برستی ہے آنکھوں سے برسات روشن

 جمال ؔکاکوی

برستی ہے آنکھوں سے برسات روشن

مرا دل منور مری رات روشن

اسی کی تجلی وہی ذات روشن

اسی کے جہاں میں کرامات روشن

دمکتی ہیں آنکھیں چمکتا ہے چہرا

ہوئے اپنی خاطر خرا بات روشن

بظاہر قلندر کی آنکھیں نہیں تھیں

سناتا رہا پر حکایات روشن

جوہے چاندروشن تو روشن ہے دنیا

نظر میں ہے ارض وسماوات روشن

نئے برگ ہوں گے نئے گل کھلے گیں

یہ امید کرتی ہے برسات روشن

بزرگوں کی باتیں بڑے کام کی ہیں

متاع گراں، ہیں ہدایات روشن

مقدر سے ملتا ہے ہم دم کسی کو

حسیں چاند چہرا خیالات روشن

شب تار میں ہو گیا ہے اجالا

جمالؔ آپ کے ملفوظات روشن

تبصرے بند ہیں۔