ایک حسین عہد و پیماں

” ثمرین تم ایک ذہین اور فرمانبردار بچی ہو، یہی سوچ کر اور تمہارے شوق کو دیکھتے ہوئے میں نے تمہیں آگے پڑھنے کی اجازت دی ہے۔۔ایک کامیاب و سچا وکیل بننے کی جو صفات ہونا چاہئے وہ تم میں ہیں ۔ الحمدلله ۔۔ ساتھ ہم نے تمہاری تربیت اس طرح کی ہے کہ ہمیں یہ لگتا ہے کہ تم ہمارے ساتھ اپنے دین کا نام بھی روشن کروگی۔۔” اس کے ابو عبدالجبار نے اپنی بات ختم کی۔۔اب امی شہناز نے آگے بات بڑھائ کہ ” دیکھو بیٹا۔۔تم خوب آگے بڑھو یہ ہماری تمنا ہے لیکن ایک بات یاد رہے کہ کبھی کوئ ایسا کام نہیں کرنا جس میں ہماری رسوائ ہو۔۔اگر ایسا کچھ بھی ہوا تو پڑھائ معطل کر دی جائے گی۔ پھر رونے سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ "

 ثمرین۔۔”امی، ابو آپ نے مجھ کو اعتبار بخشا اب بھلا میں کیوں پڑھائ کے علاوہ دوسرے جھمیلوں میں پڑ کر اپنا قیمتی وقت برباد کروں ۔میں ہمیشہ فاصلہ رکھوں گی۔۔آپ جمع خاطر رکھئے میں کبھی بھی شکایت، کا موقعہ نہیں دوں گی۔ اور خدانخواستہ ایسی کوئ بات ہوئ تو میں سب سے پہلے آپ ہی کو بتاؤں گی۔۔”

اور اس طرح اس نے لاء کالج میں داخلہ لے لیا۔۔پڑھائ کے دوران اکثر ایسے کمزور لمحے بھی آئے جہاں پہنچ کر ایک نوجوان دوشیزہ پر کبھی کبھار گھٹا ٹوپ بدلیاں بھی چھانے لگتی ہیں ۔ لیکن شاید اس کے خمیر کوتو گویا امی ابو نے قربانی سے گوندھا تھا، وہ ہر بار بجلی سی تڑپ کر آگے کوند جاتی۔۔روزانہ صبح نماز و تلاوت سے فارغ ہو کر اس کا کام اپنے امی ابو سے کئے عہد و پیماں سے تھا کہ وہ رسوائ کی ریت پر اپنا نام تحریر نہیں کروائے گی۔۔اور اس قول و فعل میں کوئ تضاد نہیں آئے گا۔

قبول صورت کے ساتھ قبول سیرت ساتھ ذہانت کا آبدار موتی جہاں چمکے لوگوں کی آنکھیں خیرہ ہوتی ہی ہیں ۔۔پہلے پہل تو کئ دل پھینک طالب علم اس کی جانب تر نوالہ جان کر لپکے پر سبھی نے منھ کی کھائ کہ اس نے کسی کو ہلکے سے لب وا کر کے بھی لفٹ نہ دی۔ چارپانچ سہلیاں ہی اس کے کالج کی ساتھی تھیں ۔۔کسی لڑکے سے کوئ دوستی نہیں ۔۔ہاں کام کی حد تک وہ سبھی سے گفتگو کرتی کہ یہ اس کے پیشے کے متغاضی تھا پر دوستی۔۔ کبھی بھی نہیں ۔۔اسے یہ پتہ تھا مذہب اسلام نے ہمیشہ فاصلہ رکھنے کی دعوت دی ہے۔۔وہ اس حدیث کو بھی جانتی  تھی کہ” دو نا محرم کے درمیان تیسرا شیطان ہوتا ہے ۔” چاہے فون کا ہی استعمال کیوں نہ ہو۔۔کہ ہم پہلے شخص کے دلی جذبات سے واقف نہیں ہوتے اور پھر نہ چاہتے ہوئے گناہ کے مرتکب یو جاتے ہیں ۔۔

 کانوکیشن کا آخری دن تھا۔ ۔سبھی بڑے خوش تھے۔۔ثمرین کی خوشی دیدنی تھی کہ آج تک اس نے اپنے امی ابو سے کئے عہد کا پاس رکھا تھا۔۔سارے پروفیسرز اس جیالی بچی کے گن گاتے نہیں تھکتے تھے۔۔نہ کوئ اسکینڈل نہ پڑھائ میں کسی بات کی کوئ کمی۔۔کہ پروفیسر جواد کے بیٹے نے عین پروگرام کے آخر میں رخصت ہوتے ہوئے اسے ایک کاپی تھما دی اور کہا کہ ممکن ہو تو اس کا جواب ضرور دینا۔۔میں منتظر رہوں گا۔۔

 آج تک بہت سے دل پھینک عاشقوں سے اس کا سابقہ ہوا تھا اور اس نے ان کا منھ توڑ جواب بھی دیا تھا لیکن عابد کا اس طرح سے اسے اس دن کاپی دینا کہ دوسرے دن تو نوٹس کی کوئ ضرورت ہی نہ ہو۔ اسے بڑا عجیب سا لگا اور وہ بھی ایک ایسا نوجوان جو کہ پڑھائ مکمل ہونے تک اس کا کلاس میٹ رہا ہو،  جس سے اس نے اپنی وکالت کی پڑھائ کے دوران کتنے ہی آرگیومنٹ کئے ہوں ۔ وہ آخری دن یوں پیش آئے ۔۔یہ اس کے وہم و گمان میں نہ تھا۔۔وہ کاپی تھامے بھونچکی رہ گئ کہ اس کے ساتھ ایک سرخ گلاب بھی تھا۔۔۔اس اوچھی حرکت پر اس کا خون کھول اٹھا پر جب تک وہ جا چکا تھا۔۔اس نے بھی شاید عافیت اسی میں سمجھی ہو۔۔

خیر گھر آ کر بادل ناخواستہ کاپی کھولی تو لگا سرخ گلاب اس کا منھ چڑھا رہا تھا۔۔ساتھ ایک فون نمبر پر اس کی نظر پڑی تو وہ سوکھی لکڑی کی طرح سلگ اٹھی۔۔کاپی پر لکھی سطریں پڑھتے ہوئے آنکھیں غصے سے سرخ ہوگئیں کہ محبت نامہ اور فون نمبر تاکہ بات کو آگے  ممکن ہو سکے۔۔اسے یہ ایک نازیبا حرکت لگی۔۔اتنا مان تھا اس  اس کا اپنا وجود جلتی شمع کی مانند پگھلنے لگا۔۔کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔۔دماغ کی ساری نسیں تن گئیں ۔وہ جانتی تھی کہ اس میں اس کا اپنا کوئ قصور نہ تھا پر اسے یہ لگ رہا تھا کہ ناکردہ گناہوں کی سزا مل رہی ہو۔ فوراً وہ اٹھی اور کاپی لے کر امی جان کے آگے باورچی خانے میں پہنچ گئ۔۔امی آج خوشی کے موقعے پر بریانی۔۔کباب اور حلوہ تیار کر رہی تھیں کہ اس نے وہ کاپی ان کے حوالے کی اور ساتھ رکھی میز پر سر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔

 اس کےامڈتے آنسوؤں نے اس کی بے گناہی کی وضاحت کی۔۔پر ماں تو ماں ہوتی ہے۔۔اپنی بچی کے کردار پر شک نہ تھا کہ وہ اس کی ہر ہر حرکت پر نظر رکھتی تھیں . ۔لیکن زمانے کے لوگوں کا خوف تھا اور وہی ہوا۔۔ان کے پوچھنے سے پہلے ہی ثمرین گویا ہوئ۔۔”امی جان۔۔امی جان۔۔میرا کوئ قصور نہیں ” اور اس کے آگے وہ ایک حرف نہ بول پائ۔۔دیوان خانے میں ابو بھی اس کا رونا سن کر اندر آئے اور امی نے سارا معاملہ ان کے گوش گزار کیا۔۔ابو نے اپنا ہاتھ اس کے سر پر جوں رکھا تو وہ شدت سے رونے لگی کہ ہچکیاں بندھ گئیں ۔ اسے لگا کہ اپنوں کے آگے وہ جبری رسوا کر دی گئ ہو ۔۔

” بھائ صاحب! میری تو سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ بوڈم کالج میں کیس کے دوران کیا کیا گتھیاں سلجھاتا ہے اور اتنے قرینے و سلیقے سے۔۔جب کہ دیکھو تو دو تین سطریں محبت نامے میں ۔۔

 بے وقوف کہیں کا۔۔”

 عبدالجبار بھائ تو بس منھ ہی دیکھے جا رہے تھے کہ کہیں یہ میری پھول سی بچی کو ہی کچھ نہ کہہ دیں اور میں برداشت نہ کر سکوں ۔۔کہ اتنے میں ان کی بیگم کچھ لوازمات لے کر حاضر ہوئیں ۔۔وہ بھی شوہر نامدار کو حیرت سے دیکھنے لگیں تو انھوں نے بیٹے کی کارکردگی امی جان کے ہاتھوں میں تھما دیں ۔۔وہ بھی مسکرانے لگیں ۔۔اب بندہ سمجھے تو کیا سمجھے۔۔ان کی کیفیت گومگو کی سی ہو گئ۔۔

 پروفیسر صاحب اٹھے اور ان کے برابر بیٹھ گئے۔۔”بھائ صاحب آپ جمع خاطر رکھیں ۔۔ثمرین آپ کی بچی لیکن میری عزت ہے۔۔میرا مان ہے۔۔میں اس ہیرے کی قدر جاننے والا جوہری ہوں ۔۔آج تو دل اتنا خوش ہوا ہے کہ کیا کہوں ۔۔آج صبح ہی فجر کے بعد میں نے بیگم سے کہا تھا کہ کالج میں ایک لڑکی ہے ثمرین۔۔دل چاہتا ہے کہ وہی ہمارے گھر کی بہو بنے۔۔بہت سلجھی ہوئ۔۔صوم و صلوۃ کی پابند۔۔قبول صورت۔۔سلیقہ دار۔۔پر کیسے میں بات آگے بڑھاؤں سوچنا پڑے گا۔۔ یہ بچی گھر میں آجائے تو میرا یہ آشیاں گلستاں بن جائے۔۔ماشاءاللہ اپنی دینی دلائل سے کیس ایسے حل کرتی کہ بس میرا تو جی چاہتا ہے کہ اس کے دلائل سنتا ہی رہوں ۔۔اور اس خوبی سے ہمارے لاڈلے کی باتیں کاٹتی ہے کہ بس مزہ آجاتا ہے۔۔میں دل ہی دل میں آخری سال ان کی نوک جھونک سے لطف اندوز ہوتا رہا اور اسی بچی کے بارے میں سوچتا ریا۔۔میرا اللہ۔۔میرا پروردگار میرے دل سے اتنا قریب ہے کہ اس نے میری سن لی اور آپ کو یہاں بھیج کر میری ساری مشکل آسان کر دی۔۔میں آپ سے آپ کی بچی کا ہاتھ مانگنا چاہتا ہوں ۔۔مجھے امید ہے آپ میرے نالائق بیٹے پر اپنا دست شفقت رکھ کر اس کی دلی تمنا کا احترام کریں گے۔۔”

عبدالجبار صاحب کو بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ بیٹی اتنی جلدی سسرال والی ہو جائے گی۔۔ابھی تو پڑھائ ہی ختم ہوئ ہے۔۔”بھائ صاحب۔۔پرفیسر صاحب نے انھیں تذبذب میں دیکھتے ہوئے کہا۔۔” ثمرین کے عظمت کردار کو سلام ۔۔آپ کی تربیت کو سلام کہ آج کے پر فتن دور میں بھی بچی نے دل کو جھنجھوڑنے والا کام کیا۔۔وہ چاہتی تو خود ہی فون پر رابطہ قائم کر سکتی تھی۔۔لڑکا اس کا کلاس میٹ تھا پر اس نے ایسا نہیں کیا۔۔اس نے والدین کو بتایا اور کاروائ ان کے سپرد کی۔۔اس سے بڑھ کر اعلی ظرفی کی مثال میرے آگے نہیں ۔۔کاش !کہ دور حاضر کے نوجوان لڑکی کو پھول دینے کے بجائے اپنے والدین سے اس کا اعتراف کریں اور والدین بھی ان کی خواہش کا پاس رکھ کر سرخ گلاب لے کر لڑکی والوں کے گھر کی نشان دہی کریں ۔۔جیسا آپ نے کیا۔۔آپ مثالی والد ہیں ۔۔مجھے واقعی ہیرے کے ساتھ ساتھ بہترین نگینہ ساز بھی مل گیا۔۔الحمدلله۔۔الحمدلله۔۔الحمدلله۔۔”

 اور انھوں نے وہیں سے عابد کو آواز دی اور وہ اپنے کمرے سے برآمد ہوا۔۔اپنی کاپی اور گلاب کے سرخ پھول کا رنگ اس کے چہرے پر چھا گیا اور سمجھ گیا اور کیوں نہ ہو کہ وہ بھی تو کل کا ہونے والا وکیل تھا۔۔لیکن بڑوں کے آگے زبان گنگ تھی۔۔سر جھکائے کھڑا تھا۔۔خود ہی آگے بڑھا اور ثمرین کے والد کے قدموں میں بیٹھ گیا۔۔”مجھ سے غلطی ہو گئ۔۔مجھے امی ابو سے کہنا چاہئے تھا۔۔”اس کا سر جھکتا چلا گیا۔۔

عبدالجبار صاحب نے اسے شانوں سے پکڑ کر اٹھایا اور گلے لگاتے ہوئے کہا۔۔”بیٹا۔۔بچوں کی جگہ قدموں میں نہیں دل میں ہوتی ہے اور غلطی تو بچوں ہی سے ہوتی ہیں ۔۔ہم بڑے جو ہیں وہی ان نادانیوں کا ازالہ کرتے ہیں ۔ لیکن لیکن اب تک کے بہنے والے ان آنسوؤں کا کیا جو میری بچی نے بہائے ہیں ۔۔کالج سے آکر دوپہر کے کھانے تک وہ مسلسل روئے جا رہی تھی. ۔بڑی مشکل سے خاموش ہوئ ہے۔۔نہ ڈھنگ سے کھایا نہ پیا۔۔بس خلاؤں میں گھور رہی ہے۔۔”

"بھائ صاحب۔۔اب ثمرین ہماری ہونے والی بہو اور ہماری ذمہ داری ہے ہم کل ہی آپ کے گھر حاضر ہو کر باقاعدہ بچی کا ہاتھ مانگنے حاضر ہو جائیں گے اور جب آپ مناسب جانیں ہم شادی کے لئے تیار ہیں ۔۔کہ

  شادی ہی خدائے برتر کی جانب سے زندگی کا حسین عہد و پیماں ہے کہ جس کی ذمہ داری معاشرے کا اٹوٹ حصہ ہے اور ہمارا فرض بھی۔۔”

تبصرے بند ہیں۔