سید احمد شہیدؒ: وہ اندھیروں میں روشنی کا مینارہ

الطاف جمیل ندوی

سید احمد شہید  تیرہویں صدی ہجری کے وہ مرد مجاہد تھے، جو عمل کے شہسوار اور وقت کے قلندر تھے، آپ کے یہاں قرآنی معارف کی بہار بھی تھی اور جہاد حق کی للکار بھی آپ نے علوم کے صنم کدے میں اذان دی اور میدان عمل کے طاغوتوں سے جنگ کی، آپ کی کوشش یہ تھی کہ قرآن ہی حکومت کا نظام اور وقت کا امام ہو، اور قرآن ہی تمام علوم کا منبع و محور اور سارے فنون کا مآخذ ومرکز ہو، آپ کی آرزو یہ تھی کہ دہنی وفکری گمراہیوں کا سدباب کیاجائے اور میدان عمل سے باطل کو بے دخل کردیا جائے، آپ کے اندر معلّمانہ عظمت بھی تھی اور قیادت کی آن بان اور خلافت کی شان بھی، اس لحاظ سے آپ ملت کے محسن بھی تھے اور وقت کے امام بھی، لہٰذا آپ کا یہ مقام بلکہ بعد والوں پر آپ کا یہ حق بنتا ہے کہ آپ کے افکار ونظریات کی زیادہ سے زیادہ اشاعت کی جائے، اور شخصیتوں کی تعمیر میں آپ کی زندگی سے پورا فائدہ اٹھایا جائے۔ سید صاحب اپنی تحریک کے ذریعے غلط خیالات، باطل نظریات اور برے حالات کو روشن خیالات، دینی وایمانی نظریات، پاکیزہ جذبات اور قابل رشک حالات سے بدل دیا۔

آپ کی ہر کوشش کا مقصد تھا رضاے الٰہی کا حصول  اس مقصد کو پانے کے لیے انھوں نے اپنے ہنستے بستے گھر یہ جانتے بوجھتے چھوڑ دیے کہ ان میں واپسی ناممکن ہے۔ اپنے اہل خانہ کی محبت اور رضا پر اپنے پروردگار کی محبت اور رضا کو فائق سمجھا اور اپنی دانست میں اسی کے تقاضے پورے کرنے کے لیے عازم سفر ہوئے۔ زندگی کی بے شمار نعمتوں اور آسایشوں کو آن واحدمیں ترک کر دیا۔ مختصر سے عرصے میں عزیمت کی ایسی داستانیں رقم کیں کہ کتاب تاریخ کے مضامین ایثار کا خلاصہ قرار پائے اس کے صلے میں اپنے مالک سے اگر کچھ مانگا تو وہ مال و دولت، جاہ و حشمت اور ملک و اقتدار نہیں، بلکہ اس کی خوشنودی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ رضاے الٰہی کی جستجو میں اس درجۂ کمال پر فائز ہوئے کہ دور صحابہ کی یاد تازہ ہو گئی۔

ایثار و عزیمت کی ان بلندیوں کے باوجود واقعہ یہ ہے کہ یہ لوگ احیاے امت کے حوالے سے کوئی معمولی تغیر لائے بغیر اپنی جانیں راہ خدا میں لٹا کر رخصت ہو گئے۔ سید احمد اور ان کے رفقا صفحۂ ہستی سے مٹا دیے گئے۔ جہاں تک ہند کے مسلمانوں کا تعلق ہے تو وہ ایک جانب دین کے محافظوں کی ایک بڑی جماعت سے محروم ہو گئے اور دوسری جانب اپنے سے خائف انگریز حکمرانوں کی بے انصافی کا شکار ہو گئے ۔

مختصر تعارفی  خاکہ 

نام   : احمد بن عرفان
ولادت:  ۶/صفر ۱۲۰۱ھ مطابق ۲۹/نومبر۱۷۸۶ء
جائے ولادت:  سید شاہ علم اللہ صاحب کے اس دائرے میں جو اب تکیے کے نام سے مشہور ہے
۱۲۲۲ھ میں: کسب معاش کے لیے لکھنؤ کا سفر کیا اور وہاں سے دہلی جاکر شاہ عبدالعزیز دہلوی سے شرفِ ملاقات حاصل کیا۔
۱۲۲۴ھ میں: وطن واپسی ہوئی اور سید محمد روشن کی صاحبزادی بی بی زہرہ سے نکاح ہوا
۱۲۲۶ھ میں: دہلی کا دوسرا سفر کیا
۱۲۲۷ھ میں: نواب امیر خان کے لشکر میں ملازمت اختیار کی
۱۲۳۶ھ میں: حج بیت اللہ کا سفر کیا
۱۲۳۷ھ کو: ایک لمبے دورے کے بعد جدہ پہنچے۔
۱۲۳۹ھ کو: سفر حج سے وطن واپسی ہوئی    ۱۲۴۱ھ کو: شمالی مغربی ہندوستان کی طرف ہجرت کی
اسی سال اکوڑہ کی پہلی جنگ ہوئی جس میں فتح حاصل ہوئی    اس کے بعد مسلسل جنگ ہوتی رہی، یہاں تک کہ سید صاحب نے بعض اسباب کی بناء پر وہاں سے کشمیر کا رخ کیا۔
۵/ذیقعدہ ۱۲۴۶ھ کوبالاکوٹ پہنچے، ۱۷/ذیقعدہ۱۲۴۶ھ مطابق ۶/مئی ۱۸۳۰ءکو بالاکوٹ میں آخری جنگ ہوئی جس میں سید صاحب مرتبۂ شہادت سے سرفراز ہوئے، اللہ ان کے درجات بلند فرمائے (آمین)

سید صاحب نے دعا کی تھی کہ اے اللہ میری قبر کو صیغۂ راز میں رکھ تاکہ لوگ اس کو بدعات کا گڑھ نہ بنالیں، جیساکہ اس زمانہ کا رواج تھا، اور آج بھی ہے، سید صاحب کی یہ دعا قبول ہوئی، اور ان کی قبر اب بھی نامعلوم ہے، جس کی بناء پر ایک زمانہ تک بہت سے لوگوں کو یہی خیال رہا کہ سید صاحب کی موت واقع نہیں ہوئی بلکہ وہ غائب ہوئے ہیں۔

تعلیم

جب آپ کی عمر چار سال کی ہوئی تو شرفا کے دستور کے مطابق آپ مکتب میں بٹھائے گئے لیکن لوگوں نے تعجب سے دیکھا کہ آپ کی طبیعت خاندان کے اور لڑکوں اور اپنے ہم عمروں کے برخلاف علم کی طرف راغب نہیں، تین سال مکتب میں گذر گئے صرف قرآن مجید کی چند سورتیں یا د ہوسکیں اور مفرد و مرکب الفاظ لکھنا سیکھ سکے۔

 مشاغل

آپ کو بچپن میں کھیل کا بڑا شوق تھا، خصوصاً مردانہ اور سپاہیانہ کھیلوں کا۔ کبڈی بڑے شوق سے کھیلتے۔ اکثر لڑکوں کو دو گروہوں میں تقسیم کر دیتے اور ایک گروہ دوسرے گروہ کے قلعہ پر حملہ کرتا اور فتح کرتا، اس طرح نادانستہ آپ کی جسمانی و فوجی تربیت کی جا رہی تھی۔

 ورزش

اللہ تعالیٰ جس سے جو کام لینا چاہتا ہے، اس کے لئے اس کا سامان اور اس کا شوق پیدا کر دیتا ہے اور اس قسم کی تربیت فرماتا ہے۔ سید صاحب سے اللہ تعالیٰ نے جو کام لینا تھا، اس کے لئے جسمانی قوت و تربیت کی ضرورت تھی، چنانچہ آپ کو ابتداء سے بہت زیادہ توجہ اسی طرف تھی اور آپ کے بچپن کے کھیلوں میں بھی یہ چیز نمایاں تھی، سید عبد الرحمن مرحوم سپہ سالار افواج نواب وزیر الدولۃ مرحوم سید صاحب کے چھوٹے بھانجے تھے۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ آپ کی عادت تھی کہ سورج نکلنے کے گھنٹوں بعد تک ورزش اور کشتی میں مشغول رہتے۔ میں بچہ تھا، آپ کے بدن پر مٹی ملتا، یہاں تک کہ وہ مٹی خشک ہو کر جھڑ جاتی، پیروں پر مجھے کھڑا کر کے پانچ سو ڈنٹ لگاتے پھر کچھ دیر ٹھہر کر پانچ سو اور لگائے۔

 سید صاحب کی زندگی کا سب سے روشن باب ہجرت وجہاد اور اسلامی نظام کے قیام سے متعلق ہے، اس زمانے میں جب کہ مسلمانوں میں جذبۂ جہاد سرد پڑچکا تھا، سید صاحب نے اپنی تحریک کے ذریعے اس جہاد کا احیاء کیا، جن مقاصد کے تحت سید صاحب نے صدائے جہاد بلند کی، ان کا اظہار آپ کے خطوط ومکاتیب سے ہوتا ہے، جو آپ نے اس سلسلہ میں مختلف لوگوں کو ارسال فرمائے، ان اسباب ومقاصد میں سے چند درج ذیل ہیں:

 (۱) تعمیل حکم الٰہی، (۲) حصولِ رضا ومحبتِ الٰہی، (۳) مسلمانوں کی بے بسی اور اہلِ کفر کے غلبہ کا خاتمہ، (۴) ہندوستان پر کفار کا تسلط اور اسلام کا زوال دیکھ کر کڑھنا، (۵) ہندوستان سے انگریزوں کے تسلط کو ختم کرنا، (۶) اعلائے کلمۃ اللہ، (۷) احیائے سنت رسول اللہ ﷺ، (۸) بلاد اسلامیہ کا استخلاص، (۹) دین کا قیام، (۱۰) احکام شرعی کا نفاذ، (۱۱) فریضئہ دعوت وتبلیغ کی ادئیگی  سید صاحب نے اپنی انتھک کوششوں کے ذریعے مذکورہ اسباب ومقاصد میں سے اکثر میں کامیابی حاصل کی، وَذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَاء۔ حضرت مولانا ابوالحسن علی حسنی ندویؒ نے  لکھا ہے کہ اگر سید صاحب کا احیائے جہاد اور حکومت اسلامی کے قیام کے علاوہ اور کوئی کارنامہ نہ ہوتا تب بھی ان کی عظمت کے لیے کافی تھا۔

دعوت  کا میدان 

سید صاحب نے ایک آدمی کے یہاں طاق میں مٹی کے کھلونے رکھے دیکھے، تو فرمایا: یہ بت ہیں، ان کو مشرک رکھتے ہیں، ان کو توڑ ڈالو، گھر سے دور کرو، پھر دیرتک شرک کی برائیاں اور توحید کی خوبیاں بیان فرماتے رہے۔ جس کا اثر یہ ہوا کہ صاحب خانہ نے اسی وقت وہ کھلونے توڑ کر باہر پھینک دیے۔

بیوہ کا نکاح:

اس زمانے میں بیوہ کے نکاح کو بڑے ننگ وعار کی بات اور خلافِ ادب سمجھا جاتا تھا، یہاں تک کہ بعض علماء بھی اس رواج کی حمایت کرتے تھے۔ علماء مصلحین نے اس دہنیت اور جاہلی حمیت کے خلاف زبان وقلم سے تبلیغ کی، لیکن مدتوں کی اس متروک سنت کے احیاء وترویج کے اس جاہلی خیال کے استیصال کے ليے تحریرو تقریر کافی نہ تھی؛ بلکہ ضرورت اس بات کی تھی کہ کوئی عظیم شخصیت اپنے عمل سے اس سنت کا احیاء کرے، اور اس کی ایسی پرزور دعوت دے کہ اس کی قباحت دلوں سے بالکل نکل جائے، اللہ نے دوسرے عظیم الشان اصلاحی وتجدیدی کاموں کے ساتھ یہ عظیم الشان اصلاحی خدمت بھی جس کا اثر سیکڑوں خاندانوں، ہزاروں زندہ درگور عورتوں پر پڑا، سید صاحب سے لی، اور غیب سے اس کا سامان پیدا ہوا اور ایک مدت دراز کے بعدہندوستانی شرفاء كے خاندان میں یہ مبارک تقریب منعقد ہوئی، سید صاحب نے اس پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ شاہ عبدالعزیزؒ اور اپنے خلفاء کے نام خط لکھوائے جس میں واقعہ کی اطلاع اوراحیاء سنت کی ترغیب دی جس کی وجہ سے یہ سنت دوبارہ شروع ہوئی۔

(حج کی عدم فرضیت کا فتنہ) حج علماء کی تاویلوں اوراس فقہی عذر کی وجہ سے کہ راستہ پرامن نہیں ہے اور سمندر بھی مانع شرعی اور  ’’مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیْہِ سَبِیْلاً‘‘ کے منافی ہے، اور اس حالت میں حج کرنا فرمان خداوندی  ’’وَلَا تُلْقُوا بِأَیْدِیْکُمْ إلَی التَّھْلُکَۃِ‘‘ کی مخالفت ہے، کچھ مدت سے بالکل متروک یا بہت ہی کم ہوگیا تھا، بعض علماء نے جن کو علومِ عقلیہ میں غلو اور انہماک تھا، حج کی عدمِ فرضیت اور ہندوستانی مسلمانوں کے ذمے سے اس کے ساقط ہوجانے کا باضابطہ فتویٰ دے دیا تھا، ان حالات میں سید صاحب نے حج کا ارادہ فرمایا، جو ادائے فرض کے علاوہ حج کی فرضیت کا بہت بڑا اعلان اور اس کی زبردست اشاعت وتبلیغ تھی جن کی ان حالات میں سخت ضرورت تھی، گویا کہ سید صاحب کے ذریعہ فریضئہحج کی ہندوستان میں تجدید ہوئی۔

 ہندوانہ وضع ومعاشرت کی اصلاح:

سید صاحب کے زمانے میں مسلمان بہت سے علاقوں میں صرف نام کے رہ گئے تھے، سب کام ہندوؤں کے کرتے، بت بھی پوجنے لگے تھے، ہولی، دیوالی بھی مناتے اور طریقۂ اسلام سے بالکل بے خبر ہوگئے تھے، سید صاحب جس علاقہ میں بھی تشریف لے جاتے تو بیعت لیتے وقت یہ بھی عہد لیتے کہ وہ تمام ہندوانہ وضع ومعاشرت کو چھوڑدیں گے۔

جس طرح سید صاحب مسلمانوں کی اصلاح کی فکر کرتے اور ان کی ہدایت کی کوشش کرتے اسی طرح غیرمسلموں کو بھی اسلام کی دعوت دیتے، بہت سے غیرمسلم آپ اور آپ کی جماعت کے طریقہ اور اخلاق کو دیکھ کر متاثر ہوتے اور اسلام قبول کرلیتے، اور بعض آپ کی باتیں سن کر اسلام کو تھام لیتے۔

رنجیت سنگھ کے نام لکھا گیا ایک خط  بھجوایا جس میں ان کے سامنے دعوت اسلامی پیش کی جسے سید ابو الحسن علی ندوی  رحمہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس خط میں درج تھا (۱) یا تو اسلام قبول کر لو(اس وقت ہمارے بھائی اور ہمارے مساوی ہو جاؤ گے، لیکن اس میں کوئی جبر نہیں )۔

(۲) یا ہماری اطاعت اختیار کر کے جزیہ دینا قبول کرو۔ اس وقت ہم اپنے جان و مال کی طرح تمھارے جان و مال کی حفاظت کریں گے۔

(۳) آخری بات یہ ہے کہ اگر تم کو دونوں باتوں میں سے کوئی بھی منظور نہیں، تو لڑنے کے لیے تیار ہو جاؤ، مگر یاد رکھو کہ سارا یاغستان اور ملک ہندوستان ہمارے ساتھ ہے اور تم کو شراب کی محبت اتنی نہ ہو گی، جتنی ہم کو شہادت کی ہے۔ ( از سیرت سید احمد شہید)

سید احمد کی تحریک کی چند خصوصیات یہ تھیں کہ یہ مکمل طور پر ایک ہندوستانی تحریک تھی۔ اور اس کا تعلق باہر سے نہیں تھا اور نہ یہ بیرونی امدار پر چلی۔ اس تحریک کے لئے تمام چندہ ہندوستان ہی سے جمع ہوا کرتا تھا، اس کی وجہ سے ہندوستان میں مسلمان معاشرے میں علیحدگی کے جذبات پیدا ہوئے اور مغل ثقافت جو سیکولر ثقافت کے طور پر ابھر رہی تھی، اس تحریک نے اس کے پھیلاؤ اور اس کی ترقی کو روکا۔

اس تحریک کا اثر یہ ہوا کہ اس کے بعد علماء نے جہاد کی بجائے تبلیغی مشن شروع کئے اور اپنے اثر و رسوخ  کے  لئے  مدرسے اور درس گاہیں قائم کیں سید احمد جو اپنی آرام دہ زندگی پر میدان جہاد کے سپاہی کی حیثیت سے تمام عمر برسرپیکار رہے اسی میدان حق میں ان کا  آخری معرکہ بالا کوٹ کے مقام پر ہوا جہاں 6 مئی1831ء کوحضرت سید احمد شہید نے جام شہادت نوش کیا۔ آپ کے دوش بدوش شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل بھی شہادت سے سرفراز ہوئے۔

تبصرے بند ہیں۔