سود اور اس کی حرمت (قسط 7)

جمشید عالم عبد السلام سلفؔی

سود خوری اللہ اور اس کے رسول سے اعلانِ جنگ ہے

      تجارت اور سود کے مذکورہ فروق کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس بات پر بھی دھیان دیں کہ اللہ رب العزت نے نہایت واضح الفاظ میں سودی لین دین میں ملوث لوگوں کو یہ سخت وعید سنائی ہے کہ اگر لوگ سودی لین دین سے باز نہیں آتے تو پھر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے جنگ کرنے کے لیے آگاہ اور تیار ہو جائیں، یہ ایسا تہدیدی بیان ہے جو کسی اور معصیت کے بارے میں نہیں آیا ہے۔ اللہ رب العزت نے فرمایا :

      ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ ۞ فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ﴾

      ترجمہ : ’’اے ایمان لانے والو! اللہ سے ڈرو اور اگر تم واقعی مومن ہو تو جو کچھ سود میں سے باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو۔ اور اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے بڑی جنگ کے لیے آگاہ ہو جاؤ، اور اگر توبہ کر لو تو تمہیں تمھارا اصل مال لینے کا حق ہے، نہ تم ظلم کروگے اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا۔‘‘ [البقرۃ : 278-279]

      آیتِ کریمہ میں مومنین کو سود سے باز آجانے اور حرمتِ سود سے پہلے کا جو کچھ سود باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دینے کا حکم دیا جا رہا ہے اور اس سے روگردانی کی صورت میں اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ کے لیے آگاہ کیا جا رہا ہے۔ معلوم ہوا کہ سود کی حرمت سے پہلے سود سے حاصل کیا جانے والا مال لوٹانا ضروری نہیں قرار دیا گیا کیوں کہ یہ ایک مُتعِب عمل ہوتا اور اس کی بجا آوری انتہائی مشکل ہوتی چناں چہ زمانہ جاہلیت میں لیے گئے سود کو لوٹانے کا حکم نہیں دیا گیا۔ اور اس سے پہلے کی آیتِ کریمہ میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آجانے کے بعد جو شخص سود سے باز آجائے تو اس سے پہلے کے لیے گئے سود کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا بلکہ ﴿فَلَهُ مَا سَلَفَ﴾ ’’وہ اسی کا ہے جو پہلے ہو چکا‘‘ البتہ اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کرتے ہوئے انسان مقدور بھر اپنے پچھلے مظالم کی تلافی کی بھی کوشش کرے کیوں کہ یہاں یہ بات نہیں کہی گئی ہے کہ گذشتہ دور کا لیا ہوا سود معاف ہے بلکہ یہ بات کہی گئی ہے کہ اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے لہذا پچھلی گناہوں کی معافی کے لیے ضروری ہے کہ آئندہ کبھی سود کے قریب نہ جایا جائے تاکہ ماضی میں ہوئے غلطیوں کی معافی مل سکے کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آجانے کے بعد پچھلے گناہوں سے باز آجانے اور اس سے توبہ کر لینے سے کیے ہوئے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

﴿عَفَا اللَّهُ عَمَّا سَلَفَ﴾ ’’اللہ نے معاف کر دیا جو کچھ پہلے ہو چکا۔‘‘ [المائدة : 95]

      اور پھر آگے اوپر کی آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے سودی لین دین سے توبہ کر لینے کی صورت میں انسان کو اس کے رأس المال کا حق دار ٹھہرایا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہاں رأس المال سے کیا مراد ہے؟ بظاہر آیتِ کریمہ کے سیاق و سباق سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ حرمتِ سود سے قبل کا اس کا پورا مال و سرمایہ رأس المال ہوگا البتہ کسی کے ذمے اس کا سودی بقايا ہے تو وہ نہ اس کی وصولی کرے گا اور نہ وہ بقایا جات سودی مال اس کے رأس المال میں شمار ہوگا لیکن اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اپنے گناہوں کی معافی کے لیے ضروری ہوگا کہ اپنے پچھلے گناہوں اور مظالم کی ممکن حد تک تلافی کی جائے۔

     آج بھی اگر اس طرح کا کوئی معاملہ پیش آتا ہے تو اس کے لیے یہی حکم ہوگا مثلاً کوئی نیا شخص اسلام میں داخل ہوتا ہے تو اس کے لیے ہر طرح کا سود ترک کرنا ضروری ہوگا اور وہ کسی سے اپنا پرانا سودی بقایا جات طلب نہیں کرے گا البتہ اس کا کمایا ہوا سارا مال اس کا رأس المال ہوگا، یا یہ کہ کسی مسلمان شخص کو کسی کاروبار سے متعلق سودی ہونے کا قطعی علم نہیں تھا یا یہ کہ وہ حقیقت میں کسی شبہے میں پڑ کر مختلف طرح کے سودوں میں سے کسی سود کو حلال سمجھتا تھا اور جب حقیقت اس پر منکشف ہوئی تو وہ اس سے سچی توبہ کرنے کا خواہاں ہے تو اس کا پہلے والا سارا مال اس کا رأس المال قرار پائے گا کیوں کہ وہ اس کی حرمت سے قطعی نابلد تھا البتہ احتیاطاً کوشش یہی ہونی چاہیے کہ پہلے کے لیے ہوئے سود سے بھی کنارہ کشی اختیار کر لی جائے۔

      البتہ کوئی شخص سود کی حرمت کو جانتے بوجھتے ہوئے محض اپنے ڈھکوسلے اور خواہشِ نفس کی بنیاد پر یا اسے علما کا ذاتی رائے قرار دے کر پوری زندگی سودی معاملات میں ملوث رہا، سودی لین دین کرتا رہا، معاملے کو مشکوک سمجھتے ہوئے بھی اسی میں لگا رہا تو آخری عمر میں محض توبہ کر لینے سے وہ پرانا سودی مال اس کا رأس المال نہیں قرار پائے گا بلکہ اس کے لیے اللہ رب العالمین سے توبہ و استغفار اور اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کے ساتھ ساتھ مقدور بھر سودی مال اس کے مالکوں کی طرف لوٹانا بھی ضروری ہوگا اور جو کچھ بچ رہے تو وہ اس پر اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کرے، اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہوگا۔

      شیخ عبد الکریم خضیر حفظہ اللہ رأس المال والی آیتِ کریمہ کے مفہوم کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

      ’’یہ آیتِ کریمہ سودی تجارت میں داخل ہونے سے پہلے، اصلی سرمائے اور توبہ سے پہلے لیے گئے اموال، دونوں کا احتمال رکھتی ہے۔ پہلا احتمال ہی اکثر علما کا قول ہے جب کہ میرے نزدیک دوسرا احتمال راجح ہے، کیوں کہ ایک تو آیت اس معنیٰ کا احتمال رکھتی ہے، دوسرے یہ احتمال توبہ کرنے میں معاونت فراہم کرتا ہے، اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ سے خوش ہوتے ہیں، یہ بات عقل اور دین میں محال ہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو توبہ پر اکسائیں، بلکہ اسے واجب قرار دیں، پھر انھیں خود ہی اس سے روکیں بھی! یہ بات اس شخص کے معاملے میں روشن ہوکر سامنے آتی ہے، جو ایک طویل عرصے تک سودی لین دین کرتا رہا ہو، اس کے پاس مال کی کثرت ہو جائے، اس آدمی نے تجارت کی ابتدا سینکڑوں یا ہزاروں سے کی ہو پھر کئی سال تک یہ کام کرتا رہا ہو حتی کہ وہ کروڑپتی بن جائے، پھر اللہ تعالیٰ اسے سچی توبہ کی توفیق دے دے، تو اس سے کہا جائے کہ تیرا سرمایہ وہی دس بیس ہزار ہیں، لہذا تجھ پر اپنا سارا مال چھوڑ دینا اور اس گھر سے نکل جانا لازم ہو جاتا ہے، تیرا صرف وہی قلیل سا اصلی سرمایہ ہے، بہت سارے لوگ اس جیسی کیفیت کے متحمل نہیں ہو سکتے، وہ سود ہی پر مرنا پسند کر لیں گے لیکن اپنی پہلی فقیری اور درماندگی کی حالت کی طرف لوٹنا قطعاً برداشت نہیں کریں گے، اچھا بننے کے بجائے یہ شخص دوسروں کو بھی اچھا بننے سے روکے گا۔ بنا بریں اس جیسا اختیار دینا توبہ کرنے والوں کے لیے معاون ثابت ہو سکتا ہے لیکن جو مال اس نے توبہ سے پہلے نہیں لیا تھا اب اس سے، اپنے اصلی سرمائے سے زیادہ لینا جائز نہیں۔ والله المستعان (فتاویٰ عبدالکریم خضیر 1/11، بحوالہ 500سوال و جواب برائے خرید و فروخت ص: 174-175)

سود خوری پر شدید وعید کا سبب

      قرآن کریم کی مذکورہ بالا آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے سود خوروں کے متعلق ایسا سخت اسلوب اس لیے اپنایا ہے کیوں کہ :

      سود اسلامی تعلیمات کا نقیض اور اس سے براہ راست متصادم ہے اور اس کا حملہ بالخصوص اسلام کے معاشرتی اور معاشی نظام پر ہوتا ہے۔ اسلام ہمیں ایک دوسرے کا بھائی بن کر رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ وہ آپس میں مروت، ہمدردی، ایک دوسرے پر رحم اور ایثار کا سبق سکھاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ساری زندگی صحابہ کرام کو اخوت و ہمدردی کا سبق دیا اور ایک دوسرے کے جانی دشمن معاشرے کی، وحی الٰہی کے تحت اس طرح تربیت فرمائی کہ وہ فی الواقع ایک دوسرے کے بھائی بھائی اور مونس و غمخوار بن گئے۔ اس حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے ایک احسانِ عظیم شمار کرتے ہوئے اس کا تذکرہ یوں فرمایا ہے کہ:

      ﴿وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ﴾

      ترجمہ : ’’اور اللہ کی اس مہربانی کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اللہ نے تمھارے دلوں کو جوڑ دیا اور تم اللہ کی مہربانی سے بھائی بھائی بن گئے اور تم تو آگ کے گڑھے کے کنارے پر کھڑے تھے کہ اللہ نے تمھیں اس سے بچالیا۔‘‘ [آل عمران: 103]

      اور دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یوں خطاب فرمایا:

      ﴿وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ ۚ لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْۚ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ﴾

      ترجمہ : ’’اور اللہ تعالیٰ نے ہی ان صحابہ کرام کے درمیان الفت پیدا کردی۔ (اس طریق کار کے علاوہ) دنیا بھر کی دولت بھی خرچ کرتے تو ان کے دلوں میں الفت پیدا نہ کر سکتے مگر اللہ ہی نے ان کے دلوں میں الفت ڈال دی، بیشک وہ زبردست حکمت والا ہے۔‘‘ [الانفال: 63]

      اور یہ چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی کا ماحصل تھا۔ جب کہ سود انسان میں ان سے بالکل متضاد رذیلہ صفات مثلاً بخل، حرص، زر پرستی اور شقاوت پیدا کرتا ہے۔ اور بھائی بھائی میں منافرت پیدا کرتا ہے جو اسلامی تعلیم کی عین ضد ہے۔

      دوسرے یہ کہ اسلام کے معاشی نظام کا تمام تر ماحصل یہ ہے کہ دولت گردش میں رہے اور اس گردش کا بہاؤ امیر سے غریب کی طرف ہو۔ اسلام کے نظامِ زکوٰۃ و صدقات کو اسی لیے فرض کیا گیا ہے اور قانونِ میراث اور حقوقِ باہمی بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں۔ جب کہ سودی معاشرہ میں دولت کا بہاؤ ہمیشہ غریب سے امیر کی طرف ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے بھی سود اسلام کے پورے معاشی نظام کی عین ضد ہے۔[دیکھیں : احکامِ تجارت اور لین دین کے مسائل ص: 87، تیسیر القرآن جلد اول ص: 228-229]

      اسی لیے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں جو شخص سود پر مصر رہے اور اس سے باز نہ آئے تو مسلمانوں کے امام پر واجب ہے کہ اس سے توبہ کرائے، اگر باز آجائے تو ٹھیک ورنہ اس کی گردن مار دے۔ [تفسیر طبری 5/52] یہی رائے حسن بصری، ابن سیرین اور قتادہ وغیرہ کی بھی ہے۔

یہود کی سود خوری

      ادیانِ سابقہ میں بھی سود حرام و ممنوع تھا جب کہ یہود اپنی خباثت کی وجہ سے اس کا شکار تھے جس کے پاداش میں اللہ تعالیٰ نے ان پر بہت سی پاکیزہ چیزوں کو بھی حرام قرار دے دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

      ﴿فَبِظُلْمٍ مِنَ الَّذِينَ هَادُوا حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ طَيِّبَاتٍ أُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ كَثِيرًا ۞ وَأَخْذِهِمُ الرِّبَا وَقَدْ نُهُوا عَنْهُ وَأَكْلِهِمْ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ ۚ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا﴾

      ترجمہ : ’’تو ہم نے ان یہودی بن جانے والوں کے بڑے ظلم ہی کی وجہ سے کئی پاکیزہ چیزیں ان پر حرام کر دیں جو ان کے لیے حلال تھیں اور اللہ کی راہ سے بہت زیادہ روکنے کی وجہ سے۔ اور ان کے سود لینے کی وجہ سے جب کہ یقیناً انھیں اس سے روکا گیا تھا، اور لوگوں کے اموال باطل طریقے سے ان کے کھانے کی وجہ سے، اور ان میں سے کفر کرنے والوں کے لیے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘ [النساء : 160-161]

      مذکورہ آیات سے جہاں یہود کی نافرمانی و حرام خوری معلوم ہوتی ہیں وہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر سود کو حرام قرار دیا تھا، اور یہیں سے اس بات کی بھی وضاحت ہوتی ہے کہ اللہ کی حرمات کو پامال کرنے سے اللہ تعالیٰ اپنی دی ہوئی نعمتوں کو بھی بندوں سے چھین لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں پر سود کو حرام قرار دیا تھا مگر وہ لوگ مختلف حیلہ و بہانہ کے ذریعہ نہ صرف سود کھاتے تھے بلکہ اپنے باطل تاویل کے ذریعہ غیر یہودیوں سے مال ہڑپنے کو حلال بنائے ہوئے تھے اور پھر یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اس طرح کی حرام خوری پر گرفت نہیں ہوگی جیسا کہ ہمارے اس دور میں بھی بہت سے فقہا ہندوستان کو دار الحرب قرار دے کر حربی کافروں سے سود لینے کو جائز قرار دیتے ہیں بلکہ اسے کارِ ثواب بھی سمجھتے ہیں، ایسے لوگوں کو قرآن کریم اور احادیث میں بیان ہوئی یہودیوں کی دسیسہ کاریوں اور چال بازیوں پر غور کرنے اور اپنے فقہی موشگافیوں کا یہود کے اعمالِ بد سے موازنہ کرکے اپنے طرزِ فکر کو سدھارنے کی ضرورت ہے کہ کہیں انجانے میں وہ بھی یہودیوں والا طرزِ عمل تو نہیں اختیار کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کی حرام خوری اور مالِ غیر یہود ناجائز ذرائع سے ہڑپنے والی صفت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا :

      ﴿ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لَيْسَ عَلَيْنَا فِي الْأُمِّيِّينَ سَبِيلٌ وَيَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُونَ﴾

      ترجمہ : ’’یہ اس لیے کہ وہ (یہود) کہتے ہیں کہ امیوں (عربوں یعنی غیر یہودیوں) کے بارے میں ہم پر کوئی مواخذہ نہیں ہوگا اور وہ لوگ جانتے ہوئے بھی اللہ پر جھوٹ بولتے ہیں۔‘‘ [آل عمران : 75]

      دوسری جگہ فرمایا :

      ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ كَثِيرًا مِنَ الْأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ﴾

      ترجمہ : ’’اے ایمان لانے والو! یقیناً (اہلِ کتاب کے) بہت سے علما اور رہبان لوگوں کے اموال باطل طریقے سے کھاتے ہیں اور وہ لوگ (لوگوں کو) اللہ کی راہ سے روکتے ہیں۔‘‘ [التوبۃ : 34]

      سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

((قَاتَلَ اللَّهُ الْيَهُودَ، إِنَّ اللَّهَ لَمَّا حَرَّمَ شُحُومَهَا جَمَلُوهُ ثُمَّ بَاعُوهُ فَأَكَلُوا ثَمَنَهُ.))

      ترجمہ : ’’اللہ یہودیوں کو برباد کرے، بے شک اللہ نے جب ان پر چربی کو حرام قرار دیا تو ان لوگوں نے اس کو پگھلا کر بیچا اور اس کی قیمت کو کھایا۔‘‘ [صحيح بخاری کتاب البیوع باب بیع المیتۃ والاصنام، صحیح مسلم کتاب المساقاۃ باب تحریم بیع الخمر……]

      یہ حقیقت ہے کہ جس طرح آج یہود سودی کاروبار کے ٹھیکیدار ہیں نبوی دور میں بھی یہ لوگ اس جرمِ عظیم کا شکار تھے اور انھوں نے لوگوں کو سود در سود کی جال میں جکڑ رکھا تھا۔  (جاری)

تبصرے بند ہیں۔