اپنے مال کو دین پرخرچ کیجیے!

 مفتی محمد صادق حسین قاسمی 

خدا کے دین کے لئے جس طرح ہماری ظاہری صلاحیت ،قابلیت،علم ،فہم ،قوت وطاقت اوروقت کا استعمال ہونا ہمارے لئے سعادت اور خوش نصیبی کی بات ہے ،اسی طرح ہمارے مال کا بھی دین کے لئے لگنا اور استعمال ہونا یہ بھی پروردگار کی عظیم نعمت ہے اور ہر مسلمان کواس  کی بھی تمنا رکھنا چاہیے۔خدمت ِ دین کے مختلف طریقے ہیں ان تمام میں مال کی حیثیت بڑی اہم ہے۔قرآن وحدیث میں اس کی بڑی ترغیب آئی اور بہت اہتمام کے ساتھ انفاق فی سبیل اللہ کی اہمیت کو بیان کیا گیا ،خدا کی راہ میں مال کو خرچ کرنا دراصل اپنے آخرت کے خزانوں کو بھرلینا ہے ،اس کے ذریعہ جہاں ملت کی بہت ساری ضرورتیں پوری ہوتی ہیں وہیں خود انسان کے لئے بے شمار اجر وثواب اور ظاہری وباطنی فائدے حاصل ہوتے ہیں ۔

 نبی اکرمﷺ نے حضرات صحابہ کرام ؓ کی تربیت اس انداز میں فرمائی کہ وہ ہر وقت اپنے مال کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے تیار رہتے ،نبیﷺ کے ایک اشارہ پر اپنا سرمایہ اور جمع پونجی پیش کردیتے تھے،بلاشبہ ان حضرات نے جہاں اپنے قوت وصلاحیت سے دین اسلام کی خدمت کی وہیں مال ودولت کو لٹاکر اور نبی ﷺ کے حضور پیش کرکے دین کو مضبوط ومستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔سیدنا صدیق اکبرؓ  عرب کے ممتاز تاجرین اور صاحب ِ ثروت لوگوں میں شمار کئے جاتے تھے ،قبول ِ اسلام سے قبل ہی پاکیزہ اخلاق اور عمدہ اوصاف سے اللہ تعالی نے نوازا تھا ،اور جب اسلام کا سورج طلوع ہوا اور پیغمبر اسلام کی اخلاقی تعلیمات اور ایثار و ہمدردی کی ہدایات ملیں تو وہ جذبہ ٔ  سخاوت مزید پروان چڑھا اور اسلامی تاریخ میں آپ کی سخاوت اور فیاضی ایک نمایاں مقام حاصل کیا۔

آپ ؓ نے خدا کی راہ میں اپنا مال و متاع سب کچھ قربان کیا او ر ہمہ وقت اشارہ ٔ نبوی کے منتظر رہتے اور جیسے ہی حکم ِنبیﷺ ہوتا اپنا مال سب سے پہلے پیش فرماتے ۔آپ ؓ نے جس بے لوث انداز میں اپنے مال کو خرچ کیا اور اور منشائے نبوی کے مطا بق حاضر کیا خود اس کی تائید کرتے ہوئے نبی کریم ﷺ نے اپنی وفات سے چند دنو ں قبل فرمایا کہ :مجھے سب لوگوں سے بڑھ کر ابوبکر(  رضی اللہ عنہ)نے اپنی صحبت اور مال سے ممنونِ احسان کیا ہے ،اگر میں اپنے رب کے سواکسی کو خلیل بناتا تو ابوبکرکو بناتا ،لیکن ہماراباہمی تعلق اسلامی بھائی چارے اور محبت کا ہے ۔( بخاری :499)ایک مرتبہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ :مجھے کسی کے مال نے اتنا فائدہ نہیں پہنچا یا جتنا ابوبکر کے مال نے پہنچا یا ہے ۔یہ سن کر سیدنا ابوبکر صدیق ؓ آبدیدہ ہوگئے اور عرض کیا کہ : اے اللہ کے نبی !میں اور میرا مال سب کچھ آپ ہی کا تو ہے ۔( مسند احمد:7264)

حضرت ابوبکر ؓ نے جب اسلام قبول کیا تھا اس وقت وہ چالیس ہزار درہم کے مالک تھے ،اور جب ہجرت کرکے مدینہ منورہ جانے لگے تو آپ کے پاس صرف چار ہزار درہم رہ گئے تھے ،تما م اللہ کے راستے میں ،غلاموں کو آزاد کرانے میں خرچ کیا ۔( تاریخ الخلفاء :34) حضرت عثمان غنی ؓ کی سخاوت اور فیاضی تو ضرب المثل ہے ،بلاشبہ سخاوت اور انفاق فی سبیل اللہ میں آپ ؓ ممتاز شان رکھتے ہیں آپ کی سخاوت اور فیاضی کے بے شمار واقعات تاریخ کے صفحات میں روشن ہیں ،جن میں سے صرف ایک واقعہ پیش ہے: 9ھ میں یہ خبر مشہور ہوئی کہ قیصر روم عرب حملہ آور ہوناچاہتا ہے ،چوں کہ یہ زمانہ نہایت عسرت اور تنگی کا تھا اس لئے رسول اللہ ﷺ کو سخت تشویش ہوئی ،اور صحابہ کرام کو جنگی سامان کے لئے مال وزر سے اعانت کی ترغیب دلائی ،اکثر لوگوں نے بڑی بڑی رقمیں پیش کیں ،حضرت عثمان ایک متمول تاجر تھے ،اور اس زمانہ میں ان کا تجارتی قافلہ ملک شام سے نفع کثیر کے ساتھ واپس آیاتھا ،اس لئے انہوں نے ایک تہائی فوج کو سروسامان سے آراستہ کرنے کا ذمہ لیا ،ابن سعد کی روایت کے مطابق غزوہ ٔ تبوک کی مہم میں تیس ہزار پیادے اور دس ہزار سوار شامل تھے ،اس بناء پر غالبا حضرت عثمان ؓ نے دس ہزار سے زیادہ فوج کو اپنے خرچ سے آراستہ کیا تھا ،اور اس اہتمام کے ساتھ کہ اس کے لئے ایک ایک تسمہ تک ان کے روپیہ سے خریدا گیا تھا ،اس کے علاوہ حضرت عثمان ؓ نے ایک ہزار اونٹ ،ستر گھوڑے اور سامان ِ رسد کے لئے ایک ہزار دینار پیش کیا ،حضور اکرم ﷺ اس فیاضی سے اس قدر خوش تھے کہ اشرفیوں کو دست ِ مبارک سے اچھالتے تھے اور فرماتے تھے :مَاضَرَّ عُثْمَانَ مَاعَمِلَ بَعْدَ ھٰذَا الْیَوْمِ۔یعنی آج کے بعد عثمان کا کوئی کام اس کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔( خلفائے راشدین:1414)

بطور نمونہ کے صرف دو حضرات کا ذکر کیا گیا باقی تمام صحابہ کرام ؓ کا مال کو راہ ِ خدا میں خرچ کرنے کے سلسلہ میں یہی مزاج تھا۔اپنی حیثیت اور وسعت کے مطابق وہ خرچ کرنے میں لگے رہتے تھے۔الحمدللہ آج بھی امت میں بہت سے اہل خیر اور راہ ِ خدا میں خرچ کرنے والے سخی وفیاض موجود ہیں ،بلاشبہ جن کا جذبہ ٔ انفاق بے پناہ اجر کا باعث بھی ہے اور ملت کے لئے مضبو ط سہارا بھی ۔لیکن ایک تصویر ہمارے معاشرہ کی یہ بھی ہے کہ بہت سے لوگ دینی معاملات میں خرچ کرنے میں پس وپیش کرتے ہیں اور دنیوی امور میں دھڑلے سے پیسہ لٹادیتے ہیں ،شادی بیاہ کے نام پر اس وقت ملت میں جو اسراف وفضول خرچی ہورہی ہے اور پیسوں کو پانی کی طرح بہایا جارہا ہے یہ اس وقت کا ایک بڑاالمیہ ہے ،جس سے ملت داغدار ہورہی ہے۔

بہت سے لوگ ہمیں وہ بھی ملیں گے جومسجد کو چندہ دیتے ہوئے کتراتے ہیں اور بالکل معمولی رقم دے کر بڑا کارنامہ سمجھتے ہیں ،دینی اداروں اور تنظیموں کو دیتے ہوئے بوجھ محسو س کرتے ہیں ،رفاہی ،فلاحی کاموں میں خرچ کرنے کو دل نہیں بڑھتا،غریبوں ،ضرورت مندوں کو دینے میں ہاتھ کشادہ نہیں ہوتا ،خدا کے لئے دینا مشکل نظر آتا ہے اور اپنی ذات پر خرچ کرناکچھ بھی بھاری دکھائی نہیں دیتا ہے ،ماہانہ کیبل ڈش کی فیس،انٹر نیٹ کے اخراجات،فون سے متعلق خرچے اور دعوت وتقریب ،شادی بیاہ کے نام پر پیسوں کا ضیاع کبھی ناگوار نہیں گزرتا۔

 جس طرح ہماری صلاحتییں دین کے لئے استعمال ہونے کی ہمیں تمنا کرنا چاہیے اور اس کے لئے عملی محنتیں بھی ہونی چاہیے ،ٹھیک اسی طرح ہمارے اندر یہ جذبہ بھی پروان چڑھنا چاہیے کہ ہم اپنی بساط اور حیثیت کے مطابق ضرور خدا کی راہ میں دیں گے اور ہم سے جتنا ممکن ہوسکے کا دین کے لئے خرچ کرنے میں پیچھے نہیں ہٹیں گے۔علامہ حسام الدین فاضل ؒ کا یہ مشہور شعرہمارے ذہن میں رہنا چاہیے:

خدا کی راہ میں دینا ہے گھر کو بھرلینا            اِدھر دیا کہ اُدھر داخل ِ خزانہ ہوا

 آج اسلام دشمن طاقتوں کو صورت ِ حال یہ ہے کہ وہ اپنی تنخواہوں اور آمدنیوں کا ایک حصہ اپنے مشن کے لئے مختص کئے ہوئے ہیں ،بارہا آپ نے پڑھااور سنا ہوگا کہ اسرائیل کی بہت ساری مصنوعات اور یہودیوں کی بہت سے کمپنیاں ہیں جس کی آمدنی کا ایک بڑا حصہ وہ اپنے ناپاک اورانسانیت دشمن مقاصد کے لئے لگاتے ہیں ۔اسی طرح ہمارے ملک میں غیروں کے پاس یہ رواج اور مزاج ہے کہ وہ اپنے مال میں سے وافر مقدار اپنی تنظیموں کے لئے دیتے ہیں ،تاکہ وہ اپنے کام اور اہداف کو اطمینان سے پوراکرسکیں ۔اور ہم مسلمان ہیں کہ جو بلند عزائم،اونچے مقاصد،سرفروشانہ جذبات،ترقی و عروج کے خیالات،تعمیری ارادوں اور ملک وملت کی فلاح وبہبودی کی فکروں سے دور ہوکربس اسراف وفضول خرچی ،نام ونمود ،ظاہر پرستی ،عیش کوشی ،اور جھوٹی شان کے لئے ہزارہا روپیہ لٹانے میں مشہور ہوتے جارہے ہیں ۔ہمارے نوجوان ماہانہ کتنے پیسے اپنی خواہشوں اور تمناؤں کو پوراکرنے میں لٹادیتے ہیں ؟فیشن اور غیروں کی نقالی کے لئے کتنے روپیوں کو ہم ضائع کردیتے ہیں ؟فخر وشان اور دکھاوے کے لئے کتنا مال ہم خرچ کردیتے ہیں ؟ملت کی تعمیر وترقی اور اسلام کی سربلندی کے لئے ہمیں اپنے مال کو صحیح استعمال کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

جائز حاجات اور ضروری چیزوں کی تکمیل کے ساتھ اپنے پیسے کو دین کے لئے اور اس کی نشر واشاعت کے لئے لگانے کی فکرکرنا وقت کا اہم تقاضا ہے! کیوں کہ خدا کا دین اس کی اشاعت اور تبلیغ کے لئے کسی فردِ خاص اور شخص ِ معین کا محتاج نہیں ،وہ جس سے چاہے اپنے عظیم دین کا م لے سکتا ہے ،وہ صنم خانوں سے کعبہ کے پاسبانوں کو پیداکر سکتا ہے،دین کے بارے میں روگردانی اور بخل کرناکس درجہ خطرناک ہے ا س کا تذکرہ کرتے ہوئے قرآن کریم میں فرمایا گیا:ھٰٓاَنْتُمْ ھٰٓؤُلآَئِ تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ  فَمِنْکُمْ مَنْ یَبْخَلُ وَمَنْ یَبْخَلْ فَاِنَّمَا یَبْخَلُ عَنْ نَّفْسِہٖ وَاللّٰہُ الْغَنِّیُ وَاَنْتُمْ الْفُقَرَائُ  وَاِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ ثُمَّ لَایَکُوْنُوْا اَمْثَالَکُمْ۔( محمد:38)’’دیکھو!تم ایسے ہو کہ تمہیں اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کے لئے بلایا جاتا ہے تو تم میں سے کچھ لوگ ہیں جو بخل سے کام لیتے ہیں ،اور جو شخص بھی بخل کرتا ہے ،وہ خود اپنے آپ ہی سے بخل کرتا ہے ،اوراللہ بے نیاز ہے ،اورتم ہو جو محتاج ہو۔اور اگر تم منہ موڑوگے تووہ تمہاری جگہ دوسری قوم پیداکردے گا ،پھر وہ تم جیسے نہیں ہوگے۔‘‘

تبصرے بند ہیں۔