ادھورا فسانہ

سالک ادیب بونتی

وہ ایک حسین و جمیل، میانہ قد، مناسب ڈیل ڈول کاحامل معاً شیریں گفتار، نرم روی، حُسنِ تعامل، صدق وصفا، دوست نواز، اور صلہ رحمی جیسے اوصاف حمیدہ کاآئینہ دار تھا.

ابتدائی تعلیم سے لیکرڈگری تک نمایاں نمبرات سے کامیابی حاصل کی اس مناسبت سے اسے فوراً ایک کمپنی میں ملازمت مل گئی…. کمپنی میں اچھی کارگردگی کودیکھتےہوے اسے سعودیہ کےایک پرائیویٹ انسٹیوٹ میں بحیثیتِ سیکریٹیری طلب کیاگیا…  کمپنی کے دوسرے ملازم احباب نے رئیس کو مبارکبادیاں دیں اور سب نے موقع سے فائدہ اٹھانے کامشورہ بھی دیا.
حسبِ معمول رئیس دوسال کا ویزالئے سعودیہ پہنچ گیا، پہنچتےہی کمپنی کے چئیرمین نے رئیس کی ضروری کاغذات ضبط کرلئے ساتھ ہی عربی اور انگلش کے ملےجلےاسلوب میں کچھ ھدایات سےبھی نوازدیا.

رئیس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہاتھا اسےاپنی آنکھوں پراعتبارنہیں ہورہاتھا آیایہ حقیقت ہے یاکوئی خواب………..!

مگرحقیقت یہی تھی کہ وہ اگلےدوسالوں کےلیے کمپنی میں مقیدہوچکاتھاجس کےلیےاس نے رضامندانہ دستخط بھی کردیےتھے.

پہلےپہل صبح چھ سے دوپہر تین بجے تک کی ڈیوٹی سونپ دی گئی جسے رئیس نے پوری ایمانداری سے نبھایا تاہم رفتہ رفتہ کام میں زیادتی، تنوع اور تنخواہ میں من مانی کامعاملہ سامنے آنے لگا…. یہ لیجیے اتنا فلاں پراجیکٹ کے مکمل ہونے پر باقی …….!

انتظارکی مدت طویل ہوتی گئی اور آج چار ماہ ہوچکےہیں کہ رئیس نےپیٹ بھرکھانانہیں کھایا اور … رات آنکھوں میں کٹ جاتی ہے تو صبح کاآفتاب شام ہوتےہوتے عجیب وغریب خیالات سرپر لاد جاتاہے، چاندنی منھ چڑھاتےہوے سحرکی جانب کو چ کرجاتی ہے.
رئیس ایک غریب گھرانےسےتھا ایک بہن بھی تھی جسکی ساری ذمہ داریاں رئیس کوہی اٹھانی تھیں …. کچھ جائیداد ضرور تھیں مگریہ بھی اسکی تعلیم کی نذرہوچکی تھیں ….

ادھروالدین انتظارمیں ہیں کہ بیٹاشاید موٹی رقم بھیجنےوالاہے ورنہ تاخیرچہ معنیٰ دارد……..!

انھیں دنوں حفصہ کارشتہ آیاتو بابانے فون پر رئیس کوسنایا رئیس سینےپرپتھررکھےہاں میں ہاں ملاتارہا اور اسکی زبان سے ان شاءالله سےزائد کوئی لفظ نہ نکل سکااورنہ اس میں اس سےزیادہ کی سکت تھی.

دوسال مکمل ہونےجارہے تھےرئیس کےپاس اتنےپیسے نہیں تھے جس سے حفصہ کی شادی ہوسکتی تھی…. کچھ سوچ کر اس نے مینیجرسےملاقات کی اور پیشگی چارماہ کی تنخواہ کی بات رکھی تو مینیجرنےمزیددوسال اگریمینٹ کی شرط رکھی جسے بادلِ ناخواستہ رئیس کوقبول کرناپڑا معاملہ اس بہن کاتھا جسےبچپن میں گودلےکرسیرکراتاتھا…. عیدمیں جیب کےخرچ سے جس کے لیےچوڑیاں خریدتاتھا اور یونیورسیٹی سے واپس ہوتے ہوے جس کے لیےگاجرکاحلوہ لیاکرتاتھا …. معاش سے نپٹنےکےلیے جسے سلائی  مشین دلوائی تھی اس کےلیے رئیس بھلایہ قربانی کیونکرنہ دیتا اخراکلوتابھائی جوتھا ….. اس نے باباکوپیسے بھیج دیے اور کہاشادی سے چنددن قبل میں پہنچ جاؤں گا آپ چچااورماماں کوساتھ لےکرشادی کی تیاری شروع کردیں … شادی سے ایک ہفتہ قبل رئیس نے باباسےبات کی اور آنسوؤں پر ضبط رکھتےہوےیہ جھوٹ بتایاکہ اچانک کمپنی سے کئی ملازم برخواست کردیےگئے …بہت سے کام سرپرہیں جس کےسبب مجھے چھٹی ہرگزنہیں مل سکتی میرایہاں رہناناگزیرہے ….. ہاں اگر مزید پیسےکی ضرورت پڑی تو بتادیجیےگا.

باباپرایک سنّاٹاطاری تھا وہ بیٹےکی گفتگوسے مطمئن نہ تھے……..مجبورباپ نے الله حافظ کہہ کرفون رکھ دیا…. رئیس کی آنکھوں میں جیسے سیلاب آگیاہو بمشکل وہ خود کوسنبھال پایا ….

حفصہ کی شادی کو ایک سال ہوگئے …. سسرالیوں کے طعنوں نے اسکی زندگی اجیرن کررکھی تھی مگرمرتی کیانہ کرتی….!

وہ جانتی تھی کہ اگرمیں میکےلوٹی تو چھپر بہہ پڑےگا… بھئیاکے خون پسینےکی کمائی پرپانی پھرجائےگا…..

بابافون پر صبرکی تلقین کرتےاس کےعلاوہ ان کےپاس کوئی اور سبیل بھی تونہیں تھی.

بابابیمارہونےلگےتھے….. بہن صاحبِ اولاد ہوچکی تھی اورامّی اب اس دنیامیں نہ تھیں …..

رئیس مزید دوسے تین، تین سے چھ ….. سال کےمعاہدہ میں بندھتاگیا … یوں کہیں کہ غلامی کاطوق گردن پرپڑاتھا جس سے بچ پانا کسی پردیسی کےلیے کوئی آسان امرنہیں ہوتا.

اب یہ حال تھاکہ بنیادی ضروریات کےعلاوہ کمپنی سےمناسب  خوردونوش کےاشیاء بھی مہیانہ تھےتنخواہ مانگنا مزید لعن طعن  بلکہ تھپڑطمانچےکودعوت دینےکےبرابرتھا.

عمرکی تقریباً چالیسویں دہلیزسامنے تھی…. خوابوں کانگراجڑااجڑا، ارمانوں کی بستی ویران اور تمناؤں کی راہ بندہوچکی تھی.
جمعےکادن تھا رئیس نے روروکر خداسے التجائیں کی خدایامجھے دولت نہیں چاہیے….. بینک بیلنس کی ضرورت نہیں بس مجھے میرےگھرلوٹادے. میں اپنوں کاچہرہ دیکھناچاہتاہوں ….. بہن کی بھولی صورت ماں کاجنازہ اور باپ کاپژمردہ حلیہ چشم تر کررہاہے….
شام کومینیجرکاسامناہواتونہایت عاجزی سے رئیس نےگزارش کی کہ سرکار مجھےتنخواہ نہیں دینی تو مت دیجیے اب اگرمزید

تاخیرہوی توشاید میں گُھٹ کرمرجاؤں اتنااحسان کیجیے مجھے میرےگاؤں تک کی ٹکٹ دیےدیجیے…..   …… رئیس کی دعاعرش والےنےسن لی وہ گھرواپس ہوچکاتھا مگرساتھ میں سامان سے لدے چارپانچ تھیلیاں نہ لاسکا، بہن کےکپڑےاور بھانجےکےکھلونے نہ خریدسکا، باپ کی خوشی کےسامان نہ تھے حدتویہ ہے کہ آگے کی زندگی ایک سوالیہ نشان بن چکی تھی…..!
بڑھتی عمرکےسبب والدصاحب اکثر بیمار رہنے لگے تھے … دوسری طرف جان سے پیاری بہن کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیرنا اب بھی اسےپیاراتھا.

کسی طرح بینک سےسود پر رقم حاصل کی اور ایک چھوٹاسادکان کرنےمیں کامیاب ہوسکا…… مگراب طبیعت میں پُھرتی نہیں تھی، چاہتےہوے بھی وہ زیادہ وقت دکان پرنہیں گزارسکتاتھا….. کمرمیں درد…. باباکی دوائیاں …. بھانجےکی فرمائش ان سب سےخندہ پیشانی نپٹتےہوے وہ قدم آگے بڑھانے کی ناکام کوششوں میں لگاتھا مگر….

چاہتوں کافسانہ ادھورارہا
زندگانی سفرمیں بسرہوگئی

تبصرے بند ہیں۔