ نہ صرف کشمیری ادب کی نمائندگی کرتا ہے بلکہ اپنی تحاریر کے اِنتخاب میں قومی دھارے میں شامل ہوتا نظر آتا ہے۔

کراچی سے باقاعدگی سے نکلنے والا سہ ماہی غنیمت جو اکرم کنجاہی کی اِدارت میں نکل رہا ہے بھی قابلِ ذکر ہے۔

صبح بہاراں بھی ایک نیا جریدہ ہے جو باقاعدگی سے منظرعام پر آ رہا ہے۔ اِس طرح سرحد پار دیکھیں تو بہت سے عمدہ پرچے جوادب کی شمع تھامے ہوئے ہیں۔ اِن میں ماہنامہ شاعر بمبئی جس کی اشاعت کو ۸۰ برس گزر گئے ایک عمدہ روایت کا نام ہے۔ امروز، تفہیم، اِشعار، دربھنگہ ٹائمز اور ترایق بھی عمدہ پرچے ہیں اور حکومتی پالیسیوں کے تمام حوصلہ شکن اِقدامات کے باوجود سرحدپار سے اُردو رسائل، جرائد اور اِخبارات کا اِجراء یقینا خوش آئند ہے۔

اِسی طرح شعری دنیا پہ نظر ڈالیں تو بے شمار شعری مجموعے منظرعام پہ آئے۔ ایک ایسا وقت جب معتبر و سینئر شعرا جو اَب استاد کا درجہ حاصل کر چکے ہیں جیسے امجد اسلام امجد جن کی کتاب امجد فہمی حال ہی میں منظرعام پر آئی۔ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کا نیا شعری مجموعہ انتشار آیا، نصیر احمد ناصر کے کلیات کے علاوہ ملبے میں ملی چیزیں کا نیا ایڈیشن سامنے آیا، ۔ اس کے علاوہ نئی نسل و نئے شعرا بڑی تعداد میں سامنے آ رہے ہیں۔ ڈاکٹر جواز جعفر کی نظموں کا مجموعہ ’’متبادل دنیا کاخواب‘‘ قابلِ ذکر ہیں۔

شہزاد نیر جو ایک اہم اور کہنہ مشق شاعر ہیں اُن کا شعری مجموعہ خواہشار قابلِ ذکر ہے۔ ارشد معراج کی نظموں کا مجموعہ ’’دوستوں کے درمیاں ‘‘ قابلِ ذکر ہے۔ حفیظ تبسم کا نظموں کا مجموعہ ’’دشمنوں کے لیے نظمیں ‘‘اِک نئے ذائقے کا آہنگ ہے۔

ظہور چوہان جن کے تین مجموعے اِس سے پہلے آ چکے، اُن کا شعری مجموعہ ’’رودنی دونوں طرف‘‘ اِس برس منظرعام پر آیا۔

 شوزیب کاشر، اک جواں سالہ خوبصورت لب و لہجے کے نوجوان شاعر ہیں اور شعری دنیا میں عمدہ اضافہ ہیں۔ اُن کا شعری مجموعہ ’’خمیازہ‘‘ اِس برس منظرعام پر آیا ہے۔

 ثمینہ تبسم ایک منجھی ہوئی شاعرہ ہیں چار کتب پہلے منظر عام پر آ چکیں جن میں پرچم تلے (نثر) شہید بھائی کی یادداشتیں ہیں، تین نظموں کے مجموعے مٹی کی عورت، عینی شاہد، نیاچاند۔ ۔ ۔ اِس برس اُن کی کتاب ’’سربلندی تیری عنایت ہے(خواتین محمد کے نظمیہ حالاتِ زندگی) اشاعت پذیر ہوئی ہے۔

ناز بٹ کی نظموں و غزلوں کا پہلا مجموعہ ’’وارفتگی‘‘ منظرعام پر آیا ہے اور ادبی حلقوں میں اِسے کافی سراہا گیا ہے۔

شعر و ادب کی تخلیقی کتب کے علاوہ کچھ اور اہم قابلِ ذکر کتابیں ہیں جن کا ذکر ہونا چاہیے۔

 محترم جبار مرزا ایک کہنہ مشق صحافی ہیں اِک محترم و معتبر نام ہیں۔ اُن کی کتاب ’’نشانِ اِمتیاز‘‘ محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر سے متعلق ۳۴ برس کی یادداشتوں پر مشتمل ہے۔

 جمیل احمد عدیل کے فن  پر’’صاحبِ اسلوب‘‘ کے نام سے اُن کے ادبی محاسن کا احاطہ کیا گیا ہے۔

  یاسرجواد جو کہ ایک معروف مترجم و محقق ہیں اِس برس اُن کی سرائیکی ویب کی تاریخ، نوبیل اِنعام یافتہ ادیبوں کے خطبات، پنجاب میں دیسی تعلیم (سرلائنز)، ضرب الامثال اور محاورے (فرہنگِ آصفیہ سے ماخوذ) لاہور گزیٹیر (۱۸۹۴ء) منظرعام پر آئیں۔

’’فکشن، کلامیہ اور ثقافتی مکانیت‘‘ فرخ ندیم کی کاوش ہے جو نئے تنقیدی فریم میں ادب کو دیکھنے کی کاوش ہے۔

یہاں تک سوشل میڈیا کا تعلق ہے توجہاں تک اسے کتاب کلچر کو نگلنے کا ملزم ٹھہرایا جا رہا ہے وہیں اسی سوشل میڈیا کے مختلف فورمز اردو ادب کے فروغ کے لئے اپنا سود مند حصہ ڈال رہے ہیں۔ یہ اردو ادب کی نئی بستیاں ہیں جہاں نیا لکھاری  بھی پیدا ہوا رہا ہے اور قارعی بھی۔ لیکن یہ لکھاری کنفیوز ہے کہ نہیں جانتا کہ اسے کیا لکھنا ہے، کہاں لکھنا ہے اور کہاں چھپنا ہے مگر اس کے سامنے امکانات کی وسیع تردنیا ہے۔

اِس منظر نامے پہ نگاہ دوڑائیں تو ایک اور دروزہ کھلتا ہے۔ اِک اور منظرنگاہوں کے سامنے ہے وہ یہ کہ تمام تر مسائل اور لاحق حالات کے باوجود ادب تخلیقی ہو رہا ہے کتاب سامنے آ رہی ہے۔ ہاں اِک گھٹن زدہ اور انتشار کے شکار معاشرے کے ادیب کو دھند کے اِس بار نئے افق تلاش کرنا ہیں۔ کیا وہ ایسا کر پائے گا یہ سوال باقی رہے گا؟

تبصرے بند ہیں۔