کردار بولے!
عظمت علی
جس وقت رسول اسلام نے اس دنیا میں آنکھیں کھولیں ،اس وقت پوری عرب دنیا میں دینی گمراہی کا کھٹاٹوپ اندھیراچھایا ہوا تھا۔وہ اللہ کو چھوڑ کوجھوٹے خداؤں کی پوجا کرتے ،بچیوں کو زندہ دفن کرتے ،ذراذرا سی با ت پر برسوں تلک کشت وخون کرتے یعنی وہ بے راہ روی میں آدمیت کی حد پار کر چکےتھے ۔اب ان کے یہاں بس نام کی انسانیت باقی تھی۔جب ان کو یہ معلوم ہوا کہ ہماری اندھیری بستی میں کوئی نور مجسم آیا ہے تووہ آنحضرت کے دیدار کوآئے اور آتے رہے ۔جب مشرکین مکہ نے آپ کے اتنے اچھے کردا ر کودیکھا تو وہ رفتہ رفتہ آپ سے نزدیک ہوتے گئے اور پھر یوں ہوا کہ آپ کی زیارت کو تانتا بندھ گیا ۔آپ کے حسن اخلاق نے ان کو مکمل طور سے موہ لیاتھا ۔کیونکہ آپ نے نہ تو کبھی جھوٹ کا سہارا لیا ،نہ کبھی کسی کو دھوکہ دیا اور نہ ہی کسی شخص کا دل توڑا۔بلکہ ہمیشہ لوگوں سے پیار و محبت سے ملتے ۔بچوں کےساتھ بہت ہی شفقت و مہربانی سے پیش آتے اورسلام کرنے میں ان پر پہل کرتے ۔بزرگوں کے احترام میں کوئی کمی نہ کرتے ۔
جب ان بدو ؤں نے آپ کے چال چلن اور طور طریقہ کو اپنے برے سماج سے الگ تھلگ پایا تو انہیں یہ احسا س ہونے لگاکہ یہ ہم سے توہے لیکن ہم جیسا نہیں !ایک زمانہ تک آپ کےساتھ رہنے کے بعد جب مشرکین عرب کو اس بات کا یقین ہوگیا کہ آپ کے کلام میں ذرہ برابر بھی جھوٹ کا سائبہ نہیں پایا جاتا تو انہوں نے آپ کو "صادق "کے لقب سے پکارنا شروع کردیا۔ساتھ ہی ساتھ آپ کی امانت داری پر بھی جب ذرہ برابر بھی شک و شبہ نہ رہا تو آپ کو "امین "لقب سے یاد کرنے لگے۔گو یا کفار مکہ کو حضرت محمد مصطفیٰ پر اپنی موت سے زیادہ یقین ہوگیا تھا ۔آپ نے کفار و مشرکین کو آداب زندگی بتائے اور ان حیوان صفتوں کو انسان بنایا ۔
ایک روز پیغمر کچھ اہل مکہ کےساتھ کسی پہاڑی علاقے پر گئے تھے ۔آپ نے سب کو مخاطب کرکے ایک سوال کیا کہ اگرمیں کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک لشکر آرہاہےتو کیا مانوگے ؟
سب نے یک زبا ن ہوکر عرض کیا :جی ہاں !
آپ نےدوبارہ فرمایا اگر وہاں جاؤ اورلشکر نہ ملے تو!
انہوں نے عرض کیا :ہم اپنی خطاتومان سکتےہیں لیکن آپ کی نہیں !
رسو ل خدا نے اپنے آپ کو اس طرح پیش کیاکہ کفار اپنی نگاہوں کی خطا قبو ل کرنے کو تیار تھے لیکن رسول کو جھوٹا ماننے کو ہز گز تیار نہ تھے ۔وہ اپنی قیمتی اشیاء آپ کو سونپ دیتے ۔صرف اس بناء پر کہ آپ کے کہنے اور کرنے میں سوئی کے نوک کے برابر بھی فرق نہیں پایا جاتاتھا۔کردا راور حسن اخلاق کی اہمیت کا اگر اندازہ لگانا مقصود ہوتو آخری نبی کی حیات طیبہ کا مطالعہ کرلیں ۔آپ نے اخلاق پہلے،اسلام بعد میں پیش کیا ۔اس لئے کہ اگر دنیا کسی کا لوہا مان لیتی ہے تو دنیا کا دل جیتنے میں دیر نہیں لگتی ۔
چونکہ ہم سب اللہ کے حبیب کو اپنا راہنما اور پیشوا تسلیم کرتے ہیں ۔اس لئے ہمار ی زندگی کو آپ کی حیات طیبہ کا عکس ہونا چاہئے اور پھر ہمیں غیروں سے یہ کہنے کی بالکل ضرورت نہ رہ جائےکہ ہم مسلمان ایسے ہیں اور ویسے ہیں ۔بلکہ وہ خود پکار کرکہیں آپ مسلمان ایسے ہیں ۔کیونکہ "عطر آن است کہ خود ببوید نہ آنکہ عطار بگوید "عطر تو وہی ہے جو خود مہکے نہ عطر بیچنے والا کہےکہ۔۔۔
جس روز ہماری حیات ہمارے رہنما کی سی ہوجائے گی اس دن سے لوگ ہمار ی طرف دوڑے آنے لگے گیں اور فوج در فوج حقیقی اسلام میں داخل ہونے لگےگیں ۔اور اسلام کے نقاب میں چھپے سامراجیت کاسارا پھانڈا پھوٹ جائے گا ۔
تبصرے بند ہیں۔