عروج و زوال کے فطری اصول

 تم کرۂ ارض کی کوئی قوم لے لو اور زمین کا کوئی ایک قطعہ سامنے رکھ لو، جس وقت سے اس کی تاریخ روشنی میں آئی ہے، اس کے حالات کا کھوج لگاؤ تو تم دیکھو گے کہ اس کی پوری تاریخ کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ وارث و میراث کی ایک مسلسل داستان ہے؛ یعنی ایک قوم قابض ہوتی پھر مٹ گئی اور دوسری وارث ہوگئی۔ پھر اس کیلئے بھی مٹنا ہوا اور تیسرے کیلئے جگہ خالی ہوگئی۔ وہلم جراً …قرآن کہتا ہے کہ یہاں وارث و میراث کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اب سوچنا یہ چاہئے کہ جو ورثہ چھوڑنے پر مجبور ہوتے ہیں ، کیوں ہوتے ہیں اور جو وارث ہوتے ہیں کیوں وراثت کے حقدار ہوجاتے ہیں ، فرمایا اس لئے کہ یہاں خدا کا ایک اٹل قانون کام کر رہا ہے کہ:

 اِنّ الْاَرْضَ یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصَّالِحُوْنَ (105:21)۔ کہ زمین وارث خدا کے نیک بندے ہوتے ہیں ۔

 یعنی جماعتوں اور قوموں کیلئے یہاں بھی قانون کام کر رہا ہے کہ انہی لوگوں کے حصہ میں ملک کی فرماں پزیری آتی ہے جو نیک ہوتے ہیں ، صالح ہوتے ہیں ۔ صلح کے معنی سنوارنے کے ہیں ۔ فساد کے معنی بگڑنے اور بگاڑنے کے ہیں ۔ صالحہ انسان وہ ہے جو اپنے کو سنوار لیتا ہے اور دوسرے میں سنوارنے کے استعداد پیدا کرتا ہے اور یہی حقیقت بدعملی کی ہے، پس قانون یہ ہوا کہ یہ زمین کی وراثت سنورنے اور سنوارنے والوں کی وراثت میں آتی ہے۔ ان کی وراثت میں نہیں جو اپنے اعتقاد و عمل میں بگڑ جاتے ہیں اور بگاڑنے والے بن جاتے ہیں ۔

  تورات، انجیل اور قرآن تینوں نے وراثت ارض کی ترکیب جا بجا استعمال کی ہے اور غور کرو یہ ترکیب صورت حال کی کتنی سچی اور قطعی تعبیر ہے۔ دنیا کے ہر گوشے میں ہم دیکھتے ہیں ، ایک طرح کی بدلتی ہوئی میراث کا سلسلہ برابر جاری رہتا ہے؛ یعنی ایک فرد اور ایک گروہ طاقت و اقتدار حاصل کرتا ہے۔ پھر ہو چلا جاتا ہے اور دوسرا فرد یا گروہ طاقت و اقتدار حاصل کرتا ہے۔ پھر وہ چلا جاتا ہے اور دوسرا فرد یا گروہ اس کی ساری چیزوں کا وارث ہوجاتا ہے۔ حکومتیں کیا ہیں ، محض ایک ورثہ ہیں ۔ جو ایک گروہ سے نکلتا ہے اور دوسرے گروہ کے حصہ میں آجاتا ہے۔ پس قرآن کہتا ہے ایسا کیوں ہے، اس لئے کہ وراثت ارض کی شرط اصلاح و صلاحیت ہے جو صالح نہ رہے ان سے نکل جائے گی جو صالح ہوں گے ان کے ورثہ میں آئے گی۔

سورہ الرعد کی آیت 35 تا 43میں فرمایا: یہ جو کچھ بھی ہے، حق اور باطل کی آویزش ہے، لیکن حق اور باطل کی حقیقت کیا ہے؟ کون سا قانون ہے جو اس کے اندر کام کر رہا ہے؟ یہاں واضح کیا ہے کہ یہ بقاء انفع کا قانون ہے، لیکن وہ کبھی لفظ انفع کی بجائے لفظ اصلح استعمال کرتا ہے، لفط دو ہیں معنی ایک ہے، یعنی اللہ نے قانون ہستی کے قیام و اصلاح کیلئے یہاں قانون ٹھہرایا ہے کہ یہاں وہ چیز باقی رہ سکتی ہے جس میں نفع ہو، جس میں نفع نہیں وہ نہیں ٹھہرسکتی۔ اسے نابود ہوجانا ہے کیونکہ کائنات ہستی کا یہ بناؤ، یہ حسن، یہ اتقاء قائم نہیں رہ سکتا۔ اگر اس ،میں خوبی کی بقاء اور خرابی کے ازالے کیلئے ایک اٹل قوت سرگرم کار نہ رہتی۔ یہ قوت کیا ہے، فطرت کا انتخاب ہے۔ فطرت ہمیشہ چھانٹتی رہتی ہے۔ وہ ہر گوشہ میں صرف خوبی اور برتری ہی باقی رکھتی ہے، فساد اور نقص محو کر دیتی ہے۔ ہم فطرت کے اس انتخاب سے بے خبر نہیں ہیں ۔ قرآن کہتا ہے اس کارگاہ فیضان و جمال میں صرف وہی چیز باقی رکھی جاتی ہے جس میں نفع ہو کیونکہ یہاں رحمت کار فرما ہے اور رحمت چاہتی ہے کہ افادہ فیضان ہو۔ وہ نقصان گوارا نہیں کرسکتی۔ وہ کہتا ہے جس طرح تم مادیات میں دیکھتے ہو کہ فطرت چھانٹتی جو چیز نافع ہوتی ہے اسے باقی رکھتی ہے اور جو نافع نہیں ہوتی اسے محو کر دیتی ہے۔ ٹھیک ٹھیک عمل ایسا ہی معنویات میں بھی جاری ہے جو عمل حق ہوگا قائم اور ثابت رہے گا ، جو باطل ہوگا مٹ جائے گا اور جب کبھی حق و باطل کا مقابلہ ہوگا تو بقاء حق کیلئے ہوگی نہ کہ باطل کیلئے۔ وہ اسی کو قضاء بالحق سے تعبیر کرتا ہے، یعنی فطرت کا فیصلہ حق کیلئے جو باطل کیلئے نہیں ہوسکتا۔

 فاذا جآء امر اللہ قضی بالھق و خسر ہنالک المبطلونo  (78:40)

  یعنی جب فیصلہ کا وقت آگیا تو فیصلہ حق نافذ کیا گیا اور باطل پرست تباہ و برباد کئے گئے۔ وہ کہتا ہے اس قانون سے تم کیونکر انکار کرسکتے ہو، جبکہ زمین و آسمان کا تمام کارخانہ اسی کی کار فرمائیوں پر قائم ہے۔ اگر فطرت کائنات برائی اور نقصان چھانٹتی نہ رہتی اور بقاء اور قیام صرف اچھائی اور خوبی کیلئے نہ ہوتا تو تمام کارخانۂ ہستی درہم برہم ہوجاتا۔

   ولو ا تبع الحق اہوآئہم لفسدت السمٰوات والارض ومن فیہن ط (71:23)

 یعنی اگر قانون ان کی خواہشات کی پیروی کرنے لگے تو یقین کرو کہ یہ زمین و آسمان اور جو کچھ اس میں ہے سب درہم برہم ہوکر رہ جائے۔ وہ کہتا ہے: امم، ملل، اقوام اور جماعات کا اقبال و ادبار ہدایت و شقاوت کا معاملہ بھی اسی قانون سے وابستہ ہے۔ وہ اس سے مستثنیٰ نہیں ، یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ جو قانون کارخانۂ ہستی کے ہر گوشہ اور ہر ذرہ میں اپنا عمل کر رہا ہے، وہاں یہاں آکر بے کار ہوجائے، جس قانون کی وسعت و پنہانی سے کائنات کا کوئی ذرہ باہر نہ ہو اقوام و امم کا عروج و اقبال اور نزول و ادبار اس سے کیونکر رہ جائے، وہ کہتا ہے یہاں بھی وہ قانون کام کر رہا ہے۔ قوموں اور جماعتوں کے گزشتہ اعمال ہی ہیں جن سے ان کا حال بنتا ہے اور حال کے اعمال ہی ہیں جو ان کا مستقبل بناتے ہیں ، پھر اس کی مزید تشریح کرتے ہوئے فرمایا: خدا کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا، جب تک کہ وہ خود اپنی حالت نہ بدل ڈالے، یعنی اس بارے میں خود انسان کا عمل ہے، وہ جیسی حالت چاہے، اپنے عمل اور صلاحیت عمل سے حاصل کرلیں ۔ اگر ایک قوم بدحال ہے اور وہ اپنے اندر ایک ایسی تبدیلی پیدا کرلیتی ہے جس سے خوش حالی پیدا ہوسکتی ہے، تو خدا کا قانون یہ ہے کہ یہ تبدیلی فوراً اس کی حالت بدل دے گی اور بدحالی کی جگہ خوش حالی آجائے گی۔ اس طرح خوش حالی کی جائے بدحالی کا تغیر سمجھ لو۔ فرمایا جب ایک قوم نے اپنی عملی صلاحیت کھو دی اور اس طرح تبدل حالت کے مستحق ہوگئی تو ضروری ہے کہ اسے برائی پہنچے۔ یہ برائی کبھی ٹل نہیں سکتی کیونکہ یہ خود خدا کی جانب سے ہوتی ہے؛ یعنی اس کے ٹھہرائے ہوئے قانون کا نفاذ ہوتا ہے اور خدا کے قانون کا نفاذ کون ہے جو روک سکے اور کون ہے جو اس کی زد سے بچا سکے۔ اس کو قرآن استبدل اقوام سے تعبیر کرتا ہے اور جا بجا مسلمانوں کو متنبہ کرتا ہے کہ اگر تم نے صلاحیت عمل کھودی تو وہ تمہاری جگہ کسی دوسری قوم کو اقبال و ارتقاء کی نعمت عظمیٰ سے نوازیں گے اور کوئی نہیں جو اس کو ایسا کرنے سے روک سکے اور پھر وہ دوسری قوم تمہاری طرح صلاحیت و اصلاح سے محروم نہ ہوگی، بلکہ نیکوں کے ساتھ نرم اور بروں کے ساتھ سخت ہوں گے۔وہ کہتا ہے کہ ہم یوں ہی قوموں کے دن بدلتے رہتے ہیں اور ایک کے ہاتھوں دوسرے کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیتے ہیں ، کیونکہ اگر ہم ایسا نہ کرتے اور ایک قوم کے دست تظلم سے دوسری مظلوم قوم کو نجات نہ دلاتے۔ اگر ہم ضعیف کو نصرت نہ بخشتے تاکہ وہ قوی کے طغیان و فساد سے محفوط ہوجائے تو دنیا کا چین اور سکھ ہمیشہ کیلئے غارت ہوجاتا اور قوموں کی راحت ہمیشہ کیلئے ان سے روٹھ جاتی اور اللہ زمین پر وہ تمام منارے گرائے جاتے جو اس کے گھر کی عظمت پر دلالت کرتے ہیں ۔ وہ تمام مقدس عمارتیں خاک کا ڈھیر ہوجاتیں جن کے اندر اس کی پرستش اور اس کے ذکر کی پاک صدائیں بلند ہوتی ہیں ۔ یہ حسین و جمیل دنیا ایک ایسی ناقابل تصور ہلاکت و بربادی کا منظر ہوجاتی جس کی سطح پر مردہ انسانوں کی بوسیدہ ہڈیوں اور منہدم عمارتوں کی اڑتی ہوئی خاک کے سوا اور کچھ نہ ہوتا۔ یہ انقلاب جو قوموں اور ملکوں میں ہوتے رہتے ہیں ، یہ جو پرانی قومیں مرتی اور نئی قومیں ان کی جگہ لے لیتی ہیں ، یہ جو قومیں کمزور ہوجاتی ہیں اور کمزوروں و ضعیفوں کو باوجود ضعف کے غلبہ کے سامان میسر آجاتے ہیں ،یہ تمام حوادث اسی حکمت اور قانون الٰہی کا نتیجہ ہیں جو تمام کائنات ہستی میں کار فرما ہے اور جس کا نام بقاء اصلح یا بقاء انفع کا قانونِ فطرت ہے۔ یہ سب کچھ اس کی کرشمہ سازیاں ہیں ، اس لئے جو قوم حق پر ہے وہی نافع ہے اور اس کیلئے ثبات و بقاء ہے، اقبال و عروج ہے اور جو قوم جادۂ حق سے منحرف ہو وہ باطل پر ہے اور غیر نافع ہے اس کیلئے بربادی ہے، فنا ہے اور زوال و نیستی ہے۔ ؎

  پھر دیکھو قرآن کریم نے اس نازک اور دقیق حقیقت کیلئے کیسی صاف اور عام مثال بیان کر دی جس کے معائنہ سے کوئی انسانی آنکھ بھی محروم نہیں ہوسکتی، فرمایا جب پانی برستا ہے اور زمین کیلئے شادابی و گل ریزی کا سامان مہیا ہونے لگتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ تمام وادیاں نہروں کی طرح رواں ہوجاتی ہیں ، لیکن پھر کیا تمام پانی رک جاتا ہے۔کیا میل کچیل اور کوڑا کرکٹ اپنی اپنی جگہ تھمے رہتے ہیں ۔ کیا زمین کی گود ان کی حفاظت کرتی رہتی ہے۔ نئی زمین کو اپنی نشو و نما کیلئے جس قدر پانی کی ضرورت ہوتی ہے وہ جذب کرتی ہے۔ ندی نالوں میں جس قدر سمائی ہوئی ہوتی ہے، اتنا ہی وہ پانی روک لیتے ہیں ۔ باقی پانی جس تیزی کے ساتھ گرا تھا، اسی تیزی سے بہہ بھی جاتا ہے۔ میل کچیل اور کوڑا کرکٹ جھاگ بن کر سمٹتا اور ابھرتا ہے۔ پھر پانی کی روانی اسے اس طرح اٹھاکر لے جاتی ہے کہ تھوڑی دیر کے بعد وادی کا ایک ایک گوشہ دیکھ جاؤ، کہیں ان کا نام و نشان بھی نہ ملے گا۔ اس طرح جب سونا چاندی یا اور کسی طرح کی دھات کو آگ پر تپاتے ہو تو کھوٹ الگ ہوجاتا ہے۔ خالص دھات الگ نکل نکل آتی ہے۔ کھوٹ کیلئے نابود ہوجانا ہے اور خالص دھات کیلئے باقی رہنا۔ ؎

 ایسا کیوں ہوتا ہے، اس لئے کہ یہاں بقاء انفع کا قانون کام کر رہا ہے۔ یہاں باقی رہنا اس کیلئے ہے جو نافع ہو، جو نافع نہیں وہ چھانٹ دیا جائے گا۔ یہی حقیقت حق اور باطل کی ہے، حق وہ بات ہے جس میں نفع ہے۔ پس وہ کبھی مٹنے والی نہیں ۔ ٹکنا اس کیلئے ثابت ہوا، باقی رہنا اس کا خاصہ ہے اور حق کے معنی ہی قیام و ثبات کے ہیں لیکن باطل وہ ہے جس نافع نہیں ، اس لئے اس کا قدرتی خاصہ یہ ہوا کہ مٹ جائے، محو ہوجائے، ٹل جائے۔

 اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَہُوْقاً (81:17)۔

 اس حقیقت کا ایک گوشہ ہے، جسے ہم نے بقاء اصلح کی شکل میں دیکھا ہے اور قرآن مجید نے اس کو اصلح بھی کہا ہے اور انفع بھی کیونکہ صالح وہی ہے جو نافع ہو۔ کارخانۂ ہستی کی فطرت میں بناوٹ اور تکمیل ہے اور تکمیل جب ہی ہوسکتی ہے جبکہ حرف نافع اشیاء میں باقی رکھے جائیں ، غیر نافع چھانٹ دیئے جائیں ۔

تحریر: مولانا ابوالکلام آزادؒ … ترتیب: عبدالعزیز

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔