نوٹ بندی کے بہانے ۔۔۔۔۔۔ کس کی توڑی جارہی ہے کمر
سماجی اور اقتصادی امور پر تحقیق کرنے والے جوشی ادھیکاری انسٹی ٹیوٹ آف سوشل اسٹڈیز (دہلی) کے شعبہ تحقیقات کی سربراہ ڈاکٹر جیا مہتا نے یہ بات ترقی پسند مصنف تنظیم کی جانب سے حال ہی میں منعقد ایک بحث میں کہی تھی۔ ڈاکٹر جیا مہتا نے نوٹ بندی کی قانونی حیثیت، رازداری، حکومت کی طرف سے اس کے بحران سے نمٹنے کے بارے میں کئے جا رہے دعووں پر بھی کئی سوال اٹھائے ہیں ۔ محترمہ بتاتی ہیں کہ ملک میں نوٹ چھاپنے کی پرنٹنگ پریسوں کی مجموعی کی صلاحیت 2200 کروڑ سالانہ سے زیادہ نوٹ چھاپنے کی نہیں ہے۔جبکہ نوٹ بندی کی وجہ سے 2300 کروڑ نوٹ ہی بینکوں میں واپس آئے ہیں۔ ایسے میں سال بھر پرنٹنگ ہوئی اور دگنی رفتار سے ہوئی تو بھی مطلوبہ ہدف کو حاصل کرنا آسان نہیں ہوگا۔ اوراگر مان لیا جائے کہ اس درمیان چھوٹے نوٹ یعنی 100، 50، 20 اور 10 کے نوٹ نہیں چھپیں گے یا کم چھپیں گے تو بھی مارکیٹ میں پورے نوٹ واپس آنے میں 6 سے 8 ماہ لگیں گے۔یعنی چھ سے آٹھ ماہ تک مارکیٹ میں نقدی کا بحران بنا رہے گا اور اس کا سب سے برا اثر عمارت کی تعمیر کے شعبے پر پڑے گا،جس میں مزدوروں کیلئے روزگار کے سب سے زیادہ مواقع رہتے ہیں۔ کنسٹرکشن میں تقریبا ساڑھے چار کروڑ مزدوروں کو کام ملتا ہے۔ اس میں منظم سیکٹر میں 1.4 کروڑ مزدور اور غیر منظم سیکٹر میں 3 کروڑ مزدورشامل ہیں۔ کرنسی کی کمی سے یہ لوگ اپنے روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور ان سے متعلقہ دیگر صنعتاورکاروبار بھی متاثر ہونے لگیں ہیں۔اگرچہ چہرے پر نمائشی ہنسی ضرور نظر آ تی ہے ۔مگر مودی بھکتوں کو اس فیصلے سے جو زخم لگے ہیں وہ نہ تو دکھانے قابل ہیں اور نہ سہلانے کے لائق۔ سیمنٹ اور تعمیراتی کمپنی لارسن اینڈ ٹوبرو نے 14 ہزار لوگوں کو ہٹا دیا ہے۔بھلواڑہ سے لے کر دہلی تک کی صنعتی یونٹس میں پیداوار نصف رہ گئی ہے، جس کی وجہ سے مزدوروں کو کام سے ہٹا یا جا رہا ہے۔ہماری زراعت پر بھی نوٹ بندی کی مار پڑنی شروع ہو گئی ہے۔ ابھی خریف کی فروخت اور ربیع کی بوائی کا وقت ہے۔ کسانوں کو کرنسی چاہئے، لیکن پہلے تو نوٹ بندی کے نام پر کسانوں کی ساری کرنسی ان بینکوں میں رکھوا لی گئی اور اب یہ اصول نافذ کردیا گیا ہے کہ پرانے پانچ سواور ہزار کے نوٹ سے کو۔آپریٹومارکیٹ سے بیج خرید سکیں گے، لیکن اب کسانوں کے پاس کرنسی ہی نہیں ہے اس لئے کہ وہ اپنی رقم بنکوں میں جمع کرچکے ہیں تو وہ کہاں سے بیج خریدیں گے ، اگرنقد ملتا بھی ہے تووہ نہایت محدود مقدار میں یعنی صرف دوہزار روپے ،وہ بھی ہفتہ میں ایک بار۔گاؤں دیہاتوں میں اے ٹی ایم نہ پہلے کبھی فعال رہے ہیں اورنہ آج ان کے اندر نوٹ اگلنے کی صلاحیت باقی بچی ہے۔ایسے میں زراعت کا شعبہ بالکل اوندھے منہ گرتا ہوا صاف نظرآ رہا ہے۔یہ بات بھی یاد رہنی چاہئے کہ زرعی شعبے میں 10 کروڑ مزدور ہیں۔یعنی ملک کے14کروڑ لوگوں کو بے روزگار بنادیا گیا ہے ،اس صورت حال میں اگر وہ اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے چوری ،ڈکیتی جیسی واردتیں انجام دیتے ہیں تواس جرم کو کس کے کھاتے میں ڈالاجائے گایہ فیصلہ ناگپور ہیڈ کوارٹر یا پی ایم او کو کرناچاہئے۔ غور کرنے والی بات یہ ہے کہ ان مزدوروں کی آواز اور ان کے دکھ تکلیفوں کو نہ تو کوئی میڈیا، نہ سوشل میڈیا اور نہ ہی کوئی اخبار کرسامنے لانے کی ہمت دکھارہا ہے۔یہ تھوڑی سی وضاحت یہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ نوٹ بندی کے نام پر کس کی کمر توڑ نے کی پالیسی بنائی گئی ہے۔

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔