اعتکاف کے فضائل

آبیناز جان علی

اور جب ہم نے کعبہ کو لوگوں کے لئے عبادت گاہ اور امن کی جگہ بنایا اور فرمایامقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بنائو اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل سے عہد لیا کہ میرے گھر کوطواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع کرنے والوں اور سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو۔

اعتکاف رسولؐ کی سنتوں میں شامل ہے جس کا مطلب کسی خاص مقصدکے لئے یعنی اللہ عز وجل کی عبادت کے لئے مسجد میں قیام کرنا ہے۔  ہجرت کے بعد اور آغوشِ لحد میں آنے تک آپؐ نے اعتکاف کی روایت کو کبھی ترک نہیں کیا۔اعتکاف کے کئی مخفی فوائد ہیں اور اس میں کئی حکمتیں بھی پنہاں ہیں ۔ دینا و مافیہا دل کو زنگ آلود کرتاہے۔  اشیائے خوردونوش، جماع و مباشرت، زیادہ گفتگو میں منہمک رہنا، زیادہ سونااور لوگوں سے زیادہ میل جول بڑھانے سے دل تذبذب کی حالت میں خدا کی عبادت سے غافل رہتا ہے۔  اس لئے ربِ کریم نے اس قلب کی حفاظت کے لئے روزہ رکھنے کا حکم دیا تاکہ دینوی لذتوں کی محرومی سے دل اثر پذیر ہوسکے اور خدا کی خوشنودی حاصل کر کے مضبوط تر ہوجائے اور دنیا کے کھیل تماشوں اور مکر وفریب سے مبرہ ہو کر آخرت کے بارے میں سوچ سکے۔

روزے کی طرح اعتکاف بھی ایک ڈھال ہے جو زیادہ میل جول سے پیش آنے والی ژولیدگی سے نجات دلاتا ہے۔  زیادہ میل جول، زیادہ کھانے پینے کی طرف ماہل ہونے سے انسان کو نقصان پہنچتا ہے۔  اس سے حسد، جلن، بغض، ریاکاری، خود کو بہتر ثابت کرنے کا مقابلہ، احساسِ کمتری اور احساسِ برتری کی آبیاری ہوتی ہے۔  اعتکاف کی حالت میں انسان کم باتیں کرتا ہے اور دن بھرروزہ رکھتا ہے راتوں کو عبادت کرتا ہے، قرآن کی تلاوت کرتا ہے، ذکر کرتا ہے اور دعا طلب کرنے میں مصروف رہتاہے۔  اعتکاف میں بندہ کم سوتا ہے اور زیادہ سے زیادہ کوشش کرتا ہے کہ اللہ کی رضا پالے اور اس کے قریب ہوجائے۔  وہ مختلف عبادتوں میں ڈوبا رہتا ہے۔  یہ یقینا بڑی کامیابی ہے۔

اعتکاف اور روزہ لازم و ملزوم ہے اسی لئے عائشہؓ نے فرمایا: روزے کے بغیر اعتکاف نہیں ۔  (سنن ابی دائود)

حدیثِ مبارکہ کے مطابق آپ ؐ نے ہمیشہ روزے کی حالت میں ہی اعتکاف کیا ہے۔  مسجد میں معتکف کے لئے کوئی ایسی چیز نہیں جو اسے خدا کی یاد سے غافل کرے۔  آپ ؐنے شبِ قدر کی تلاش میں رمضان کے پہلے عشرے میں اعتکاف کیاتھا، اس کے بعد دوسرے عشرے میں بھی آپؐاعتکاف میں بیٹھ چکے تھے اورآخرکار ان کے لئے جب واضع ہوگیا کہ شبِ قدر کو رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کیا جانا چاہئے آپ نے آخری دس دنوں میں اعتکاف کرنا شروع کیا۔

جس سال آپؐ کی زندگی کا آخری سال تھا آپ ؐ نے رمضان کے آخری بیس دن اعتکاف میں گزارے۔  اس کی کئی وجوہات ہیں ۔ اس سال جبرئیل ؑ نے دومرتبہ آپ سے قرآن کی تلاوت کرائی۔  چنانچہ اعتکاف میں رہنے سے دوبار ختم القرآن کرنا آپؐ کے لئے عین مناسب تھا۔  آپؐ اپنے اعمالِ صالحہ میں اضافہ کے متمنی تھے کیونکہ آپ ؐ کو محسوس ہوا کہ موت کا وقت قریب آگیا ہے۔

جب اللہ کی مدد اور فتح آچکی۔

اور آپ نے لوگوں کو اللہ کے دین میں جوق در جوق داخل ہوتے دیکھ لیا۔

تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیجئے اور اس سے معافی مانگیے، بے شک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔

ان آیات کی روشنی میں اللہ نے اپنے پیارے نبی رسولؐ کو اپنی زندگی کی آخری منزل میں تسبیح اور استغفار کا درس دیا اور آپؐ نے حکم کی تعمیل کی۔  اپنی زندگی میں اللہ کی فراہم کردہ بے شمار عنایتیں جیسے جہاد، اسلامی علم، روزہ، قیام اللیل، قرآن کا نازل ہونا، شہرتِ دوام پاناور دیگر عنایتوں کے لئے آپ ثنائے خدا میں محو رہتے۔  احادیث کے حوالے سے رسولؐ کی سنتوں پر مندرجہ ذیل نکات سامنے آتے ہیں۔

آپ ؐ ایک خیمے میں اعتکاف فرماتے اور گیارہویں یا اکیسویں روزے کے غروبِ آفتاب سے پہلے اپنے خیمے میں داخل ہوتے۔

اعتکاف کے دوران آپ ؐ اپنا سر عائشہؓ کے حجرے کے اندر کردیتے اورآپؓ  ان کے مبارک سر کو دھوتیں اور کنگھی کرتیں ۔  چنانچہ اعتکاف کے دوران خود کو صاف رکھنا، خوشبو لگانا، بالوں کو دھونا اور کنگھی کرنا جائز ہیں ۔  اعتکاف کے دوران آپ  ؐ کی زوجہ صفیہ بنت حئی  ؓ آپؐ سے ملنے آئیں ۔  آپ نے ان سے باتیں کیں اور ان کو مسجد کے دووازے تک چھوڑا۔ اس لئے اعتکاف کے دوران اپنے اہلِ خانہ سے مختصر ملاقات اور بات بھی ہوسکتی ہے لیکن باتیں کھڑے کھڑے کی جانی چاہئے بیٹھے ہوئے نہیں ۔

رسولؐ جب مسجد میں گوشہ نشینی اختیار کرتے تو آپ اپنا بستر مسجد میں لگواتے۔  آپؐ خیمہ لگاتے تھے اور نماز کے لئے باہر آتے۔  آپ ساراوقت مسجد میں گزارتے اور صرف پاخانہ استعمال کر نے کے لئے نکلتے اور عائشہؓ کی روایت کے مطابق سخت ضرورت پڑنے پر ہی آپ گھر میں اعتکاف کے دوران قدم رکھتے۔  آپؐکے کھانے پینے کی چیزیں آپ کے اعتکاف گاہ پر پہنچا دی جاتی تھیں ۔  اعتکاف کے دوران آپؐ مریض کی عیادت اور جنازے میں شرکت نہیں کرتے تاکہ آپؐ صرف اطاعتِ الٰہی میں ایمان افروز لمحات گزارتے۔

اعتکاف کا مقصد شبِ قدرکو حاصل کرنا ہے۔  اعتکاف میں اللہ کے برگزیدہ بندے اس کی عبادت و بندگی میں کمر کس لیتے ہیں ۔  اعتکاف میں آپ ؐ اپنی جسمانی ضروریات کا بھی خیال رکھتے۔  اعتکاف کی حالت میں انسان دنیوی چیزوں سے کنارہ کشی کرتا ہے اور دنیا کے حالات کو بالائے طاق رکھ کر خلوت میں حوصلہ جٹاتا ہے تاکہ وہ اعتکاف کے بعد دنیا کے مسائل کا سامنا کرسکے۔

اعتکاف کی تین قسمیں ہیں ۔  واجب اعتکاف میں نذر و منت کے پورا ہونے کا اعتکاف۔  مسنون اعتکاف سنت معکدہ ہے جو رمضان کے آخری عشرے میں رکھا جاتا ہے۔ اور نفل اعتکاف کے لئے کوئی مقدار مقرر نہیں ۔  اعتکاف میں معتکف ہر چیز سے دست بردار ہوتا ہے اور اعتکاف کے ذریعے بندہ اللہ کے قریب ہوجاتا ہے اور خدا اسے بیش بہا انعام و اکرام سے نوازتا ہے۔ اعتکاف صرف مسلمانوں کے لئے ہے۔  اعتکاف کے لئے طہارت لازمی ہے ورنہ مسجد میں قیام کرنا ممکن نہیں ۔

اعتکاف اسی مسجد میں کی جاتی ہے جہاں پانچ وقت کی نمازوں کے ساتھ ساتھ جمعہ کی نماز بھی ادا ہوتی ہے۔ مسجد نبوی، مسجد الحرام اور مسجد الاقصیٰ میں اعتکاف کرنا سب سے بہترین مانا جاتا ہے۔

اعتکاف کی حدود کی پابندی سے بندہ خدا کے فضل و کرم سے مالامال ہوتا ہے۔  اعتکاف کے دوران عابد قرآن کی تلاوت اورذکرِ الٰہی میں اپنا وقت صرف کرتا ہے۔  وہ غلط اعمال و اقوال سے پرہیز کرتا ہے۔ وہ جھگڑا فساد، گالی گلوچ اور محش اور ناشائستہ کلمات سے دور رہتا ہے۔  اعتکاف انسان کی یاد دہانی کرتا ہے کہ ایک اچھا مسلمان ان باتوں سے دوررہتا ہے جس سے اس کا کوئی مطلب نہیں ۔  دوستوں کے ساتھ وقت کی بربادی منع ہے۔   اعتکاف پر جانے سے پہلے تمام فرائض کو پورا کرنا اور ملازمت کے تمام کام انجام ختم کئے جاتے ہیں  تاکہ بارگاہِ خداوندی کے علاوہ دیگر چیزوں سے عقل و شعور بے فکر رہے۔  اعتکاف سے انسان صحیح معنی میں غلام ہوجاتا ہے اور اسے یاد آتا ہے کہ وہ دنیا میں کیوں لایا گیا ہے اور اس کا اصل مقصد کیا ہے۔

’’ اور میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اسی لئے پیدا کیا کہ وہ میری بندگی اختیار کریں ۔‘‘ ۵۶:۵۱

اعتکاف میں انسان اپنی پوری روح اور اپنا سارا وقت خدا کے حوالے کرتا ہے۔  وہ ہر وقت اسی کوشش میں لگا رہتا ہے کہ اس کا خالق و رازق اس سے خوش ہو۔ اس لئے وہ ہمہ وقت جسمانی اور نفسانی مشقت سے اوراد و اذکار اور تلاوتِ کلامِ پاک میں لگا دیتاہے۔  وہ فرض اور نوافل کی نمازیں پڑھتا ہے اوربارگاہِ رب العزت میں التجائیں اور دعائیں پیش کرتا ہے ۔اعتکاف کرنے والا صلاۃ جنازہ اور جمعہ کی نماز میں شامل ہوسکتا ہے ۔

رمضان کے ان بہترین دنوں میں حاصل کی گئی تربیت سے وہ عبودیت اور عبادت گزاری کو اپنی ذاتی اور دنیاوی زندگی میں جگہ دے پاتا ہے ۔ وہ خود وکو یاد دلاتے ہیں کہ: ’تمہارا معبود خدائے واحد ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں (وہ) نہایت مہربان، بہت رحم فرمانے والا ہے۔

اعتکاف انسان میں نظم و ضبط پیدا کرتا ہے۔  شروع میں دنیا کے کاروبار سے فہم و ادراک کو دور رکھنا مشکل معلوم ہوتا ہے لیکن پھر بھی اللہ کے گھر اس کے مہمان بننے سے ذہنی سکون نصیب ہوتا ہے اور اللہ کے حفظ وامان میں پناہ لیتے ہوئے معتکف عرفان و معرفت کی دہلیز تک رسائی پاتا ہے۔مسجد میں وہ اللہ کے گھر کی قدر کرنا سیکھتا ہے اور جو اللہ کے گھر سے محبت کرتا ہے قیامت کے دن اللہ اپنے عرش کا سایہ نصیب فرمائے گا، اس دن جب اللہ کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہیں ہوگا۔

جب ایک انسان مسجد میں نماز کا منتظر رہتا ہے اسے نمازکے انتظار کے لئے بھی ثواب ملتا ہے اور فرشتے اس کی مغفرت کی دعا مانگتے ہیں ۔

ابو ہریرا سے روایت ہے

’’فرشتے ایسے نمازی کے لئے اس وقت تک دعا کرتے رہتے ہیں جب تکوہ اپنی نماز کی جگہ بیٹھا رہے فرشتے یہ دعاء کرتے ہیں ’’ یا اللہ اس پر رحم فرما، یا اللہ اس کے گناہ معاف فرما، یا اللہ اس پر نظرِ کرم فرما‘‘ فرشتے اس وقت تک دعا کرتے ہیں جب تک وہ اذیت نہ دے یعنی اس کا وضونہ ٹوٹے  (صحیح مسلم)

اعتکاف میں بندہ آرام و آسائش کو ترک کر کے دنیا میں اجنبی بن جاتا ہے۔  اللہ کی خوشنودی پانے کے لئے وہ مسجد کے ایک کونے میں ایک تکیہ اور ایک چادرپر اکتفا کرتا ہے اور صرف اللہ کی جزاء کے لئے اپنے معمول کو ردکردیتا ہے۔  اور جہاں تک کھانے پینے کا سوال ہے وہ ایک غریب غلام کی طرح خلوت میں کھاتا ہے جہاں بیوی بچوں اور اپنے خاندان کی محبت سے وہ محروم رہتاہے۔  وہ کم چیزوں پر اکتفا کرتا ہے۔  اعتکاف میں بری عادتیں چھوٹ جاتی ہیں جیسے سگریٹ نوشی، موسیقی سننا، ٹیوی پر ایسے پروگرام دیکھنا جہاں شرم و حیا اور تہذیب و اخلاق شرمندہ  ہوتے ہیں ۔

اعتکاف کی حالت میں ضرر رساں اور سودمند چیزوں پر تدبرو تفکر کا موقع ملتا ہے۔  زندگی کی بے معنی چیزوں کی گرفت سے خود کو آزاد کرنا ہے۔  بندہ اپنے خالق کے ساتھ اکیلا ہے اور اس میں تقویٰ بیدار ہوتا ہے اور وہ اپنے ظاہر و باطن میں خدا کی یاد سے غافل نہیں رہتا۔  خدا کی محبت اس کے لئے اس قدر اہم ہو جاتی ہے کہ وہ کسی کو دھوکا نہیں دے گا اور نہ ہی جھوٹ، مکر و فریب کو اپنے پاس آنے دے گا۔  اور یہ عادت اسے صراط المستقیم پر لے جاتی ہے۔

یہ توبہ کرنے کا وقت ہے اور گناہوں کی دلدل سے نکلنے کا وقت ہے۔یہ اپنے نفس سے جہاد کا وقت ہے۔اللہ کی مسلسل عبادت میں صبر و تحمل کی ضرورت ہے جو روح کو صحیح جانب بڑھنے کی تربیت کرتا ہے۔  آرام و آسائش سے دور رہنے سے بھی صبر تحمل اجاگر ہوتا ہے۔  یہاں گھر کا چین اور دیگر سہولتیں نہیں ۔  اپنے سے دور رہنے سے رشتوں کی اہمیت کا بھی علم ہوتا ہے۔

غرض کہ اعتکاف سے ذہنی سکوں ملتا ہے۔  یہ قرآن کی تلاوت اور اسے مکمل کرنے کا وقت ہوتا ہے۔  یہاں بندے کی آہ وبکا کی رسائی براہِ راست اللہ تک پہنچتی ہے ۔ اس کی راتیں عبادت میں گزارتی ہیں اوروہ اپنا سارا وقت اچھائی میں صرف کرتا ہے ۔  اس طرح اس کی روح کا تذکیہ ہوتا ہے اور اس کا دل خدا کی یاد سے پاک وصاف رہتا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔