پدماوت تنازعہ: ملک میں صرف ایک ہی سینا ہے، ہندوستانی سینا

اکھلیش شرما

احمد آباد اور گُروگِرام کی تصاویر دل دہلا دینے والی ہیں. سنجے لیلا بھنسالی کی متنازعہ فلم ‘پدماوت’ کی مخالفت میں سڑکوں پر اترے مٹھی بھر غنڈوں نے آتش زنی کرکے پورے ملک کی تصویر کو شرمسار کر دیا ہے. مال میں حملہ، گاڑیوں کو جلانا اور بسیں پھونک دینا، آخر احتجاج کا یہ کون سا طریقہ ہے؟ یہ کیسی مخالفت ہے اور کس بات کی مخالفت ہے؟ بغیر فلم دیکھے پدماوت کے بارے میں یہ تاثر بنا دیا گیا ہے کہ اس میں راجپوتوں کے عزت، جرأت اور قربانی کو کم کرکے دکھایا گیا ہے. رانی پدماوتي کے تاریخی کردار کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا بھی الزام لگایا گیا. لیکن ابھی تک جتنے لوگوں نے یہ فلم دیکھی ہے ان تمام لوگوں نے ان الزامات کی تردید کی ہے.

فلم دیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ لوگوں کی رائے کے برعکس پدماوت میں راجپوتوں کی عزت، فخر، جرأت اور قربانی کی ستائش کی گئی ہے. ایسا کہنے والوں میں صحافی، فلسفی اور سماجی شعبے میں سرگرم اہم لوگ شامل ہیں. اس کے باوجود نہ صرف مخالفت جاری ہے بلکہ یہ مخالفت تشدد کی شکل اختیار کرتی جا رہا ہے. اس پورے تنازعہ کو شروع کرنے والی ہے کرنی سینا، جو راجپوتوں کی نمائندگی کرنے کا دم بھرتی ہے. اس نام نہاد سینا کے سربراہ لوكیندر سنگھ كالوي کہہ رہے ہیں کہ فلم کی مخالفت میں گرفتاریاں بھی ہوں گی اور گولیاں بھی چلیں گی. سوال یہ ہے کہ آخر بھارت میں اس طرح کی ذاتی سینا کی اجازت کس طرح دی جا سکتی ہے. ان نجی سیناؤں کی حرکتوں نے سینا جیسے مقدس لفظ کو شرمسار کر دیا ہے. كُكُرمتے کی طرح اگ آئیں یہ سینائیں مخصوص ذات کے حقوق کو بچانے کا دعوی کرتی ہیں. لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے.

ان سیناؤں کے مسئلے فوری ہوتے ہیں اور ان کے حل ڈھونڈنے کی کوشش بھی کوئی مستقل نہیں ہوتی. ان کا مقصد ایک مسئلے کو بڑا بنا  کر اسے مقبولیت حاصل کرانا ہوتا ہے. اس مقبولیت کی آڑ میں سیاسی ہتھکنڈوں کو بھی بروئے کار لانے کا ارادہ صاف دکھائی دیتا ہے. مانا جا رہا ہے کہ کرنی سینا کے اس احتجاج کے پیچھے بھی سیاسی عوامل کارفرما ہیں. لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر پولیس اور ریاستی انتظامیہ، فرقہ وارانہ تنازعات سے سختی سے کیوں نہیں نمٹ پا رہے ہیں. زیادہ تر جن ریاستوں میں پر تشدد مظاہرے ہوئے ہیں وہاں پر بی جے پی کی حکومت ہے. راجستھان، ہریانہ، گجرات، مدھیہ پردیش اور اتر پردیش جیسے بی جے پی حکومت والی ریاستوں میں اس فلم کے خلاف مظاہرہ بھی ہوئے ہیں اور ان میں سے کچھ ریاستوں میں اس پر سینسر بورڈ کا سرٹیفکیٹ ملنے کے باوجود پابندی لگائی گئی تھی، جسے سپریم کورٹ نے مسترد کر دیا.

 کچھ ریاستوں نے قانونی نظام کا حوالہ دے کر سپریم کورٹ سے اپنے فیصلے پر دوبارہ غور کرنے کی اپیل کی جسے عدالت نے پھر سے مسترد کر دیا. اس کے بعد ان ریاستوں میں پر تشدد مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا ہے. خبر یہ بھی ہے کہ گجرات اور راجستھان میں سنیما ہال کے مالکان نے پدماوت نہ دکھانے کا فیصلہ کیا ہے. یہ ایک طرح کی غیر اعلانیہ پابندی ہے. حالانکہ اس میں سنیما مالکان کی مجبوری سمجھ میں آتی ہے کیونکہ انہیں اپنے جان و مال کی فکر ہے. لیکن سوال یہ ہے کہ ریاستی حکومتیں قانونی نظام کو سنبھال کیوں نہیں پا رہی ہیں؟ ایسا کیوں ہو رہا ہے کہ تشدد اور آگ زنی کی جو فوٹو آرہی ہیں ان میں حالات کو روکنے کے لئے پولیس اہلکار نظر نہیں آ رہے ہیں. کیا ایسا تو نہیں ہے کہ اس غیر اعلانیہ پابندی پر ریاستی حکومتوں کی بھی شہ ہے. اگر ایسا ہے تو یہ اور بھی زیادہ سنگین معاملہ ہے.

الزام لگ رہا ہے کہ راجستھان میں دو لوک سبھا اور ایک اسمبلی ضمنی انتخابات کے پیش نظر ریاستی حکومت پدماوت کو لے کر خطرہ مول نہیں لینا چاہتی، کیونکہ اسے راجپوت ووٹوں کی فکر ہے. یہی سوال کانگریس کے بارے میں بھی اٹھ رہا ہے جس نے اس فلم کے بارے میں کچھ نہیں کہا ہے. اگرچہ گجرات میں کانگریس کے ساتھی ہاردک پٹیل اور الپیش ٹھاكر نے پدماوت کی کھل کر مخالفت کر دی ہے. اس پورے تنازعہ میں ایک اور پہلو ہے. میرے خیال سے وہ بھی ایک اہم پہلو ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر آپ تاریخی کرداروں پر فلم بناتے ہیں تو پھر اظہار رائے کی آزادی کے نام پر حقائق سے چھیڑ چھاڑ نہیں کر سکتے. خاص طور سے ان حساس مسائل کو چھونے میں احتیاط برتنے کی ضرورت ہے جن سے لوگوں کے عقائد اور جذبات وابستہ ہیں. کہنے کے لئے یہ دلیل دی جا رہی ہے کہ پدماوت ملک محمد جايسي کی  رزمیہ نظم ’پدماوت‘ پر مبنی ہے. لیکن یہ دلیل ناکافی ہے کیونکہ راجستھان کی تاریخ اور عقائد سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ وہاں مہارانی پدماوتي کو لے کر کسی طرح کے احساسات ہیں.

لیکن ان خدشات کو حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے.اس فلم کو مؤرخین اور راجے-رجواڑوں کے نمائندوں کو دکھایا گیا. انہوں نے کہا کہ اس فلم میں تاریخی حقائق سے چھیڑ چھاڑ نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی گئی ہے. سینسر بورڈ نے بھی اپنی جانب سے کچھ سدھار کروائے ہیں. جس کے بعد اس فلم کو دکھانے کی اجازت دی گئی ہے. بھارت میں فلموں پر اعلانیہ اور غیر اعلانیہ پابندیوں کی ایک طویل تاریخ ہے. ایسی کئی فلمیں آئی ہیں جن پر کچھ اعتراضات کے بعد ریاست یا پھر مرکزی حکومت نے پابندی لگائی ہے. یہ بات الگ ہے کہ عدالتوں میں ایسی پابندی دیر تک ٹکی نہیں ہے. پدماوت کو سینسر بورڈ کی منظوری مل چکی ہے اور ملک کی سب سے بڑی عدالت کی بھی. ایسے میں اس کو لے کر ہو رہی پرتشدد مخالفت نہ صرف بے معنی ہے بلکہ اس سے سختی سے نمٹنے کی بھی ضرورت ہے.

مترجم: محمد اسعد فلاحی

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔