فقہ السنۃ:  فقہ اسلامی کی ایک شاہ کار تصنیف

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

          مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ مصری عالم شیخ سید سابق کی مشہور کتاب’ فقہ السنۃ‘ کا مکمل اردو ترجمہ ہو گیا ہے اور بہت جلد اس کی اشاعت متوقع ہے۔فقہ السنۃ عرصہ سے میرے مطالعہ میں رہی ہے اور فقہی مسائل کا جواب دینے کے دوران میں برابر اس سے استفادہ کرتا رہا ہوں۔ کچھ عرصہ قبل میرے علم میں آیا کہ شمالی ہند کی مشہور دینی درس گا ہ جامعۃ الفلاح، بلریا گنج، اعظم گڑھ کے شیخ الحدیث مولانا ولی اللہ مجید قاسمی اس کا ترجمہ کر رہے ہیں، پھر اس کی جلد اوّل کا ترجمہ دو حصّوں میں طبع ہوا تواسے بھی دیکھنے کا موقع ملا۔اب اس علمی پروجکٹ کے روحِ رواں جناب محمد خالد اعظمی نے خبر دی کہ الحمد للہ ترجمہ مکمل ہو گیا ہے اور اصل کتاب کے مثل ترجمہ کو بھی تین جلدوں میں طبع کرنے کا اردہ ہے تو میری خوشی دوبالا ہوگئی۔ یہ خبر دینے کے ساتھ انھوں نے خواہش کی کہ میں اس کے تعارف کے طور پر چند سطریں لکھ دوں۔ فقہ السنۃ اور اس کے مصنف کے بارے میں کچھ لکھنا میں اپنی سعادت سمجھتا ہوں، اسی بنا پر اس خواہش کی تکمیل کے لیے میں نے بلا ادنیٰ تامّل منظوری دے دی۔

          شیخ سید سابق کی ولادت مصر کے صوبے ’ منوفیہ‘ کے ایک گاؤں ’ اسطنہا‘ میں جنوری ۱۹۱۵ء/۱۳۳۵ھ میں ہوئی۔ ابھی وہ نو(۹) برس کے بھی نہیں ہوئے تھے کہ قرآن مجید حفظ کر لیا،پھر جامع ازہر میں ان کاداخلہ ہوا، جہاں سے ۱۹۴۷ء میں کلیۃ الشریعۃ سے عا  لمیت کی ڈگری حاصل کی۔ بعد میں ازہر سے وابستہ مختلف اداروں میں تدریسی خدمت انجام دی۔ جس زمانے میں شیخ احمد حسن باقوری مصر کے وزیرِ اوقاف تھے،شیخ سابق وزارتِ اوقاف کے تحت قائم ادارۃ الثقافۃ کے ڈائرکٹر بنائے گئے، لیکن بعد میں جب ڈاکٹر محمد البہی وزیر اوقاف بنے تو انھوں نے سید سابق کو ازہر بھیج دیا گیا۔ آخری برسوں میں شیخ مکہ مکرمہ منتقل ہو گئے تھے اور وہاں جامعہ ام القریٰ میں تدریس کی خدمت انجام دینے لگے تھے۔۱۹۹۳ء/ ۱۴۱۳ھ میں انھیں عالمِ عرب کے اعلیٰ ترین اعزاز’شاہ فیصل ایوارڈ‘ سے نوازا گیا۔ ۲۷؍ فروری ۲۰۰۰ء/۲۳؍ذی قعدہ ۱۴۲۰ھ میں ۸۵ برس کی عمر میں ان کا انتقال ہو گیا۔

          شیخ سید سابق کا تعلق زمانۂ طالب علمی ہی میں مصر کی مشہور تحریک ’ اخوان المسلمون‘ سے ہو گیا تھا اور وہ اس کے با ضابطہ رکن بن گئے تھے۔اخوان کی دینی تعلیم و تربیت میں ان کا اہم کردار رہا ہے۔ وہ ابتدا ہی سے فقہی ذوق کے حامل تھے۔وہ فقہی دروس تیار کرتے اور انھیں اخوان کے مختلف پروگراموں میں پیش کرتے۔ اخوان کے ترجمان ہفتہ وارمجلہ ’الاخوان‘ میں ’فقہ الطہارۃ‘ کے عنوان سے ان کے مختصر مقالات شائع ہوتے تھے۔مصری وزیر اعظم نقراشی پاشا کے قتل(۲۸؍ دسمبر ۱۹۴۸ء) میں جن اخوان پر مقدمہ چلایا گیا تھا ان میں شیخ سابق بھی تھے۔ ان پر الزام لگایا گیاکہ انھوں نے نقراشی کے قتل کے جواز کا فتویٰ دیا تھا۔لیکن عدالت نے ان کو بری کردیا۔ ۱۹۴۹ء میں جب اخوان کی پکڑ دھکڑ شروع ہوئی تووہ پھر گرفتار کر لیے گئے۔ جیل میں شیخ نماز فجر کے بعد فقہ کے حلقے چلاتے تھے اور ماثور دعائیں یاد کراتے تھے۔ سید سابق اخوان کے ’ نظام خاص‘ کا حصہ تھے۔انھوں نے ۱۹۴۸ء میں معرکۂ فلسطین میں حصہ لیا تھا اور اپنی شجاعت کے جوہر دکھائے تھے۔اس دوران میں وہ اخوان کی تعلیم و تربیت کرتے، انہیں جہاد پر ابھارتے اور خود بھی عسکری سرگرمیاں انجام دیتے۔ ایک مرتبہ مجلہ ’الاخوان المسلمون‘ کے ٹائٹل پیج پر ان کی ایک تصویر شائع کی گئی، جس میں وہ مجاہدین کے لیے لگائے ٹریننگ کیمپ میں اسلحہ چلانے کی مشق کر رہے تھے۔ اس تصویر کو دیکھ کر مشہور اخوانی دانش ور

المستشار عبد اللہ العقیل نے لکھا ہے:

          ’’ یہ عالم و فقیہ، جو مجلہ میں فقہی کالم لکھتا تھا،اس کی یہ تصویر دیکھ کر مجھ پر سراسیمگی طاری ہوگئی۔ میں نے اپنے جی میں کہا: علمائے سلف ایسے ہی ہوتے تھے۔ وہ ایک ہاتھ میں قرآن اٹھاتے تھے اور اس کے ذریعے دعوت و رہ نمائی کی خدمت انجام دیتے تھے اور دوسرے ہاتھ میں ہتھیار اٹھاتے تھے، تاکہ اس کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کی عزّت و ناموس کی حفاظت کریں۔ ‘‘

          شیخ سید سابق کی تصانیف درج ذیل ہیں :

          ۱۔فقہ السنۃ

          ۲۔العقائد الاسلامیۃ

          ۳۔اسلامنا

          ۴۔مصادر القوۃ فی الاسلام

          ۵۔الربا و البدیل

          ۶۔رسالۃ فی الصیام

          ۷۔رسالۃ فی الحج

          ۸۔ تقالید و عادات یجب أن تزول فی الأفراح و المناسبات

          ۹۔ تقالید و عادات یجب أن تزول فی المآتم

          ان کتابوں کے علاوہ ان کے بہت سے مقالات مختلف مجلات میں شائع ہوئے۔ ان میں سے بعض’ اخوان آن لائن‘ اور ’جماعۃ انصار السنۃ المحمدیۃ‘ کی سائٹس پر موجود ہیں۔

          شیخ کی تصانیف میں سب سے زیادہ شہرت و مقبولیت ’ فقہ السنۃ‘ کو حاصل ہوئی۔ اس کتاب کی تالیف میں شیخ کا منہج یہ تھا کہ فقہی مسلکی تعصب کا مظاہرہ نہ کیا جائے،احکام کے سلسلے میں کتاب و سنت اور اجماع سے دلائل ذکر کیے جائیں، احکام سے ساتھ ان کی حکمتوں کی بھی وضاحت کی جائے،مسائل بہت آسان زبان اور سہل اسلوب میں بیان کیے جائیں، تاکہ لوگوں کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہ پیش آئے، چنانچہ انھوں نے اس کتاب میں فقہی اختلافات کا کم سے کم تذکرہ کیا ہے۔ عموما ً راجح قول کو بیان کیا ہے۔ کہیں کہیں کسی رائے کو راجح قرار دیے بغیر کئی آرا ذکر کر دی ہیں اور قاری پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ جس رائے کو چاہے، اختیار کرلے۔ انھوں نے اپنے مختصر پیش لفظ میں لکھا ہے:

          ’’اس کتاب میں فقہ اسلامی کے مسائل کتاب اللہ، صحیح احادیث اور اجماعِ امّت کے دلائل کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں۔ بہت آسان اور سہل اسلوب میں ان بہت سے مسائل کا استیعاب کیا گیا ہے جن کی ایک مسلمان کو ضرورت ہوتی ہے۔ عموماً اختلافات کو بیان کرنے سے احتراز کیا گیا ہے، الّا یہ کہ کہیں اختلاف کو بیان کرنا ضروری ہو تو اس کی طرف اشارہ کر دیا گیا ہے۔ اس کتاب کے ذریعے فقہ اسلامی کی صحیح تصویر واضح ہوتی ہے، لوگوں کو کتاب اللہ اور سنّتِ رسول ﷺ کا صحیح فہم حاصل ہوتا ہے، اختلافات اور مسلکی تعصّب کا خاتمہ ہوتا ہے اور اس مہمل بات کی تردید ہوتی ہے کہ اجتہاد کا دروازہ بند ہو گیا ہے۔‘‘(ص۷)

          اخوان المسلمون کے بانی شیخ حسن البنّاسید سابق کی خدمات کو قدر کی نظر سے دیکھتے تھے اور ان کی صلاحیتوں کے بڑے معترف تھے۔۱۹۴۶ء/ ۱۳۶۵ھ میں فقہ السنۃ کا پہلا حصہ مختصر رسالہ کی شکل میں شائع ہوا تو اس پر حسن البنّا نے مختصر مقدمہ تحریر کیا۔ انھوں نے لکھا:

          ’’ فقہ اسلامی اور خاص طور پر احکامِ عبادات کے مطالعہ اور جمہورِ امّت کے لیے پیش کیے جانے والے عام مطالعات میں سب سے زیادہ لطیف، نفع بخش اور دلوں اور عقلوں سے قریب تر اسلوب یہ ہے کہ فنّی اصطلاحات اور بہ کثرت مفروضہ تفریعات سے اجتناب کیا جائے اور جہاں تک ممکن ہو، سہولت اور آسانی کے ساتھ کتاب و سنّت کے دلائل پیش کیے جائیں اور جہاں بھی موقع ملے، حکمتیں اور فوائد بیان کیے جائیں، تاکہ کتاب کا مطالعہ کرنے والوں اور فقہی معلومات حاصل کرنے کے خواہش مندوں کو احساس ہو کہ ان کا تعلق اللہ اور اس کے رسول سے قائم ہے اور اس علم کا فائدہ انھیں آخرت اور دنیا دونوں جگہوں پر حاصل ہو۔ اس طرح انھیں مزید علم و معرفت حاصل کرنے اور اس کی طرف متوجہ ہونے کی ترغیب ملے گی۔ اللہ تعالیٰ نے برادر مکرّم الاستاذ الشیخ سید سابق کو اس راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائی۔ انھوں نے یہ رسالہ تیار کیا، جس کا حصول آسان اور جس کے فوائد بے شمار ہیں۔ اس میں انھوں نے اسی خوب صورت اسلوب میں فقہی احکام کی وضاحت کی ہے۔ ان شاء اللہ انہیں اس خدمت کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھر پور بدلہ ملے گا۔اس کتاب کو دین کے بارے میں غیرت رکھنے والوں نے پسندیدگی کی نظر سے دیکھا ہے۔اللہ تعالیٰ انہیں ان کے دین، امّت اور دعوت کی طرف سے بہترین بدلہ عطا فرمائے اور ان کے ذریعے خیر کے چشمے جاری کرے، جس کا فائدہ خود انہیں حاصل ہو اور تمام انسانوں کو بھی۔ آمین۔‘‘(ص۵)

          فقہ السیرۃ کواخوان کے درمیان غیر معمولی مقبولیت حاصل تھی۔وہ اس کا مطالعہ کرتے اور فقہی معاملات میں اس سے رہ نمائی حاصل کرتے تھے۔ اخوان کے درمیان اعتدال اور وسطیت کا مزاج پروان چڑھانے میں اس کتاب کا اہم کردار ہے۔ اس کی گواہی اخوان کے پانچویں مرشد شیخ مصطفیٰ مشہور نے ان الفاظ میں دی ہے:

          ’’ شیخ سید سابق کو اخوان المسلمون کے درمیان بلند مقام حاصل تھا۔ ان کی تالیفات نے اخوان پر زبردست اثر ڈالا ہے اور انہیں فکری لحاظ سے خوب مالا مال کیا ہے اور فائدہ پہنچایا ہے۔خاص طور سے ان کی تالیف ’فقہ السنۃ‘ کا شمار پہلے بھی اور اب بھی ان بنیادی مصادر میں ہوتا ہے جن کی طرف اخوان رجوع کرتے ہیں۔ ان کی فقہی معلومات کی تشکیل اور تربیت میں اس کتاب کا قابلِ ذکر حصہ ہے۔ امام شہید حسن البنّا نے اس کتاب کو اہم قرار دیا تھا اور سنّت کے مراجع میں اس کا شمار کیا تھا۔‘‘(ص۷)

          فقہ السنۃ کی قدر و قیمت اور فقہی مصادر و مراجع میں اس کی اہمیت پر موجودہ دور کے مشہور فقیہ اورعالم ِاسلام کی آبرو ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے ان الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا ہے:

          ’’سید سابق نے ایسے منہج کو اختیار کیا ہے جس میں فقہی مسالک کے معاملے میں تعصّب کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا اور ان کی کم زوریاں نہیں بیان کی جاتیں، بلکہ کتاب و سنّت اور اجماع کے دلائل پیش کیے جاتے ہیں اور اصطلاحات کی پیچیدگی اور تعلیلات کی گہرائی سے دور رہتے ہوئے قاری کے لیے آسان زبان میں فقہی معلومات فراہم کی جاتی ہیں اور لوگوں کے لیے سہولت، آسانی اور جہاں تک ممکن ہو، رخصتیں فراہم کرنے کی طرف میلان رہتا ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کی بیان کردہ رخصتوں پر عمل کیا جائے، جس طرح وہ چاہتا ہے کہ اس کی بیان کردہ عزیمتوں کو زیرِ عمل لایا جائے، تاکہ لوگ دین سے محبت کرنے لگیں اور اس کی طرف متوجّہ ہوں۔ اسی طرح اس منہج میں احکام کی حکمتیں بیان کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔ یہ اصلاً قرآن کی پیروی ہے، جس نے احکام بیان کرنے کے ساتھ ان کی حکمتوں پر بھی روشنی

ڈالی ہے۔‘‘

          فقہ السنۃ کو عالم عرب میں بہت مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ اس کے خاصے اڈیشن منظر عام پر آئے ہیں۔ بعض اڈیشن غیر قانونی طور پر بھی شائع کیے گئے ہیں۔ بعض اڈیشن تین(۳) جلدوں پر مشتمل ہیں تو بعض ایک جلد میں طبع ہوئے ہیں۔ مشہور محدّث علامہ محمد ناصر الدین البانی ؒ نے اس پر بعض ملاحظات لکھے ہیں اور اس میں بعض ضعیف احادیث کی نشان دہی کی ہے۔ ان کی کتاب کا نام ’ تمام المنّۃ فی التعلیق علی فقہ السنۃ‘ ہے۔

          اردو زبان میں ’فقہ السنۃ‘کے نام سے ایک کتاب پائی جاتی ہے، جس کے مصنف پاکستان کے صاحبِ علم مولانا محمد عاصم ہیں۔ اس کے بارے میں عام تاثر یہ پایا گیا ہے کہ یہ شیخ سید سابق کی ہی کتاب کا تلخیص کے ساتھ ترجمہ ہے۔اگرچہ اس کی تردید کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ ترجمہ نہیں ہے، البتہ ترتیبِ مسائل میں وہ مؤلف کے سامنے ضرور رہی ہے، اس سے انھوں نے خاصا استفادہ کیا ہے اور اس کے ساتھ فقہ کی دیگر کتابیں بھی ان کے پیش نظر رہی ہیں۔ اس کے باوجود یہ کتاب صرف عبادات (نماز، روزہ،زکوٰۃ،حج)پر مشتمل ہے۔

          یہ بات بہت خوش آئند ہے کہ شیخ سید سابق کی کتاب ’فقہ السنۃ‘ اب اردو میں منظرِ عام پر آرہی ہے۔اس کے مترجم مولانا ولی اللہ مجید قاسمی کی فقہ پر گہری نظر ہے۔ جامعۃ الفلاح میں حدیث و فقہ کی منتہی کتابوں کی تدریس ان کے ذمے رہی ہے۔اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا)کے سالانہ اجلاسوں میں وہ پابندی سے شریک ہوتے ہیں۔ ان کی تحریروں سے اعتدال اور توسّع کا اظہار ہوتا ہے۔فقہ السنۃ کا انہوں نے بہت مہارت سے ترجمہ کیا ہے۔حسبِ ضرورت احادیث کی تخریج کردی ہے،کہیں کہیں ضروری نوٹس کا اضافہ کیا ہے،جہاں ضرورت سمجھی ہے،حاشیہ میں فقہ حنفی کی ترجمانی کی ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ اس مکمل ترجمے میں عبادات سے آگے بڑھ کر معاشرت، معاملات، شرکت و مضاربت،حدود و تعزیرات،جنگ و امن،قضا، قسم و نذر، بیوع،قرض و رہن، مزارعت، ماکولات و مشروبات، قربانی و عقیقہ،وصیت و میراث وغیرہ جیسے موضوعات کا احاطہ ہو گیا ہے۔

          اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس خدمت کو قبول فرمائے، مصنف، مترجم اور ناشر کو اس کے اجر سے نوازے اورعام مسلمانوں کو اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔

2 تبصرے
  1. شاہد حبیب کہتے ہیں

    اس کے اردو ترجمے سے ایک اہم علمی کارنامہ انجام پایا ہے. فجزاکم اللہ خیرا

  2. Dr Mujahid ul Islam کہتے ہیں

    الحمدللہ ،بہترین معلومات جناب ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی صاحب کے ذریعہ ملی، بہترین انداز میں فقہ السنہ کا تعارف پیش کیا ہے. عام طور پر پر جوفقہ السنہ کے نام سے جو کتاب اردو میں موجود ہے وہ غلط فہمی دور ہوئی.

تبصرے بند ہیں۔