26/جنوری: جمہوری اقدار کے احتساب کا دن

عبدالرشید طلحہ نعمانیؔ

 26/جنوری، درحقیقت خوابوں کی تعبیر کا دن ہے اور خوابو ں کی تعبیر کے حوالے سے یہ یوم احتساب بھی ہے یعنی ہم غور کریں اور سوچیں کہ ہندوستان کن خوابوں کی تعبیر تھا اور وہ خواب کس حد تک پورے ہوئے ؟تاکہ وہ مقاصد اور اہداف ہماری نگاہوں اور ذہنوں کے قریب رہیں ،کبھی اوجھل نہ ہونے پائیں ؛جن کے پیش نظر ہمارے اکابر نے بے شمار قربانیاں دیں ،جانوں کا نذرانہ پیش کیااور خون جگرکے ذریعہ چمنستاِن ہند کی آبیاری کی ؛کیوں کہ احساس منزل جہاں بے حسی کا جمود توڑتا ہے وہیں جدوجہد اور حرکت کا جذبہ بھی پیدا کرتا ہے۔

  یوم جمہوریہ، ایک قومی دن ہے جسے ملک بھر میں بڑے پیمانے پر منایا جاتا ہے، اس دن کی اہمیت یہ ہے کہ حکومت ہند ایکٹ جو 1935ء سے نافذ تھا، منسوخ ہو کر باضابطہ دستور ہند کا نفاذ عمل میں آیا اور دستور ہندپر عمل آوری شروع ہوئی، دستور ساز اسمبلی میں دستور ہند 26 نومبر 1949ء کو پیش ہوا، اور 26 جنوری 1950ء کو اسکے نفاذ کی اجازت دے دی،اس طرح دستورِ ہند کے نفاذ سے ہندوستان میں جمہوری طرز حکومت کا آغاز ہوا۔

آبادی کے لحاظ سے ہندوستان، دنیاکی سب سے بڑی پارلیمانی، غیرمذہبی جمہوریت ہے، اس کے دستوروآئین کے کچھ اہم امتیازات ہیں، یہاں کے شہریوں کو خود اپنی حکومت منتخب کرنے کا بھر پور حق حاصل ہے اور یہاں عوام ہی کوسرچشمۂ اقتدار و اختیار مانا جاتاہے، اس طرح تمام باشندے بلاتفریق مذہب و ملت ’’ایک مشترکہ جمہوریت‘‘کی لڑی میں پرو دیے گئے ہیں ۔ اس میں مذہب کی اہمیت کابھی اعتراف کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہ ملک مذہب کی بنیاد پر حکومت نہیں کرے گا، اس لیے دستورکی 42 ویں ترمیم کی روسے اسے سیکولر اسٹیٹ کہا گیا، جہاں ہر مذہب کا احترام ضروری ہوگا اور مذہب کی بنیاد پر کسی قسم کا کوئی امتیازی سلوک روا نہیں رکھا جائے گا، مذہب یا ذات پات کی بنیاد پر کسی شہری کو شہریت کے حقوق سے محروم نہیں کیا جا ئے گا اور ہر شہری کو ملکی خدمات سے فائدہ اٹھانے کا بھرپورموقع ملے گا۔ آئین کی رو سے ہر ہندوستانی شہری قانون کی نگاہ میں برابر ہے، ہر شہری کو آزادیٔ رائے، آزادیٔ خیال اور آزادیٔ مذہب کااختیارحاصل ہے۔ اقلیتوں کو بھی دستور میں ان کا حق دیا گیا ہے کہ وہ اپنے علیحدہ تعلیمی ادارے قائم کریں ، اپنی تہذیب، تمدن، زبان کو قائم رکھیں اور اپنے مذہب کی تبلیغ و اشاعت کریں نیز اس غرض کے لئے اپنی منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کا انتظام کریں ، ساتھ ہی یہ صراحت بھی کی گئی کہ کسی ایسی آمدنی پر ٹیکس دینے کے لیے مجبورنہیں کیا جا سکتا، جو کسی مذہب کی تبلیغ و اشاعت پر خرچ کی جائے۔

جمہوری اقدار کے عناصر اربعہ:

   کسی بھی ملک میں سیکولرزم کی بقاء کے لیے سیکولراقدار کا باقی رہنا بھی ضروری ہے ؛جس کے بنیادی طورپر چار عناصر ہیں :

۱) انتخابات  ۲) طرزِ حکمرانی  ۳) عدلیہ  ۴) میڈیا۔

(۱) انتخابات:

جمہوری اقدار کی بقاء میں انتخابات ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ، انتخابات ہی ایک ایسا ذریعہ ہیں ، جس سے عوام اپنے نمائندے منتخب کرکے ایوان میں بھیجتے ہیں ؛ تاکہ منتخب نمائندے عوام کی صحیح نمائندگی کرسکیں ، ان کے ضروری مسائل کو حل کرسکیں ، ان کی ضروریات کی تکمیل کرسکیں ، اور ملک میں رہنے کے لیے پُرامن اور خوشحال معاشرے کی تشکیل کرسکیں ، وغیرہ۔لیکن چند سالوں سے ملک میں رائج انتخابات کی مثبت روایت رفتہ رفتہ بدل رہی ہے، دستور ہند کی رو سے جو شخص یا پارٹی عوام کی خدمت کا حقیقی جذبہ رکھتی ہو، وہ عوام کے موجودہ مسائل کو حل کرنے کا وعدہ کرکے واضح منصوبہ بناکر عوام کے سامنے پیش کرے تب کہیں جاکر اسے عوام سے ووٹ مانگنے کا حق حاصل ہوگا؛چناں چہ آزادی کے بعد ایسے ہی لوگ انتخابات میں حصہ لیتے تھے اور وہ کسی حد تک با اخلاق و باکردار ہوتے تھے، جو عوام سے جھوٹے وعدوں پر نہیں بلکہ اپنی اہلیت و قابلیت کی بنیاد پر ووٹ مانگتے تھے ؛ لیکن آج جرائم میں ملوث افراد انتخابات لڑتے ہیں ،اور سیاسی پارٹیاں بھی انہیں ہی ٹکٹ دیتی ہیں ، اس طرح عوام کو سبز باغ دکھا کر ووٹ بنک مضبوط کرتے ہیں ، جبکہ کچھ تو ایسے بھی ہیں ، جو نوٹ سے ووٹ خریدنے کا کام لیتے ہیں ، ذات پات کی بنیاد پر ایک دوسرے کو لڑا کر اور جذباتی بیان بازی کے ذریعہ ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ حالیہ ای وی ایم گھوٹالوں سے تو ہرانصاف پسندشہری پرآشکارا ہوگیاکہ ہندوستانی انتخابات کا صاف و شفاف نظام عنقاء ہوتا جارہاہے اور برسراقتدار پارٹی اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے یکے بعد دیگرے ہرانتخاب میں یہی چال چل رہی ہے۔

(۲)طرزِ حکمرانی:

جمہوری نظام کی کامیابی کا انحصار بہتر طرز حکمرانی پر ہے اورملک کی ترقی اور خوشحالی کا قطب الرحی بھی یہی ہے ؛مگرآج ہندوستان کی سیاست میں نفرت کا بول بالا ہے، ہر گلی، ہر گائوں ، ہرموڑ پر نفرت کا عفریت کھڑا قہقہے لگارہا ہے اور اس کے سامنے محبت اور بھائی چارہ کی تہذیب بے بس و لا چار نظر آرہی ہے، گنگا جمنی ثقافت کی کوکھ سے جنم لینے والے ہندوستانی، نفرت کی آگ میں جھلس رہے  ہیں ، کہیں پہلو خان اس نفرت کا شکار ہے، تو کہیں جنید اس تشدد کے خنجر سے لہولہان ہے، کہیں ایوب بھیڑ کی درندگی سے بے کل ہے، تو کہیں افرازالاسلام اس ظلم کانشانہ ہے۔

 ہمارے ملک میں کانگریس اور بی جے پی دو بڑی پارٹیاں ہیں ؛ لیکن ان دنوں کانگریس نظریاتی بحران کا شکار ہے، جس کے سبب حالیہ پارلیمانی انتخابات میں اسے بہت بری طرح شکست اٹھانی پڑی۔ دوسری طرف  بی جے پی کٹر ہندوتوا نظریہ کی حامل پارٹی ہے، جس نے اپنی کارکردگی اور سرگرمی سے کھلے عام یہ ثابت کردیا ہے۔

(۳)عدلیہ:

کسی بھی ملک میں عدلیہ ایک امید اور بھروسے کا نشان ہوتی ہے ؛جسے انصاف کا مندر بھی کہا جاتا ہے، عدل و انصاف کسی بھی مہذب معاشرے کا حسن اور امن پسند جمہوریت کی اساس ہے۔ کیا آج عدلیہ عدل و انصاف کے معاملے میں اپنی ذمے داری اداکررہی ہے ؟

غورکیاجائے تو انصاف میں سب سے بڑی رکاوٹ عدالت کا سست و ناکارہ نظام ہے ؛جس میں اصلاحات کی سخت ضرورت ہے، تاکہ مظلوم کوبروقت انصاف مل سکے۔ مگرافسوس صد افسوس موجودہ عدالتی نظام میں انصاف ملنے تک سالوں لگ جاتے ہیں ، گواہوں کی ہیئت اور حالت بدل جاتی ہے، خود مظلوم جواں سالی سے پیرانہ سالی بل کہ موت کے گھاٹ بھی اترجاتاہے، حالاں کہ بلا وجہ انصاف میں تاخیر انصاف کا قتل ہے۔ علاوہ ازیں ایک تشویشناک پہلو عدلیہ میں کرپشن کا ہے، کئی ایک اہم معاملوں میں عدلیہ میں کرپشن کے اسکینڈلس سامنے آچکے ہیں ، گواہوں کو بیچا اور خریدا جاتا ہے، فیصلوں میں الٹ پھیر ہوتی ہے۔ عدلیہ میں فیصلے گواہیوں اور ثبوتوں کی بنیاد پر ہونے چاہئیں ؛لیکن کچھ فیصلے جذبات میں بہہ کر بھی دیے جارہے ہیں ، جو کہ بالکل غلط ہے۔ عدلیہ کو چاہیے کہ جذبات سے اوپر اٹھ کر حق و صداقت اور گواہیوں اور ثبوت کی بنیاد پر فیصلہ سنائے۔ عدلیہ کی سیاسی معاملات میں دخل اندازی اور اصحابِ اقتدار کا عدلیہ پر اثر انداز ہونابھی جمہوریت کے لیے نقصان دہ ہے۔

(۴)میڈیا:

میڈیا جمہوریت کا چوتھا ستون مانا جاتا ہے۔ کسی بھی جمہوری ملک میں میڈیا کے رول کا انکار ممکن نہیں ، میڈیا حق و صداقت، اطلاع و معلومات، بے لاگ تجزیے اور مختلف نقاط نظر کو عوام تک پہنچانے اور رائے عامہ بنانے کا اہم ذریعہ ہے، بدلتے حالات کے تناظر میں اگر میڈیا کا بے لاگ جائزہ لیا جائے تو آج میڈیا جانب دار ہوچکا ہے، کسی خاص نظریہ کے فروغ یا کسی خاص فرد کی تعریف و توصیف یا کسی خا ص چیز یا کمپنی کی تشہیر تک محدود ہوگیا ہے، غیر ضروری چیزوں کو ضروری بناکر پیش کرنا میڈیا کی عادت بن چکی ہے، کسی کے خلاف مہم چلانا اور اس کی کردار کشی کرنا میڈیا کا پیشہ بن گیا ہے، کسی غیر اہم مسئلہ کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کردیا جاتا ہے کہ اس کو سچ مان لیا جاتا ہے۔ میڈیا میں کچھ عناصر فرقہ وارانہ ذہنیت کے حامل بھی ہیں اور وہ وقتاً فوقتاً اپنی گندی ذہنیت کی عکاسی کرتے رہتے ہیں ۔ کسی خاص گروہ بالخصوص مسلمانوں کی غلط صورت گری میڈیا کا شیوہ بناہوا ہے، کسی فرد کو محض شک کے دائرے میں پولیس گرفتار کرتی ہے تو میڈیا اسے مجرم بناکر پیش کردیتا ہے، کسی کو بے قصور اور کسی کو مجرم قرار دینا تو میڈیا کا معمول ہوچکا ہے، خبریں بنتی نہیں بنائی جاتی ہیں ، میڈیا آج پوری طرح سے سرمایہ دار لوگوں کے ہاتھوں میں پھنسا ہوا ہے، وہ لوگ جو چاہتے ہیں وہی چھپتا ہے اور وہ کیا دیکھنا چاہتے ہیں ، وہی دکھایا جاتا ہے۔

ملک کے موجودہ حالات:      

سابقہ تفصیلات سے معلوم ہوگیاکہ جمہوریت تو در حقیقت کاروبارِ حکومت میں عوام کی شرکت کا نام ہے ؛ لیکن یہاں جمہوریت عوام کو کاروبار حکومت میں شرکت سے محروم اور دور رکھنے سے عبارت ہے۔ یہ جمہوریت ایک فیصد لوگوں کے لیے ان کی عیاشی اور کاروبار کا ذریعہ ہے، ملک کے تمام وسائل و ذرائع اور مال و دولت پر گنے چنے مخصوص لوگ قابض ہیں ۔یہاں ملک کی غریب عوام کے لیے نہ روزگار کے مواقع ہیں نہ کوئی ذریعہ معاش، نہ عدل و انصاف پر مبنی حکمرانی ہے، نہ جان و مال کا تحفظ۔ اس آزادی کا کچھ بد نیت لوگوں نے ناجائز فائدہ اٹھانا شروع کیااور اقلیتوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جانے لگا؛اس طرح ہندوستان کی66 سالہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ آزادی کے بعد سے اس ملک کے مسلمانوں کے جان و مال کی کما حقہ نہ حفاظت کی گئی اور نہ ہی ان کو دوسرے شہریوں کی طرح حقوق حاصل رہے۔ خواہ دستور ہند میں کتنی ہی آزادی ہو لیکن سچ یہ ہے کہ مسلمان آج یہاں دوسرے درجے کے شہری کی زندگی گزار رہا ہے۔ آزادی سے لیکر آج تک کانگریس کا دور حکومت پھر بھاجپا کا عہد اقتدارہزاروں مسلم کش فسادات سے بھرا پڑا ہے۔ ان میں مرنے والوں کی تعداد دوسری جنگ عظیم میں مرنے والوں کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے، زخمی ہونیوالوں اوربے گناہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے سڑنے والوں کی تعداد بھی کم و بیش اتنی ہی ہے۔ فسادات میں مسلمانوں کی اربوں کھربوں کی جائیدادوں کو لوٹا اور جلایا گیا۔ شاید ہی ملک کا کوئی شہر ایسا ہو جو فسادات سے بچا ہو۔ ملک میں آزادی سے قبل مسلمانوں کی کتنی  گھریلو صنعتیں تھیں جنہیں چن چن کر ختم کیا گیا۔ جان و مال کی تباہی کے بعد اب روٹی روزی سے بھی محروم کر دیا گیا۔ اسی کے ساتھ پورے ملک سے اردو زبان کو ختم کرنے کی منظم سازش کی گئی، ملک کے پچھڑے طبقوں کو ریزر ویشن دیا گیا لیکن اسی آئین کے تحت مسلمانوں اور عیسائیوں کو محروم رکھا گیا ؟آج مسلمانوں کے لئے پندرہ نکاتی پروگرام، رنگا ناتھ مشرا کمیشن اور سچر کمیٹی کے حوالے دئے جاتے ہیں لیکن نہ تو مسلمانوں کو حقوق ملے اور نہ اس پر ایماندارانہ عمل درآمد کیا گیا۔

اسی طرح خواتین ریزرویشن بل، مجوزہ مرکزی مدرسہ بورڈ، پروموشن میں ریزرویشن بل اورحالیہ طلاق بل کے پس پردہ جس طرح مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، وہ کہیں نہ کہیں جمہوریت کو داغدار کرتی ہے۔

ان سب کے علاوہ خود دستور سازوں کے ہاتھوں جمہوری قدروں کی پامالی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پورا کا پورا سیشن ہنگامہ آرائی کی نذر ہو جاتا ہے، مخالفت برائے مخالفت روزکی بات ہے، پالیسیاں بنانے کی جگہ ’’پارلیمنٹ‘‘ میں میدان جنگ کا نظارہ ہوتا ہے۔

سرسری طور پر صرف دو سالوں کے ان اہم واقعات کا ذکر کیا جائے جو جمہوری اقدار کے سراسر خلاف تھے تو ایک مستقل کتاب تیار ہوسکتی ہے۔ کیوں کہ فرضی سرجیکل اسٹرائک،کشمیر کا سب سے طویل ترین کرفیو، بے گناہ مسلمانوں کی گرفتاری،یکساں سول کوڈکاواویلا،مسلم پرسنلاء  میں مداخلت،مختلف ٹرین حادثات، کئی لاکھ کروڑکے گھوٹالے، بھیڑ کے ذریعہ قتل اور نوٹ بندی کے فیصلے پر مشتمل ایک طویل فہرست ہے ؛جو ملک کی جمہوریت پر بد نما داغ اورسیکولزم کے نام پر کالا کلنک ہے۔

 ان تمام حالات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ جمہوریت پسندی کا نعرہ ایک سیاسی ضرورت ہے  جمہوریت ہمارے خون میں نہیں ہے، جمہوریت ہمارے خمیرمیں نہیں ہے، اس لیے یوم جمہوریہ کو یوم احتساب کے طور پر منانے کی ضرورت ہے اور جمہوریۂ ہند کو ایک ’’مثالی جمہوری ملک‘‘ بنانے کے لیے مثبت فکر کے ساتھ کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ پالیسیاں اور قوانین، آسانیاں پیدا کرنے کے لیے بنائے جائیں ، نہ کہ دشواریاں کھڑی کرنے کے لیے۔ قانون کی بالادستی ہو، اس کا احترام ہو، قانون سازی کے ساتھ ساتھ اس کے نفاذ کی بھی فکرکی جائے اور جمہوری قدروں کوفروغ دیاجائے، تبھی عوام کے دلوں میں ان اداروں کا وقار پھر سے بحال ہو سکے گا، ورنہ جمہوریت پسند ہونے کا دعویٰ بے معنیٰ ہوگا۔ سیکولر اور سیکولرزم کا نعرہ صرف انتخابی ہتھکنڈہ ہی سمجھاجائے گا، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی فضا قائم کرنے کا تصور ایک خواب ہی ہوگا اور تعصب کے عفریت، نہ جانے کب تک ملک کی سب سے بڑی اقلیت کاخون پیتے رہیں گے۔

آؤ کہ آج غور کریں اس سوال پر

دیکھے تھے ہم نے جو، وہ حسیں خواب کیا ہوئے ؟

دولت بڑھی تو ملک میں افلاس کیوں بڑھا

خوشحالیِ عوام کے اسباب کیا ہوئے ؟

مذہب کا روگ آج بھی کیوں لا علاج ہے

وہ نسخہ ہائے نادر و نایاب کیا ہوئے ؟

ہر کوچہ شعلہ زار ہے، ہر شہر قتل گاہ

یکجہتیِ حیات کے آداب کیا ہوئے ؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔