ﻗﻠﻌﮧ دیرﺍﻭﮌ

شمسہ نجم

جب بھی ﺁﺛﺎﺭ ﻗﺪﯾﻤﮧ ﺍﻭﺭ ﻟﻮﮎ ﻭﺭﺛﮧ کا ذکر کیا جاتا ہے تو موہنجو دڑو، ہڑپہ اور مغل بادشاہوں کی تعمیرات کے علاوہ قلعہ روہتاس اور قلعہ دراوڑ کی بات بھی ضرور آتی ہے۔ ان تاریخی  قلعوں پر تعارفی نوٹ اور مضامین آئے دن اخبارات و رسائل میں چھپتے رہتے ہیں۔ لیکن اپنی ان ثقافتی یادگاروں کو ذہنوں میں زندہ رکھنے کے لیے اور اپنی تہذیب سے روشناس رہنے کے لیے ان کا تذکرہ جاری رہنا چاہییے تاکہ ہماری نئی نسل ہی نہیں ہم خود بھی اپنے ورثے سے جڑے رہیں۔ قلعہ دراوڑ سرائیکی ورثے کے حوالے سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان کے سرائیکی علاقے ﺭﻭﮨﯽ ﺗﮭﻞ،  ﺩﺍﻣﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮭﯽ ﮐﮯ ﻋﻼﻗﮯ اپنے اندر ایک جداگانہ کشش اور لوک ورثہ کی ایک منفرد جاذبیت رکھتے ہیں۔ اس کے دریاوں کی فطری خوبصورتی اور صحراوں کے دلکش مناظر ﺍس علاقے کو تاریخ میں منفرد مقام بخشتے ہیں۔ ﺻﻮﻓﯿﺎﺀ ﮐﯽ ﯾﮧ سرزمین دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ ﺍﺱ سر زمین کا سب سے اہم اور مرکزی قدیم شہر ﻣﻠﺘﺎﻥ  دنیا بھر میں اپنی چند خصوصیات کی وجہ سے اہمیت کا حامل ہے ایک تو صوفیائے کرام کا اس دھرتی پر ظہور اور دوسرے یہاں کی گرمی اور اس کے علاوہ قدیم بادشاہوں کی خصوصی نظر کرم کی وجہ سے قدیم عمارات و مزارات اور اس پر مستزاد موسمی تغیرات، ان سب چیزوں نے اسے تاریخی اہمیت دے دی ہے۔ اس کے علاوہ مزید سرائیکی علاقے روہی، چولستان اور تھل بھی اپنے  ﻟﻮﮎ ورثے اور روایات و رسومات کی وجہ سے دنیا بھر میں جانے جاتے ہیں۔ یہاں کے گردو غبار کے طوفان اور آندھیاں بھی قابل ذکر ہیں۔ سرائیکی آثار قدیمہ کی ایک الگ اور منفرد تاریخی اہمیت ہے۔ ان آثار قدیمہ میں قبرستان اور قلعے بھی شامل ہے۔ قلعہ دیراوڑ (ڈیراول) بھی ان تاریخی عمارات میں شامل ہے۔ جو اپنی خاص بناوٹ اور طرز تعمیر کی وجہ سے خاص اہمیت کا حامل ہے۔ یہ قلعہ شہر یزمان میں واقع ہے۔

ﺍﺣﻤﺪ ﭘﻮﺭ ﺷﺮﻗﯿﮧ شہر یزمان سے قریب ہے۔ شہر یزمان یعنی ﻗﻠﻌﮧ دﯾﺮﺍﻭڑ ( ڈیراول) احمد پور شرقیہ سے ایک شکستہ سٹرک سے جڑا ہے۔ اس جگہ سے چولستان شروع ہوتا ہے۔ ﭼﻮﻟﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﻟﯿﺲ ﺳﮯ ﺯﺍﺋﺪ ﺗﺎﺭﯾﺨﯽ ﻗﻠﻌﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﮕﺮ ﺗﺎﺭﯾﺨﯽ ﻣﻘﺎﻣﺎﺕ ﮨﯿﮟ۔ کیونکہ جس شہر سے چولستان کا آغاز ہوتا  ہے اس شہر کے راستے میں پڑنے والا پہلا قلعہ دیراوڑ ہے اس لیے ﺍﺱ ﻗﻠﻌﮯ ﮐﻮ ﭼﻮﻟﺴﺘﺎﻥ ﮐﺎ  ﮔﯿﭧ ﻭﮮ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ باہر سے دیکھنے میں قلعہ کیا ہے۔ تاریخ کا ایک نادر نمونہ ہے۔ اس قلعے کی شاندار اور عظیم  بناوٹ اور اس کا جاہ وجلال اس کے بانی کی شان وشوکت اور اعلی ذوق کا مظہر ہے۔

 قلعہ دیراوڑ کی عمارت اپنی بناوٹ اور منفرد طرز تعمیر کے باعث  خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ ﻗﻠﻌﮧ دراوڑ (ﮈﯾﺮﺍﻭﻝ) کی اس پر شکوہ عمارت کی ماہرانہ انداز میں ﮔﻮﻻﺋﯽ ﻣﯿﮟ تعمیر کردہ بلند و بالا ﺩﯾﻮﺍﺭﯾﮟ سیاحوں اور تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے افراد کے لیے ایک خاص کشش رکھتی ہیں۔ لیکن صد افسوس کہ اب ان ظاہری درو دیوار کے سوا اس میں کچھ باقی نہیں رہا۔

کہا جاتا ہے کہ صدیوں پہلے اسے کسی بھٹی ذات کے مہاراجہ نے تعمیر کروایا تھا۔ اب نئی مشہور کی گئی روایتوں  کے مطابق یہ قلعہ پانچ ہزار سال قبل جیسلمیر کے شہزادے  "دیوراوڑ سنگھ  بھاٹیہ” نے ﻭﺳﻄﯽ ﺍﯾﺸﯿﺎﺀ ﺍﻭﺭ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺗﺠﺎﺭﺗﯽ ﺍﺷﯿﺎﺀ ﮐﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﮐﯽ ﻏﺮﺽ ﺳﮯ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﺮﻭﺍﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔ بھٹی خاندان نے بنوایا ضرور لیکن ﯾﮧ ﻗﻠﻌﮧ ﺯﯾﺎﺩﮦ مدت تک ﺭﺍﺟﺴﺘﮭﺎﻥ ﮐﮯ ﺭﺍﺟﭙﻮﺕ ﺣﮑﻤﺮﺍﻧﻮﮞ کی ملکیت رہا۔

 سترھویں صدی سے پہلے ایسے تاریخی شواہد نہیں ملتے۔ جن سے بالکل صحیح ماہ و سال کی نشاندہی ہو سکے۔

"غلام عباس سیال” کی کتاب "کافر کوٹ سے  قلعہ ڈیراول تک” میں درج  معلومات کے مطابق ” 1735 ﺀ ﮐﮯ ﻟﮓ ﺑﮭﮓ ﺑﮩﺎﻭﻝ ﭘﻮﺭ ﮐﮯ ﻋﺒﺎﺳﯽ ﺣﮑﻤﺮﺍﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻗﺒﻀﮯ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺩﺍﺭﺍﻟﺤﮑﻮﻣﺖ ﮐﺎ ﺩﺭﺟﮧ ﺩﯾﺎ۔ ﻗﻠﻌﮯ ﮐﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩﮦ ﭘﺨﺘﮧ ﻋﻤﺎﺭﺕ ﺍﺳﯽ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ۔

 ﻗﻠﻌﮯ ﮐﯽ ﺑﯿﺮﻭﻧﯽ ﺩﯾﻮﺍﺭﻭﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﻏﺮﺽ ﺳﮯ ﺍﯾﻨﭩﯿﮟ ﺧﺼﻮﺻﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺍُﭺ ﺷﺮﯾﻒ ﺳﮯ ﻣﻨﮕﻮﺍﺋﯽ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍُﭺ ﺷﺮﯾﻒ ﺍﻭﻟﯿﺎﺀ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﺳﺮﺯﻣﯿﻦ ﺳﻤﺠﮭﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ۔ ﺍﺳﯽ ﻟﺌﮯ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﺰﺩﻭﺭﻭﮞ ﻧﮯ ﻋﻘﯿﺪﺕ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺍﯾﻨﭩﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮨﺎﺗﮫ ﺗﮏ ﻻﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻗﻠﻌﮯ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭽﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔ 1744ﺀ ﻣﯿﮟ ﺷﮑﺎﺭ ﭘﻮﺭ ﮐﮯ ﻧﻮﺍﺏ ﻧﮯ ﻋﺒﺎﺳﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﯾﮧ ﻗﻠﻌﮧ ﭼﮭﯿﻦ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﻟﯿﮑﻦ 1804 ﺀ ﻣﯿﮟ ﻋﺒﺎﺳﯽ ﻧﻮﺍﺏ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺧﺎﻥ ﻧﮯ ﻗﻠﻌﮧ ﮈﯾﺮﺍﻭڑ ﭘﺮ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺍﭘﻨﺎ ﺗﺴﻠﻂ ﺟﻤﺎﻟﯿﺎ۔ 1804 ﺀ ﺳﮯ ﺍﺏ ﺗﮏ ﯾﮧ ﻗﻠﻌﮧ ﻋﺒﺎﺳﯽ ﻧﻮﺍﺑﻮﮞ ﮐﯽ ﻣﻠﮑﯿﺖ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﻧﻮﺍﺏ ﺻﻼﺡ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﻋﺒﺎﺳﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﮨﯿﮟ”۔ ‏( ﺑﺤﻮﺍﻟﮧ ﮐﺎﻓﺮ ﮐﻮﭦ ﺳﮯ ﻗﻠﻌﮧ ﮈﯾﺮﺍﻭڑ ﺗﮏ ﺍﺯ ﻏﻼﻡ ﻋﺒﺎﺱ ﺳﯿﺎﻝ ‏)

راجپوتوں سے یہ قلعہ عباسی خاندان نے چھینا پھر عباسیوں سے شکار پور کے نواب نے چھین لیا۔ اور بعد میں شکار پور کے نواب سے یہ واپس عباسیوں نے اپنے قبضے میں لے لیا۔ لیکن اس قلعے کے حصول کے لیے کتنی جنگیں لڑی گئیں اور کتنے لوگوں کا لہو بہایا گیا اس قلعے کی  بلند و بالا اور پر شکوہ فصیلوں نے کیا کیا مظاہر و مظالم دیکھے ان سب نشیب و فراز کے راز اس قلعے کے سینے میں مدفون ہیں۔ ﻋﺒﺎﺳﯽ نواب مبارک خان نے قلعہ چھیننے کے بعد اس کی دیکھ بھال کا سلسلہ جاری رکھا  اس کی دیکھ بھال اور شکست و ریخت کی درستی و مرمت  نواب صادق خان عباسی کے دور تک باقاعدگی سے ہوتی رہی۔ لیکن نواب صادق خان عباسی کے بعد آنے والے نوابوں نے اس کی دیکھ بھال میں اتنی دلچسپی نہیں لی اور یہ پر شکوہ عمارت بے توجہی کا شکار ہو کر مخدوش سے مخدوش تر ہوتی چلی گئی۔

قلعے کے گردونواح میں مسجد ہے اور ایک طرف قبرستان بھی ہے یہ مسجد مغلیہ طرز تعمیر کی جھلک لیے ہوئے ہے۔ غلام عباس سیال صاحب کی مہیا کردہ تحقیق کے مطابق  "یہ مسجد نواب بہاول خان نے 1949ء میں تعمیر کروائی تھی”۔ کھنڈرات میں تبدیل شدہ مسجد بہت خوبصورت طرز تعمیر لیے ایک خوبصورت آن بان شان کی جھلک دکھاتی ہے جو توجہ مسجد کے درو دیوار کی پیچ کاری اور بناوٹ سے  جھلکتی ہے اس سے نوابین کا مذہب سے گہرا لگاو جھلکتا ہے۔ قلعے کے قریب واقع قبرستان بھی تعمیرات کا ایک نادر نمونہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کیونکہ نوابین نے اپنی شان وشوکت اور خودنمائی کے نقوش اس قبرستان میں بھی چھوڑے ہیں۔ اس کے علاوہ قلعے کے قرب و جوار میں آبادی کے نشانات کچے مکانوں کے کھنڈرات کی صورت میں موجود ہیں۔

قلعے کا داخلی دروازہ ایک عظمت اور شان لیے ذرا بلندی پر ایستادہ ہے یہ لکڑی اور لوہے سے بنایا گیا ہے۔ اس کی چابی نواب کے ملازم کے پاس ہوتی ہے دروازہ کھلوانے کے لیے ملازم کو نذرانہ دینا پڑتا ہے۔ دروازے کے باہر تاحد نظر تاریخ جیسے بال پھیلائے سو رہی ہے۔ دروازہ چونکہ ذرا اونچائی پر ہے اس لیے دروازے کے پاس کھڑے ہوں تو دور و نزدیک کے منبر پر نگاہ جاتی ہے یہاں سے کھڑے کھڑے مسجد قبرستان اور مکانات کے کھنڈرات دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ قلعے کا جو حصہ بلندی پر واقع ہے  وہ شاہی حصہ کہلاتا تھا۔ سنا ہے کچھ دنوں پہلے تک مغلیہ انداز میں تعمیر کیے گئے اس شاہی حصے کی کھڑکیوں اور بالکنیوں سے گردو نواح کی دیگر تعمیرات کے علاوہ صحرا  بھی دکھائی دیا کرتا تھا۔

قلعہ دیراوڑ اب سالہا سال سے جس بے اعتنائی اور لاپرواہی کا شکار ہے اس کا اندازہ قلعے کی اندرونی اور بیرونی حالت کو دیکھ کر بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ ایک تو کوئی محافظ ہے نا کوئی خبر گیری رکھنے والا ہے۔ سیاحوں کے لیے پانی تک کا بندوبست نہیں ہے۔ اس پر قلعے کی مخدوش حالت اس سے برتی گئی بے توجہی کو ظاہر کرتی ہے۔ قلعے کی بیرونی دیوار بھی جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے قلعے کے اندرونی حصوں میں جگہ جگہ گڑھے اور جھاڑ جھنکار  اور ٹوٹی اینٹیں بکھری نظر آتی ہیں۔ قلعہ اپنے جملہ لوازمات جس میں جیل خانہ،  پھانسی گھاٹ، سرنگیں،   سیڑھیاں،  گولائی لیے بیرونی دیوار میں بنے قطار در قطار مینارے  اور نواب محل اور اندرونی عمارت کی خوبصورت پچی کاری اور نقش و نگار،  سے لیس ہے لیکن اب یہ سب تاریخی ورثہ خستہ حالی کا شکار ہے بلکہ کسی آسیب زدہ کھنڈر کا منظر پیش کرتا ہے۔جب قلعے کے داخلی دروازے سے اندر قدم رکھتے ہیں تو ریڑھ کی ہڈی میں ایک سنسنی سی دوڑ جاتی ہے اس کا سبب یہ ہے کہ قلعے کے دروازے کے اندرونی حصے اور چھت پر  چمگاڈریں چپکی نظر آتی ہیں۔ اندرونی کمروں میں بھی چمگادڑوں کی بہتات ہے جو قلعے کے ویران اور سنسان پڑے رہنے کی دلیل ہے۔ کمرے بند رہنے کی وجہ سے اور ان چمگادڑوں کی وجہ سے کمروں میں ایک ناقابل برداشت بو بس گئی ہے۔ اندرونی کمروں کی ہی حالت ابتر نہیں بقیہ حصوں کی حالت بھی ناگفتہ بے ہے۔ کمروں کے سامنے ایک وسیع دالان ہے جس میں دو توپیں نصب ہیں جو کہ بہت ہی وگوگوں حالت میں ہیں۔ اور وہیں پر کچھ قبریں بھی بنی ہیں لیکن ان پر کوئی کتبہ وغیرہ یا ان کے بارے میں کوئی تحریری ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے یہ علم نہیں کہ یہ کن افراد کی قبریں ہیں۔ قلعے میں قبروں کی ہی بات کیا کسی بھی تاریخی واقعے اور تعمیر اور اضافت کے بارے میں کوئی دستاویز موجود نہیں جس سے کہ قلعے کے بارے میں کوئی خاطرخواہ معلومات حاصل کی جا سکیں۔ اور سیاحوں کا کچھ بھلا ہو۔

غلام عباس سیال اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ”ﻗﻠﻌﮯ ﮐﺎ ﺍﻧﺪﺭﻭﻧﯽ ﻣﻨﻈﺮ ﺷﮩﻨﺸﺎﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻧﻮﺍﺑﻮﮞ ﮐﮯ ﺟﺎﮦ ﻭﺟﻼﻝ ﮐﯽ ﺧﺒﺮﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ۔ﭼﺎﻧﺪﻧﯽ ﺳﮯ ﻟﻄﻒ ﺍﻧﺪﻭﺯ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﺍﻟﮓ ﺟﮕﮩﯿﮟ ﺗﻮ ﭼﻮﻟﺴﺘﺎﻥ ﮐﯽ ﻭﺳﻌﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﺩﻝ ﻟﺒﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺍﻟﮓ ﻣﻘﺎﻡ، ﻧﻮﮐﺮﻭﮞ ﭼﺎﮐﺮﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﻗﯿﺪﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﻟﮓ ﻋﻤﺎﺭﺗﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺁﺭﺍﻡ ﺩﮦ ﺧﻮﺍﺏ ﮔﺎﮨﯿﮟ ﺍﻟﮓ ﻣﮕﺮ ﮨﻨﺴﺘﮯ ﺑﺴﺘﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﺮ ﺭﻭﻧﻖ ﺍﺱ ﻗﻠﻌﮯ ﮐﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩﮦ ﺣﺎﻟﺖ ﺯﺍﺭ ﮨﺮ ﺁﻧﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﺷﮑﺒﺎﺭ ﮐﺮﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ ﻟﻤﺤﮧ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﻗﻠﻌﮧ ﻓﻘﻂ ﭼﻤﮕﺎﺩﮌﻭﮞ ﮐﺎ ﺭﯾﻦ ﺑﺴﺮﺍﺑﻦ ﮐﺮ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ، ﺑﻌﺾ ﮐﻤﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺍُﮔﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺟﮭﺎﮌﯾﺎﮞ ﺗﻨﺎﻭﺭ ﺩﺭﺧﺖ ﺑﻦ ﮐﺮ ﮐﻤﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﭼﮭﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﺍﺱ ﮐﺮﮔﺌﯽ ﮨﯿﮟ”۔

قلعے کی مخدوش حالت اپنے ورثاء کی بے اعتنائی کا شکار ہے۔ ویرانیوں اور سناٹوں کے جلو میں دن بدن خستہ حالی کا شکار یہ قلعہ زبان بے زبانی سے پکار پکار کر اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے کہ اپنے ثقافتی ورثے کی حفاظت کرو۔ یہ قلعہ اور اس کے گردو نواح میں پھیلے آثار قدیمہ ہمارے قدیم تاریخی شاندار ماضی کے گواہ ہیں۔ لیکن ہماری پرانی تہذیب کے یہ آثار اب تو کسی بھی دم منہدم ہو سکتے ہیں نہ جانے کب یہ  شاندار عمارت زمین بوس ہو جائے اور اس قلعے کا ذکر صرف داستانوں اور لوک کہانیوں میں رہ جائے۔

عام لوگ جو کہ گردو نواح میں آباد ہیں اور وہ لوگ جو یہاں سیاحت کی غرض سے آتے ہیں ان کا عام فہم خیال یہی ہے کہ موجودہ نواب صلاح الدین عباسی کو اس قلعے کی شکست و ریخت کی مرمت اور بہتری کے اقدامات کرنا چاہیئے اور یہ بھی خیال کرتے ہیں کہ نواب کو اس قلعے کی بہتری کی یا اس ثقافتی ورثے کو بچانے  کی کوئی فکر نہیں۔

غلام عباس سیال اپنی کتاب میں لکھتے ہیں "ﯾﻮ ﺍﮮ ﺍﯼ ﮐﯽ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﻧﮯ ﻧﻮﺍﺏ ﺻﺎﺣﺐ ﺳﮯ ﻗﻠﻌﮯ ﮐﻮ ﭘﻨﺪﺭﮦ ﺑﺮﺱ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻟﯿﺰ ﭘﺮ ﻟﯿﻨﮯ ﮐﯽ ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺖ ﮐﯽ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﮈﺭﺍ ﺳﮩﻤﺎ ﻣﺼﻠﺤﺖ ﭘﺴﻨﺪ ﯾﮧ ﻧﻮﺍﺏ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﺌﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﮯ۔ ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﻗﻠﻌﮧ ﯾﻮ ﺍﮮ ﺍﯼ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮐﭽﮫ ﻋﺮﺻﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﭼﻼ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﺳﻨﻮﺭﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ”۔

غلام عباس سیال اپنی کتاب میں آگے چل کر لکھتے ہیں کہ "ﮈﯾﺮﺍﻭﻝ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﮕﺮ ﺁﺛﺎﺭ ﻗﺪﯾﻤﮧ ﮐﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﮐﺮﮐﮯ ﮨﻢ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﻧﺴﻠﻮﮞ ﺗﮏ ﺍﭘﻨﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺑﮭﯽ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺳﯿﺎﺣﺖ ﮐﮯ ﺷﻌﺒﮯ ﮐﻮ ﻓﺮﻭﻍ ﺩﮮ ﮐﺮ ﻗﻮﻣﯽ ﺁﻣﺪﻧﯽ ﺑﮭﯽ ﺑﮍﮬﺎ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﻣﮕﺮ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺭﯾﺎﺳﺖ ﮐﯽ ﺗﺮﺟﯿﺤﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﮨﯿﮟ ﺑﻄﻮﺭ ﺧﺎﺹ ﭘﻨﺠﺎﺏ ﮐﯽ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﻣﺨﺼﻮﺹ ﻣﺎﺋﻨﮉﺳﯿﭧ ﮐﮯ ﭘﺲ ﻣﻨﻈﺮ ﻣﯿﮟ، ﺗﮩﺬﯾﺒﯽ ﺣﻮﺍﻟﻮﮞ ﭘﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﻮﺟﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﯽ، ﯾﮧ ﺍُﻥ دیہی ﺍﻣﻼﮎ ﭘﺮ ﺗﻮ ﻻﻟﭽﯽ ﻧﮕﺎﮦ ﺭﮐﮭﺘﯽ ﮨﮯ ﺟﮩﺎﮞ ﺷﺎﭘﻨﮓ ﺳﻨﭩﺮ ﺍﻭﺭ ﭘﻼﺯﮮ ﺑﻨﺎﺋﮯ ﺟﺎﺳﮑﯿﮟ ﻣﮕﺮ ﺗﮩﺬﯾﺐ ﻭﺛﻘﺎﻓﺖ ﺍﻭ ﺭﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﮯ ﺩﺭﺧﺸﺎﮞ ﻧﺸﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﻧﻈﺮ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﮐﺮﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺭﯾﺎﺳﺖ ﮐﮯ ﻣﺨﺼﻮﺹ ﻣﻘﺎﺻﺪ ﺍﺳﯽ ﺭﻭﯾﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺎﺋﻨﮉﺳﯿﭧ ﻣﯿﮟ ﭘﻨﮩﺎﮞ ﮨﯿﮟ ﺍﻭ ﺭﭘﮭﺮ ﺟﺐ ﻗﻠﻌﮧ ﮈﯾﺮﺍﻭﻝ ﺟﯿﺴﮯ ﺁﺛﺎﺭ ﻗﺪﯾﻤﮧ ﺳﺮﺍﺋﯿﮑﯽ ﻭﺳﯿﺐ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﻣﯿﮟ ﺁﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﺮﻧﯽ ﮨﯽ ﭘﮍﺗﯽ ﮨﮯ، ﯾﮧ ﺗﻮ ﻧﻮﺍﺏ ﺻﻼﺡ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﻋﺒﺎﺳﯽ ﮐﺎ ﺗﮩﺬﯾﺒﯽ ﺷﻌﻮﺭ ﮐﺎﻡ ﺁﺋﮯ ﺗﻮ ﮐﺎﻡ ﺑﻨﮯ ﻧﺎﮐﮧ ﻗﻠﻌﮧ ’’ ﮈﯾﺮﺍﻭﻝ ‘‘ ﮐﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﮑﮫ ﺑﮭﺎﻝ ﻧﮧ ﺻﺮﻑ ﻧﻮﺍﺑﻮﮞ ﮐﮯ ﺧﺎﻧﺪﺍﻧﯽ ﺟﺎﮦ ﻭﻭﻗﺎﺭ ﮐﻮ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﺭﮐﮭﮯ ﮔﺎ ﺑﻠﮑﮧ ﺳﺮﺍﺋﯿﮑﯽ ﻭﺳﯿﺐ ﻣﯿﮟ ﺑﺴﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺗﺎﺭﯾﺨﯽ ﺣﻘﺎﺋﻖ ﺳﮯ ﺁﮔﺎﮦ ﺭﮐﮭﮯ ﮔﺎ۔

اس تاریخی قلعے کے وارث ﻧﻮﺍﺏ ﺻﻼﺡ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﻋﺒﺎﺳﯽ، ﻋﺒﺎﺳﯽ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﮐﮯ ﺁﺧﺮﯼ ﻧﻮﺍﺏ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻭﻓﺎﺕ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﺌﮯ ﮔﺌﮯ ﺍﯾﮏ ﺁﺋﯿﻨﯽ ﻣﻌﺎﮨﺪﮮ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﯾﮧ ﻗﻠﻌﮧ، ﺍﺣﻤﺪﭘﻮﺭ ﺷﺮﻗﯿﮧ ﻣﯿﮟ ﻗﺎﺋﻢ ﺷﺎﮨﯽ ﻣﺤﻞ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﺎﻭﻝ ﭘﻮﺭ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﻋﺒﺎﺳﯽ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﮐﯽ ﺟﻤﻠﮧ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻋﻤﺎﺭﺍﺕ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﯽ ﺯﯾﺮ ﻧﮕﺮﺍﻧﯽ ﺁﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﯽ”(ﺑﺤﻮﺍﻟﮧ ﮐﺎﻓﺮ ﮐﻮﭦ ﺳﮯ ﻗﻠﻌﮧ ﮈﯾﺮﺍﻭﻝ ﺗﮏ ﺍﺯ ﻏﻼﻡ ﻋﺒﺎﺱ ﺳﯿﺎﻝ ‏)

 میں غلام عباس سیال صاحب کی تائید کرتی یوں  اگر نواب صلاح الدین عباسی اس قلعے کی خستہ حالی پر توجہ فرماتے ہوئے اس کی باقیات کی خصوصا خوبصورت بیرونی حصے کی مرمت اور شکستگی سے بچاو کے اقدامات فرمائیں تو یہ ان کا اپنے آباء و اجداد پر اور تاریخ سر زمین چولستان پر ایک عظیم احسان ہو گا۔ لیکن صلاح الدین عباسی خود ملکیت کے مقدمے میں پھنسے ہوئے ہیں جو کہ اس کے ورثا کے باہمی تنازعے کے سبب ملتان کی کورٹ میں چل رہا ہے۔ وراثت کا فیصلہ ہونے تک قلعے کے لیے کوئی بھی فلاحی اقدام نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ اتنی پرانی جدی پشتی ملکیت کے کوئی قانونی دستاویزات موجود نہیں اس لیے مقدمہ تاخیر کا شکار ہے اگر مقدمہ نہ بھی ہوتا تو اس کے موجودہ وارث نواب صلاح الدین کس برتے پر لیز پر دیں اور کس حیثیت سے مرمت کروائیں۔ پیسہ لگا بھی دیں تو حکومت کاغذات ملکیت نہ ہونے کے باعث قبضہ جما لے گی اور اگر پیسہ خرچ کر دیں تو وہ بھی ڈوب جائے گا۔ اس لیے یہ قلعہ بے یارومدد گار اپنی جگہ ایستادہ ہے اور اس کی حالت دن بدن وگوگوں ہوتی جا رہی ہے۔شمسہ نجم

(ضروری معلومات اور حوالہ جات غلام عباس سیال کی کتاب کافر کوٹ سے قلعہ ڈیراول تک سے لیے گئے ہیں )

تبصرے بند ہیں۔