مسلم دنیا: اختلافات کی جگہ مفاہمت کی راہ

عمیر کوٹی ندوی

ایک ایسے وقت میں جب آشوبِ زمانہ نے مسلم دنیا کے گھر کو  ہی نہیں دیکھ رکھاہے بلکہ ایک طویل عرصہ سے وہ وہاں پر ٹھہرا ہوا ہے مسلم دنیا ہنوز  باہمی تنازعات، فرقوں اور ان سے متعلق موضوعات، مسلکی مباحث، مکاتب فکر پر باتوں، تہہ در تہہ تقسیموں اور مختلف قسم کی عصبیتوں کے  گرداب میں ہی پھنسی ہوئی ہے۔ نہ وہ خود ان سے نکلنا چاہتی ہے اور نہ ہی اغیار اسے ان سے نکلنے دینا چاہتے ہیں۔ مسلم دنیا کا یہ عمل آج کا نہیں ہے بلکہ اس راہ پر چلتے ہوئے ایک زمانہ ہوگیا ہے اور دنیا اب بھی چاہتی ہے کہ وہ اسی راہ پر چلتی رہے۔ اس کے خلاف پہلے سے ہی نہ جانے کتنے منصوبے لوگوں نے تیار کر رکھے ہیں اور اب بھی نئے نئے منصوبے تیار ہو رہے ہیں۔ نیو ورڈ آڈر کے بعد  حال ہی میں صدی کی ڈیل کی بازگشت خوب زور وشور سے سنائی دی اور اس کے تعلق سے جزئیات پر عمل ہوتا ہوا بھی نظر آیا۔ اب خبر ہے کہ مسلم دنیا کے ہی تعلق سے دنیا کی دو سپر پاور طاقتیں امریکہ اور روس آپس میں گلے ملنے والی ہیں۔حالانکہ یہ  ایک طویل عرصہ سے ایک دوسرے سےبرسرپیکار رہی ہیں اور ان کے باہم برسرپیکار رہنے کے عمل کی وجہ سے دنیا میں ‘سرد جنگ’ کی اصطلاح رائج ہوئی۔اس  ‘سرد جنگ’ کے دوران دنیا خاص طور پر مسلم دنیا نے بڑی تباہی دیکھی اور آج بھی دیکھ رہی ہے۔انہیں ایک پلیٹ فارم پر لانے کی ذمہ داری اسرائیل نے لی ہے جس کی مسلم دنیا سے عداوت کسی سے مخفی نہیں ہے۔

اسرائیلی وزیراعظم بنجامین نیتن یاہو نے جون کے آخری ہفتہ میں امریکہ، روس اور اسرائیل پر مشتمل سربراہ اجلاس بلانے کا اعلان کیا ہے۔ اسی خبر کا حصہ یہ بھی ہے کہ 30؍مئی کو امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے مشیر جیریڈ کوشنر نے اسرائیلی وزیراعظم سے ان کے دفتر میں ملاقات کی اور سنہ 1967ء کے بعد پہلی بار امریکہ کا تیار کردہ اسرائیل کا نقشہ نیتن یاہو کو پیش کیا جس میں مقبوضہ وادی گولان کو اسرائیلی ریاست کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔اسی خبر میں امریکہ کے حوالے سےیہ بھی کہا گیا ہے کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کےدرمیان تنازع کے حل کا سیاسی پہلو فی الحال صیغہ راز میں ہے اور مناسب وقت پر اس کا اعلان کیا جائے گا۔ اس خبر کا یہ حصہ تو اور بھی دلچسپ ہے کہ امریکی ایلچی جیریڈ کوشنر کی سربراہی میں یروشلم میں نیتن یاہو کے دفتر میں ان سے ملاقات کرنے والے وفد میں مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی امن مندوب جیسن گرین بیلٹ  اور امریکہ میں اسرائیلی سفیر رون دیرمر کے علاوہ  ایران کے لیے امریکی ایلچی برائن ہُک بھی شامل تھے۔ ایران کے لیے امریکی ایلچی برائن ہُک اس کے بعد سعودی عرب بھی آئے تھےجہاں انہوں نے عرب سربراہ کانفرنس یعنی حالیہ اسلامی سربراہ اجلاس ( مکہ سمٹ)میں بھی  شرکت کی تھی۔ عرب سربراہ کانفرنس میں شرکت سے پہلے انہوں نے میڈیا سے بھی گفتگو کی تھی۔اس موقع پر انہوں نے کہا تھا کہ "اگر ایران نے ہمارے مفادات کو نقصان پہنچایا تو اس کا فوجی طاقت سے جواب دیا جائے گا……ہمیں یقین ہے کہ ایران کو پیغام پہنچ گیا ہے۔ ہمیں اپنے مفادات کو نقصان پہنچائے جانے کا بہت زیادہ خطرہ اور خدشہ تھا مگر فی الحال ایران ایسی کوئی کارروائی نہیں‌ کر سکا ہے”۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ "اگر ایران ہمارے ساتھ بات چیت کرتا ہے تو ہم تیار ہیں”۔ انہوں‌ نے سعودی عرب میں تیل پائپ لائنوں، آئل پمپنگ اسٹیشنوں اور امارات میں تیل بردار جہازوں پر ایرانی ایجنٹوں کے ذریعے کرائے گئے حملوں‌ کی بھی شدید مذمت کی۔ قبل ازیں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ ایران ایک کمزور ملک بن چکا ہے جو ہمارے ساتھ سمجھوتے کی کوشش کر رہا ہے۔ایک طرف بین الاقوامی برادری کی پالیسیاں اور عزائم ہیں اور دوسری طرف مسلم دنیا کا عمل، ان کے مابین جاری مباحث اور رسہ کشی ہے۔ مسلم دنیاعلانیہ اور  درپردہ کیا کر رہی ہے اور کن باتوں میں الجھی ہوئی ہے یہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ مسلم دنیا کی دو طاقتیں  ایک طویل عرصہ سے باہم دست وگریباں ہیں ۔ پورے خطہ میں اپنے علاقہ اور دائرۂ اثر کو بڑھانے کی پرزور اور پرتشدد کوششوں میں مصروف ہیں۔اس وقت تو ان کے مابین عداوت آسمان چھورہی ہے لیکن طرفہ تماشہ یہ ہے کہ  دونوں ہی علانیہ اور غیر علانیہ  عالمی طاقتوں اوراغیار سے کمک حاصل کر رہی ہیں۔ یہ عالمی طاقتیں مفادات اور دائرۂ اثر کے لئے خواہ کتنا ہی باہم پنجہ آزمائی کر رہی ہوں لیکن  جب بات مسلم دنیا اور اسلام کی آتی ہے تو یہ اپنی ذات اور مفادات کو درکنار کرتے ہوئے اسلام دشمنی میں ایک ہوجاتی ہیں اور مشترکہ عزائم کے تحت کام کرنے لگتی ہیں۔

 اسلام دشمنی کی آگ ہر چھوٹے بڑے کو ایک کردیتی ہےاس کی مثالیں ایک نہیں ہزاروں میں ہیں اور ہر خطہ میں ہیں۔اسرائیل کی سربراہی میں امریکہ اور روس کا ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا اور ایران کے لیے امریکی ایلچی برائن ہُک کا اسرائیلی وزیر اعظم سے ملنے والے وفد میں شامل ہونا، اس کے بعد اسلامی سربراہ اجلاس ( مکہ سمٹ)میں بھی  شرکت اور ایران  سے  بھی رشتہ یہ اس بات کی وضاحت کے لئے کافی ہے کہ مسلم دنیا کس طرح سے اغیار کے ہاتھوں کھلونا بنی ہوئی ہے۔ ایران اور سعودی عرب ایک طویل عرصہ لاحاصل اور غیر اسلامی ایشوز پر ایک دوسرے سے دست وگریباں ہیں اور پوری دنیا میں اپنے اپنے حمایتی تلاش کرتے پھر رہے ہیں ۔جب کہ قرآن نے بتا رکھا ہے کہ اغیار کو اپنا دوست ہرگزنہ پاؤ گے اس کے باوجود یہ اسی راہ کو اختیار کئے ہوئے ہیں۔ حالیہ پے درپے اجلاس بھی اسی ضمن میں ہی کی جانے والی کوششوں کا ہی حصہ ہیں جن میں باہمی عداوت ونفرت کی باتیں ہورہی ہیں۔ کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ اس کی جگہ یہ دونوں ممالک مسلم دنیا کے ساتھ مل بیٹھتے اور آپسی اختلافات کو دور کرنے کے ساتھ ہی ملت کو درپیش مسائل پر تبادلۂ خیال کرتے۔

تبصرے بند ہیں۔