مسلمان کیوں ساری دنیا پر غلبہ کا خواب دیکھ رہے ہیں؟

عبدالوہاب سلطان دِیروی

علامہ اقبال مرحوم نے ” ابلیس کی مجلس شوری ” میں ابلیس کے  احساسات  اور جذبات کی ترجمانی ان الفاظ  میں کی تھی :

ہرنفَس ڈرتا ہوں اس امت کی بیداری سے

ہے حقیقت جس کے دین کی احتساب کائنات

یہ شعر اس سوال کا مختصر مگر جامع جواب ہے،  مسلمان  دیگر اقوام کی طرح  صرف ایک ” قوم ” نہیں، یہ ایک  ” امت ” ہے، اور اس کو ” بہترین امت ”  کا لقب ہما شما کے کارناموں کی وجہ سے نہیں  ملا، آسمان سے ملا ہے، قرآن نے  اس  امت کو اس لقب سے پکارا ہے، اس لئے کہ  اس کے پاس ایک روشن، واضح اور طاقتور پیغام ہے، ساری انسانیت کے لئے، مشرق اور مغرب کے لئے، شمال اور جنوب کے لئے،  مسلمان یہ پیغام  ساری دنیا تک پہنچانا چاہتے ہیں،   یہ  فلاح و کامیابی کا پیغام ہے،  مادی و معنوی     فتح مندیوں کا پیغام ہے، جس میں دین و دنیا  کی ساری بھلائیاں سمٹ آتی ہیں، جو عقل و قلب کو یکساں اپیل کرتا ہے، ساری دنیا تک اس پیغام کا پہنچانا  مسلم امہ کے فرائض منصبی میں داخل ہے، یہ مطلب ہے اس  مسلم امہ  کے دین کی حقیقت کا،   اور یہ مطلب ہے ” احتساب کائنات ” کا بھی، یہ امت  اقوام عالم کی رہنمائی اور سیادت کے لئے دنیا میں  بھیجی گئی ہے ، اسی لئے  مسلمان   داری دنیا پر غلبہ  کا خواب دیکھ رہے ہیں۔

 یہ نوجوان جو اسلام کے غلبہ کا خواب دیکھتے ہیں، پوری دنیا پر اسلام کا پھریرا لہرانا چاہتے ہیں، مانا کہ   تہی دست ہیں، فاقہ کش ہیں، دوسری قوموں کے دست نگر ہیں، ٹیکنالوجی میں پیچھے ہیں، سائنس میں  پسماندہ ہیں، خیالات جن کے ” روشن ” نہیں، دوڑ  جن کی ” مسجد ” تک ہے، جو  ” بسم اللہ ” کی گنبد میں بند ہوکر ” زمانہ کے تقاضوں ” سے   نابلد ہیں،  ترقی کی دوڑ میں   سست  روی کے شکار ہیں،۔ ۔۔۔۔۔۔ تھوڑی دیر کے لئے  مان لیتے ہیں کہ یہ  ایسے اور تیسے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔، لیکن یہ بات کیا کم ہے کہ یہ اپنی اس  درماندگی کے باوجود  درحقیقت علامہ اقبال- رحمہ اللہ تعالی -کے اس مذکورہ بالا  شعر کی ترجمانی کرتے  ہیں، وہ اس امت کو اپنا فرض ِ منصبی یاد  دلاتے ہیں، وہ ان کے مردہ احساس کو بیدار کرنا چاہتے ہیں ، انہیں معلوم ہے کہ ہم  ” اپنوں کی سادگی اور غیروں کی عیاری ” کے مارے، ٹیکنالوجی کی دوڑ میں  دو ڈھائی صدیاں پیچھے رہ گئے ہیں، وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اس امت کو ترقی کے لئے  ٹیکنالوجی اور سائنس  میں مغرب سے  سے سبقت   نہ سہی، اس  کے  ساتھ برابری کی سطح پر   آنا ضروری ہے، "سائیکل سے سیٹلائٹ  تک ”  ایجادات کی دنیا میں خود کفیل بننا ہوگا۔ ۔۔۔۔، لیکن اگر آپ یہ سمجھتے ہیں   کہ  وہ اپنی  اس موجودہ حالت پر ہی بس کئے رہیں،  اپنی رہی سہی آواز کا بھی گلا  دبادیں، اپنی بیداری کے لئے آواز ہی نہ اٹھائیں،    بیمار ہوکر  بھی اپنی بیماری کے علاج کے لئے   چیخ و پکار نہ کریں، ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر ِ فردا رہیں،   تو آپ ہی بتایئے، یہ مریض کل کی جگہ آج ہی اپنی جان سے ہاتھ نہیں دھوبیٹھے گا تو پھر کب  مرے گا،    یہی بے شعوری اور اپنے فرض منصبی  سے غفلت ہی تو  تھی، جس نے اس امت کو ” مسند عالم ” کی جانشینی کے منصب سے اتارا تھا، اور آپ ہیں کہ  اب پھر انہیں اس احساس کی بیداری کے لئے آواز اٹھانے سے بھی روکنے پر تلے ہوئے ہیں، میر نے خوب کہا تھا :ع؎

میر بھی عجیب ہے یاں بیمار ہوئے جس کے سبب

اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں

مجھے یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ    ایک ایسی ” امت” جس کے پاس اس انسانیت کی  سیادت اور رہنمائی کا  کامیاب ترین اور طویل ترین  تجربہ ہے، جس نے صدیوں تک  دنیائے انسانیت کی مادی اور معنوی  ضروریات اور حاجتوں کو پورا ا کیا،  جس نے انسانیت کو سکھ اور عافیت دی، عدل وانصاف کا سبق  پڑھایا، پرایوں کے حقوق اپنوں کی طرح نبھائے، جو دیگر ” قوموں ” کی طرح صرف ایکٹر ( (Actor  نہیں  رہے، بلکہ قیادت کے اسٹیج پر اس نے حقیقی  فیکٹر (Factor)  کا  کردار ادا کیا، جو  عامل ہیں، مؤثر ہیں، جن  کی ترقی سے دوسرے ممالک کی ترقی ہوئی، جس کے  پاس آج بھی  قیادت کی   وہ پوشیدہ انرجی  موجود ہے، جس کی خاکستر میں عالم انسانی کی قیادت   کی خوابیدہ چنگاری  آج بھی    شعلہ جوالاں بننے کے لئے   بے تاب ہے،  جس کی تہوں میں آج بھی مسند ِ عالم کی جانشینی کی اسپرٹ کام کررہی ہے۔ ۔۔۔، اس کا تقابل ایک ایسی ” قوم ” سے  کیا جارہا ہے، جو اپنی ہوشربا مادی اور سائنسی ترقی کے   باوجود انسانیت  کو  سوائے بارود اور آلودگی  کے کچھ نہ دے سکی، جس کی ساری زندگی فلسفہ نان ونوش، اور مادہ اور معدہ کے گرد گھومتی ہے۔ ۔۔۔!

یورپ کی نت نئی ایجادات اور اس کی وجہ سے  انسانوں کو حاصل ہونے والی سہولیات کا  انکار نہیں، بلاشبہ یہ یورپ کا  ایک اچھا کارنامہ ہے، یہ الگ بات ہے کہ اس کی جڑوں میں مسلم سائنسدانوں کا خون پسینہ شامل ہے، لیکن  کیا اس کا تقاضایہی ہے کہ اس  کے ذریعے ہیروشیما اور ناگاساکی کو تہس نہس کیا جائے،  وہاں ہمیشہ کے لئے انسانیت کی نسل کشی کی جائے، افغانستان کے نہتے اور بے قصور عوام کا زہریلے بارود وں کے گلا گھونٹا جائے،  عراق، لیبیا، اور شام کی مظلوم اور نہتی انسانیت کی خون کی ہولی کھیلی جائے،  کیا ان  نت نئی اسلحوں کی مارکیٹنگ کے لئے کمزور اور تیسرے درجے کے ممالک کو جنگوں کی نہ ختم ہونے والی آگ میں جھونک دینا ہی  سائنسی ترقی کی ” برکات ” ہیں۔ ۔، اور پھر  ” ایٹم بم ” اگر تم بناسکتے ہو،  تو دوسرے ممالک کے ” اسلامی بم ” بنانے پر قدغن لگانے کا  حق آپ کو کس نے دیا ہے، یہ دھماچوکڑی دنیا کے کونسے قانون ِ عدل و انصاف، اور "حقوق ِ انسان "کے کونسے فلسفہ  کی رو سے روا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔؟

آپ کہتے ہیں ، "مسلمانوں نے کیا کیا ؟، ہم خود کو کیوں عظیم ترین قوم سمجھتے ہیں ؟”،  میں کہتا ہوں :مسلمانوں نے دنیا کو کیا  کچھ نہیں دیا۔ ۔۔، میں نے عرض کیا کہ اس امت کو  رب تعالی نے "بہترین امت” کا لقب دیا ہے، اس لئے کہ   اس کے پاس ” نفع رسانی ” کا  مادہ ہے،  اس کے پاس دنیا کو دینے کے لئے ایک پیغام ہے، ایک  نظام ِ حیات ہے، مسلمانوں سے پہلے    آپ کی  مغرب نے دنیا ئے انسانیت کو ” جاہلیت ” کی تاریکیوں میں جھونک دیا تھا،  اور آج ایک بار پھر ” جاہلیت جدیدہ ” کو ایک نئے روپ، اور اپنی ترقی یافتہ شکل میں انسانیت پرتھوپ دینا چاہتی ہے، آج کی مغربی تہذیب کا شجرہ نسب، اپنی ساری چکاچوند کے باوجو د، صدیوں پہلے کی جاہلیت یونان و روم سے ملتا ہے، جس نے انسانیت پر اپنی ظاہری و معنوی خساروں  کی وجہ سے نزع کا عالم طاری کردیا تھا، انسانیت ہلاکت کے مہیب غار کے دھانے پر کھڑی تھی، چھلانگ لگانے کے لئے اس کے پاؤں اٹھ چکے تھے، ایسے میں یہ مسلمان  میدان میں آئے، جاں بلب انسانیت کو  کمر سے پکڑ پکڑ کر ہلاکت کے غار سے بچایا،  تعمیر انسانیت بالکل ایک نئے دور کا آغاز ہوا، مسلمانوں کی دعوت نے جاہلیت کی جڑ پر ایسا  تیشہ چلایا، کہ وہ تلملا اٹھی، دنیا کی رہنمائی کی بھاگ انہوں نے اپنے ہاتھوں میں لی،  پھر دنیا نے دیکھا، سنا اور برتا، کہ مسلمانوں نے صدیوں تک اس جاہلیت کی زخم خوردہ  دکھی ہوئی انسانیت  کی  کیسی مرہم پٹی کی، مسلمانوں نے اسے :

عقیدہ و توحید کی نعمت عطا کی، جس کے نتیجے میں انسان عظمت و شرف کے اعلی ترین مقام پر فائز ہوگیا دنیا کے سارے فلسفوں اور افکار و خیالات پر اس کا اثر پڑا، دیگر ادیان  پر ان کا  نقش قائم ہوا،جاہلیت کے کی برادریوں، ذات جاتی، اور طبقاتی تفاوت کی جگہ ” وحدت انسانی ” کا تصور دیا، جس کو صدیوں بعد آج اقوام متحدہ کا چارٹر بھی تسلیم کرتا ہے، دین و دنیا کے بارے میں جامع نقطہ نظر دیا، جبکہ جاہلیت نے دونوں کو دو خانوں میں تقسیم کیا تھا، یہ سب مسلمانوں کے عروج کے کرشمے تھے، اسی کی برکت تھی وہ مسلمان، جنہو ں تاتاریوں کے وحشیانہ حملوں سے باربار شکست کھائی تھی، انہیں فاتح تاتاریوں کو ان   ” مفتوح ” مسلمانوں کے سامنے جھکنا پڑا، یہ  مسلمانوں کی "سائنس و ٹیکنالوجی "کی فتح نہیں تھی، یہ مسلمانوں کے ایمان و یقیں، اور  حجت وبرہان کی فتح تھی۔

حقیقت یہ ہے کہ  یورپ مادی اور سائنسی  ترقی کی دوڑ میں جتنا بھی آگے چلا جائے،  فضا میں جتنی بھی سیٹیلائٹ  سیارے  چھوڑدے، چاند پر جتنی بار بھی قدم رکھے، بجا ہے کہ  ان ترقیوں کے باوجو د مغرب اندر سے پھر بھی  کھوکھلا ہے، اس کے اخلاق کا جنازہ نکل چکا ہے، خاندانی نظام تتر بتر ہوچکاہے، اور اس کے  عہد میں انسانیت دوبارہ اسی "جاہلیت "کے دھانے پر آرکی ہے، جہاں یہ چودہ سوسال پہلے تھی، دنیا ئے انسانیت سرمایہ دارنہ نظام کی سرکشی و خدا فراموشی، اور افلاس کی بے بسی و خود فراموشی کے دوانتہاؤں کےدرمیان پس رہی ہے، "جاہلیت جدیدہ ” کے یہ اخلاقی اور معاشی جراثیم ہی ” زوال ” کا استعارہ ہیں،  جو ان قوموں سے متعدی ہوکر اب مسلمانوں میں بھی سرایت کرگئی ہیں، اور  مغرب کے انہی جاہلی  جراثیم  کی وجہ سے مسلمان اپنی موجود ہ پستی کو بھگت رہے ہیں، یہی جاہلانہ خصوصیات  جب کسی قوم میں آتی ہیں، زوال کاشکار ہوتی ہیں، خلافت عثمانیہ کے ترکوں میں بھی، جو مسلمانوں کے نمائندے تھے،   زوال پذیر قوموں کی یہی جاہلانہ خصوصیات   پیدا ہوگئیں تھیں،  سولہویں او ر سترھویں صدی  میں مسلمانوں میں  مغربی قوموں کی  یہ جاہلانہ خصوصیات  اتنی عام ہوگئی تھیں، کہ ان کا  اجتماعی زوال شروع ہوا، یہ اسلام اور مسلمانوں کا نہیں ، جاہلانہ اخلاق  کا زوال تھا، جو مسلمانوں کے ساتھ لگ گئی تھیں، یہیں سے   یورپ   کے مادی عروج  کا آغاز ہوتاہے، یورپ اس وقت تک جاہلیت کی گھٹاٹوپ اندھیریوں میں ٹامک ٹوئیاں ماررہا تھا، اب انگڑائیاں لینے لگا، اس نے مسلمانوں کے دار الخلافوں اور خصوصا مسلمانوں کے اس وقت کے علم و فن، اور سائنس و ٹیکنالوجی کے مرکز ” اندلس ” کار خ کرنا شروع کیا، مسلم علماء، سائنسدانوں، اور دانشوروں سے علم اور سائنس کی تحصیل  کرنے لگے، یہیں سے انہیں مسلمانوں کی "فاتحانہ خصوصیات ” کا علم ہوا، مسلمانوں کو قریب سے دیکھا،  اور یورپ میں آکر مسلمانوں ہی کے ان علوم کی بنیاد پر نت نئے تجربات کرکے  صنعتی انقلاب رونما کیا،  اس کی بنیادوں میں مسلمانوں کو خون  دوڑ رہا تھا، لیکن  انہوں نے اپنے روایتی  تعصب سے کام لیتے ہوئے  اس کا سارا  کریڈٹ   اپنے سر لیا،  اپنے مسلمان اساتذہ کا نام تک نہیں لیا،  اور آج  مسلمانوں ہی کے  یہ پس خوردہ، اپنی سائنس و ٹیکنالوجی پر نازاں، اپنے انہیں محسنوں کو آنکھیں دکھارہے ہیں۔ مسلمانوں   کی شان وشوکت  سے معمور شاندار تاریخ سے انکار سورج پر تھوکنے کے سوا کچھ نہیں، ان کے کونسے کونسے کارنامہ کا ذکر کیا جائے، مسلمانوں نے صدیوں تک   جہاں بانی کی،  فتح کے شادیانے بجائے، مسلمانوں نے تو اپنی دور ِ سیادت  میں اپنی ان محکوم اور مغلوب اقوام کے ساتھ  یہ رویہ رکھا، جب کہ آج جب تاریخ نے پلٹا کھایا، مسلمان مادی طور پر مغلوب ہوئے، مغرب نے  ان کے ساتھ جو وحشیانہ  سلوک کیا، کم ازکم افغانستان، شام، عراق، لیبیا ، یمن، وغیرہ اس کی شاہدِ عدل ہیں۔

 قوموں کی ترقی اور عروج کا معیا ر صرف  سائنس اور ٹیکنالوجی کی  مادی ترقیاں نہیں ہوا کرتیں، اس کا  معیار اخلاقی اور ایمانی اقدار (Values) ہوتی ہیں، جو حق کی علامت ہوتی ہیں، یہ قدرت  کا بے لاگ  قانون ہے،  اقدار اگر کبھی ” باطل ” کے ساتھ لگ جائیں، تو وہ بھی  دنیا میں ” ترقی ” کی  ٹریک پر آگے بڑھ سکتا ہے، اور "حق” کے رکھوالے  بھی   ان اعلی ” اقدار ” سے تہی دست ہوجائیں، تو وہ  بھی ” ترقی ” کی دوڑ میں پیچھے رہ سکتے ہیں، عرب کے ایک مفکر و شاعر  احمد شوقی نے خوب کہا تھا "

 إنما الأمم أخلاق فإن همو

  ذهبت أخلاقهم ذهبوا

      يہاں مجھے عالم عرب کے ایک صاحب فکر ادیب علی طنطاوی کی وہ بات یاد آرہی ہے جو انہوں عرب اسرائیل جنگ کے موقع پر کہی تھی : ” یہودی اور جاہلی  اخلاق و خصوصیات  شکست و ذلت کی علامت ہیں، اس جنگ میں مسلمان نہیں ہارے ہیں، بلکہ یہ شکست درحقیقت ان  جاہلانہ یہودی اخلاق،  عادات اور خصوصیات   کی شکشت ہے، جو مسلمانوں میں سرایت کی  ہوئی تھیں۔ ۔”

آج اگر مغرب کے پاس سائنس و ٹیکنالوجی ہے، تو مسلمانوں کے پاس ایمانی اور اخلاقی اقدار کی وہ نعمت ہے، جن سے وہ محروم ہیں، مسلمان مادی اور سیاسی طور پر زوال کا شکا ر ہوسکتے ہیں، لیکن ایمان و یقین کے برہان  اور   فکر و فلسفہ  کی دلیل کے میدان میں یہ کبھی پیچھے  نہیں رہے ،  یہ وہ واحد امت ہیں، جس کی حقانیت کے سامنے تاتاری  جیسے وحشی فاتح بھی سرنگیں ہوکر ” مفتوح ” ہوگئے تھے، سیاسی طور پر یہ مغلوب سہی، لیکن   اس میدان میں یہ کل کی طرح آج بھی غالب ہیں، اور  مغرب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسلام کی حکمت آفرینیوں کی فوقیت کو ثابت کرسکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج بھی یورپ  میں کروڑوں غیرمسلم اسلام کی یقین  کی دولت سے مشرف ہورہے ہیں۔

مسلمان  اگر فراخ دلی سے ان کی ایجادات استعمال کررہے ہیں، تو مغرب بھی فراخ دلی کا مظاہر ہ کرکے اسلامی اقدار و اخلاق  کے ذریعے اپنی روحانی خلا کو پر کرلینا چاہئے، ہم مغرب کو  برملا اس کی دعوت دیتےہیں، ایک مرتبہ اس کو آزما کر تو دیکھیں،   ہماری نظر میں   یہی و ہ  واحد فارمولا ہے، جس  سے دنیائے انسانیت  فلاح  اور کامیابی سے ہم کنا ر ہوسکتی ہے، اور ہمیشہ کےلئے   سکھ اور امن کا سانس لے سکتی ہے،  مسلمانوں نے کل بھی جاں بلب  دنیائے انسانیت کو "جاہلیت” کی اندھیر نگری سے نکالا تھا، آج  جب  "جاہلیت ِجدیدہ ” کے تمام ترسرمایہ دارانہ معاشی نظام، مغربی جمہوریت کے ظالمانہ سیاسی  نظام کی ناکامی  کا دنیا مشاہدہ کرچکی ہے، معاشرتی طور پر مغرب کی  بے چینی کو آزماچکی ہے، اب  انسانیت ایک نئے نظام کی متلاشی ہے، ساڑھے چودہ سو سال بعد  بھی،آج اسلام  کو موقع دیا جائے، تو  وہ اپنی اس صلاحیت سے  عالَم انسانی کی تعمیر ِ نو میں اپنا کردار ایک مرتبہ پھر  دہراسکتا ہے ۔ علامہ اقبال مرحوم نے اسی لئے ” معمار ِ حرم ” کو پکار کر کہا تھا :

معمار ِ حرم باز بہ تعمیر جہاں خیز

فهل من مجيب۔ ۔۔!؟

تبصرے بند ہیں۔