ہر آنگن میں خوشیوں بھرا سورج اترے

عاصم طاہر اعظمی

ماہ رمضان کا اختتام عیدالفطر پر ہوتا ہے ایک مہینے کے روزوں نے اہل اسلام کو اپنے ایمان اور اعمال کا جائزہ لینے کا موقع دیا  جن خوش نصیبوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا انھوں نے اپنے دل کی کھیتی میں تقویٰ کی نعمت کی آبیاری کا انھیں موقع ملا تھا کہ وہ اپنی دین کے ساتھ وابستگی کو مزید گہرا کر لیں اور انھوں نے اسے ضائع نہیں کیا، یہ مہینہ خدا کی کتاب کا مہینہ ہے جنہوں نے اس مہینے میں اس کی تلاوت کی  اس سے یاد دہانی حاصل کی  اس کی تعلیمات کو اختیار کرنے کے عہد کی پھر سے تجدید کر لی ہے۔ لاریب، یہی لوگ اس کا استحقاق رکھتے ہیں کہ ان کی عید کو عید قرار دیا جائے۔

تہوار ہر قوم کی سماجی زندگی کا ایک اہم عنصر ہوتے ہیں لیکن ان تہواروں کا پس منظر بالعموم اس دنیا سے وابستہ ہوتا ہے تہوار کے دن دنیوی کامیابیوں یانعمتوں کے حصول کے مواقع ہوتے ہیں لیکن اسلام کے دونوں تہوار خدا کے ساتھ بندے کے تعلق کی نسبت سے منائے جاتے ہیں۔ عید الفطر رمضان یعنی اللہ کے لیے گزارے گئے مہینے کی عید ہے عیدالاضحی در حقیقت، خدا کی خاطر قربانی کے جذبے کا مظہر ہے چنانچہ ضروری ہے کہ مسلمان اپنا یہ تہوار، اپنے اسلام اور ایمان کے شایان شان منائیں۔

 عید کا آغاز 624ء  میں ہوا۔ نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے پہلے اہلِ مدینہ دو عیدیں مناتے تھے،جن میں وہ لہوو لعب میں مشغول رہتے تھے اور بے راہ روی کے مرتکب ہوتے تھے۔ آپ صل اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ ان دونوں کی حقیقت کیا ہے؟لوگوں نے عرض کیا کہ عہدِ جاہلیت سے ہم اسی طرح دو تہوار مناتے چلے آرہے ہیں۔آپ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! اللہ تعالی نے اس سے بہتر دو دن تمہیں عطا کیے ہیں،ایک عید الفطرکا دن اور دوسرا عید الاضحی کا دن(ابوداؤد:1134)

رسول اکرم صلی اللہ وسلم نے عید کے دن خاص طور سے غریبوں، مسکینوں اور ہمسایوں کا خیال رکھنے کی تاکید فرمائی، اور عید کی خوشی میں شریک کرنے کیلئے صدقہ فطر کا حکم دیا تاکہ وہ نادار جو اپنی ناداری کے باعث اس روز کی خوشی نہیں منا سکتے اب وہ بھی خوشی منا سکیں۔

ہمیں غریبوں، یتیموں، مسکینوں اور بیواؤں کو بھی اپنی خوشیوں میں شامل کرنا چاہیے تاکہ رب کی رحمتیں ہمارا مقدر بنیں۔

  ہمیں عید کا اس قدر باریک چاند نظر آجاتا ہے لیکن افسوس وہیں ہمارے ارد گرد گاؤں اور پڑوس میں بہت سے ایسے بھی گھر ہوتے ہیں جہاں غربت کی وجہ سے عید کی خوشیوں کے نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی ہے ان میں وہ معصوم یتیم بچے بھی ہوتے ہیں جن کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ وہ بچے بھی ہوتے ہیں جنہوں نے کبھی عید کی خوشیاں نہیں دیکھی ہوتیں۔ ان میں وہ مجبور اور بیوہ خواتین بھی ہوتی ہیں جو پُر فتن دور میں اپنی عزت کی حفاظت کرتے ہوئے صرف دو وقت کی روٹی کی دوڑ میں ہوتی ہیں۔ ان میں وہ مائیں اور بیٹیاں بھی ہوتی ہیں جنہیں گردشِ حالات نے آگھیرا ہوتا ہے۔ ان میں وہ بوڑھے اور معذور لوگ بھی ہوتے ہیں جو صرف اس لیے بھاگ دوڑ کرتے ہیں کہ ان کے بچے بھی عید کی خوشیوں میں شامل ہوسکیں۔ ہر مانگنے والا بلا ضرورت کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا۔ کس کے گھر کی کیا مجبوری ہے ہم نہیں جان سکتے۔ بعض لوگ سفید پوش ہوتے ہیں جو کسی کے آگے سوال نہیں کرتے۔ جبکہ بعض ایسے ہوتے ہیں جو اپنی مجبوری ظاہر کرکے اپنی ضرورت پوری کرلیتے ہیں۔اور بعض نہ تو ضرورتمند ہوتے ہیں اور نہ ہی مستحق ہوتے ہیں لیکن پھر بھی مانگتے پھرتے ہیں۔ لہٰذا فی زمانہ زکوٰۃ اور صدقات دیتے وقت اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ آپ کا مال اور زکوٰۃ مستحقین تک پہنچے۔ اگر آپ کے اندر غریبوں کی مدد کرنے کا جذبہ ہے تو اس کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ خود تھوڑی سی محنت کرکے ایسے لوگوں کو تلاش کریں جو کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ عرف میں جنہیں سفید پوش کہاجاتا ہے۔ جو پانی پی کر روزہ رکھتے ہیں اور پانی پی کر ہی روزہ کھولتے ہیں لیکن کسی آگے دستِ سوال دراز نہیں کرتے۔ جو کچھ گھر میں میسر ہوتا ہے کھاپی کر گزارہ کرلیتے ہیں لیکن کسی دوسرے کو اپنی مجبوری اور غربت کا احساس تک نہیں ہونے دیتے ہیں اگر واقعتاً اللہ کی رضا کے لیے غریبوں کی مدد کرنی ہے تو نمودو نمائش کا کیمپ لگانے اور جانوروں کی طرح بھیڑ لگانے کے بجائے اپنے رشتہ داروں، گلیوں اور محلوں میں سفید پوش لوگ تلاش کریں اور ان کی اس طرح مدد کریں کہ ان کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔انہیں ذلت محسوس نہ ہو۔ خاموشی کے اس عمل سے شہرت تو نہیں ملے گی لیکن قلبی و روحانی تسکین ضرور ملے گی۔اور حقیقی ضرورت مندوں کی باعزت طریقے سے مدد کرنے پر ان کے دل سے جو دعائیں نکلیں گی تو وہ جلد ہی قبولیت کے درجے پر فائز ہوں گی۔ ویسے بھی صدقہ دینے کا حکم تو یہ ہے کہ صدقہ چھپا کر دیا جائے یہاں تک کہ بائیں ہاتھ کو بھی معلوم نہ ہو کہ کتنا صدقہ کیا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں چھپاکر صدقہ کرنے کے بجائے تشہیر  کرکے صدقہ کیا جاتاہے۔ زکوٰۃ کو تو احسان سمجھ کر دیا جاتا ہے۔ حقیقت میں یہ ریاکاری کہلاتا ہے۔ اس سے خلوص ختم ہوجاتا ہے

 *آؤمل کر مانگیں دعائیں ہم عید کے دن

باقی نہ رہے کوئی بھی غم عید کے دن

ہر آنگن میں خوشیوں بھرا سورج اترے

اور چمکتارہے ہر آنگن عید کے دن* 

 اسلامی تعلیمات میں اس بات کو بڑی اہمیت دی گئی ہے کہ بندہء مومن جو بھی کام کرے وہ اللہ کے لیے کرے، اس کا دل اخلاص کے جذبے سے سرشار ہو، اس کا مقصد اللہ کی رضاجوئی اور خوشنودی کا حصول ہو۔ خاص طور پر غریب کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔ مختصر یہ کہ غریبوں کی مدد کریں، ضرور کریں، مگر با عزت طریقے سے کریں۔ انہیں غربت کا طعنہ نہ دیں۔ حق تعالیٰ جل مجدہ ہمیں سمجھنے اور عمل پیرا ہونے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمیــــن

تبصرے بند ہیں۔