جمہوریت اور دستورِ جمہوریت کہاں ہیں؟

منصور قاسمی

    یوم جمہوریہ زندہ باد، ۲۶ جنوری زندہ باد، ہندوستان زندہ باد۔ ۔۔۔بچپن سے ہی اسکول اور مدارس کے چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کی زبان سے ہرسال ۲۶ جنوری کو یہ فلک شگاف نعرے سنتا آ یا ہوں ، بڑوں کو بھی ترنگا  لہرا کر صدائے جمہوریت بلند کرتے ہوئے دیکھتا آیاہوں ، لال قلعہ کی فصیل سے چوک چوراہوں تک میں قائدین قوم و ملت کوجمہوریت کی اہمیت، فضیلت اور افادیت بیان کرتے ہوئے اور فخر و تعلی کے ساتھ یہ کہتے ہوئے سنتا آیاہوں کہ ’’ ہمارا ملک کثیر المذہب، کثیر المشرب اور کثیر اللسان ہونے کے باوجود دنیا میں سب سے بڑا جمہوری ملک ہے،، پہلے مجھے بھی یہ نعرے و دعوے بہت اچھے لگتے تھے لیکن گذشتہ تین دہائیوں سے جس طرح ہندوستانی جمہوریت کی آبرو ریزی ہورہی ہے اور مذہبی پوئزن دیا جا رہا ہے، ہمیں اب یہ پوچھنا پڑتاہے، جمہوریت اور دستور جمہوریت کہاں ہیں ؟

     جمہوریت کا مطلب ہوتا ہے عوامی حکومت، یعنی وہ جمہوری عمل جو سب کے لئے قابل قبو ل ہو، جس کی بنیاد عوامی فلاح و بہبود پر رکھی گئی ہو، نہ کہ قوانین و آئین کی دھجیاں اڑا کر، عوامی خواہشات و مطالبات کو نظر انداز کر کے حکومت چلانا جیسا کہ آمریت میں ہوتا ہے لیکن افسوس عوام کی منتخب کردہ مودی حکومت صرف آمریت ہی نہیں بلکہ فرعونیت پر اتر آئی ہے۔ ملک کے اکثریتی طبقہ کو خوش رکھنے کے لئے یکے بعد دیگرے وہ فیصلے لے رہی ہے جو بالکلیہ جمہوریت کے منافی ہیں ۔ ایک شہری کیا کھائے، کیا پہنے !اس کا مکمل اختیار آئین نے دیا ہے اور اسی لئے کیرل میں بی جے پی کے ریاستی صدر بیف کی فراہمی کے لئے کمیٹی یشکیل دے رہی ہے، گوا کی بی جے پی سرکار کہہ رہی ہے بیف کی کمی نہیں ہونے دیا جائے گا مگر اسی بیف اور گائے کے نام پر سینکڑوں بے قصور تہہ تیغ کر دیئے گئے اور یہ سلسلہ ہنوزجاری ہے۔ ایک نہتے کمزور اور بے بس مزدور افرازل کوایک ہندو شدت پسند  لائیوبے رحمی سے قتل کر کے آگ کے حوالے کردیتاہے پھر بھی اس کی حمایت میں اور اس کی گرفتاری کے خلاف اکثریتی طبقہ کے انتہاء پسندافراد احتجاجی جلوس نکالتے ہیں اور عدل کے مندر پر چڑھ کر ترنگا کی جگہ بھگوا جھنڈا گاڑ دیتے ہیں مگر ان کے خلاف دیش دروہی کا دفعہ نہیں لگتا ہے ۔ آخر انصاف، آئین اور جمہوریت کہاں ہیں ؟ دستور میں مذہبی آزادی کا بھی مکمل حق ہے، لیکن مسلمان عورتوں کو انصاف اور حقوق دلانے کے نام پرتین طلاق شرعی کو غیر آئینی قرار دینے پرمودی سرکار بضد ہے ؟کیا یہ مسلم پرسنل لاء  اور آئین ہند میں دراندازی نہیں ہے ؟کہاں ہے جمہوریت اور دستور جمہوریت؟فلم پدماوت کی ریلیز کا حکم سپریم کورٹ نے دیا ہے مگر راجپوت سماج ریلیز کی صورت میں آن کیمرہ ملک میں آگ لگانے اور پارلیامنٹ کو نذر آتش کردینے کی دھمکی دے رہا ہے، کیا یہ سپریم کورٹ کی توہین نہیں ہے ؟ آخر کہاں ہے لاء اینڈ آرڈر اور جمہوریت کے پجاری ؟

     سچ تو یہ ہے کہ مسند اقتدار پر براجمان افراد ہی ملک کے آئین اور جمہوریت کا گلا گھونٹ رہے ہیں ورنہ جسٹس چیلمیشور، رنجن گگوئی، مدن لوکر اور کورین جوزف نہیں چیختے۔ ہندوستان کی ستر سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ سپریم کورٹ کے چار ججزکو بقائے آئین و جمہوریت کے لئے پریس کانفرنس کے ذریعے آواز اٹھانی پڑی۔ ججز کا یہ کہنا کہ ’’چیف جسٹس دیپک مشرا کو بار بار آگاہ کرنے کے باوجود سنجیدہ مسائل پر غور کرنے کی زحمت نہیں کررہے ہیں ،، فکر میں مبتلا کرنے والی بات ہے۔ ججز کا مزید یہ کہنا کہ ’’سپریم کورٹ کا کام کاج جس نہج پر چل رہا ہے، اس سے جمہوریت کو خطرات لاحق ہیں ، ہم یہ نہیں چاہتے ہیں کہ آج سے بیس سال بعد کوئی کہے، جسٹس چیلمیشور،لوکر، گگوئی اور جوزف نے اپنے ضمیر کا سودا کر لیا تھا،، یہ بتاتا ہے کہ جمہوریت اور دستور جمہوریت پر خطرات کے بادل منڈلا رہے  ہیں ۔ ان ججز کا چیف جسٹس پر یہ الزام بھی لگانا کہ ایسے مقدمات جن کا اثر دور رس اور ملک کے مستقبل پر پڑے گاان کو اپنے پسندیدہ  بینچز کے سپرد کرتے ہیں اور ان فیصلوں میں ضوابط و آئین کی پاسداری بھی نہیں کی جاتی ہے۔  صاف ہے کہ وہ عدلیہ جس پر عوام کا مکمل اعتماد تھا اس پر بھی شب خوں مارا جارہاہے۔

    اگر کوئی یہ کہے کہ عدالتی نظام پر حکومت اثر انداز نہیں ہے تو یہ دن میں سورج کا انکار کرنا ہے۔ سہراب الدین  انکائونٹر معاملے میں مقدمہ کی سماعت کر رہے جے ٹی اٹ پٹ کا تبادلہ محض اس لئے کردیا گیا کہ امیت شاہ کو راحت دینے کو تیار نہیں تھے۔اس کے بعد جسٹس بی ایچ لویا کو لایا گیا، اس نے سختی کے ساتھ امیت شاہ کو بتاریخ ۱۵ دسمبر کورٹ میں حاضرہونے کو کہا کہ اچانک ۱ ؍دسمبر کو ان کی موت ہو جاتی ہے۔  ان کی موت پر سوالات کھڑے ہوئے، گھر والوں نے کہا: مہاراشٹر ہائی کورٹ کے سابق جج موہت شاہ نے سہراب الدین انکائونٹر معاملے میں بی جے پی صدر امیت شاہ کے حق میں فیصلہ دینے کے عوض جسٹس لویا کو ۱۰۰ کروڑ روپئے دینے کی پیشکش کی تھی لیکن انہوں نے انکار کردیا تھا۔  لویا کی جگہ ایم بی گوسوامی کو لایا گیا جنہوں نے امیت شاہ کو باعزت بری کردی۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پی سدا شیوم نے اس فیصلہ کے خلاف اپیل منظور کرنے سے انکار کردیا، چنانچہ ریٹائر منٹ کے چند دنوں کے بعد ہی ان کو کیرلا کا گورنر بنادیا گیا۔ مطلب دال میں کالا نہیں ہے، پوری دال ہے کالی ہے۔

   آفس آف پرافٹ کے معاملہ میں الیکشن کمیشنر اور صدر جمہوریہ نے عام آدمی پارٹی کے خلاف جتنی مستعدی دکھائی ہے، اس سے یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ حکومت کے اشارے پر کام ہوئے ہیں ۔ اگر میں یہ کہوں کہ الیکشن کمیشنر نے حق نمک اور صدر جمہوریہ نے حق وفاداری نبھائی ہے تو بالکل بھی غلط نہ ہوگا۔ ۲۰۱۵ء میں چھتیس گڑھ کے گیارہ ایم ایل اے، دہلی کے اکیس، مدھیہ پردیش کے ایک سو اٹھارہ اور جھارکھنڈ کے بھی بعض ایم ایل اے آفس آف پرافٹ کے معاملے میں ملوث تھے مگر ان کی رکنیت ختم نہیں کی گئی۔ ہریانہ  کے کھٹر کی موجودہ سرکار میں بھی پانچ ایم ایل اے ایسے تھے جو پچاس ہزار تنخواہوں کے ساتھ لاکھوں کے مراعات لے رہے تھے، جب ماہ اگست ۲۰۱۷ میں نیو انڈین ایکسپریس میں یہ خبرشائع ہوئی تو ہریانہ کورٹ نے اس کو غیر آئینی تو قرار دیا مگر رکنیت ختم نہیں کی۔ آخر الیکشن کمشنر اور صدر جمہوریہ کا عتاب عام آدمی پارٹی کے ممبران اسمبلی پر ہی کیوں نازل ہوا ؟یقینا اس لئے کہ یہ عاپ کے ممبران ہیں بی جے پی کے نہیں ۔  اسی لئے کہنا پڑتا ہے کہ ہندوستان میں جمہوریت اور دستور جمہوریت اب کہیں نہیں ہیں ۔ مقننہ، انتظامیہ، عدلیہ اور میڈیا جمہوریت کے ان چاروں ستونوں پر خونی پنجے گڑ چکے ہیں ۔  اب یہ کہنا یوم جمہوریہ زندہ باد، ۲۶ جنوری زندہ باد، ہندوستانی جمہوریت کی روح کو شدید تکلیف پہونچانا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔