ملک: مودی، مسلمان اور مولوی

مدثراحمد

برصغیرہند میں جو حالات رونما ہوئے ہیں وہ نہایت تشویشناک ہیں۔ ہندوستان میں آزادی سے قبل انگریزوں نے جس طرح سے ہندوستانیوں کو تمام طرح کے حقوق سے محروم رکھا تھا، اسی طرح کا دور آج ملک میں دوبارہ لوٹ آیا ہے۔ آزادی کے بعد ہندوستان میں ایمرجنسی کے دوربھی گذر ے ہیں اور یہ ایمرجنسی کے ایام با ضابطہ طور پر اعلان شدہ تھے۔ مگر2014 کے بعد ہندوستان میں پھر ایک مرتبہ ایمرجنسی کا دور دیکھا جارہا ہے۔

اس ملک میں افراتفری کاماحول پیدا ہوچکا ہے، ہندوستان میں جتنے حقوق شہریوں کو دئیے گئے ہیں وہ تمام حقوق ایک طرح سلب کرلئے جارہے ہیں۔ خاص طور سے میڈیا کوجوآزادی جنگ آزادی بعد کے دی گئی تھی وہ آزادی اب آہستہ آہستہ چھینی جارہی ہے۔ اب ہندوستان میں وزیر اعظم نریندرمودی اور ان کی حکومت کے خلاف بولنا اور کچھ کہنا جرم ہوچکا ہے، جو کوئی وزیر اعظم نریندرمودی کے خلاف اپنی زبان میں کھولے گا وہ اس ملک کا غدار کہلائیگا۔ اب ملک میں حکومت کی نکتہ چینی نہیں کی جاسکتی، جو چیزیں حق ہیں وہ بیان نہیں کی جاسکتی، اب جھوٹ کوسچ کے طو رپر پیش کرنا ہوگا، اگر ایسا ہم نہیں کرتے ہیں تو ملک کے وزیر اعظم نریندرمودی کے بھگت ہمیں زندہ نہیں چھوڑینگے، یا کم ازکم ہم حملہ ضرور کرینگے۔

ملک کا شہری ڈروخوف کے ماحول میں جینے کیلئے مجبور ہیں، پہلے جو حکومتیں گذری ہیں اُن حکومتوں کے حکمرانوں نے ملک کے شہریوں کو اپنی تنقید کرنے کیلئے ہمیشہ راہیں ہمورار رکھے تھے، لیکن اب تنقیدکرنے کیلئے زبان تک نہیں کھولی جاسکتی۔ پچھلے دنوں حکومت کے دبائو میں آکر چند میڈیا ہائوز کے سیکولر ذہن رکھنے والے صحافیوں کوجس طرح سے برخواست کیا گیا ہے وہ اس بات کی تازہ مثال ہے، آج ہم جمہوری ملک میں رہتے ہوئے بھی جمہوریت کا مزہ نہیں لے سکتے، ہمارے قلم توڑ دئیے جارہے ہیں، ٹی وی و سوشیل میڈیا پر ہم حق بیان نہیں کرسکتے۔ یہ حالات ملک کے ہیں۔ ہم اتنا لکھ رہے ہیں ہمیں یہ نہیں معلوم کہ ہمارے ساتھ کیا ہوگا، کونسی جانچ ایجنسی ہمیں اپنی تحویل لے لے، یا پھر کونسے مودی بھگت ہم پر حملہ کردے یہ ہمیں نہیں معلوم۔ لیکن کوشش کی جاتی ہے کہ حق لوگوں کے سامنے لایا جائے تاکہ لوگ بیدار ہوسکیں اور ملک کوتباہ ہونے سے روکیں۔ ایک طرف ملک میں وزیر اعظم نریندمودی اور ان کے بھگتوں کا دبدبہ ہے تو دوسری جانب مسلمانوں کا اور بھی برا حال ہے، ان مسلمانوں کودو نوں طرف سے پسنا پڑرہا ہے۔

 جس طرح سے وزیر اعظم نریندمودی تنقید برداشت نہیں کرسکتے اور ان کے بھگت تنقیدکوپیش کرنے والے لوگوں کونہیں بخشتے، اسی طرح سے ہمارے مسلمانوں کے درمیان بھی کچھ ایسے مولوی قسم کے لوگ ہیں جو مسلمانوں کے سامنے حقیقی دین پیش کرنے کے بجائے اپنے مفادات کے مطابق دین کو پیش کررہے ہیں۔ اسلام نے مساوات اور انصاف کاپیغام دیا ہے، لیکن یہاں کھلے عام انسانوں کے حقوق سلب کئے جارہے ہیں۔ جہاں نکاح، طلاق وحلالہ جیسے معاملات آج زیر بحث ہیں وہیں وراثت، مساجد ومدارس بھی دینی اعتبار سے شریعت کے دائرے میں رہ کر کام کرنے سے گریز کررہے ہیں۔ مسلم سماج دیکھ رہا ہے کہ ان کے درمیان کچھ علما نما شخصیات کاغلبہ ہے جو کسی بھی بات کو منانے کیلئے دینداری کا استعمال کرنے کے بجائے اپنے مفادات کا استعمال کررہے ہیں، حق کو حق تسلیم نہیں کررہے ہیں، اگر ان کی کوئی خلاف شریعت حرکت پر تنقید کرتا ہے تو وہ موردِ الزام ٹھہرایا دیا جاتا ہے اور ان کے حامیوں و حواریوں کے ذریعے سے حملے بھی کروائے جاتے ہیں۔ دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، لیکن اس ضابطہ حیات میں مسلسل خلل ڈالا جارہا ہے۔

 اگر کوئی اہل علم حضرات کی کسی غلطی پر سوال اٹھتا ہے تو اس سے کہا جاتا ہے کہ تم شریعت پر بات کرنے والے ہوتے کون ہو؟شریعت کتنا جانتے ہو؟قرآن کتنا جانتے اور حدیث کتنی جانتی ہو؟کیا تمہارے چہرے سُنت ہے ؟کیا تمہارا لباس سُنت کے مطابق ہے؟۔ سوال یہ ہے کہ کیا شریعت کو جاننے کاحق صر ف اہل علم حضرات کا ہی ہے، کیا شریعت کو جاننے کیلئے کسی مدرسہ سے فارغ ہونا ضروری ہے؟لباس اور داڑھی کے سلسلے میں یہ بھی جان لیں کہ آج یہودونصاریٰ کے پاس بھی داڑھی ہے، آج سادھو وسنتھ بھی داڑھی وعمامہ باندھے گھوم رہے ہیں۔ یہاں تک کئی کئی بہروپیوں باقاعدہ داڑھی جبہ ٹوپی پہن کر بھیک بھی مانگ رہے ہیں، کیا ان لوگوں کو بھی شریعت کا پاسدار مانا جائیگا؟نہیں نا!جتنا دین سوال پوچھنے والا جانتا ہے اتنا ہی وہ سوال کرتا ہے۔ اب جواب دینے والوں کو بھی سوال کرنے والے کے مطابق جواب دینا ہوگا۔ ان باتوں کو چھوڑ کر داڑھی و جبہ پر پہنچ کر حقیقت کو چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

 آج ملک جہاں مودی کے ستم سے تباہ ہورہا ہے وہیں مسلم سماج بھی کچھ مولوی نماشخصیات کی وجہ سے تباہ ہورہے ہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ حق پوچھیں، حق کا ساتھ دیں، حق سے جواب لیں اور حق سے اپنی زندگی گذاریں۔ ملک میں رہنے کیلئے مسلمانوں کیلئے بھی دستورہے اور دنیا وآخرت سنوارنے کیلئے قرآن وحدیث ہے۔ ایسے میں مسلمان کسی کوکہنے و بولنے پر گمراہ نہ ہوں بلکہ اپنی عقل کو اجاگر کریں اور اپنے مستقبل کو محفوظ بنائیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔