ادبی و ثقافتی تنظیم ‘خواب کدہ’ کا شان دار جشن افتتاح
نو تشکیل شدہ ادبی و ثقافتی تنظیم ‘خواب کدہ’ نے پولیس پبلک لائبریری،جامعہ نگر،نئی دہلی میں اپنے شعری سلسلہ ‘ادراک’ کے پہلے ایڈیشن کا نہایت خوب صورت اور شان دار انعقاد کیا.اس تنظیم کی داغ بیل جامعہ ملیہ اسلامیہ کے باذوق اور نفیس و نستعلیق طلبا زبیر عشق، احمد جمال اور عاصم حارث نے شعبہء ہندی، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے مشہور استاد اور شاعر ڈاکٹر رحمان مصور کی سرپرستی میں ڈالی ہے.خواب کدہ کا جشن افتتاح نہایت تزک و احتشام کے ساتھ منایا گیا. دہلی اردو اکیڈمی کے وائس چیئرمین پروفیسر شہپر رسول نے معززین،ادبا اور شعرا کی موجودگی میں شمع روشن کرکے یادگار محفلِ مشاعرہ کا افتتاح کیا.
اس موقع پر خواب کدہ کی جانب سے خوب صورت فریم میں شعرا اور شاعرات کی دلکش تصویروں والے طغرے سے ان کا پرتپاک خیرمقدم کیا گیا. پولیس پبلک لائبریری کے ڈائریکٹر محمد ندیم اختر نے اس پروگرام میں بھرپور تعاون کرتے ہوئے خواب کدہ کے اس اقدام کی پذیرائی کی.پروفیسر شہپر رسول کی صدارت اور ڈاکٹر رحمان مصور کی نظامت میں مشاعرہ منعقد ہوا .نمونہء کلام ملاحظہ ہو:
ہم آج میں بھی کل کے آداب دیکھتے ہیں
تعبیر آپ جانیں،ہم خواب دیکھتے ہیں
(شہپر رسول)
سکون ملتا ہے ہر شے کو اپنے محور پر
زمین کتنی ادھوری ہے آسماں کے بغیر
(شبانہ نذیر)
اداسی کے ذرا پیچھے اجالا لگ رہا تھا
مجھے تو وہ محبت کرنے والا لگ رہا تھا
(شکیل جمالی)
قتل کا اتنا شور ہوا ہے
دیکھ رہا ہوں خود کو چھوکر
(معین شاداب)
جوشِ جنوں میں چاک گریبان کرلیا بے
بیکار اک قمیص کا نقصان کر لیا ہے
(عاصم پیرزادہ)
پچھلی شب خواب محبت کا دکھایا گیا تھا
صبح میں پیڑ سے لٹکا ہوا پایا گیا تھا
(رحمان مصور)
میں نے دیکھی ہیں تری بھی آنکھیں
صرف مجھ پر نہ لگا تہمتِ خواب
(خالد مبشر)
جشنِ تنویر بھلا کیسے مناوں بولو
دل کی دہلیز پہ بیٹھی ہے کوئی شام اداس
(صہیب فاروقی)
تمہیں نے مجھ سے کہا تھا یہ عشق وشق ہے کیا
تمہیں بتاؤ میں یہ زندگی کہاں لے جاؤں
(سالم سلیم)
رنگ بھرنا تھا شاعری میں اسے
مجھ سے نسبت تو ایک بہانہ تھا
(نینا سحر)
اکھڑ رہے تھے مری قبر کے سبھی پتھر
عجیب خواب تھا گھبرا کے کھل گئیں آنکھیں
(ترونا مشرا)
پتلیاں بھی زخمی ہیں، نیند کے بھی لالے ہیں
کس نے میری آنکھوں سے خواب نوچ ڈالے ہیں
(آشکاراخانم کشف)
تمہارے بعد کہیں خود کشی نہ کرلیں ہم
سو دیتے جائیے ہم کو قسم وسم ہی سہی
تبصرے بند ہیں۔