اب کی بار سو کروڑ کی سرکار

محمد قاسم ٹانڈوی

چھتیس گڑھ میگھالیہ ہماچل پردیش میں اصولی و اخلاقی سیاست کا جنازہ نکالنے کے بعد بی جے پی کرناٹک میں بھی اپنی اسی پرانی روایت کو دہرا رہی ہے جس کے بل بوتے وہ آج ملک کی سب سے بڑی اور مضبوط سیاسی پارٹی ہونے کی دعویدار ہے۔ حالانکہ 2014 کے مرکزی الیکشن سمیت اب تک جہاں جہاں بھی انتخابات منعقد ہوئے ہیں ان سب میں اس کے ووٹ فیصد میں مسلسل گراوٹ آئی ہے ان جگہوں پر یا تو کانگریس پارٹی کا یا پھر مقامی پارٹی کا ووٹ زیادہ مضبوط رہا ہے۔

 اب چونکہ بی جے پی اخلاقی زوال کا شکار ہے اس کے پاس نہ تو کوئی لائحہ عمل ہے اور نہ کسی طرح کے اہداف و مقاصد سے اسے کوئی لینا دینا ہے، اسے نہ تو آسمان چھوتی بےلگام مہنگائی کی کوئی فکر ہے اور نہ روز بروز بگڑتے ملکی حالات سے کوئی لینا ہے اسے تو بس عوام کے سروں پر اپنی حکمرانی کی ساکھ جمانی ہے؛ وہ چاہے دھاندلی سے ہو، خرید و فروخت سے ہو یا ای وی ایم سے چھیڑ چھاڑ کرا کر ہو؟

اب کرناٹک الیکشن کے نتائج پر ہی غور کر لیجئےگا ذرا آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ بی جے پی کی پوری لابی یعنی اعلی درجے سے لےکر ادنی درجے تک اس کے ورکرز حصول اقتدار کی خاطر خود کو سطحیت کی کس دہلیز تک لے جا سکتے ہیں اور یہ پارٹی کس طرح قانونی سسٹم کو پیروں تلے روند کر جمہوری اقدار و روایات اور اس سے مربوط اداروں کو بے حیثیت و بےوقعت قرار دے کر عوام میں اپنا لوہا منوا سکتی ہے۔

کرناٹک کے حالیہ انتخابات میں ہرسہ پارٹی اکثریت کا عدد پانے میں ناکام رہیں یہ سب کو معلوم ہے؛ گرچہ بی جے پی یہاں سب سے زیادہ نشستوں پر فتح حاصل کرنے والی پارٹی رہی مگر اکثریت اب بھی اس کو حاصل نہیں ہے لیکن دوسری طرف کانگریس اور جے ڈی ایس جب باہمی طور پر اپنے سمجھوتہ کا اعلان کرکے حکومت سازی کا دعوی کرتی ہیں تو بی جے پی والے نو منتخب ایم ایل ایز کو توڑ کر اقتدار کی گیند اپنے پالے میں لانے کےلئے سو سو کروڑ کی سپاری پیش کرنے میں لگ جاتے ہیں تاکہ ‘کانگریس مکت بھارت’ کا خواب پورا ہو سکے اور کشمیر سے لےکر آسام تک اور گجرات سے لےکر مہاراشٹر تک اسی کی حکمرانی کا سکہ جاری ہو سکے اور پھر وہ اپنے من مانے طور پر جیسا سلوک عوام کے ساتھ کرے اسے اس پر کوئی روکنے ٹوکنے والا نہ رہے۔ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا آپ ایک جمہوری ملک کے اقتدار پر حکمرانی کر رہے ہیں اور جمہوریت کی شان یہ ہےکہ یہاں سب کو اپنی بات رکھنے، اپنے اختیار سے ارکان و افسران اور حکمراں منتخب کرنے کی آزادی حاصل ہے۔

جمہوریت میں اپنے دل کی بات دوسرے پر تھوپنا یا جہموری اقدار و روایات کی پامالی کرتے ہوئے من مرضی سے کام لینا، یہ سب زوال اسباب میں داخل ہیں اور پھر اقتدار کسی کے گھر کی جاگیر نہیں یہ آنے جانے والی شئ منقولہ دولت ہے جو آج اتفاق سے تمہارے ہاتھ میں ہے تو کل کسی اور کے قبضہ میں ہوگی۔ حالات یکساں نہیں رہتے اور نہ ہی جمہوریت کسی کو بار بار موقع فراہم کرتی ہے بلکہ جو بھی اس کے ادھیڑ بن میں لگا اس نے اسے قبل از وقت کنارے لگا دیا ہے، ہندوستان میں ایمرجنسی کا دورانیہ ہمسایہ ملک پاکستان میں پرویز مشرف کی زیادتیاں اور امریکہ میں بش راج اس کی واضح اور روشن مثالیں ہیں جن سے بہت کچھ سیکھا اور کیا جا سکتا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔